پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتساب کا نعرہہمیشہ سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوا ہے۔ سیاسی اور فوجی حکمران طبقات نے احتساب کو اپنے اقتدار کو طاقت فراہم کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ جمہوری نظام میں جب حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں خود ایک قدم آگے بڑھ کر احتساب کو محض سیاسی نعرے یا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی سیاست کی بنیاد پر کچھ لو اور کچھ دو کے طور پر استعمال کریں تو قانون کی حکمرانی اور جمہوری سیاست کا بھی جنازہ نکلتا ہے۔
ماضی کی دو بڑی حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے احتساب کے نام پر ایک دوسرے کی کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور لوٹ مار پر سیاسی سمجھوتے کرکے ایک دوسرے کے جرائم پر جو پردہ ڈالا تھا اس نے شفافیت پر مبنی طرزِ حکمرانی اور جواب دہی کے نظام کو سخت نقصان پہنچایا۔ میثاقِ جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے مقابلے میں ایک آزاد اور خودمختار احتساب کمیشن بناکر جواب دہی کے نظام کو مضبوط، مؤثر اور شفاف بنائیں گے۔ مگر ان کی ترجیحات میں احتساب کا عمل نہیں تھا، اس کا نتیجہ احتساب سے فرار کی صورت میں نکلا اور اس نے کرپٹ لوگوں کو خوب تحفظ دیا۔
وزیراعظم عمران خان کی سیاست کا ایک بنیادی نکتہ بدعنوانی پر مبنی سیاست کا خاتمہ اورکڑا احتساب ہے۔ اسی بنیاد پر وہ انتخاب جیتے بھی ہیں۔ اُن کے بقول اُن کی پہلی ترجیح بلاتفریق احتساب کا عمل ہوگا اور یہ عمل کسی ایک فرد، خاندان یا فریقین تک محدود نہیں ہوگا بلکہ سب کو اس کے دائرے میں لایا جائے گا۔ لیکن پچھلے دنوں قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے بارے میں چیف جسٹس نے فرمایا کہ حکومت اور عدلیہ نے احتساب کا نعرہ لگایا، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا‘‘۔ ان کے بقول عدلیہ نے نیب کی مکمل مدد کی، نیب کی جانب سے تحقیقات اور ریفرنسز دائر کرنے کی خبریں آتی ہیں، مگر کرپٹ لوگوں کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ چیف جسٹس نے نیب کی کارکردگی پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں اور اُن کے بقول نیب کے کچھ نہ کرنے سے سارا بوجھ عدلیہ پر آگیا ہے، جو درست حکمت عملی نہیں۔ کیونکہ شریف خاندان سمیت بہت سے لوگوں کے مقدمات کے معاملے میں ہمیں نیب کی سطح پر بہت زیادہ مسائل نظر آتے ہیں۔ جہاں مسئلہ نیب کی صلاحیتوں کے فقدان کا ہے، وہیں اس میں سیاسی سمجھوتوں کی سیاست بھی موجود ہے جو خود احتساب کے عمل میں رکاوٹ ہے۔
بنیادی طور پر عوام ایک منصفانہ اور شفاف نظام کی خواہش رکھتے ہیں۔ احتساب کے تناظر میں بھی وہ محض سیاسی مخالفین کے نہیں، بلکہ بلاتفریق سب کے کڑے احتساب کے حامی ہیں۔ کیونکہ مسئلہ صرف سیاست دانوں کا نہیں، کرپشن اور بدعنوانی کے اس حمام میں سبھی فریق ننگے ہیں، اور بہت سے طبقات کا دامن بہت زیادہ داغ دار ہے۔ لیکن کیونکہ ماضی میں احتساب کو بطور ہتھیار سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا اس لیے عوام میں عملاً اس کی شفافیت کے حوالے سے خاصے شکوک و شبہات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی اس سوچ و فکر کو بنیاد بناکر اسی نکتے کو اجاگر کررہی ہے کہ حکومت کا احتساب محض شریف خاندان تک محدود ہے اور اس میں بھی شفافیت کم اور سیاسی انتقام کی شدت زیادہ ہے۔ ہمارے یہاں ماضی میں بھی اسی نعرے کو بنیاد بناکر احتساب کا عمل سیاست کی نذر کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی ایسی ہی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک سیاسی طبقہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو ڈھال بناکر احتساب سے سب کو ڈراتا ہے، اور اُس کے بقول احتساب کا مقصد ملک سے جمہوری نظام کا خاتمہ ہے، یا اس سے جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے یہ نعرہ دیا کہ وہ ملک سے لوٹی گئی دولت کو باہر سے لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر مجرموں کی حوالگی اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی پر برطانیہ اور دبئی سمیت کچھ ملکوں سے معاہدے کی طرف پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ وزیراعظم اور چیئرمین نیب کے درمیان ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوئی اور ایف آئی اے سمیت ایک اسپیشل ٹاسک فورس بھی خاصی سرگرم ہے۔ تین سو پاکستانیوں کی دبئی میں موجود جائدادوں کی تفصیلات بھی سامنے آچکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود احتساب کے عمل میں بہت زیادہ سیاسی سمجھوتے اور سیاسی و قانونی رکاوٹیں غالب نظر آرہی ہیں۔
پنجاب ہی میں شہبازشریف کے دور میں بننے والی 55کمپنیوں میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں، کرپشن، بدعنوانی سامنے آچکی ہیں۔ فواد حسن فواد، احد چیمہ سمیت کئی بیوروکریٹس کی گرفتاری اور اُن سے کی جانے والی تفتیش کا سست عمل یا سیاسی سمجھوتے انصاف کے تقاضوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کئی کئی ماہ تک جاری تفتیش کا عمل کچھ بھی حتمی نتائج نہیں دے سکا۔ بیوروکریسی اس احتساب کو حتمی نتیجے تک لے جانے میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ احتساب کا شکنجہ مضبوط ہوتا ہے اس لیے خود کئی بڑے بڑے بیوروکریٹ بھی قانون کے شکنجے میں آسکتے ہیں۔
نیب جس انداز سے معاملات کو چلارہا ہے اس سے بھی اُس کی تیاری، ہوم ورک اور ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔ جن لو گوں کے خلاف احتساب ہونا ہے وہ کئی قانونی پیچیدگیوں کو بنیاد بناکر ضمانت پر رہا ہیں اور قانون ان کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نیب کو مضبوط بنانے کے لیے حکومتی سطح پر جو کچھ ہونا چاہیے تھا اس کا فقدان ہے۔ نیب جیسے ادارے کو کمزور رکھنا اور سیاسی مداخلت سے فوائد حاصل کرنا بدعنوان طبقے کی ضرورت تھی، جس میں حکمران طبقہ بھی پیش پیش تھا۔ اصل میں وزیراعظم عمران خان اور اُن کی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس ملک میں احتساب کا شفاف اور بلاتفریق عمل معمول کے حالات اور قانون سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ ’’غیر معمولی اقدامات، پالیسی، قانون، طریقہ کار، حکمت عملی‘‘ وضع کرکے نتائج کے حصول کی جانب پیش رفت کرنا ہوگی۔ بالخصوص سیاسی سمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا اور کڑے احتساب کو ہر صورت میں ممکن بنانا ہوگا، اور احتساب کا یہ عمل سب کو شفاف بھی نظر آنا چاہیے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حکومت پہلے سے موجود نیب جیسے ادارے کی کمزوریوں اور خامیوں کی طرف توجہ دے کہ اس ادارے کو کیسے خودمختاراورمضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمان کی سطح پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کو کیسے فعال کیا جاسکتا ہے، اورکیسے اس کی کارکردگی کو ایک خاص ٹائم فریم میں لایا جاسکتا ہے۔ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر جیسے اداروں کی فعالیت سمیت تفتیش کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مسئلے کا حل محض ٹاسک فورس بنانا نہیں بلکہ پورے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ادارے عملی طور پر سیاسی مداخلتوں کے باعث بہت برباد ہوئے ہیں۔ اس کے لیے اہلِ دانش کو سیاسی سوچ اور پسند و ناپسند سے ہٹ کر کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست کے خاتمے کے لیے رائے عامہ تشکیل دینی چاہیے، کیونکہ یہ عمل قانون کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سماجی تحریک سے بھی جڑا ہوا ہے جو کرپشن اورکرپٹ لوگوں کے خلاف جہاد کرے، یا سماجی شعور کو اجاگر کرے کہ ہمیں کرپشن پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا۔
اسی طرح وزیراعظم عمران خان کی اہم ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ (1) یہ احتساب کسی ایک جماعت یا فرد کے خلاف نظر نہیں آنا چاہیے، یہ عمل محض اعلانات تک محدود نہ ہو بلکہ عوام کو واضح اور شفاف طور پر نظر آئے کہ احتساب بلاتفریق ہے اور سب فریقوں کو اس کے دائرۂ کار میں لایا جارہا ہے۔ (2) وفاقی نیب کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر قائم نیب کے اداروں کو بھی مضبوط کیا جائے، کیونکہ سارا بوجھ وفاق تک محدود نہیں ہونا چاہیے، اور صوبائی اداروں کو بھی کام کی رفتار بڑھاکر شفافیت کے بہتر نظام کو طاقت دینی ہوگی۔ (3) احتساب سے جڑے ان تمام اداروں میں سیاسی یا حکومتی مداخلت ختم ہونی چاہیے اور جن افراد کا چنائو کیا جائے وہ سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ میرٹ پر ہونا چاہیے۔ (4) احتساب سے جڑے ان اداروں کی کڑی نگرانی اور خود ان اداروں کا داخلی جوابدہی یا احتساب کا نظام مضبوط ہو، تاکہ یہ بھی سیاسی سمجھوتوں یا اقربا پروری کا شکار نہ ہوں۔
اگرچہ احتساب کا عمل کوئی جادوئی عمل نہیں لیکن حکومت کے پہلے سو دنوں میں اس کی ایک واضح جھلک قوم کے سامنے آنی چاہیے۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے خلاف اس ملک میں احتساب ہونا چاہیے وہ جس دیدہ دلیری اور بہادری سے قانون کے شکنجے سے باہر ہیں وہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔کیونکہ جب تک وہ لوگ جن کو احتساب کے کڑے دائرۂ کار میں آنا چاہیے، باہر رہیں گے، اُس وقت تک ملک میں احتساب کے ایجنڈے کو کوئی طاقت نہیں مل سکے گی۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اس ملک میں طاقت ور لوگ قانون، حکومت اور ریاستی نظام کی مدد سے اپنے جرائم کی سزا سے بچ جاتے ہیں، اور یہ سب کچھ محض کمزور طبقے تک محدود رہتا ہے۔ یہ جو کرپشن اور بدعنوانی کا زہر پھیلا ہے اور پھیل رہا ہے اس کی وجہ کمزور احتساب اور سیاسی سمجھوتوں کا نظام ہے جو شفاف احتساب کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے تحریک انصا ف کی حکومت کا بھی احتساب کے حوالے سے یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ اس میں ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں کیسے کامیاب ہوتی ہے۔ یا یہ بھی وہی کھیل کھیلے گی جو سابقہ حکمران کھیلتے رہے ہیں!