کراچی تین دہائیوں تک بدامنی کا شکار رہا۔ کراچی پر قاتلوں اور بھتہ خوروں کی حکمرانی رہی۔ ماضی میں کراچی کے شہریوں کے لیے شہر کی ہر گلیمقتل تھی۔ شہری صبح گھر سے نکلتے تو انہیں یقین نہ ہوتا کہ شام کو وہ خیریت سے گھر کو لوٹیں گے۔ ماضی میں کوئیبرادری یا خاندان ایسا نہیں تھا جس کا کوئی شخص ہلاکت یا تشدد کا شکار نہ ہوا ہو۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد امن قائم ہوگیا ہےلیکن اب شہر میں جرائم اور اسٹریٹ کرائم کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے۔ لوگ دن دہاڑے لٹ رہے ہیں۔ رہزنی اور لوٹنے کی وبا پھیلی ہوئی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے جرائم کی ادھوری کہانی لکھ کر رات گھر پہنچا ہی تھا کہ معلوم ہوا ہمارے مکان میں گرائونڈ فلور پر رہنے والی بزرگ خاتون سے ایک موٹر سائیکل سوار پرس چھین کر بھاگ گیا، اور یہ گلستان جوہر کی سعدآباد سوسائٹی ہے کہ جہاں سیکورٹی کیمرہ اور اسلحہ کے ساتھ گارڈ بھی موجود ہوتا ہے، لیکن المیہ یہ ہوا کہ خاتون جیسے ہی اس گلی سے باہر نکلیں ان کے ساتھ یہ حادثہ ہوگیا، یعنی اب اگر کسی کو محلے کی گلی سے باہر بھی نکلنا ہو تو وہ گارڈ کے ساتھ نکلے۔ اسی شہر میں رہنے والے ہمارے ایک دوست نےچند دن قبل کا واقعہ بتایا کہ ان کی بہن کی گاڑی خراب ہوگئی، اس دوران کئی لوگ خدائی مددگار بن کر سامنے آجاتے ہیں، ان میں سے ایک کو جیسے ہی موقع ملا گاڑی کی بیٹری نکال کر فرار ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص لوٹنے کے لیے تیار بیٹھا ہے، بس موقع ملنے کی دیر ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ جرائم میں اضافہ ایک معاشرتی اور سماجی مسئلہ بھی بن گیا ہے، اور یہ صرف سیکورٹی اداروں کے ذریعے ختم نہیں ہوسکتا، لیکن اس شہر کی اپنی الگ تاریخ ہے۔ کراچی میں تیس سال منظم دہشت گردی جاری رہی ہے،ماضی کی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو اپنی آنکھیں بند کیے رہے یا سرپرستی کرتے رہے اس لیے اب جب اسٹریٹ کرائمز اور جرائم میں اضافے کی خبریں روزانہ شائع اور نشر ہورہی ہیں تو لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا کراچی ایک بار پھر منظم جرائم کی آماج گاہ بننے جارہا ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج اس شہر کی روشنیاں اگر کسی نے چھینی ہیں تو وہ اس کے حکمراں اور سول و عسکری ادارے ہیں۔ کراچی 1980ء کی دہائی سے پہلے ایک پُرامن شہر تھا۔ روشنیوں کا شہر تھا۔ اس کے مسائل تھے، مگر یہ منظرنامہ نہیں تھا۔ لیکن پھر عالمی تناظر اور دبائو و ضرورت کے تحت اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور چند مہینوں میں ایسا ہوگیا۔ روزانہ درجنوں افراد ہلاک ہوتے تھے، گھر سے نکلنے والے کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ گھر واپس بھی آئے گا یا نہیں۔ اب اسٹریٹ کرائم ہونے لگے ہیں، یا یہ کہہ لیں کہ اس کا چرچا منظم انداز میں ہورہا ہے، کیونکہ ماضی قریب میں پھر کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی کوئی منظم کام ہورہا ہے جس میں مشہور زمانہ کیس وہ تھا کہ ایک شخص خواتین کو چھری کے وار کرکے زخمی کرکے بھاگ جاتا تھا۔ بہت دنوں تک وہ خواتین کو نشانہ بناتا رہا، پھر اچانک غائب ہوگیا۔ ہمیں آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کے پیچھے کون تھا اور اس کا کیا ہوا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو بدنام کرنے کے لیے کروایا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس نے خود اس سلسلے میں کیا کردار ادا کیا؟
اب ایک بار پھر کراچی میں اسٹریٹ کرائمز تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں، اور روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف لوگ اپنی قیمتی چیزوں سے محروم ہورہے ہیں بلکہ ہولناک بات یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر بچوں کے اغوا ہونے یا اغوا کی کوشش کرنے کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں۔ ریاست اور ریاست کے ادارے اس عمومی تاثر کی نفی کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کراچی کا کوئی حصہ،گلی محلہ، سڑک یا چوراہا لٹیروں سے محفوظ نہیں ہے۔ آپ کسی سنسان سڑک پر دومنٹ سے زیادہ چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن رش والی جگہیں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔
سی پی ایل سی نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اُن کے مطابق رواں برس کے صرف 8 ماہ کے دوران یعنی جنوری تا اگست چوری و چھینا جھپٹی کی 42 ہزار 818 وارداتیں، قتل کے 229،اغوا کے 5، اور بھتہ خوری کے 38 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ستمبر کا جائز ہ لیا جائے تو 8 ستمبر کو میئرکراچی وسیم اختر کی سرکاری گاڑی اُن کے ڈرائیور سے چھین لی گئی، جس کا مقدمہ درخشاں تھانے میں درج کرایا گیا۔ واردات کے بعد ڈی آئی جی سائوتھ نے ایس ایچ او درخشاں کو معطل کردیا، عہدے سے تنزلی بھی کردی گئی۔
9 ستمبر کو کراچی میں ایک سینئر صحافی آفتاب عالم کو نارتھ کراچی میں اُن کے گھر کے سامنے انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا جس کے خلاف صحافی برادری سراپا احتجاج ہے۔ اسی روز پیلا اسکول کے قریب ایک بیکری پر فائرنگ کرکے بیکری کے مالک اور ملازم کو قتل کردیا گیا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اسی دن کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ویٹا چورنگی کے قریب خاتون کو اغوا کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات تین گاڑیوں میں سوار 20 ملزمان رابعہ نامی خاتون کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے ۔
10 ستمبر کو منظور کالونی کراچی میں ایک حافظِ قرآن، ان کی اہلیہ اور دو بچوں کو نہ صرف بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا بلکہ ان کے گھر کو آگ بھی لگادی گئی۔ 9 سالہ بچے حماد کے گلے پر چھری پھیر دی گئی۔ اسی دن سندھ اسمبلی کے افسر کی گاڑی چھین لی گئی۔ اس کے علاوہ عبداللہ شاہ غازی کے پاس کراچی فٹ پاتھ اسکول کی عمارت میں چوری کی واردات ہوئی، ملزمان اسٹریٹ چلڈرن کے لیے جمع کی جانے والی امدادی رقم، اساتذہ کی تنخواہیں اور قیمتی سامان لے اڑے۔
14ستمبر کو نیپا سے 8 ماہ کی بچی اغوا کرلی گئی، ماں دروازے پر بچی کو لے کر کھڑی تھی کہ ایک لڑکی اس کے ہاتھوں سے بچی کو چھین کر بھاگ گئی۔ اسی روز ایک بڑی اور تاریخی کارروائی بھی ہوئی جس میں ملزمان نے سب مشین گن (ایس ایم جی) سمیت جدید اسلحہ کے زور پر پاک کالونی میں کمپیوٹر ریپئرنگ کی دو دکانوں میں ڈکیتی کی۔15 ستمبر کو ڈیفنس سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی گاڑی چوری کرلی گئی۔ یہ گاڑی سرکاری افسر کامران کلہوڑو کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ضلع وسطی اورغربی اسٹریٹ کرائمز کے لیے آسان ہدف ہیں۔ دوسری طرف اصل بات یہ بھی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر چوری اور چھینا جھپٹی کی وارداتوں کی تعداد سی پی ایل سی کی فراہم کردہ معلومات سے بہت زیادہ ہے، خاص طور پر موبائل فون چھینے جانے کے 80 فیصد واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے، اور چوری و چھینا جھپٹی کی بیشتر وارداتیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔
اس پس منظر میں جب یہ سوال ہم نے فیس بُک پر پوچھا کہ ’’اسٹریٹ کرائمز اور بچوں کے اغوا کی خبریں تواتر کے ساتھ نشر ہورہی ہیں۔گزشتہ چند دنوں میں آپ لوگوں میں سے کسی کے ساتھ خدانخواستہ کوئی واقعہ ہوا ہو یا کسی جاننے والے کے ساتھ پیش آیا ہو تو براہ مہربانی شیئر کریں‘‘۔ تو دیگر بہت سے لوگوں کے ساتھ سینئر صحافی فیض اللہ خان کا بھی کہنا تھا کہ ’’اسٹریٹ کرائمز تو ہیں لیکن اغوا اتنا نہیں‘‘۔ وقاص حیدر نے کہا کہ ’’اغوا اور گمشدگی کے معاملے میں افواہیں زیادہ ہیں، حقیقت کم۔ رہزنی البتہ بہت ہورہی ہے۔‘‘ اطہر بلال سید سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’میرا مشورہ ہے کہ آپ اور دیگر صحافی ساتھی موبائل چھینے جانے، بلکہ ہر قسم کے اسٹریٹ کرائمز سے متاثرہ افراد کا نہ صرف ڈیٹا جمع کریں بلکہ ان کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر پریشر build کریں۔ تصور کریں کہ ہزاروں لوگ مظاہرہ کررہے ہوں کہ ہمارا چھینا گیا موبائل فون واپس کرو، تو یہ قانون نافذ کرنے والوں اور حکومت کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہوگا، اور عام شہری بھی بہت خوش ہوں گے۔‘‘
کراچی پولیس کے نئے چیف ڈاکٹر امیر شیخ جنہوں نے حال ہی میں چارج لیا ہے، فرائیڈے اسپیشل کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’کراچی میں اسٹریٹ کرائمزاور بچوں کے اغوا کی خبریں ذرائع ابلاغ پر روزانہ کی بنیا د پر شائع اور نشر ہورہی ہیں، آپ اس پر کیا کہتے ہیں‘‘ اس پر ان کا کہنا تھا کہ’’2018ء میں اب تک 146 بچے لاپتا ہوئے جن میں سے 90 فیصد مل گئے۔ ان میں سے صرف 8 بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا، اس کے علاوہ اغوا کا کوئی واقعہ ہے تو وہ ہمارے علم میں لایا جائے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مائوں کی گودوں سے بچے چھینے جارہے ہیں۔ 8 ماہ کی بچی فائزہ کو اغوا کرنے کا واقعہ بھی ڈراما تھا۔ بچی مل گئی ہے، والدہ نے فائزہ کو مرضی سے دوست کے حوالے کیا تھا۔ لاپتا ہونے والے95 فیصد بچے اپنی مرضی سے گئے۔ جو بچے پولیس نے بازیاب کیے، ان کی عمریں 5 سے 17سال ہیں، ان میں 66 فیصد بچوں کی عمریں 10 سال سے زیادہ ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر بچے شہر کے مضافاتی علاقوں سے لاپتا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر امیر شیخ نے بتایا کہ پولیس نے رواں سال بچوں کے اغوا میں ملوث تین ملزمان کو مقابلے میں ہلاک کیا جب کہ 22ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے اغوا سے متعلق غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، پولیس میں کالی بھیڑوں کی وجہ سے عوام میں بداعتمادی پیدا ہوئی، چاہتا ہوں کالی بھیڑوں کو پولیس کی صفوں سے باہر نکالا جائے، پہلے دن سے کوشش ہے کہ پولیس کا رویہ عوام سے اچھا ہو۔ ایک سوال کے جواب میں اے آئی جی سندھ کا فرائیڈے اسپیشل سے کہنا تھا کہ سی پی ایل سی اعدادوشمار میں صرف اسٹریٹ کرائمز شامل نہیں، چوری کی گئی موٹرسائیکلوں کے واقعات بھی اسٹریٹ کرائمز ہیں۔ کراچی میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں چھیننے کے واقعات میں کمی آئی، اسٹریٹ کرائمز میںکچھ گروہ متحرک ہوئے ہیں۔ کورنگی کے اندر فورسز نے ایکشن لیا ہے اور وہاں اسٹریٹ کرائمز میں کمی واقع ہوئی ہے۔ روزانہ پولیس مقابلے ہورہے ہیں، ملزمان پکڑے جارہے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ موبائل اسنیچنگ سے متعلق مقامی سطح پر اقدامات کیے، ایک گینگ پکڑا ہے جو الیکٹرانک مارکیٹ میں چوری کے موبائل دیتا تھا۔ چوری موبائلز کا آئی ایم آئی ای مکمل بلاک کرنے کے لیے وفاق کا تعاون درکار ہے۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران پولیس اہلکاروں کے تبادلے سے فرق پڑا، پولیس کے تبادلے سے اسٹریٹ کرائمز بڑھے ہیں، ملزمان کو سزا دلانے کے لیے لوگوں کو پراسس سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے اسٹریٹ واچ پولیس تیارکرلی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ واچ فورس کے لیے کنٹرول روم بنایا جارہا ہے اورڈی ایس پی رینک کا افسر کنٹرول روم میں ہر وقت موجود ہوگا، جبکہ اہلکاروں کو چھوٹے ہتھیار اور موٹرسائیکلیں دی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر واچ فورس ڈسٹرکٹ سائوتھ میں کام کرے گی جس کو اگلے مرحلے میں شہر بھر میں تعینات کردیا جائے گا۔ امیر شیخ کا کہنا تھا کہ جرائم کا خاتمہ جہاں پولیس کی ذمے داری ہے وہیں معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور پولیس کا ساتھ دینا ہوگا۔ کم از کم ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے ملزموں کی تو نشاندہی کریں، ان کو اپنا ہونے کے باعث نہ چھپائیں کیوں کہ کل وہ آپ کو یا آپ کی بہن، بیٹے، بھائی کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اور جرم کرنے کے دوران یا پولیس مقابلے میں مارا جائے۔ معاشرے کو بہتر کرنے کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی ہوگی۔ لوگ جرم ہوتے دیکھیں تو 15 پر اطلاع کریں۔ بہت عمدہ نیٹ ورک بن گیا ہے اور 3سے 5 منٹ میں رسپانس ملے گا۔
اس حوالے سے فرائیڈے اسپیشل نے جنگ سے وابستہ کرائم رپورٹر ثاقب صغیر سے… جن کی شہر کے حالات اور جرائم پر گہری نظر ہے اور ان کے تجزیے شائع بھی ہوتے رہتے ہیں… جب پوچھا کہ کراچی میں جرائم کی نئی لہر اور بچوں کے اغوا کے واقعات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’پولیس کا کہنا ہے کہ بچوں کے اغوا کی خبروں میں سے اکثر میں صداقت نہیں ہے، متعدد بچے جو گھر سے لاپتا ہوئے واپس آچکے ہیں۔ اس سال 146 بچے لاپتا ہوئے جن میں سے 126 بچے واپس اپنے گھروں کو آگئے ۔ ان میں سے 8 بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا‘‘۔ اسٹریٹ کرائمز بڑھنے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’شہر میں منشیات کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ پولیس چیف کے مطابق 80 فیصد پکڑے جانے والے رہزن منشیات کے عادی ہیں اور اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے وارداتیں کرتے ہیں۔ پولیس کے اندر موجود کالی بھیڑیں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتی ہیں۔ انھیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ اپنا حصہ باقاعدگی سے وصول کرتی ہیں۔ پکڑے جانے والے بیشتر اسٹریٹ کرمنلز ایک ماہ میں ہی باہر آجاتے ہیں اور پھر سے جرائم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان سی سی ٹی وی میں نہیں آتے، ورنہ سی سی ٹی وی میں آنے والے ملزمان کے خلاف کیس ٹھوس بنتا ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان سی سی ٹی وی میں نہیں آتے ورنہ سی سی ٹی وی میں آنے والے ملزمان کے خلاف کیس ٹھوس بنتا ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی سی ٹی وی کا استعمال ملزمان کو پکڑنے میں اہم ہے اور خود اس حوالے سے نئے ڈی آئی جی کا بھی کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کو اسٹریٹ کرائمز کے ملزمان کے خلاف اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ جہاں ملزمان پولیس کی نظر میں نہیں آتے ہیں، وہیں لگے ہوئے ہزاروں سرکاری سی سی ٹی وی کیمرے بڑی تعداد میں خراب ہونے کے باعث ان سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا جاسکتا۔ کراچی میں کُل 5700 سے زائد سرکاری کیمرے ہیں، جن میں 2 اور 5 میگا پکسل کیمر ے ہیں۔ جبکہ پولیس کو 10ہزار سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے لیے جو امریکی امداد ملی وہ منصوبہ آج معلوم نہیں کس میز پر پڑا ہے۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں ہیں، کراچی میں 10 لاکھ کیمرے لگانے کی ضرورت ہے ۔
اسٹریٹ کرائمز اور بچوں کے اغوا سے متعلق جب فرائیڈے اسپیشل نے سی پی ایل سی کے ترجمان شرجیل سے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’کراچی میں زیادہ تر بچے لاپتا ہورہے ہیں۔ اس سال اغوا کے کُل 3 واقعات ہوئے ہیں اور لاپتا ہونے والے 175 میں سے 95 فیصد واپس آگئے ہیں، صرف 17بچے واپس نہیں آئے۔ ذرائع ابلاغ میں جس طرح بار بار بچے اغوا ہوگئے، بچے اغوا ہوگئے کی خبریں چل رہی ہیں اور خوف کی ایک فضا بنائی جارہی ہے وہ مناسب نہیں ہے‘‘۔ اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’اسٹریٹ کرائمز تو دو ڈھائی کروڑ کی آبادی میں روزانہ ہی ہوتے ہیں، فرق یہ آیا ہے کہ اب میڈیا میں خبریں زیادہ آنا شروع ہوگئی ہیں۔ اور ہمیں سمجھنا ہوگا کہ چھینے جانے اور چوری ہونے کی وارداتوں میں فرق ہے۔ اگست کے مہینے میں 60 لاکھ رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 10 چھینی گئی ہیں، جبکہ 130چوری ہوئی ہیں۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ موٹر سائیکلوں کی چوری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن چھینے جانے کے واقعات کا تناسب کم ہے، اور جوگاڑیاں چوری یا چھینی گئی ہیں اُن میں تیس فیصد برآمد بھی ہوئی ہیں۔ موبائل چھینے جانے کی وارداتوں میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کا شکر ہے سب نارمل چل رہا ہے، لیکن میڈیا میں اس طرح چیزوں کو پیش کیا جاتا ہے کہ معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی اکثر ویڈیو جعلی ہوتی ہیں۔ ایسے عناصر موجود ہیں جو باقاعدہ غلط خبریں پھیلا رہے ہیں۔ واقعات ہورہے ہیں لیکن جس طرح اچانک دکھایا جاتا ہے ایسا نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں خبر چلائیں لیکن حقیقت دکھائیں۔ جس طرح دکھایا اور بتایا جارہا ہے کہ ایک سو پچاس بچے اغوا ہوگئے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا تو کیا لوگ سڑکوں پر نہیں آجاتے؟ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ بعض جگہ خبر چلی کہ آٹھ مہینے میں پچیس سو بچے اغوا ہوگئے۔ یعنی روزانہ دس بچے اغوا ہوگئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس وقت کراچی شہر میں آبادی کے لحاظ سے ایک دو فیصد اسٹریٹ کرائمز ہورہے ہیں۔ اب ٹارگٹ کلنگ نہیں ہورہی ہے بلکہ ذاتی جھگڑوں میں لوگ قتل ہوئے ہیں، وہ بھی کم تعداد ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ والدین بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اُٹھ بیٹھ رہے ہیں اور ان کی سرگرمیاں اور مشاغل کیا ہیں۔ لیکن ساتھ ہی شرجیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ پولیس کے نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔
کراچی ملک کا سب سے تعلیم یافتہ شہر ہے، لیکن یہ ملک کا سب سے بدنصیب شہر بھی ہے۔ یہ شہر ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہ حکمرانوں کی ضرورت بھی ہے اور لگتا ہے ان ہی حکمرانوں کو اس سے الرجی بھی ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد کراچی میں آباد ہےجسےمنی پاکستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہرخطے کے باشندے آباد ہیںہے، یہ قائداعظم کا شہر ہے، اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔کراچی ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔ اس شہر سے پورے ملک کے عوام کو امیدیں وابستہ ہیں۔ اس شہر کو روشنی، علم اور امن کا شہر بنانے کے لیے جہاں سیکورٹی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہیں معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور نسلِ نو کی اخلاقی تربیت کا انتظام کرنا ہوگا، ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہوگی، اس کے ساتھ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے جو بدقسمتی سے منفی ہی رہا ہے۔ اے آئی جی سندھ ڈاکٹر آفتاب پٹھان نے فرائیڈے اسپیشل فورم میں کہا تھا کہ پولیس کا کردار اُس وقت شروع ہوتا ہے جب جرم ہوجاتا ہے۔ ہمارا میڈیا بے لگام ہوگیا ہے۔ میڈیا جرم کرنا سکھا رہا ہے کہ کس طرح کرنا ہے۔ بجائے یہ کہ جرائم پر کنٹرول ہو، آدمی میڈیا کے ذریعے جرائم کے طریقے سیکھتا ہے۔ہمیں کراچی کے لیے ہر پہلو سے سوچنا ہوگا، اور اگر آج اس بارے میں نہیں سوچا گیا تو کراچی کے کل کی تصویر بہت بھیانک اور خوف ناک ہوگی۔