محمد فاروق رحمانی سے انٹرویو

فرائیڈے اسپیشل: آج ستّر سال ہوچکے ہیں، کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اس وقت عالمی برادری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شریک ہے، آپ کی کیا توقعات ہیں عالمی برادری سے، کہ وہ کشمیر کے عوام کو ان کا سیاسی حق دلوانے کے لیے کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟
محمد فاروق رحمانی: اقوام متحدہ ایک عالمی فورم ہے جہاں ہمیشہ امن، اور دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کی بات کی جاتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس پہلے بھی ہوتے رہے لیکن اِس بار اجلاس میں مقبوصہ کشمیر کے بارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ پیش کی جارہی ہے اور اسے بعد میں زیر بحث بھی لایا جاسکتا ہے۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں اقوام متحدہ کا کمیشن حالات کا براہِ راست جائزہ لینے کے لیے مقبوضہ کشمیر کا دورہ بھی کرسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس اہم موقع پر پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کو جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ دنیا کے سامنے یہ رپورٹ اب گواہی دے گی کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں بدترین سطح پر جاکر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اب اقوام متحدہ کا ایک کمیشن مقبوضہ کشمیر جانا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کے وزیر خارجہ وہاں موجود ہیں، پورا پاکستان کشمیری عوام کے سفارتی، سیاسی اور اخلاقی میدانوں میں وکیل ہے۔
محمد فاروق رحمانی: جی ہاں، ہے۔ انہوں نے بہت ہی مدلل بات کی ہے، مگر اس اہم موقع پر وہاں بات کرنے کے لیے پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کا ہونا ضروری تھا۔ اس سال وہاں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے اور سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا تصفیہ طلب مسئلہ ہے، اور اقوام متحدہ اس کا ضامن ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کا کیس یہ ہے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے ہے اور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کے مطالبے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سائیڈلائن ملاقاتوں کے دوران بھارتی وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات سے گریز کی پالیسی اپنائی۔ کشمیری عوام نے کبھی اپنے ان مطالبات کے حوالے سے کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اپنی مرضی کے مطابق بنیادی حق کے ساتھ زندگی بسر کرنا ان کا حق ہے۔ سلامتی کونسل اپنے چارٹر کے مطابق کشمیری عوام کے اس حق کو جائز سمجھتی ہے، لیکن اس کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے۔ بھارت دو طرح کے قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، پہلا یہ کہ کشمیری عوام کے لیے رائے شماری کا کوئی انتظام نہیں کررہا، دوسرا یہ کہ گھروں میں سرچ آپریشن اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی فوج نے آپریشنز کے دوران اسرائیلی ساختہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں جاسکتا ہے؟
محمد فاروق رحمانی: بالکل جاسکتا ہے۔ بہرحال عالمی عدالتِ انصاف کے کچھ ضوابط ہیں، قانون ہے، قاعدے اور رولز ہیں جن کی پیروی اس عدالت سے رجوع کرنے کے لیے کرنا پڑتی ہے۔ یہ انسانی اور سیاسی معاملہ ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ بنیادی حقوق سے ہے، اور بنیادی حق کا معاملہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے اندر ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی فوج کے سربراہ تو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں؟
محمد فاروق رحمانی: بھارتی آرمی چیف کی دھمکی کا جواب تو خیر حکومت نے بھی دیا ہے، سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے بھی دیا ہے۔ اگر ہم عالمی قوانین کی رو سے دیکھیں تو جنرل بپن راوت کا بیان انتہائی نامناسب ہے۔ اقوام عالم اس بات کی گواہ ہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کا شکار بنایا گیا۔ اس کے باوجود کسی کو ہمارا امتحان لینا ہے تو ہماری مسلح افواج قوم کو مایوس نہیں کریں گی۔ حکومت کی جانب سے درست کہا گیا کہ بھارتی آرمی چیف کو سمجھنا چاہیے کہ وہ بی جے پی کے عہدیدار نہیں۔ واقعی جنرل بپن راوت کو سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔ بھارتی حکومت کی ترجیح اس خطے میں یہ رہی ہے کہ یہاں امن قائم نہ رہنے دیا جائے اور دنیا میں پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کیس تیار رکھا جائے، لیکن پاکستان نے بھی بہت بہتر مؤقف اپنایا اور بار بار کہا کہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ وزرائے خارجہ کی ملاقات میں انقلابی اقدامات اور ایک ہی نشست میں تنازعات طے ہونے کے لائحہ عمل کے ترتیب پانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ بھارت کی طرف سے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی منسوخی کے اعلان کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ حکومتِ پاکستان کو کشمیری مجاہدین کے نام سے جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں کے اجرا پر بھی بھارت نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزرائے خارجہ کی ملاقات کی منسوخی پر وزیراعظم عمران خان نے قوم کی امنگوں کے مطابق بھارت کو جواب دیا۔ انہوں نے درست کہا کہ یہ لوگ بصیرت سے عاری اور دوراندیشی سے یکسر محروم ہیں، بڑے عہدے پر بیٹھے چھوٹے شخص کی سوچ چھوٹی ہی رہتی ہے۔ بھارت میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، بی جے پی اور کانگریس انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کو اپنا وتیرہ بنا لیتی ہیں۔ آئندہ سال بھارت میں الیکشن ہونے ہیں، نریندر مودی وعدے اور دعوے پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں نے بھارتی فورسز کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ بی جے پی کے پاس اب پاکستان دشمنی کا روایتی حربہ ہی باقی بچا ہے۔ بھارتی جنرل کے بیان پر صرف ہنسی آتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تمام سفارتی آداب کو پائوں تلے روند کر یک طرفہ اظہارِ خیال کرکے پاکستان کا مؤقف سننے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی، جس سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ عالمی قوانین کی پابندی اور اپنے معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی بھی دوطرفہ مذاکرات پائیدار اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے جس کی بنا پر تیسرے فریق کو ثالث کا کردار ادا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین، او آئی سی، اقوام متحدہ سمیت بااثر ممالک مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل کے لیے بھارت پر دبائو بڑھائیں۔ اس کے لیے دنیا بھر کا سب سے مؤثر فورم اقوام متحدہ ہے جس کے پرانے حل طلب مسائل میں ایک مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے پہلے بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی جس پر پاکستان نے آمادگی ظاہر کی جبکہ بھارت نے تیسرے فریق کی مداخلت کا واویلا شروع کردیا۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کی جانب سے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا گیا ہے؟
محمد فاروق رحمانی: اسے چھوڑیں، جسے بھارتی فوج اور حکومت اپنی پارلیمنٹ میں ثابت نہ کرکے ہزیمت سے دوچار ہوئی تھیں۔ وہاں تو صورتِ حال ہی بدل رہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا تبدیلی آرہی ہے؟
محمد فاروق رحمانی: مقبوضہ کشمیر میں پولیس افسروں نے بغاوت کردی، دھڑا دھڑ استعفے دینے لگے۔ سرکاری حکام ان اطلاعات کی تردید کرتے رہے، لیکن بھارتی میڈیا نے اعتراف کیا کہ پولیس افسر ملازمت چھوڑ رہے ہیں۔ کشمیری پولیس افسر استعفوں کے ساتھ قوم سے معافی بھی مانگ رہے ہیں۔ اننت ناگ کے اسپیشل پولیس افسر بشیر احمد شاہ نے سفید کاغذ پر اردو میں لکھا ہے کہ وہ ملازمت سے مستعفی ہورہے ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں (حریت پسندوں)کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بطور اسپیشل پولیس افسر مزید کام نہیں کریں گے۔ انہوں نے لوگوں سے مالی مدد کی اپیل بھی کی کیونکہ وہ ایک غریب آدمی ہیں۔ جنوبی کشمیر کے علاقوں کولگام، شوپیاں، پلوامہ، اونتی پورہ، ترال اور اننت ناگ سے بشیر شاہ کے انداز میں درجنوں پولیس اہلکار استعفے کا اعلان کرچکے ہیں۔ بعض مقامات پر مساجد کے ائمہ نے پولیس اہلکاروں کی جانب سے استعفے کے خطوط پڑھ کر سنائے۔ استعفوں کا یہ سلسلہ حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر ریاض نیاکو کے آڈیو پیغام کے بعد شروع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسپیشل پولیس افسروں سے کہا تھا کہ وہ اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں۔
فرائیڈے اسپیشل: پاک بھارت مذاکرات سے بھارت کیوں بھاگ رہا ہے، آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
محمد فاروق رحمانی: بھارتی حکومت نے پا کستان سے مذاکرات کی دعوت کو قبول کرنے کے چند ہی گھنٹوں بعد مذاکرات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ بھارت نے مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا یہ جواز دیا کہ ’’ایل او سی پر بھارتی فوجی کی ہلاکت اور پاکستانی حکومت کی جانب سے برہان وانی کا ڈاک ٹکٹ جاری کیے جانے کے باعث پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے‘‘۔ اس اعلان کے بعد بھارتی آرمی چیف بپن راوت کی جانب سے بھی پاکستان کو واضح انداز میں جنگ کی دھمکی دی گئی۔ بھارتی حکومت کے حامی کارپوریٹ میڈیا میں بھی پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگی فضا بنائی جانے لگی۔ مودی حکومت نے29 ستمبر کو پاکستان کے خلاف نام نہاد ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا دن منانے کا بھی اعلان کردیا، تاہم مودی سرکار کی پاکستان مخالف مہم اس حد تک مضحکہ خیز رہی کہ خود اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر کانگریس پارٹی نے بھی واضح مؤقف اختیار کیا کہ مودی سرکار ’’رافیل اسکینڈل‘‘ سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان مخالفت کا ڈھونگ کررہی ہے۔ راہول گاندھی اور کانگریس کے دوسرے راہنما کہہ رہے ہیں کہ حقیقت میں یہ رافیل اسکینڈل ہی ہے جس کے باعث مودی سرکار مکمل طور پر حواس باختہ ہوچکی ہے۔2014ء کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے کانگریس کی قیادت میں دس سال تک اقتدار میں رہنے والی ’’یو پی اے‘‘ حکومت کے میگا کرپشن اسکینڈلز کو خوب اچھالا۔ مودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت کے دامن پر کرپشن کا کوئی ایک چھوٹا داغ بھی نہیں لگے گا، مگر اب رافیل اسکینڈل کو بھارتی تاریخ کا سب سے بڑا ’’میگا کرپشن اسکینڈل‘‘ مانا جارہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ معاہدہ ہے کیا؟
محمد فاروق رحمانی: بنیادی طور پر ’’رافیل‘‘ کا معاہدہ کانگریس کی حکومت نے اگست2007ء میں کیا۔ بھارتی ائرفورس کو جدید لڑاکا طیاروں کی فوری ضرورت تھی۔ 126 لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے 10.2 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی، جنوری 2012ء میں لڑاکا طیارے بنانے والی فرانس کی کمپنی Dassault Aviation نے یہ طیارے بنانے کا ٹینڈر حاصل کیا۔ چونکہ انتخابات نزدیک آرہے تھے، اس لیے کانگریس کی حکومت فرانس سے یہ معاہدہ نہ کرسکی۔ مودی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آتے ہی اس رافیل ڈیل کے لیے تیزی کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔ مودی حکومت نے فرانس کے صدر فرانکوس اولاندے کے ساتھ 10 اپریل 2015ء کو 36 لڑاکا طیارے لینے کے لیے 8.7 ارب ڈالر کی ایک نئی ڈیل کی۔ بھارت کے دفاعی قانون میں ایک offset کلاز رکھی گئی ہے، جس کے مطابق کسی بھی بیرونی ملک سے کیے گئے دفاعی سودے کو پورا کرنے کے لیے کچھ حصوں کی بھارت میں ہی مینوفیکچرنگ کرنا ہوتی ہے اور اس کے لیے کسی بھارتی کمپنی کی ہی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں، اور یہ بات طے ہوچکی تھی کہ فرانس کی کمپنی Dassault Aviation بھارت کی جس کمپنی کے ساتھ مل کر رافیل طیارے تیار کرے گی، وہ Hindustan Aeronautics Limited ہوگی، جس کے پاس لڑاکا طیاروں کو بنانے کا طویل تجربہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے انتہائی قریبی ارب پتی بزنس مین ساتھی مکیش امبانی نے اس معاہدے سے 12روز پہلے Relianceگروپ کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور فرانس کی کمپنی Dassault Aviation کا امبانی کی اس کمپنی Reliance کے ساتھ فروری 2017ء میں باقاعدہ پارٹنرشپ کا معاہدہ ہوگیا۔ امبانی کی کمپنی کو رافیل طیاروں کی ڈیل دینے پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید اعتراض کیا اور مودی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی گئی، مگر رافیل معاہدے میں کرپشن اُس وقت واضح طور پر عیاں ہوگئی جب فرانس کے سابق صدر فرانکوس ہولاندے نے واضح طور پر کہہ دیا کہ رافیل معاہدہ کرنے کے لیے فرانس کے سامنے صرف Reliance group(امبانی کی کمپنی) کا آپشن ہی رکھا گیا تھا۔ یوں12,600 کروڑ کی کرپشن بالکل واضح طور پر سامنے آگئی۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی وزیراعظم تو دنیا کو دھوکا دینے کے لیے ہمیشہ کہتے رہے کہ وہ کرپٹ نہیں۔ اس اسکینڈل کے بعد کیا ہوسکتا ہے؟
محمد فاروق رحمانی: مودی کا یہ دعویٰ غلط تھا، کوئی اسے نہیں مانتا تھا، اب بھی نہیں مانتا۔ یہ بات درست ہے کہ وہ خود ہی ہمیشہ اس بات پر مان کرتے رہے کہ ان کی سیاسی زندگی پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ 2014ء کے انتخابات سے پہلے مودی کا دعویٰ رہا کہ گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر ان کی ذات پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں لگا، اس لیے ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی کرپشن نہیں ہوگی۔ مگر سرمایہ داری نظام پر مشتمل جمہوری نظام کی صداقتوں کو سمجھنے والوں کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ امبانی اور بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر 2014ء میں مودی کو وزیراعظم بنانے کے لیے کروڑوں لگا رہا ہے تو وہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کھربوں بنائے گا۔ ہم ان اخراجات کے اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو ایک ’’چائے فروش‘‘ کے بیٹے کو بھارت کا وزیراعظم بنانے کے لیے2014ء کے انتخابات میں کیے گئے۔ انتخابات میں بی جے پی نے 5,000 کروڑ روپے اشتہاری مہم پر خرچ کیے۔ ٹی وی اشتہارات پر بی جے پی نے 800 سے 1000 کروڑ روپیہ صرف کیا۔ جن اخراجات کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے، ان کا اشتہار ساز کمپنیوں، اخبارات اور کئی اداروں میں ریکارڈ موجود ہے، جبکہ اربوں روپے کے اخراجات ایسے ہیں جو کسی حساب کتاب کے زمرے میں بھی نہیں آتے۔ انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کے لیے ہیلی کاپٹرز، ہوائی جہاز، پارٹی کارکنوں کو روپے کی فراہمی، اور ووٹروں کو کھلانے پلانے کے اخراجات کا اندازہ کیا جائے تو یہ رقم بھی اربوں میں ہوگی۔ مودی کے امبانی برادران سے تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی اور مودی پر اربوں روپیہ صرف کرنے والے بڑے بڑے بزنس مین اور کارپوریٹ سیکٹرز نے مودی کے چار سالہ اقتدار میں کھربوں بنائے، اور ایسا کرپشن کے بغیر ممکن ہی نہیں۔