سندھی تحریر:ممتاز بخاری
جب سے دریائے سندھ پر ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ازسرنو سرگرمیوں کا آغاز ہوا ہے اہلِ سندھ میں بھی فکر و اضطراب کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے، جو بظاہر زیریں سطح پر ہے لیکن لگتا ہے کہ اس کی شدت اور ڈیم مخالف جذبات میں بتدریج حدت آئے گی۔ اہلِ سندھ ماضی کے تلخ ترین تجربات کے پیش نظر دریائے سندھ پر کسی بھی ڈیم خصوصاً کالا باغ ڈیم کے حد درجہ خلاف ہیں۔ اس حوالے سے کالا باغ ڈیم مخالف ماہرین کے ہاں دلائل اور براہین کے انبار دکھائی دیتے ہیں۔ ڈیم کے حامیوں کو ان پر بھی توجہ دینا اور انہیں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے تاکہ امن و آشتی اور قومی یک جہتی کو زک نہ پہنچ سکے۔اس سلسلے کا ایک مضمون روزنامہ “کاوش” حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا، جس کو قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیا جارہا ہے
’’پاکستان میں ڈیموں کے حوالے سے بحث کو عشرے بیت چکے ہیں لیکن اس معاملے پر تضادات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ پنجاب کے سوا دیگر صوبے ڈیموں خصوصاً کالا باغ ڈیم کے بے حد خلاف ہیں۔ آج کل ڈیموں کے حامی ملک میں ڈیموں کی ضرورت کے لیے دلائل میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ چین میں 84 ہزار ڈیم ہیں۔ بھارت میں ڈیموں پر ڈیم تعمیر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دیگر تیکنیکی امور پر ذرا بعد میں آتے ہیں، پہلے اس نکتے کو سمجھ لیں کہ آیا چین کی مثال دینا درست بھی ہے یا نہیں؟
چین اور پاکستان کا موازنہ: چین کا پھیلائو 95 لاکھ 96 ہزار 96 کلومیٹر یعنی 37 لاکھ 54ہزار مربع میل ہے۔ 27 لاکھ کلومیٹر دریائی اور نہری اراضی الگ سے ہے۔ 14 ممالک سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ جب کہ پاکستان کا رقبہ 8 لاکھ 81 ہزار 993 کلومیٹر مساوی 3 لاکھ 40 ہزار509مربع میل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وسعت یا پھیلائو کے حساب سے چین کے مقابلے میں پاکستان بہ مشکل 9 فیصد قرار پاتا ہے۔ اب آتے ہیں آبادی کی طرف۔ چین کی آبادی ایک ارب 30کروڑ تا 40کروڑ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 20 تا 22 کروڑ ہے۔ اس حساب سے ہماری آبادی چین کے مقابلے میں 15 تا 17 فیصد بہ مشکل ہوگی۔ پاکستان کی سرحدیں 4 ممالک سے ملتی ہیں۔
چین اور پاکستان میں دریا: چین میں ویسے تو 50 ہزار کے لگ بھگ دریا تھے، لیکن اس وقت چین کے محکمہ شماریات کے مطابق چین میں دریائوں کی تعداد 50 ہزار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ دنیا کے بعض جغرافیہ دانوں کی جانب سے یہ بھی ایشو موجود ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث چین کے 28 ہزار دریا گویا کہ ایک طرح سے نہ ہونے میں شمار ہوتے ہیں، لیکن حکومتِ چین اس بات کو ماننے سے گریزاں ہے۔ چین کے سات دریا 2 ہزار تا ساڑھے 6 ہزار کلومیٹر بہتے ہیں اور اپنا یہ سفر مکمل کرنے کے بعد سمندر میں جا گرتے ہیں۔ یہ دریا مجموعی طور پر 4 لاکھ 20 ہزار کلومیٹر تک بہتے ہیں۔ چین میں دو بڑے دریائی نظام موجود ہیں۔ پاکستان میں یوں تو 6 بڑے دریا موجود ہیں لیکن ان میں سے بھی تین دریا سندھ طاس معاہدے کے ذریعے بھارت کو بیچ دیے گئے۔ 19 ستمبر 1960ء کو پاکستان نے کچھ رقم کے عوض بیاس، راوی اور ستلج دریائوں کے 33 ملین ایکڑ فٹ کا کنٹرول بھارت کے سپرد کردیا۔ اب ایک ہی دریا پوری طرح سے بہتا ہوا دریا ہے، جس کا نام دریائے سندھ ہے۔ اس پر ایک ڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ درسرا دریا جہلم ہے، جس پر منگلا ڈیم بنایا گیا ہے۔ چین کے ہر دریا کا کم از کم کیچمنٹ ایریا ایک سو مربع کلومیٹر سے زائد ہے، جب کہ پاکستان کے دریائوں کا اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے (یعنی چند کلومیٹر بہ مشکل)۔ دریائے سندھ کا بہائو 3200 کلومیٹر ہے، جب کہ پاکستان میں بھی نام کے طور پر دوسرے چھوٹے دریا موجود ہیں جن میں کابل، سوات اور نیلم دریا کے نام شامل ہیں۔ ان سمیت دریا اور ٹربیوٹریز ملائیں تو بھی چاروں صوبوں میں 60 تا 80 بہ مشکل ہوں گے جنہیں برساتی دریا بھی کہا جاتا ہے جو آخرکار دریائے سندھ یا دیگر دریائوں میں آ ملتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کے سات سے زیادہ دریا تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔ یہ دریا ایک دوسرے سے نکل کر ایک دوسرے ہی میں آملتے ہیں، جن کا اہم ذریعہ بارش ہے۔ چین کا سب سے بڑا دریا یانگ زی 6 ہزار 300 کلومیٹر تک بہنے کے بعد سمندر میں جا گرتا ہے، اور اس کا محض کیچمنٹ ایریا ہی 1.8 ملین کلومیٹر ہے اور یہ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دریا ہے۔ چین میں ایسے ہزاروں دریا ہیں جو ہزار ہا کلومیٹر تک بہتے ہیں۔ پاکستان کے سارے دریا بھی اس جتنا تو کجا اس سے نصف فاصلہ بھی طے نہیں کرتے۔ اب بھلا کون بتائے گا کہ اس حوالے سے چین اور پاکستان کا باہم موازنہ کتنا مناسب ہے! اب آتے ہیں ڈیموں کی طرف۔
چین اور پاکستان میں ڈیم: پاکستان کی لائقِ کاشت زمین 23.8 ملین ہیکٹر ہے، جب کہ 21.2 ملین ہیکٹر پر کاشت ہوتی ہے۔ جب کہ چین کی زمین کا شمار ہی کلومیٹرز میں ہے۔ وہاں پر زیرکاشت زمین 1.4 ملین ایکڑ مربع زرعی ہے۔ آج بھی چین میں کروڑوں ایکڑ زمین آبادی (کاشت) کے لائق ہے۔ لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے کاشت نہیں کی جاتی۔ چین میں چھوٹے بڑے 50 ہزار دریائوں پر 84ہزار ڈیم ہیں۔ اس کے کئی دریا برساتی (طغیانی) پانی کے بہائو سے بھرتے ہیں۔ بعض دریائوں پر ڈیم بنائے ہی نہیں گئے ہیں، کیوں کہ ان پر ڈیم تعمیر نہیں کیے جا سکتے ۔ اس سلسلے میں چین نے اربوں ڈالر صرف تجزیے، مطالعے و مشاہدے پر خرچ کر ڈالے ہیں کہ ڈیم کس جگہ پر تعمیر کیے جائیں۔ اس کے باوجود چین نہ صرف یہ کہ ماحولیاتی آلودگی کا سامنا کررہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دریائوں میں تازہ پانی کی کمی کا شکار بھی ہوچکا ہے اور عالمی اداروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ کیوں کہ دریائوں اور ان سے وابستہ آبی حیات کے لیے تازہ پانی کا ہونا لازمی ہے۔ بھارت کے کنٹرول میں دیے گئے پاکستانی دریائوں میں ستلج، بیاس اور راوی دریائوں میں آلودگی بھری ہوئی ہے، کہیں پر ریت اڑ رہی ہے، اور بڑا حصہ زیر قبضہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ دریا گم ہوتے چلے جارہے ہیں، کیوں کہ بھارت بھی زرعی زمین مزید کاشت کرنے کے لیے مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ دریائے سندھ واحد اہم دریا ہے جس میں اسکردو کے پاس سے پگھلنے والی برف اور رم اسٹیشنوں پر پڑنے والی برساتوں کی وجہ سے چند لاکھ کیوسک پانی آتا ہے، اور بارہا اس طرح ہوا ہے کہ ڈیم میں بہ مشکل ایک دن کے لیے بھی پانی بھرا ہو، اور پھر دوسرے روز ہی وہاں سے پانی لینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس طرح سے اگست 2017ء میں ہوا یا پھر 2018ء میں ہی ماہِ اگست کے دوران تربیلا ڈیم میں پانی بھر تو گیا لیکن ستمبر میں اس سے پانی لینا شروع کردیا گیا، جس کی وجہ سے ربیع کی فصل کے لیے مناسب پانی بچنے کا امکان ختم ہوکر رہ گیا۔ منگلا ڈیم بھر نہیں سکا تو 2018ء کے سیزن میں دوبارہ ستمبر میں چشمہ بیراج کے پاس جہلم زون کے لیے دریائے سندھ سے سی جی کینال کے ذریعے 11ہزار کیوسک سے 17یا 18 ہزار کیوسک تک پانی لینے کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور یہ صورتِ حال اکثر پیش آتی رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تربیلا سے اوپر کی طرف پانی کی صورتِ حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ 28 سال کے بعد وہاں پر ایک مرتبہ بہ مشکل 7 لاکھ کیوسک پانی ہوتا ہے، وگرنہ اکثر درمیانے درجے کا سیلاب یعنی ڈھائی لاکھ تا ساڑھے تین لاکھ کیوسک بہ مشکل پانی پہنچتا ہے۔ دریائے کابل، کے پی کے اور پنجاب کے بلوچستان سے ملحقہ پہاڑی علاقے سے آنے والا پانی نہ ہو تو جنوبی پنجاب اور سندھ میں اکثر خشک سالی ہی کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ تیسرا پانی سندھ میں پنجند کے ہاں سے آتا ہے۔ یہ سوا دس برس بعد آنے والے کسی بڑے سیلاب کی صورت میں ہزاروں کیوسک سے زیادہ نہیں چڑھتا۔ کے پی کے میں بھی لوگوں کی طرف سے برساتی پانی پر کاشت کی جارہی ہے اور گھریلو طرز پر لاکھوں افراد پانی ذخیرہ بھی کرتے ہیں، اس لیے آبشاروں وغیرہ کا پانی نیلم ندی اور دریائے سواں میں گھٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے نوشہرہ کے قریب دریائے کابل کی سطح بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی ہے، اور اگر کابل ندی پر کوئی بیراج یا ریزروائیر (پانی کا ذخیرہ) بنا تو انڈس بیسن کا پانی مزید کم ہوجائے گا اور اس کا بڑا نقصان سندھ اور پھر جنوبی پنجاب کو ہوگا۔ بھاشا ڈیم سے بھی پانی کم ہوگا، اور اگر اس سے کینال بنے تو مسئلہ مزید گمبھیر ہوجائے گا۔ کالا باغ ڈیم تو محض دریائے سندھ (اور سندھ کی) موت کا باعث ہوگا۔ لہٰذا ملک میں چھوٹے ڈیموں کی زیادہ ضرورت ہے جس کی وجہ سے بہائو بھی متاثر نہیں ہوگا اور نقصانات بھی کم ہوں گے۔ اگر چین کے ڈیموں کو دیکھیں تو ان کے بڑے سے بڑے دریا پر بھی ایک سے زیادہ ڈیم نہیں بنائے گئے۔ اس لیے چین اور پاکستان میں دریائوں اور ڈیموں کا باہمی موازنہ کرنا فضول ہے۔ اس پر بولنے والے حقائق سے یکسر نابلد ہیں۔ یہ محض چین اور بھارت کے ڈیموں کی تعداد کی ہی بات کیا کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے ہزاروں دریائوں کی مثال نہیں دیتے، ان کے گلیشیرز وغیرہ کا ذکر نہیں کرتے۔ ان ممالک کی وسعت اور آبادی کا تناسب ہی دنیا کے چوتھائی حصے سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں صرف چار دریا بہتے ہیں۔ باقی سب خیر ہے۔
دریائے سندھ، سمندر، ڈیلٹا اور ملک کی زمین: زیادہ ماضی میں نہیں جاتے، اس وقت دریائے سندھ، کھاروجھان کے قریب سندھ کے سابق ساہوکار (باثروت) بندرگاہوں کیٹی بندر اور شاہ بندر کے درمیان سمندر سے جھگڑ کر اسے اپنی بساط بھر پیچھے کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ دنیا بھر میں ڈیلٹا کے حامل دریا بہت کم ہیں۔ دریائے سندھ کا ڈیلٹا کیوں کہ ہے، اسی طرح سے چین کے بیشتر دریائوں کا سرے سے ڈیلٹا ہی نہیں ہے، لیکن جہاں پر ڈیلٹا ہے وہاں پر پورا پانی چھوڑا جاتا ہے۔ جس طرح چین کے نک تھوانگ صوبے کا دریائے ؟؟؟ ہے، جو جنوبی سمندر میں جاکر گرتا ہے۔ وہاں کی آبادی لاکھوں پر مشتمل ہے اور شہر آباد ہوگئے ہیں۔ اس ڈیلٹا کو مطلوبہ پانی ملتا ہے جسے گولڈن ڈیلٹا کہا جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ڈیلٹا کو دیگر دو دریائوں مشرقی اور مغربی دریائوں سے پانی میسر ہے۔ چین میں اس کے باوصف ڈیلٹا کے پانی کی فراہمی کے حوالے سے تضاد بھی موجود ہے۔ جب کہ سندھ کے ڈیلٹا کے حامل اہم تعلقہ کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق محض 10 ہزار شمار میں آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سندھ کا ڈیلٹا ناقابلِ رہائش ہوچکا ہے۔ سمندری کنارے والے ڈیلٹا کی 205 سے 210 کلومیٹر کی حالت بھی خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ دریائی پانی رک گیا تو پھر یہ سمندری پانی ٹھٹہ اور بدین اضلاع تک ہی محدود نہیں رہے گا جو کہ اب بھی کبھی کبھی جھرک (علاقہ) تک آپہنچتا ہے۔ ایم ایچ پنہور صاحب کی تحقیق کے مطابق ’’لاکھ سوا سال قبل تک سمندر اروڑ تک تھا جسے دریائے سندھ نے دھکیل کر پیچھے کردیا۔ جب دریائے سندھ نے سمندر کو دھکیل کر بدین اور ٹھٹہ کے علاقوں تک پہنچایا تو ایک بڑی آبادی وہاں پر منتقل ہوئی، کیوں کہ بالائی سندھ اکثر سیلاب کی زد میں آیا کرتا تھا۔ دریا کی سطح سمندر سے زیادہ اوپر نہ ہونے کی وجہ سے شہری زندگی نے عروج حاصل کیا اور وہاں پر بندرگاہیں قائم ہوئیں۔ دنیا کے میٹروپولیٹن شہروں کی تاریخ میں ایک ہزار عیسوی کے لگ بھگ ٹھٹہ شہر میٹرو پولیٹن میں شمار کردہ ہے (ایسی ایک مستند تحقیق میرے پاس موجود ہے) لہٰذا وہاں پر بندرگاہیں بنیں اور ڈیلٹا نے عروج حاصل کیا۔ بعد ازاں جس طرح سندھ کے دارالحکومت تبدیل ہوئے اور بیرونی ممالک سے کاروباری زمینی سلسلہ قائم ہوا، حکمرانوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی گئیں۔ خصوصاً ارغونن، ترخانوں اور کلہوڑوں اور تالپوروں کے اندرونی جھگڑوں کے باعث سندھ کی بندرگاہیں گویا ایک طرح سے کھو سی گئیں۔ انگریزوں کی آمد سے اٹھارویں صدی میں دریائے سندھ بندوں (ڈیم) کے اندر مقید ہونے لگا اور بیراج تعمیر ہونے لگے تو اس کے کریکس پر بھی اثرات مرتب ہونے لگے۔ انگریزوں نے جب کراچی کو دارالحکومت بنایا تو وہاں پر بندرگاہ بھی قائم ہوگئی۔ اس لیے سندھ کا ڈیلٹا اور پہلے کی بندرگاہیں گویا کہ ایک طرح سے بے کار ہوگئیں۔ ملکی دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر سے ڈیلٹا پر مزید منفی اثرات پڑے اور اس پر مستزاد حکمرانوں کی بے توجہی سے تمر کے جنگلات بھی تباہ ہوگئے۔ سمندر پر روک ٹوک نہ ہوئی تو سرکاری طور پر کیے گئے سرویز اور جائزوں میں بھی یہ بتایا گیا کہ ملک کی لاکھوں ایکڑ زمین سمندر ہڑپ کر گیا ہے اور تاحال اس کا حملہ جاری ہے، کیوں کہ دریائے سندھ کے پاس اب وہ ہتھیار ہی باقی نہیں جسے پانی کہتے ہیں۔ اور وہ جب سمندر کے سینے پر لگا کرتا تھا تو اسے پیچھے کی سمت دھکیل دیا کرتا تھا۔ کیوں کہ سمندر بھی محض اسی وقت پیچھے کو ہٹتا ہے جب دریائے سندھ اس کے سینے پر ضرب لگاتا ہے۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ جن ممالک کی سرحدوں کے قریب سمندر ہوا کرتا ہے تو 1982ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل کردہ بین الاقوامی سمندری قوانین کے مطابق کنارے سے دو سو ناٹیکل میل (370 کلومیٹر کے مساوی) تک اس ملک کا کانٹی نینٹل شیلف ہوتا ہے۔ جس کی معدنیات، آبی حیات اسی ملک کی ہوتی ہے۔ پائپ لائن بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ جب کہ کوسٹل اسٹیٹ کی بیس لائن سے 12 ناٹیکل میل (22 کلومیٹر کے برابر) میری ٹائم بیلٹ یا ٹریٹوریل واٹر بھی ہوتا ہے۔ 24 ناٹیکل میل (44 کلومیٹر) معاشی سرگرمیوں کا زون ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے کسٹم اور امیگریشن کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان 24 ناٹیکل میل کو ملا کر 200 ناٹیکل میل تک معاشی سرگرمیوں کے لیے ایکسکیوسو اکنامک زون ہوتا ہے جس میں مچھلی کا شکار کرنے اور مائیننگ کا بھی حق ملا ہوا ہے۔ اس کے بعد سمندر کو اوپن سی یا انٹرنیشنل سی کہا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کے مکمل میری ٹائم کلیم ہیں۔ بلکہ 2015ء میں تو اقوام متحدہ نے پاکستان کی میری ٹائم بائونڈری 350 ناٹیکل میل تسلیم کرنے کی بات کی ہے، لیکن ملک اس سے کوئی زیادہ معاشی فوائد حاصل نہیں کررہا ہے۔ ملک کی سندھ میں کوسٹل لائن 270 کلومیٹر تک ہے۔ سندھ جو اس ملک کا حصہ ہے اس کی زمین بھی اب سمندر کے زیر قبضہ آتی جارہی ہے اور شیلف بھی مزید پیچھے کی جانب سرک رہا ہے اور اوپن سی بڑھتا جارہا ہے۔ اس طرح سے یہ زمین، سمندری معدنیات اور آبی حیات بھی چلی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بغیر کسی جنگ کے اپنے ہی ہاتھوں سے ملک کی زمین سے دست برداری کی راہ اپنائی جارہی ہے۔ جہاں ملک ایک جانب اپنی دھرتی بچانے کے لیے خون کے دریا بہا دیا کرتے ہیں وہاں ہم سمندر کو پانی سے نہیں روک سکتے، اور اس پر مستزاد یہ کہ کالا باغ ڈیم بنانے کی بات کرکے دریائی بہائو (اور سوتوں کو) تازہ پانی سے خشک اور محروم کرنے کی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کوٹری تک River Level زیادہ اوپر نہیں ہے۔ اس لیے سمندر کو اوپر آنے سے اب محض دریا ہی روک سکتا ہے۔‘‘
(ادارتی صفحہ روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد۔ پیر24ستمبر 2018ء)