اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کاسربراہی اجلاس

ہفتے کا دن ویسے تو امریکہ میں چھٹی کا دن ہے، لیکن 29 ستمبر والے ہفتے کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے اردگرد صحافیوں کے بھاری اجتماع اور غیر معمولی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ دن ذرا مختلف نظر آیا کہ اس روز ہندوستان اور پاکستان دونوں کے وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ بھارتی وزیرخارجہ کے خلاف کشمیریوں اور سکھوں کے زبردست مظاہروں کی وجہ سے علاقے میں صبح ہی سے خاصا جوش خروش نظر آرہا تھا۔ یہ اجلاس کئی دنوں سے جاری ہے جس سے سربراہانِ مملکت و حکومت خطاب کررہے ہیں۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے فرماں روا، صدر یا وزیراعظم کی نمائندگی ان کے وزرائے خارجہ کررہے ہیں۔ اجلاس سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، فرانس کے صدر میکرون، ترکی کے رجب طیب ایردوان اور بہت سے سربراہان نے خطاب کیا۔ پاکستان اور اس کے پڑوسیوں میں صرف ایران کے صدر حسن روحانی بنفس نفیس اجلاس کے لیے آئے، ورنہ شاہ محمود قریشی کی طرح ہندوستان و چین سے وزرائے خارجہ نے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی، اور افغانستان سے ان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اجلاس سے خطاب کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی عملاً لندن کے ہائیڈ پارک (Hyde Park) کی طرح دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک فورم ہے، جہاں سالانہ اجلاسوں میں تمام ممالک اپنے قومی بیانیے کا اعلان، ملّی امنگوں کا اظہار، کامرانیوں کے دعوے، مخالفین کی ہجو اور عالمی امور پر قومی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ کن اور بااختیار ادارہ سلامتی کونسل ہے، اور وہاں بھی فیصلے کے لیے پانچوں بڑوں کا کامل اتفاق ضروری ہے۔
ہفتے کو صبح کے اجلاس میں پاکستان کے علاوہ جن اہم ممالک کے وزرائے خارجہ نے خطاب کیا ان میں اومان، برونائی دارالسلام، ہندوستان، شام، شمالی کوریا، فلپائن،الجزائر، سنگاپور، آسٹریا اورکینیڈا شامل ہیں۔ مقررین کی فہرست میں ہندوستانی وزیرخارجہ تیسرے نمبر پر تھیں، جبکہ شاہ محمود قریشی اس مسلسل جاری رہنے والے اجلاس کے پندرھویں مقرر تھے۔
حسبِ توقع ہندوستان کی وزیرخارجہ شریمتی سشما سوراج نے ہندی میں خطاب کیا۔ وہ ساڑھی میں ملبوس ماتھے پر تلک کا نشان لگائے آئیں اور انھوں نے تقریر کا آغاز روایتی انداز میں دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے سے کیا۔ محترمہ سشما سوراج کا لہجہ بے حد پُراعتماد اور بدن بولی (Body language) انتہائی مثبت تھی۔ بھاشن دیتے وقت شریمتی جی سامعین سے مسلسل eye contact میں تھیں۔ اس کے مقابلے میں خطاب کے دوران شاہ محمود قریشی کی نگاہیں زیادہ تر وقت متن پر رہیں۔ شاہ صاحب کی تقریر میں الفاظ کا چنائو اور ادائیگی بلاشبہ شاندار تھی۔ دونوں رہنمائوں کی تقریر کی ساخت میں یکسانیت پائی گئی اور کالج کے مباحثوں کے انداز میں دونوں نے ایک دوسرے کے نہلے پر دہلا جمانے کی کوشش کی۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کا مسودہ ایک دن پہلے جمع کرا دیا جاتا ہے، چنانچہ فی البدیہہ جواب دینا ممکن نہیں، لیکن پرانی دشمنی کی بنا پر مرزا غالب کی طرح دونوں کو اچھی طرح معلوم تھا ’جو وہ لکھیں گے جواب میں‘۔
ہندوستانی و پاکستانی وزرائے خارجہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں قومی بیانیے کی وضاحت کی اور حکومت کی کامرانیوں کا ذکر کیا۔ ہندوستانی حکومت اپنے دورانیے کے پانچ سال مکمل کرنے کوہے اس لیے سشما سوراج کے پاس اس ضمن میں کہنے کو بہت کچھ تھا۔ اس کے مقابلے میں شاہ محمود قریشی نے کے پی کے حکومت کی کارکردگی اور نئی وفاقی حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔
ابتدایئے کے بعد دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے پر دہشت گردی کے شدید الزامات لگائے اور امن کے لیے اخلاص کے دعوے کیے۔ اختتام پر سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی نے عالمی معیشت، آزاد تجارت، اقوام متحدہ کے کردار اور ماحولیات کے حوالے سے جس عزم کا اظہار اس پر نہ صرف دونوں فریق کے مؤقف بلکہ اکثر نکات پر الفاظ بھی مشترک تھے۔
اجلاس کی صدارت ایکواڈور کی محترمہ ماریا فرنانڈا ایسپینوسا (Maria Fernanda Espinosa)کررہی تھیں۔ اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سشما سوراج نے یاد دلایا کہ جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون سربراہ ایک ہندوستانی سفارت کار شریمتی وجے لکشمی پنڈت تھیں جنھوں نے 1953ء کے اجلاس کی صدارت کی۔
دودن پہلے انڈونیشیا میں ایک خوفناک طوفان اور سونامی سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ دوسرے وزرائے خارجہ کی طرح سشما جی نے تقریر کے آغاز میں اس سانحے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین اور انڈونیشی حکومت سے تعزیت کی۔ لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر میں اس کا کوئی ذکر نہ تھا اور انھوں نے خود کو متن تک محدود رکھا۔
اپنی حکومت کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانی وزیرخارجہ نے دنیا کو بتایاکہ سماجی خدمات کو شفاف بنانے کے لیے امدادی رقومات کے چیک براہِ راست مستحق لوگوں کے اکائونٹ میں جمع کرائے جارہے ہیں تاکہ بدعنوانی و بے ایمانی کا راستہ بندکیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھاکہ حکومت کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اِس سال کے شروع تک 32 کروڑ ہندوستانیوں نے اپنے بینک اکائونٹ کھول لیے ہیں۔ بینک کے ذریعے لین دین سے کالے دھن کا راستہ بھی مسدود ہورہا ہے۔
سشما جی نے بہت فخر سے بتایا کہ ہندوستان نے دنیا کا سب سے بڑا صحت بیمہ پروگرام شروع کیا ہے اور حکومت 50 کروڑ گھرانوں کو بیمہ کی سہولت فراہم کرنا چاہتی ہے۔ ان لوگوں کو پانچ لاکھ روپے سالانہ فی خاندان کا صحت بیمہ فراہم کیا جائے گا۔ بھارتی حکومت نے بے گھروں کے لیے 2030ء تک 2کروڑ 10 لاکھ مکان تعمیر کرنے کا ہدف طے کیا ہے اور اب تک 50 لاکھ خاندانوں کو چھت فراہم کی جاچکی ہے۔ بے روزگاروں کی استعداد بہتر بنانے کے لیے ہندوستان میں Skill Development پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 14 کروڑ افراد کو تربیت کی سہولت فراہم کی جارہی ہے جن میں 76 فیصد مہیلائیں (خواتین) ہیں۔ ایسے 5 کروڑ گھروں کو مفت گیس فراہم کی جارہی ہے جہاں سربراہِ خانہ خواتین ہیں۔ بچے کی ولادت کے دنوں میں خواتین کو پوری تنخواہ اور مراعات کے ساتھ 26 ہفتے کی تعطیل کا قانوں بنادیا گیا ہے۔
اپنی ہندوستانی ہم منصب کی طرح شاہ محمود قریشی نے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے عوام نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیے ہیں۔ یہ مثبت تبدیلی نظریاتی یگانگت اور سلطنت کے امور میں عوام کی شرکت کا مظہر ہے۔ قومی بیانیے کا ذکر کرتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا کہ پاکستان اپنے قومی مفاد، نظریے اور سلامتی پر کسی قسم کی سودے بازی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انتخابات میں عوام نے ایسے پاکستان کے حق میں فیصلہ سنایا جو امن پسند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اُس خطے میں ہے جہاں نوآبادیاتی نظام اور سرد جنگ نے نقوش چھوڑے ہیں۔
اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ایک ارب درخت لگانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے اور ہماری نئی وفاقی حکومت دس ارب درخت لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سی پیک (CPEC)کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہم بیلٹ اینڈ روڈ (BRI)کے ذریعے یورپ اور مشرق وسطیٰ کو ایشیا تک رسائی دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان آزادی سے اب تک اقوام متحدہ کے منشور کا پاسدار اور فعال رکن رہا ہے، ہمیں پانچ مواقع پر کونسل کی صدارت کا اعزاز حاصل رہا۔
ناموسِ رسالت کا ذکر کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ توہین آمیز خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور توہینِ رسالت کے معاملے پر مہذب ملکوں کی جانب سے افہام و تفہیم اور رواداری کے بجائے تعصب انتہائی افسوسناک ہے۔
قومی عزم اور سرکار کی کارکردگی کے بعد سشما جی نے پاکستان پر حملوں کا آغاز کیا۔ انھوں نے امریکی قوم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے سانحہ نیویارک یا9/11کا ذکر کیا۔ بھارتی وزیرخارجہ نے کہا کہ جب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوئی تو ہمیں امید تھی کہ نئی صدی میں بنی نوع انسان کو امن و آشتی کے خواب کی تعبیر مل جائے گی، لیکن 9/11کے بعد26/11 (ممبئی) حملوں نے ہمارے خواب کو ریزہ ریزہ کردیا۔ پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے باب میں ہماری بدنصیبی کہ اس عفریت کا منبع کہیں اور نہیں ہماری سرحدوں کے دوسری طرف ہے، جہاں دہشت گردی کی نہ صرف سرپرستی اور حوصلہ افرائی کی جاتی ہے بلکہ ہمارا پڑوسی اس کام میں طاق ہوچکا ہے۔ ایبٹ آباد حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کئی برس تک ساری دنیا میں تلاش کرتا رہا لیکن بعد میں پتا چلا کہ اسے تو امریکہ کے دوست ہی نے اپنا مہمان بنایا ہوا تھا۔ اسامہ تو مارا گیا لیکن حافظ سعید سارے پاکستان میں آزاد دندناتاپھر رہا ہے۔ تاہم دنیا اب پاکستان کے کردار کو سمجھ چکی ہے جس کا ثبوت FATF کی جانب سے گرے فہرست کی شکل میں اسلام آباد کو وارننگ ہے۔
مذاکرات سے فرار کے بارے میں پاکستان کے الزام کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہندوستان امن بات چیت کے لیے نہ صرف ہر وقت تیار ہے بلکہ ہم تو مذاکرات کو تمام تصفیہ طلب امور باعزت طریقے پر حل کرنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں اور ہندوستان نے مذاکرات کے لیے دستِ تعاون بڑھانے میں ہمیشہ پہل کی ہے، لیکن پاکستان امن کے لیے مخلص نہیں۔ سشما جی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 14دسمبر 2016ء کو بات چیت ہوئی اور اس کے دو دن بعد پٹھان کوٹ پر دہشت گرد حملہ ہوگیا۔ عمران خان کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ میں ملاقات کی دعوت آئی جسے ہم نے قبول کرلیا لیکن اس کے صرف چند گھنٹوں بعد دہشت گردوں نے کشمیر میں ہماری پولیس کے کئی جوانوں کو بے دردی سے قتل کردیا۔ اس ماحول میں مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟
بھارتی وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان ہم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے لیکن خود دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جھوٹی تصویریں دکھاکر دنیا کو گمراہ کرتا ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کو ہیرو بناکر پیش کرتا ہے، ان کے اعزاز میں یادگاری ٹکٹ (برہان وانی) جاری کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بھارتی وزیرخارجہ نے ایک مؤثر عالمی قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ شریمتی جی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اقوام عالم دہشت گردی کی تعریف پر متفق نہ ہوجائیں۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کسی کا دہشت گرد دوسرے کا مجاہد ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے مطالبہ کیا کہ Comprehensive Convention on International Terrorismیا CCITکو منظور کرکے اس پر مؤثر عمل درآمد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
اپنی باری آنے پر شاہ محمود قریشی نے دہشت گردی کے معاملے میں ہندوستان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مسلح افواج کی بے مثال شجاعت اور عوام کی حمایت سے ملک میں دہشت گردی کا زورٹوٹ چکا ہے۔ شہروں، قصبوں کی روشنیاں لوٹ آئی ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جموں کشمیر کے مسئلے کا حل نہ ہونا خطے کے امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت نے اقوام عالم کے سامنے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو فروغ دیا ہے، سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کے عوام انسانی حقوق کی پامالی سہتے آرہے ہیں۔ سشما سوراج کی جانب سے اٹھائے جانے والے ممبئی و پٹھان کوٹ حملوں اور حافظ سعید کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان آج تک پشاور اسکول میں معصوم بچوں کے قتلِ عام کو نہیں بھولا اور نہ ہم سمجھوتا ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کو بھول سکتے ہیں جن کے قاتل بھارت میں آزاد پھر رہے ہیں۔ ہم مستونگ میں مارے جانے والے معصوم لوگوں کو بھی نہیں بھول سکتے جن کے قتل میں بھارت براہِ راست ملوث ہے۔ بھارتی بحریہ کے ایک حاضر افسر کلبھوشن یادیو نے بھارتی حکومت کے ایما پر پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی اور اسے مالی معاونت فراہم کی۔ یادگاری ڈاک ٹکٹ (برہان وانی) پیلٹ گن سے بہنے والے خون کا عکاس ہے۔ انھوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ پیلٹ گن کے متاثرین اور غزہ کی بیوائوں کی نظریں اقوام متحدہ پر ہیں۔
پاکستانی وزیرخارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت دہشت گردی کی آڑ میں منظم قتلِ عام کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتی ہے۔ انھوں نے پاکستان کی طرف سے کمیٹی کی سفارشات پر جلد عمل درآمد کی سفارش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آزاد جموں و کشمیر میں کمیشن کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ پاک بھارت امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیر اور دوسرے تصفیہ طلب امور پر بات چیت کی ضرورت ہے، لیکن نیویارک میں ملاقات سے انکار کرکے مودی حکومت نے ایک اور اہم موقع گنوا دیا۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ پر مذاکرات کے لیے بھی تیار ہے۔ انھوں نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ بھارت کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے، اور ساتھ ہی دہلی کو متنبہ بھی کیا کہ ہمارے صبر کو نہ آزمایا جائے۔ کشور کشائی کی کسی بھی کوشش کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان بہت عرصے سے بیرونی قوتوں کی غلط فہمیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہمیں افغانستان میں داعش کی عمل داری پر تشویش ہے اور اسلام آباد امن عمل کے لیے کابل میں ہونے والی کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا۔انھوں نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ افغان مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں۔
کشمیر اور سرحدی تنازعات پر شدید اختلاف کے باوجود اقوام متحدہ کے کردار، موسمیاتی تبدیلی، آزاد تجارت اور گلوبلائزیشن پر مکمل ہم آہنگی پائی گئی۔ دونوں رہنمائوں نے گلوبل وارمنگ (Global Warming) اور ماحول کی حفاظت کے لیے میثاقِِ پیرس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ ہندوستان وپاکستان دونوں نے خلا کو اسلحہ سے پاک رکھنے کا مطالبہ کیا۔ آزاد تجارت اور تمام اقوام کے لیے ترقی کے یکساں مواقع پر دونوں ملکوں کے مؤقف میں یکسانیت پائی گئی، یا یوں کہیے کہ مستقبل کی صورت گری کے حوالے سے دونوں کے خواب اور ارمان ایک ہی جیسے لگے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ مستقبل میں ’’میں‘‘، ’’مجھ کو‘‘ اور ’’میرا‘‘ کے بجائے ’’ہم‘‘، ’’ہمارا‘‘ اور ’’ہم سب‘‘ کے بارے میں سوچا جائے۔ اس کے جواب میں اُن کے پاکستانی ہم منصب نے کہا کہ ’’قوم پرستی‘‘، ’’نسلی حب وطن‘‘ (Patriotism)کے بجائے انسانیت واجتماعیت کو مشعلِ راہ بنایا جائے۔