افغان حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی سرکاری وفد نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق سے اکوڑہ خٹک میں ملاقات کی ہے۔
اس وفد کی قیادت علماء امن کونسل کے سربراہ اور سابق گورنر ننگرہار عطاء اللہ لودین اور مولانا قاسم حلیمی کررہے تھے، جبکہ وفد میں مختلف افغان جماعتوں کے سرکردہ حکومتی افراد اوردیگر اہم علماء بھی شامل تھے، جن میں سے بعض علماء جامعہ حقانیہ سے
فارغ التحصیل اور مولانا سمیع الحق کے شاگرد بھی تھے۔
اس ملاقات میں پاکستان میں افغان سفارت خانے کے سفارت کار بھی شریک تھے۔
وفد نے مولانا سمیع الحق سے افغانستان کی صورتِ حال پر تفصیلی بات چیت کے علاوہ افغان حکومت بشمول شمالی اتحاد اورحکومت کے تمام اتحادی گروپوں کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو افغان بحران میں ثالث بننے کی پیشکش کی اور ان کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنے کا یقین دلایا۔
مولانا سمیع الحق نے کہاکہ یہ ایک بین الاقوامی گمبھیر مسئلہ ہے، امریکہ سمیت بڑی طاقتیں اسے حل کرنے نہیں دیتیں، میں اپنے کمزور کندھوں پر اتنی بڑی ذمے داریوں کا بوجھ نہیں ڈال سکتا، مگر میری دلی خواہش ہے کہ افغان جہاد اپنے منطقی انجام یعنی ملک کی آزادی اور اسلام کی حکمرانی تک پہنچ جائے اور یہاں باہمی خون خرابہ بند ہوجائے۔
انہوں نے وفد کو مشورہ دیا کہ پہلے مرحلے میں آپ میں سے چند مخلص علماء اور افغان حکمران، پاکستان اور امریکہ کی مداخلت سے ہٹ کر خاموشی سے کسی خفیہ مقام پر مل بیٹھیں اور متحارب گروہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کریں۔
مولانا سمیع الحق نے کہاکہ میرے نزدیک اس مسئلے کا واحد حل افغانستان کے حکمرانوں، پچھلے دور کے مجاہدین، تمام عوام اور طالبان کا ایک نکتے پر متفق ہوکر ملک کی آزادی اور امریکی و نیٹو افواج کا انخلا ہونا چاہیے۔ افغانستان سے، قابض استعماری قوتیں اسی طرح نکلنے پر مجبور ہوسکتی ہیں، اس کے بعد تمام افغانیوں کو مل بیٹھ کر ملک کے لیے ایک نظام پر اتفاق کرنا چاہیے، اور تمام طبقوں کو افغانستان کی آزادی کے لیے دی گئی لاکھوں افراد کی شہادتوں اور لاکھوں مہاجرین کے دربدر ہونے کی قربانیوں کی لاج رکھنی چاہیے ۔
مولانا سمیع الحق سے افغان علماء کے اس نمائندہ وفد نے ایک ایسے موقع پر ملاقات اور افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ہے جب ایک جانب بعض غیر ملکی خبر رساں اداروں نے امریکی خصوصی مشیر برائے افغانستان زلمے خلیل
زاد کے ایک حالیہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ طالبان سے پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی امریکہ کے لیے سنگین مسئلہ ہے۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرانا اُن کا مشن ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی مشروط ہے، افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ امریکہ کا اہم ترین مقصد ہے، اور امریکہ طالبان سے پیشگی شرائط کے بغیر بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اسی تسلسل میں دوسری جانب امریکہ کی جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی نائب وزیر ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعمیری اور مثبت تعلقات چاہتا ہے۔ بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے اور اسے ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ کو پاکستان کی نئی حکومت سے کیا امیدیں ہیں؟ نائب وزیر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہماری امیدیں ویسی ہی ہیں جیسی دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہیں۔ ہم جنوبی ایشیا کی حکمت علمی پر مکمل طور
پر کاربند ہیں کہ ہم خطے میں نان اسٹیٹ ایکٹرز یا دہشت گردوں کی ہر قسم کی کارروائیوں اور پراکسی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کا خواہاں ہے۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کی حکومت کے ساتھ تعمیری اور مثبت مذاکرات کیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعمیری اور مثبت تعلقات کا سلسلہ جاری رہے۔
ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے بھی پاکستان سے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد پراکسی گروپ کے محفوظ مقامات ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان کی نئی حکومت نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ جو افغانستان میں امریکی افواج کو نشانہ بناتے ہیں انھیں پاکستان میں پناہ نہیں دی جائے گی؟ ایلس ویلز نے کہا کہ ہم پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے ان بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں جن میں انھوں نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کی بات کی ہے۔ ہم پاکستان کی جانب سے کیے
جانے والے ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کریں گے۔
افغانستان میں امن قائم کرنے کے حوالے سے امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ اس سوال پر نائب امریکی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو خطے میں ایک ہمسائے کے طور پر بہت اہم کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان کو افغانستان کی اقتصادی ترقی اور استحکام کی حمایت کرنی ہے، خاص طور پر افغانستان سے آنے والی اشیاء کو انڈیا پہنچانے کی اجازت دینا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کی بحالی سب سے اہم ہے جس سے مشرق اور مغرب کی تجارت کو وسطی ایشیائی مارکیٹ تک رسائی ملنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ امریکی نائب وزیرکے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ کا ہونا ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ خطے میں کسی بھی کراس بارڈر دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں حکومت کی عمل داری نہ ہونے کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہم افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے سخت محنت کررہے ہیں۔
ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ کی پوری کوشش ہے اور وہ یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغانستان میں ملاّ فضل اللہ جیسے دہشت گرد گروپ کا مکمل طور پر صفایا ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی کوشش ہے کہ طالبان کو امن مذاکرات کے لیے قائل کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی خطے میں امن قائم کرنے اور افغانستان میں موجود طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
افغان علماء کے نمائندہ وفد کے دورۂ پاکستان اور اعلیٰ امریکی حکام کے متذکرہ خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغان طالبان کی نہ صرف ان تمام حالات اور خطے میں وقوع پذیر ہونے والی علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں پر گہری نظر ہے بلکہ وہ ان حالات کو ہینڈل کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان متوقع اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی افغان طالبان نے گزشتہ دنوں اپنے ایک مکتوب میں پاکستانی علماء سے اپیل کی تھی کہ وہ افغانستان، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی علماء کانفرنسوں میں شرکت نہ کریں، کیونکہ مذکورہ کانفرنسوں میں طالبان کے خلاف فتویٰ جاری کرکے جہاد کی شرعی حیثیت کو اسلامی نکتہ نگاہ سے چیلنج کیا جائے گا تاکہ افغانستان میں جاری جہاد کو کمزور کیا جاسکے۔
اگر امریکہ اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے پاکستان، بھارت، وسطی ایشیا اور عرب مسلمانوں کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوگا اور امتِ مسلمہ کے زوال کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگا۔ دشمن آپ کی شرکتِ محض سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔
افغان طالبان نے پاکستانی علمائے کرام و مشائخ عظام کے نام لکھے گئے اس خط میں کہا تھا کہ آپ جانتے ہیں افغانستان گزشتہ سترہ سال سے امریکہ کی جارحیت کا شکار ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان اُس کی ایک مقبوضہ ریاست بن جائے، وہ یہاں عسکری مراکز اور انٹیلی جنس اڈے قائم کرے تاکہ افغانستان کی اسٹرے ٹیجک حیثیت استعمال کرکے عالم اسلام کو کمزور اور ختم کرنے کی سازشیں کرسکے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے پاکستان، بھارت، وسطی ایشیا اور عرب مسلمانوں کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوگا اور امتِ مسلمہ کے زوال کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگا۔ خط میں یہ بھی کہاگیا تھاکہ تاریخ کے اس خطرناک موڑ پر نجات کا راستہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی جارحیت کے خلاف امارتِ اسلامیہ افغانستان کی جہادی صف کو مضبوط کیا جائے۔
دریں اثناء اتحادِ علماء افغانستان نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے ایک دوسرے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں سودی نظام ختم اور اتوار کے بجائے جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا جائے اور جرائم کی روک تھام کے لیے ہر صوبے میں اسلامی دارالقضاء قائم کیا جائے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں اتحاد علماء افغانستان نے قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ کے بھی حوالے دیئے ہیں۔
خط کے متن میں کہاگیا ہے کہ 13 ستمبر 2018ء کو مولانا مفتی محمود ذاکری کی سرپرستی میں ایک علمی اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں اصلاحی مشورے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ ایسے خطوط پاکستان کے سابق حکمرانوں کو بھی لکھے جاتے رہے ہیں۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سود کا منحوس نظام بند کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو رزقِ حلال اور نظام تجارت کو فروغ ملے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتوارکے بجائے جمعہ کو تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ جرائم کی روک تھام کے لیے ہر صوبے میں ایک اسلامی دارالقضاء قائم کیا جائے تاکہ رشوت ستانی اور ظلم کا راستہ روکا جائے۔ خط میں زور دے کر مطالبہ کیا گیا کہ ختمِ نبوت کے قانون میں کسی قسم کا ردو بدل نہ کیا جائے۔ توہینِ رسالت کی روک تھام کو بین الاقوامی قوانین کا حصہ بنانے کی جدوجہد کی جائے، یہ آپ کی امتِ محمدیہ کے لیے عظیم خدمت ہوگی۔
خط میں دینی مدارس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مدارس کے نظام میں سیاسی اور حکومتی دست اندازی نہ کی جائے۔ خط میں استدعاکی گئی ہے کہ افغان مہاجرین کی اجتماعی مشکلات کو مدنظر رکھا جائے اور ان کو واپس جانے پر مجبور نہ کیا جائے۔
اسی اثناء خیبر پختون خوا کے گورنر شاہ فرمان نے اکوڑہ خٹک میں جمعیت علمائے اسلام (س) اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی، جس میں اہم ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔گورنر نے افغان سرکاری وفد کی مولانا سمیع الحق سے ملاقات اور قیام امن کے لیے ثالثی کی پیشکش کو خوش آئند قرار دیا اور حکومتی سطح پر بھی بھرپور
تعاون کا یقین دلایا۔
مولانا سمیع الحق نے گورنر خیبر پختون خوا کو مدارس کی رجسٹریشن کی خبروں پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا، گورنر نے کہا کہ کسی مدرسے کے نصاب اور نظام میں مداخلت کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ گورنر نے دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور وزیراعظم کے عزائم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم بعض جدید عصری مضامین کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، تاکہ مدارس کے طلبہ بھی زندگی کے ہر شعبے میں مؤثر کردار ادا کرسکیں۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ہمیں خود اس بات کا احساس ہے مگر اصل مقصد قرآن وسنت اور اسلامی فقہ پر عبور رکھنے والے علماء تیار کرنا ہے، ڈاکٹر اور انجینئر نہیں۔ مولانا نے انہیں مدارس کے ساتھ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں دین کی بنیادی تعلیمات کی کمی کو پورا کرنے پر زور دیا۔
مولانا سمیع الحق نے قبائلی علاقوں کے انضمام کو عملی شکل دینے اور قبائل کو مطمئن کرنے پر زور دیا۔ گورنر نے کہا کہ قبائل کے بارے میں ہم تین باتوں کو خاص اہمیت دے رہے ہیں کہ وہاں پاکستان کی طرح سیاسی عمل جاری رہے، قبائل کے رسم و رواج کا لحاظ رکھتے ہوئے اس سے متصادم اقدامات نہیں کریں گے اور قبائل کے اثاثوں کا تحفظ کرکے اس میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
گورنر نے مولانا سمیع الحق کی دینی اورسیاسی خدمات کو سراہتے ہوئے قبائل کے بارے میں ان کی رہنمائی کی ضرورت کا اظہار کیا اور اس کے بارے میں مولانا سے مشاورت جاری رکھنے کا یقین دلایا۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اسلام آباد کی آل پارٹیز کانفرنس میں قائم کردہ کمیٹی عنقریب وزیراعظم سے ملاقات میں تمام دینی ایشوز پر تفصیلی بات کرے گی۔