بھارت نے کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر ایک اور اسمارٹ باڑھ کے منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ باڑھ کی تنصیب کا افتتاح بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے مقبوضہ جموں کے علاقے کٹھوعہ میں کیا۔ اس جدید باڑھ کو ’’اینٹی انفلٹریشن اوبسٹکل سسٹم‘‘ یعنی دراندازی روکنے کا نظام کہا گیا ہے۔ یہ دورویہ اور بجنے والی باڑھ ہوگی جو ابتدائی طور پر پچاس کلومیٹر تک نصب ہوگی، بعد میں اسے پرانی باڑھ کی جگہ یعنی سات سو کلومیٹر تک پھیلایا جائے گا۔ یہ پرانی کی نسبت زیادہ مہنگی باڑھ ہے، کیونکہ ہر موسم کے بعد اس باڑھ کی مرمت کے لیے سالانہ پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے لگائے جائیں گے۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حالات پر کنٹرول میں ناکامی کے بعد 2003ء سے 2005ء کے درمیان کنٹرول لائن پر باڑھ نصب کی تھی۔ یہ اسرائیل سے حاصل کردہ تصور تھا جس میں اسرائیل نے اپنی غیر قانونی تعمیرکردہ بستیوں اور کالونیوں کی حفاظت کے لیے فلسطینی علاقے کے ساتھ باڑھ اور دیواریں تعمیر کی تھیں۔ بھارت نے 1990ء کی پوری دہائی کشمیر میں مقبول عوامی مزاحمت کو کچلنے میں گزار دی۔ فوج کی تعداد بڑھانے، جدید اسلحہ استعمال کرنے اور نت نئے قوانین لاگو کرنے کے ذریعے کشمیریوں کی مزاحمت کو دبانے اور کچلنے کی ہر تدبیر کی گئی، مگر مزاحمت کم نہ ہوسکی۔ اُس وقت بھارت کے منصوبہ سازوںکا خیال تھا کہ کشمیر میں ساری مزاحمت دراندازی اور باہر سے آنے والے عسکریوں کی وجہ سے زندہ ہے، اگر دراندازی کو روک دیا جائے تو کشمیری عوام بھارت کے ساتھ ’’ہنسی خوشی‘‘ رہنے لگیں گے۔ اس تصوراتی دنیا کی تلاش اور مسئلے کا حل بھارت کو باڑھ میں نظر آنے لگا۔ کنٹرول لائن پر خاردار تار اور اس کے ساتھ ہی چوکسی اور حفاظت کے لیے اسرائیل کا جدید نظام نصب کرنا مسئلہ کشمیر کا آخری حل سمجھا جانے لگا۔ بھارت نے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں باڑھ کی تنصیب شروع کی اور پاکستان کے ساتھ جنرل پرویزمشرف کے مشہورِ زمانہ ’’پیس پروسیس‘‘ کی آڑ لے کر باڑھ کی تنصیب کاکام سکون سے مکمل کرلیا۔ باڑھ کی یہ تنصیب بھی مسئلہ کشمیر کا حل اور حقیقی حل کا متبادل ثابت نہ ہوسکی اور وادی کشمیر میں عوامی مزاحمت کا لاوا پکتا اور کبھی کبھار آتش فشاں کی صورت میں پھٹتا رہا، یہاں تک کہ دراندازی کا فلسفہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا اور کشمیر میں ایک نئی طرز کی داخلی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔
اس داخلی مزاحمت کو عوام کی مقبول پذیرائی حاصل رہی اور برہان وانی نامی بائیس سالہ نوجوان اس مزاحمت کی علامت اور شناخت بن کر اُبھرا۔ اب پرانی باڑھ سے مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو بھارت نے ایک اور اسمارٹ باڑھ کا سہارا لے کر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ٹھان لی۔ باڑھ کے پیچھے عوامی مزاحمت اور جذبات کا ایک سیلِِ رواں ہے۔ ایک دہکتا ہوا الائو اور اُبلتا ہوا آتش فشاں ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار مقتل کے باہر انسان اپنی باری کے انتظار میں قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ ایک شہید ہوتا ہے تو چار نوجوان اس صف میں اور کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جنوب میں عوامی احتجاج اور مزاحمت کا ریلا تھمتا ہے تو شمال میں اُبال آتا ہے۔ بھارت کا دانشور اور باشعور طبقہ نوجوانوں کے اس اندازِ وفا سے خوف محسوس کرنے لگا ہے۔ اس طبقے کے خیال میں موت کے پیچھے بھاگنے والے ان نوجوانوں کا کوئی علاج نہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ بھارت کے حکمران اور پالیسی ساز اب بھی حقائق کا اعتراف کرنے کے بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کررہے ہیں۔ انسانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے باڑھ بندی جیسے کمزور سہارے تلاش کیے جارہے ہیں۔ مگر جس طرح کاغذ کی نائو ندی پار نہیں کرا سکتی اسی طرح یہ کمزور سہارے بھی بھارت کو کشمیر میں فاتح نہیں بنا سکتے۔