ہر جمہوری حکومت رائے عامہ کی حمایت سے آتی ہے مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ اقتدار پاکر عوام کے لیے سماجی اور معاشی ریلیف اور فلاح کے لیے بھی کام کرے گی۔ دنیا بھر میں ہر ملک کی حکومت کسی نہ کسی سیاسی ضابطے کے تحت کام کرتی ہے، لیکن پاکستان میں حکومتیںاور سماجی ریلیف دینے کے بجائے ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کے باوجود ہر آنے والی حکومت کو خزانہ خالی ملتا ہے۔ یہ معما آج تک حل نہیں ہوسکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ وفاق میں گزشتہ چار عشروں سے پائیدار معاشی پالیسی مرتب نہیں ہوسکی، ہر حکومت نے آئی ایم ایف کے صنم کدہ میں بیٹھ کر معاشی پالیسی کا بت تراشا اور اس کی پوجا کی۔ قرض دینے والے عالمی ادارے کے لیے ہر وہ ملک سونے کی چڑیا ثابت ہوا ہے جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام موجود رہا، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ کسی بھی ملک کا یہ ماحول عالمی ساہوکاروں کے لیے زرخیز صورتِ حال کا حامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں غلام محمد کے بعد غلام اسحاق خان، محبوب الحق، سرتاج عزیز، شوکت عزیز جیسے ماہرین معیشت وزیر خزانہ رہے، لیکن ملکی معیشت کی حالت سدھر نہیں سکی۔ یہ سب ماہرین اور ان کے بعد آنے والے وزرائے خزانہ اسحاق ڈار، نوید قمر اور اب اسد عمر میں کوئی ایک بھی ایسی صلاحیتوں کا مالک نہیں کہ ملک کی معاشی پالیسی کا رخ درست سمت کی جانب موڑ سکے۔ ہر وزیر خزانہ نے آج ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ ملک اندرونی و بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔
بجٹ کے لیے درست اعدادو شمار کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن ہر حکومت پرانے اعدادو شمار سے کام چلاتی رہی ہے۔ ہمارے ہاں حکومتوں کے پاس آبادی کی صورت میں افرادی قوت سے لے کر زرعی و صنعتی شعبوں کی کُل پیداوار کا کوئی درست ریکارڈ میسر نہیں ہے، بس ٹیکس اکٹھا کرنے پر زور ہے۔ ٹیکس نافذکرتے ہوئے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عام آدمی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جبکہ تلخ حقائق یہ ہیں کہ ٹیکس ڈائریکٹ ہو یا اِن ڈائریکٹ، ہر صورت میں آخری صارف اس بوجھ تلے آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی ہوئی پارلیمانی جماعتیں بانجھ ثابت ہوتی رہی ہیں کہ وہ بجٹ پر تنقید برائے تنقید کرتی رہی ہیں، کسی نے بہتر متبادل تجویز نہیں دی۔ حزب اختلاف نمائشی طور پر اجلاس کا بائیکاٹ کرلیتی ہے اور حکومت بجٹ پاس کرالیتی ہے۔ یہ کھیل گزشتہ چار عشروں سے پارلیمنٹ میں کھیلا جارہا ہے۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر بحث ہورہی ہے، اس بجٹ کی منظوری کے وقت پھر واک آئوٹ ہوگا اور حکومت بجٹ پاس کرلے گی۔
قومی اسمبلی میں اس وقت منی بجٹ پر بحث چل رہی ہے۔ روایت کے مطابق قائد حزبِ اختلاف نے منی بجٹ پر بحث کا آغاز کیا، انہوں نے 36 منٹ پر محیط لکھی ہوئی تقریر کی۔ ان کی تقریر کے دوران حکومتی نشستوں سے ہوٹنگ بھی کی گئی جو حکومتی ارکان کے ناتجربہ کار ہونے کی عکاس تھی۔ ہوٹنگ کے دوران ڈپٹی اسپیکر بھی خاموش رہے اور جملے بازی سنتے رہے۔ دوسری جانب قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف کی تقریر میں مفاہمت کا پیغام تھاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ مسلم لیگ(ن) نے حکمت عملی یہ اپنائی ہے کہ وہ ترقی کا بیانیہ لے کر آگے بڑھے گی، کہ مزاحمت اس کے بس کا روگ نہیں، اور قائد حزبِ اختلاف کے اظہارِ خیال نے اس پر مہر بھی ثبت کردی۔ جواب میں وزیرِ خزانہ نے بھی قائدِ حزبِِ اختلاف کی پوری تقریر کا مسکرا کر جواب دیا۔
ایک دوسرے کو ریلیف دینے کے ماحول میں بجٹ پاس ہوجائے گا، لیکن سپریم کورٹ میں چند اہم مقدمات کی سماعت ہورہی ہے، اس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بھی کیس شامل ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران پی ایس او میں تعیناتیوں اور ایل این جی معاہدے کا بھی ذکر ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’’احتساب کا صرف نعرہ لگایا گیا نتیجہ کوئی نہیں نکلا، ہم نے نیب کو بہت سپورٹ کیا، نیب سوائے آنے جانے کے کر ہی کیا رہا ہے! کیا نیب کا گند اب عدالت کو صاف کرنا ہے؟ نیب کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا‘‘۔ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس احتساب کے نعروں کے مخصوص کھیل کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے کافی ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر عدالت کو بتایا گیا کہ 61 روپے فی لیٹر درآمدی قیمت ہے جس پر اضافی ایک روپے 32 پیسے فی لیٹر چارج لیا جاتا ہے، اور ان اضافی پیسوں میں فریٹ اور انشورنس شامل ہے، جب کہ پی ایس او ایک روپے 32 پیسے کی پیپرا رولز کے مطابق پابند ہے، 10 روپے 17 پیسے ڈومیسٹک کاسٹ ہے جس میں 3 روپے فریٹ چارج ہے تاکہ ملک بھر میں پیٹرول کی قیمت ایک ہو، 3 روپے 47 پیسے ڈیلر کمیشن ہے، اس کا تعین بھی حکومت کرتی ہے، اور 27 روپے ٹیکسز ہیں، اس میں کسٹم ڈیوٹی فکس ہے، جی ایس ٹی کے لیے فی لیٹر کا تعین ایف بی آر کرتا ہے۔
پوری قوم اس وقت اُس اسد عمر کو تلاش کررہی ہے جو پیٹرول 46 روپے فی لیٹر کرنے کے حامی تھے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کا یہ المیہ ہے کہ ایک ابھی تک یہ یقین نہیں کرپائی کہ اسے حکومت مل چکی ہے، اور دوسری کو ابھی تک یقین نہیں آیا کہ حکومت اس سے چھن چکی ہے۔ اسد عمر ہر میٹنگ میں کہا کرتے تھے کہ ایف بی آر کو تالا لگادیں، لیکن اس وقت وہ خود بھی ایف بی آر کے رحم و کرم پر ہیں۔ آئی ایم ایف ان کی اگلی منزل ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستان کی معاشی صورتِ حال کی جو منظرکشی کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور غیر منافع بخش اداروں کی نجکاری کے لیے دبائو ڈالنا یا بڑھانا چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کی معیشت کی بحالی کا بس ایک ہی راستہ نظر آتا ہے، وہ ہے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ۔ ہر حکومت اس کی تعمیل کرتی چلی آئی ہے اور اب بھی یہی ہورہا ہے۔
معیشت کے بعد دوسرا اہم محاذ خارجہ امور سے متعلق ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس وقت نیویارک میں ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ بھارت، افغانستان اور اقوام عالم میں امن اُن کے خطاب کے اہم نکات تھے۔ پاکستان نے امریکہ اور کابل انتظامیہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور افغان مسئلے کا حل براہِ راست اور غیر مشروط مذاکرات ہی میں مضمر ہے۔ زلمے خلیل زاد کے بیان سے مترشح ہوتا ہے کہ امریکہ کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ مذاکرات کی پالیسی ہی راست سمت ہے۔ امریکہ نے اب تک اس حوالے سے غلط لائن اختیار کررکھی تھی۔ اُس کا اصرار تھا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ اس نے غلط طور پر یہ فرض کررکھا تھا کہ طالبان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔ امریکہ کی یہ سوچ درست نہیں تھی۔ کچھ عرصے سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ امریکہ نے کابل اور سعودی عرب میں طالبان کے نمائندوں سے ابتدائی نوعیت کے مذاکرات کیے ہیں جن کا مقصد یہ جاننا تھا کہ طالبان ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں، لیکن طالبان کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کردی۔ امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اب طالبان سے مذاکرات کے مشن پر ہیں۔ افغانستان میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس خطے کے ممالک کے درمیان متعدد ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد ملے گی جن میں تاپی (TAPI)منصوبہ بھی شامل ہے جس کے ذریعے تاجکستان کی قدرتی گیس کے ذخائر سے پاکستان اور بھارت بھی استفادہ کرسکیں گے لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے۔