حکمران تحریک انصاف لاہور سے اپنے رکن قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر اور رکن پنجاب اسمبلی ندیم عباس بارا کے بارے میں سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس اور اظہارِ برہمی کے بعد دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے۔ عدالتی ریمارکس اور ان پر تحریک انصاف کی دفاعی پوزیشن پورے ملک میں حکمران جماعت کی ساکھ کو متاثر کررہی ہے، اور اس صورتِ حال نے اُس کے لیے ملکی سطح پر پہلے سے موجود مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے، لیکن لاہور شہر میں ان عدالتی ریمارکس اور ان پر تحریک انصاف کی کمزور اور دفاعی پوزیشن اس لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ اس شہر کے کئی حلقوں میں آئندہ چند ہفتوں میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان عدالتی ریمارکس اور ان سے پیدا ہونے والی تحریک انصاف کی دفاعی پوزیشن یقیناً ضمنی انتخابات پر اپنا اثر ڈالے گی۔ لاہور میں پہلے ہی تحریک انصاف کی کوئی بہت اچھی پوزیشن نہیں ہے، وہ لاہور کی قومی اسمبلی کی 13 میں سے صرف؟؟؟ نشستیں جیت سکی ہے اور ان میں سے بھی پارٹی کے سربراہ عمران خان اپنی نشست بمشکل 680 ووٹوں سے جیت سکے۔ بعد میں خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر اس حلقے کی دوبارہ گنتی شروع ہوئی، ابھی صرف 5 پولنگ اسٹیشنوں کی گنتی شروع ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر یہ گنتی روک دی گئی، لیکن ان پانچ پولنگ اسٹیشنوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ سعد رفیق کو 100 کے قریب ووٹوں کی برتری مل گئی تھی۔ باقی پولنگ اسٹیشنوں پر بھی یہی تناسب رہتا تو خواجہ سعد رفیق ری کائونٹنگ میں یہ انتخاب جیت سکتے تھے، لیکن ان پانچ اسٹیشنوں پر گنتی کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر گنتی کا عمل روک دیا گیا تھا۔
ہفتے کے روز سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ایک اوورسیز پاکستانی کی جوہر ٹائون لاہور میں واقع اراضی پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے انتہائی سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کے ڈیرے بنا رکھے ہیں، نیا پاکستان بدمعاشوں کی پیروی کرکے بنانے چلے ہیں۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کردی؟ کیا لوگوں نے اس لیے ووٹ دیے تھے؟ آپ لوگوں نے نیا پاکستان بنانا ہے یا نہیں لیکن قانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ عدالت نے قبضہ گروپ کی سفارش کرنے پر دو ارکانِ اسمبلی (ملک کرامت کھوکھر ایم این اے اور ملک ندیم عباس بارا ایم پی اے) کو اگلے دن اسلام آباد سپریم کورٹ میںطلب کرتے ہوئے قبضہ گروپ کے سرغنہ منشا بم کی گرفتاری کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر قبضہ گروپ کی پیروی ثابت ہوگئی تو پی ٹی آئی کے ایم این اے کرامت کھوکھر ایم این اے نہیں رہیں گے۔ عدالت میں ایس پی صدر معاذ ظفر نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی کی تو ملک کرامت کھوکھر ایم این اے نے منشا بم کی گرفتاری روکنے کی درخواست کی۔ بعد میں ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ کرامت کھوکھر نے منشا بم کے بیٹے کی رہائی کے لیے فون کیا تھا۔ اس دوران عدالت نے کہا کہ پولیس کے ساتھ بدتمیزی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور سیاسی مداخلت کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ چیف جسٹس نے ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد اکبر کو ہدایت کی کہ کسی کے دبائو میں نہیں آنا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت کسی کا غیر قانونی حکم نہیں ماننا۔ انہوں نے کہا کہ وردی کی طاقت کو پہچانیں۔ اس کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے ایم پی اے عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ مجھے معاف کردیں، میں تو ایسے ہی غلطی سے سپریم کورٹ آگیا، میرے خلاف ایس پی نے جھوٹے مقدمات درج کرائے، اگر گناہ گار ثابت ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا۔ عدالت کے سخت ریمارکس پر ندیم عباس بارا رو پڑے، جس پر عدالت نے کہا کہ ’’باہر بدمعاشی کرتے ہو اور عدالت میں آکر رونا شروع کردیتے ہو۔‘‘
کرامت علی کھوکھر لاہور کے حلقہ این اے 135 سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس حلقے کے نیچے پی پی 160 سے ندیم عباس بارا جیتے تھے۔ یہ لاہور کے کچھ جدید شہری اور کچھ دیہاتی آبادیوں پر مشتمل حلقہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر لاہور کا دیہاتی علاقہ تھا لیکن شہر کے پھیلائو کے ساتھ اس دیہاتی علاقے کا بیشتر حصہ جدید آبادیوں میں تبدیل ہوگیا، جن میں سب سے اہم آبادی جوہر ٹائون اور واپڈا ٹائون ہے۔ اس تبدیلی سے جہاں اس علاقے میں زمینوں کی قیمتیں بے پناہ بڑھ گئیں وہیں ان زمینوں پر قبضے کے لیے قبضہ گروپ بھی وجود میں آگئے۔ اس علاقے میں کھوکھر برادری بڑی تعداد میں آباد ہے، یہ یہاں کے جدی پشتی مکین ہیں اور بہت جلد یہ لوگ نہ صرف امیر ہوگئے بلکہ ان میں بہت سے قبضہ گروپ بھی پیدا ہوگئے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور اب تحریک انصاف بھی ان حلقوں میں کھوکھر برادری ہی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں، کہ ان کا ووٹ بینک بھی ہے اور یہ مضبوط طاقتور گروپ بھی ہے۔ چنانچہ اِس بار بھی یہاں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے امیدوار نہ صرف کھوکھر تھے بلکہ یہ سب آپس میں قریبی رشتے دار بھی تھے۔ اس حلقے سے جماعت اسلامی کے ترجمان اور اب وسطی پنجاب کے امیر جناب امیرالعظیم امیدوار تھے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک افضل کھوکھر تھے۔ لیکن کامیابی تحریک انصاف کے کرامت کھوکھر کے حصے میں آئی۔ قومی اسمبلی کے اس حلقے کے نیچے ایک صوبائی نشست سے تحریک انصاف ہی کے ملک ندیم عباس بارا کامیاب ہوئے۔ یہ ملک جہانگیر بارا کے چھوٹے بھائی ہیں جو 2013ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر اس حلقے سے امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اِس بار انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی ندیم عباس بارا کو میدان میں اتارا اور کامیاب کرالیا۔ یہی دونوں منتخب ارکان ہفتہ اور پیر کے روز سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران نہ صرف خود سخت ریمارکس کی زد میں آئے بلکہ ان کی وجہ سے پارٹی کی پوزیشن بھی خراب ہوئی۔
اس میں شک نہیں کہ اس حلقے میں قبضہ گروپوں کا راج ہے اور ان گروپوں کو اس بااثر سیاسی خاندان (کھوکھر خاندان) کی سرپرستی بھی حاصل ہے جس کی جڑیں تمام بڑی پارٹیوں میں موجود ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بھی ملک کرامت کھوکھر، ان کے مدمقابل امیدوار افضل کھوکھر اور ندیم عباس بارا پر قبضہ گروپوں کی سرپرستی اور سرکاری زمینوں پر قبضے کے الزامات شدت سے لگتے رہے، لیکن عام آدمی نے اس کا نوٹس نہیں لیا، اور شاید اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا اور سخت نوٹس لیا۔
سپریم کورٹ نے ان ارکانِ اسمبلی کی درست سرزنش کی ہے، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ نہ صرف اس حلقے کے موجودہ منتخب ارکان بلکہ سابقہ ارکان کو بھی پولیس کی معاونت حاصل رہی ہے۔ یہاں قبضوں کا سلسلہ بھی یہ افراد پولیس کی ملی بھگت سے چلاتے رہے ہیں۔ حالیہ کیس میں بھی جس اوورسیز پاکستانی کی جوہر ٹائون والی اراضی پر قبضے کا ذکر آیا ہے، اس زمین پر منشا بم نے موجودہ اور سابقہ منتخب ارکان اسمبلی کی آشیرباد سے کئی ماہ سے قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ قبضہ پولیس کی ملی بھگت سے ہوا اور تاحال جاری ہے۔ اس پورے عرصے میں پولیس نے یہ قبضہ نہیں چھڑایا اور مظلوم خاندان کی دادرسی نہیں کی۔ عدالت کے حکم پر کارروائی شروع کی تو ذمے داری منتخب سیاسی لوگوں پر ڈال دی۔ پولیس نے اس کیس میں تاحال منشا بم یا اس کے بیٹوں کو گرفتار نہیں کیا۔ پولیس کے مطابق منشا بم پر 70 مقدمات ہیں مگر وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پولیس نے اسے تو گرفتار نہیں کیا لیکن کیس کو ایک دوسرا رخ دے دیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے قبضہ گروپ کے سیاسی سرپرستوں کو کنٹرول کیا ہے۔ اب وہ اس کیس اور اس علاقے میں قبضے کے دیگر درجنوں معاملات میں پولیس کی مجرمانہ غفلت، بددیانتی اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کا بھی نوٹس لے، کیونکہ منشا بم اور اس طرح کے قبضہ گروپ اس علاقے میں تقریباً 20 سال سے سرگرم ہیں اور یقینی طور پر پولیس کی آشیرباد سے ہی سرگرم ہیں۔ اس پیش رفت کے بعد اب عدالت یہاں پولیس کے معاملات کو بھی کھنگالے۔ شہریوں کا الزام ہے کہ یہاں تعینات رہنے والے پولیس افسران کروڑوں کی جائدادوں کے مالک بن چکے ہیں۔