حضرت نصیرالدین چراغ دہلویؒ حضرت محبوبِ الٰہیؒ کے مریدِ خاص

اللّٰہ کے ایک ولیِ کامل اپنی خانقاہ میں مراقبے میں اس قدر غرق تھے کہ انہیں اپنے پرانے دشمن تراب درویش کے آنے کی خبر تک نہیں ہوئی۔ آج وہ حضرت کو قتل کرنے کے مذموم مقصد سے آیا تھا۔ خانقاہ میں ان کو تنہا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر پاکر اسے اپنے ارادے میں کامیابی نظر آنے لگی۔ اُس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خنجر نکال کر حضرت پر پے درپے وار کیے۔ آپ زخموں سے چور ہوکر مصلّے پر گر پڑے تو وہ خانقاہ سے باہر گلی میں بھاگ گیا، لیکن وہاں اس کے خون آلود کپڑے دیکھ کر لوگوں کو شک گزرا اور انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ تم کس کو قتل کرکے آرہے ہوں؟ اس نے لوگوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بہت ہاتھ پیر مارے مگر لوگوں نے اسے مار مار کر ادھ موا کردیا۔ موت کے خوف سے اُس نے سچ سچ اگل دیا کہ حضرت چراغ دہلوی کو قتل کرکے آیا ہوں۔
لوگوں پر عجیب ماتمی کیفیت طاری ہوگئی۔ سب فوراً حضرت کے پاس پہنچنا چاہتے تھے لیکن تراب کو چھوڑنا بھی دانش مندی نہ تھی۔ چنانچہ چند لوگوں نے اسے زیرحراست رکھا اور باقی حضرت چراغ دہلوی کی طرف دوڑ پڑے۔
خانقاہ کا فرش خونِ معصوم سے رنگین ہوچکا تھا۔ حضرت بے ہوش پڑے تھے۔ ان کو فوراً طبی امداد کے لیے طبیب کے پاس لے جایا گیا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے حضرت کی حالت تشویش ناک تھی۔ ہر قسم کی دوائی آزمائی جانے لگی مگر حضرت کو کوئی افاقہ نہ ہورہا تھا۔ مسلسل سعی کے بعد آپ ہوش میں تو آگئے مگر شدید کرب و اذیت کے باوجود آپ کے لب متبسم تھے۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ تراب کدھر ہے؟
لوگوں نے سوال کیا ’’حضرت آپ کو کیسے پتا چلا کہ آپ پر حملہ تراب نے کیا ہے؟‘‘
آپ نے جواب دیا ’’بے شک مجھے پتا ہے لیکن میں نے اُس کو اس لیے نہیں روکا کہ میرا وقت ابھی نہیں آیا اور میں اس کے حملے سے مروں گا نہیں، اس لیے میں نے اُس کی دل شکنی مناسب نہیں سمجھی اور اُسے حملہ کرنے دیا‘‘۔
معالج نے آپ کو باتیں کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے لیے اس حالت میں بولنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، مگر آپ نے جواب دیا ’’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ابھی میرا وقت نہیں آیا تو پھر خطرہ کس بات کا! فوراً تراب کو میرے سامنے لائو۔ میں اُس سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
لوگوں نے سمجھا کہ شاید حضرت اسے بلاکر کوئی سزا دینا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے عرض کیا ’’حضرت! آپ فکر نہ کریں بلکہ آرام کریں۔ تراب ہماری قید میں ہے، وہ کہیں بھاگ نہیں سکتا۔ آپ ٹھیک ہوجائیں تب اس کو آپ کے سامنے پیش کردیا جائے گا اور پھر آپ جو بھی اُس کو سزا دیں گے اس سے اُس کا بچنا مشکل ہوگا۔‘‘
آپ نے ذرا ترشی سے حاضرین کو حکم دیا ’’تراب میرا مجرم ہے، اس کے متعلق کسی قسم کا فیصلہ بھی مجھ ہی کو کرنا ہے، چنانچہ تراب کو فوراً میرے سامنے پیش کیا جائے‘‘۔
لوگوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور تراب کو آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔
آپ نے تراب سے سوال کیا ’’اے تراب! تم نے مجھ پر کتنے وار کیے؟‘‘ تراب خاموش رہا، آپ نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا مگر اِس مرتبہ بھی وہ خاموش ہی رہا۔ شاید وہ یہ سوچ رہا تھا کہ حضرت مجھ سے ایسا سوال اس لیے کررہے ہیں کہ وہ مجھ کو میرے جرم کے مطابق سزا دیں گے۔
حضرت چراغ دہلوی نے اپنا سوال ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے فرمایا ’’تراب تم کیوں نہیں بتاتے کہ تم نے ہم پر کتنے وار کیے؟ ہم تمہیں سزا نہیں انعام دینا چاہتے ہیں، اس لیے گھبرائو نہیں‘‘۔
تراب کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہ ہو، اور وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔ اسی کپکپاہٹ میں اس نے عرض کیا ’’حضرت آپ کی لوگوں میں مقبولیت کی وجہ سے مجھے حسد پیدا ہوگیا تھا اور میرے دل میں ہر روز ایک ہی خیال رہتا تھا کہ میں بھی اتنی عبادت کرتا ہوں مگر مجھے وہ شہرت اور عزت نصیب نہیں ہوئی، اسی جلن اور حسد میں آکر میں آپ پر حملہ آور ہوا‘‘۔
حضرت نے فرمایا ’’میں نے تم سے حملہ کرنے کی وجہ نہیں پوچھی، بلکہ میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے مجھ پر کتنے وار کیے؟‘‘
یہ سن کر تراب جھجکتے ہوئے بولا ’’حضرت! اس بدنصیب نے آپ پر گیارہ وار کیے ہیں‘‘۔
حضرت نے دوبارہ پوچھا ’’وار آرام آرام سے کیے تھے یا زور زور سے؟‘‘
اس وقت تراب کی حالت دیدنی تھی اور وہ شرم کے مارے زمین میں گڑا جارہا تھا۔ اس نے خجل ہوتے ہوئے کہا ’’حضور میں نے اپنی پوری طاقت سے حملہ کیا تھا۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’اس طرح تو تمہارے ہاتھوں کو بہت تکلیف پہنچی ہوگی۔ خیر ہم اس وقت تمہاری تکلیف کا مداوا کرنے کے تو قابل نہیں، مگر اس کا صلہ تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیں گے‘‘۔ آپ نے اپنے خادم سے کہا ’’جائو اور ہمارے کمرے میں ایک نئی پوشاک پڑی ہے اور ایک تھیلی میں کچھ اشرفیاں ہیں وہ لے آئو‘‘۔ خادم تعمیلِ حکم کے لیے اسی وقت چل پڑا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ پوشاک اور اشرفیاں لے کر حضرت کی خدمت میں پہنچ گیا۔
حضرت چراغ دہلوی نے وہ پوشاک اور اشرفیاں تراب کو دیتے ہوئے کہا ’’یہ تمہاری اس تکلیف کا ادنیٰ سا بدل ہے جو تم نے مجھ پر حملہ کرتے ہوئے اٹھائی۔ اِس وقت اس کے سوا میرے پاس کچھ نہیں، پھر کبھی آنا، میرے پاس جو کچھ ہوگا میں تمہارے حوالے کردوں گا، اور اس وقت تم آزاد ہو، جہاں تمہارا دل چاہتا ہے چلے جائو‘‘۔
اس کے بعد خدام کو حکم دیا کہ تراب کو چھوڑ دیا جائے اور اس پر کسی قسم کی گرفت نہ رکھی جائے۔ یہ جہاں جانا چاہتا ہے چلا جائے، مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں، کیونکہ میرے مرشد حضرت محبوب الٰہی نے حکم دیا تھا کہ دنیا تم پر ظلم کرے گی اور تمہیں طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں دی جائیں گی، مگر تمہارا کمال یہ ہوگا کہ تم ان تمام کو خندہ پیشانی سے برداشت کرو گے اور کسی سے کوئی گلہ نہیں کرو گے۔ تو میں آج اپنے مرشدِ عالی مقام کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے تراب کو چھوڑ رہا ہوں۔
حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کا نسب نامہ
حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی حسنی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے دادا کسی نامعلوم غیرمعروف مقام سے لاہور تشریف لائے تھے۔ آپ کے والد بعد میں نقل مکانی کرکے اودھ تشریف لے گئے جہاں آپ کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ نو سال کے تھے کہ والد داغِ مفارقت دے گئے اور کچھ عرصے بعد آپ کی والدہ نے بھی داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ بچپن میں والدین کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت ایک بڑے عالم دین حضرت عبدالکریم شیروانی نے کی، اور ان کے بعد مولانا افتخار الدین گیلانی نے آپ کو علوم ظاہری سے بہرہ ور کیا۔ نماز باجماعت کے بچپن سے عادی تھے۔ سال بھر روزے رکھتے تھے۔ عبادت و ریاضت اور دن رات مجاہدات آپ کی زندگی کی مصروفیت تھی۔ بزرگانِ کامل کی صحبتِ اقدس کا ہی یہ اعجاز تھا کہ آپ جب چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تاجدارِ روحانیت، ولایت اور اپنے عہد کی نابغہِ روزگار شخصیت حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کی خدمت میں پہنچایا۔
حضرت محبوب الٰہی کی صحبتِ اقدس
حضرت نصیر الدین کو حضرت محبوب الٰہی نے نہ صرف اپنا مرید بنایا بلکہ ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ اس مقدس چھائوں میں حضرت نصیر الدین کو دائمی سکون نصیب ہوا۔
حضرت نصیر الدین کے والدین چونکہ وفات پاچکے تھے اور اب ان کے علاوہ ان کی صرف ایک بہن تھی جو اودھ میں رہتی تھی اور آپ دہلی میں حضرت محبوب الٰہی کی صحبتِ صالحہ میں رہتے تھے۔ آپ کا جب کبھی دل اداس ہوتا اور بہن یاد آتی تو آپ حضرت محبوب الٰہی سے اجازت لے کر اودھ چلے جایا کرتے تھے اور پھر واپس آجاتے تھے۔
حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کو اپنے مرشد سے شدید محبت تھی۔ حضرت محبوب الٰہی نے یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے کے لیے دہلی میں کیلوکھڑی نامی جگہ پر اپنی خانقاہ بنا رکھی تھی۔ خانقاہ کی بالائی منزل پر حضرت عبادت کیا کرتے تھے اور حضرت نصیرالدین اس خانقاہ میں غلام بے مرام کی طرح اپنے مرشد کی خدمت کرتے تھے۔
ایک روز حسبِ معمول فجر کی نماز اور ذکر و فکر کے بعد حضرت محبوب الٰہی اپنی خانقاہ کی بالائی منزل میں تشریف لے گئے۔ خانقاہ کے ساتھ ہی دریا بہتا تھا، وہاں پر لوگ صبح سویرے نہایا کرتے تھے۔ اس روز بھی ایک درویش نے کپڑے اتارے، ان کو ساحل پر رکھا اور خود دریا میں اتر گیا۔ نہانے میں وہ اس قدر مشغول تھا کہ اسے اپنے کپڑوں کا ہوش نہ رہا۔ اچانک ایک چور آیا، اُس نے درویش کو پانی میں ڈبکی لگاتے دیکھا اور ان کے کپڑے اڑا کر لے گیا۔ جب درویش نہا دھو کر ساحل پر آیا تو اپنے کپڑے نہ پاکر شور مچانے لگا۔ اس کے اردگرد لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا اور اس قدر شور مچنے لگا کہ اس کی آواز حضرت محبوب الٰہی کی خانقاہ تک بھی پہنچ گئی۔ حضرت نصیرالدین شور سن کر خانقاہ سے باہر نکلے اور اس درویش کو خاموش رہنے کی تلقین کی کہ مبادا اس کے شور سے حضرت محبوب الٰہی کی عبادت میں خلل پڑے۔ درویش نے چراغ دہلوی کی بات سنی تو اور زور زور سے چیخنے لگا اور کہنے لگا ’’میرا لباس کوئی چرا کر لے گیا ہے تو کیا میں خاموش ہوجائوں! اگر مجھے خاموش کرنا ہے تو مجھے میرا لباس لاکر دو‘‘۔ چراغ دہلوی بولے ’’صبر کرو، تمہارا لباس ابھی مل جاتا ہے۔‘ُ
یہ کہہ کر آپ خانقاہ میں گئے، وہاں جاکر آپ نے ایک تہمد باندھی اور کپڑے اتارکر اس درویش کو دے دیے۔ درویش نے حیرانی سے پوچھا ’’مگر یہ کپڑے تو میرے نہیں، آپ نے اپنے کپڑے کیوں مجھے اتار کر دیے ہیں؟‘‘
حضرت چراغ دہلوی بولے ’’تمہیں کپڑے چاہئیں، کپڑے لو اور اپنا راستہ ناپو، مجھے خدشہ ہے کہ تمہارے شور سے میرے مرشد کی عبادت میں خلل پڑے گا‘‘۔
وہ درویش کپڑے لے کر چلاگیا۔ اب جب سارے کپڑوں سے عاری صرف دھوتی میں ملبوس چراغ دہلوی خانقاہ میں پہنچے تو ساتھی مریدوں نے پوچھا: یہ کیا قصہ ہے؟ ابھی چراغ دہلوی کچھ بتانے کے لیے تیار ہورہے تھے کہ خادم نے آکر بتایا کہ اوپر حضرت یاد کررہے ہیں۔ اس حالت میں آپ کو اوپر جانے میں تامل ہوا، مگر نہ جانا بھی گستاخی تھی۔ ڈرتے ڈرتے جب آپ بارگاہِ مرشد میں پہنچے تو حضرت محبوب الٰہی نے فرمایا ’’نصیر الدین گھبرائو مت، ہم تمام واقعے سے باخبر ہیں اور ہمیں بڑی خوشی ہوئی ہے کہ تم ہمارے سعادت مند اور بلند مرتبہ مرید ہو‘‘۔ اس کے بعد حضرت محبوب الٰہی نے اپنی پوشاک نصیر الدین چراغ دہلوی کو عطا کی۔ اس تحفۂ مرشد کو حاصل کرکے چراغ دہلوی کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ کہتے تھے ’’مجھے پوری کائنات مل گئی‘‘۔ دوسرے مرید بھی رشک کرتے تھے کہ ایسا خوش نصیب مرید روئے زمین پر نہ ملے گا جس پر مرشد کا اس قدر تلطف ہے۔
آخر رمضان کی 17 اور 18 تاریخ کی درمیانی شب 757ھ بمطابق ستمبر 1356ء کو اس میر درخشاں کا وصال ہوگیا اور وصیت کے مطابق آپ کی استعمال کردہ اشیاء آپ کے ساتھ قبر میں دفن کردی گئیں۔ اس انوکھے فیصلے سے تمام مرید پریشان تھے۔ آخر آپ کے وصال کے کچھ عرصے بعد آپ کے ایک مرید آپ کے مزار پر گئے اور عرض کی: حضرت اب تو بتادیں کہ آپ نے اپنے تبرکات لوگوں میں کیوں نہ تقسیم کیے تھے؟ اس کی زمزیت کا پتا چل جائے تو دل کو سکون مل جائے گا۔ ان باتوں کے دوران ہی وہ مرید سوگیا اور خواب میں اس کی ملاقات چراغ دہلوی سے ہوئی۔ انہوں نے فرمایا ’’میں نے اپنے متبرکات اس لیے اپنے مریدوں کو نہیں دیے کہ باوجود اس کے وہ سب کے سب بڑے صاحبِ کرامت ہیں مگر ان تمام کے دلوں میں تعصب ہے، اور جس شخص کے دل کے اندر تعصب ہوگا وہ میری متبرکات حاصل کرنے کا حق دار نہ ہوگا، اس لیے میں نے اپنی متبرکات اپنی قبر میں دفن کرا دینے کا حکم دیا تھا۔‘‘
آپ کے مزار کا گنبد فیروز شاہ نے آپ کی زندگی میں ہی تعمیر کروایا تھا۔ آپ کی درگاہ بارہ دروازوں پر مشتمل ہے۔ بارہ دری میں سنگِ جار کے ستون ہیں اور پردوں میں سنگِ سرخ کی جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ گنبد کا کلس سورج کی روشنی میں یوں چمکتا ہے جیسے چراغ دہلوی اپنی ضیا باریاں اس کلس کے ذریعے لوگوں تک پہنچارہے ہوں۔ آپ کا مزار شاہ جہاں آباد سے چھے کوس کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے۔