’’تبدیلی‘‘ اور موجودہ حکومت متبادل اصطلاحات بن گئی ہیں۔ سابق حکومتوں کے قائدین اور رہنما بھی موجودہ حکومت سے ’’تبدیلی‘‘ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عوامی سطح پر سب سے بڑی توقع یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں سہولیات آئیں۔ عوامی فلاح اور سہولیات کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن فوری توقع اس بات کی کی جاتی ہے کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اگر کمی نہیں ہوتی تو ان میں اضافہ بھی نہ ہو۔ پاکستان تحریک انصاف اُن جماعتوں میں شامل ہے جنہوں نے انتخابات میں عوام کو پیغام دیا تھا کہ وہ ’’آزمائی ہوئی‘‘ جماعتوں کو ووٹ نہ دیں، اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو ’’تبدیلی‘‘ کی علامت قرار دے کر تیسری بڑی سیاسی جماعت بنادیا ہے۔ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ عوام کو ’’مہنگائی کے سونامی‘‘ سے کس طرح محفوظ رکھتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حکومت فوری طور پر عوام کو ریلیف نہیں پہنچا سکتی، لیکن کیا ایسی امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت نے ’’پہلا قدم‘‘ اٹھا لیا ہے؟ کچھ عرصے کے بعد ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ عوام کی زندگی میں بہتری آئے؟ کیا تحریک انصاف اور عمران خان کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو ’’متبادل‘‘ پالیسیاں تشکیل دے سکے؟ کیا ایسا وژن موجود ہے جس کے نتیجے میں عوام سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصال کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوسکیں؟ قومی معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت آئی ایم ایف سے نئے قرضوں کے معاہدے کے لیے کشکول اٹھائے گی؟ آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان آیا ہوا تھا جس کے ساتھ وزارتِ خزانہ کے حکام نے وزیر خزانہ کی قیادت میں بات چیت کی ہے۔ ان مذاکرات کی جو خبریں آئی ہیں اُن سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹیکس کی وصولیابی میں اضافہ کرے اور اس کے دائرے کو وسیع کرے، یعنی عوام کے اوپر مزید ٹیکس لگایا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ماضی کے قرضوں کی ادائیگی ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کی ضرورت ہے۔ پاکستانی معیشت کا قدیم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ادائیگی کا توازن ہمیشہ خراب رہا ہے۔ اس لیے قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لیے جاتے رہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے قوم آج تک نہیں نکل پائی ہے۔ یہ بھی اس مسئلے کا سب سے اہم موضوع ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کے وسائل میں کوئی کمی نہیں ہوتی، یعنی عوام کی قوتِ خرید تو کم سے کم ہوجاتی ہے لیکن اشرافیہ کی دولت و ثروت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صرف کرپشن کی داستانوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے تو ہماری اشرافیہ جو اقلیت میں ہے اُس کی دولت امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داروں سے بھی زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود عوام کو سہولیات پہنچانے کے لیے کوئی تجویز مقتدر طبقات کے معاشی ماہرین کے پاس موجود نہیں ہے۔ سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ملک میں محصولات اور ٹیکسوں کی وصولی کا منصفانہ اور سادہ نظام دیا جائے۔ لیکن آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی سرمایہ دارانہ قوتوں کے ہر حکم کی تابعداری تو کی جاتی ہے، قومی وسائل کا جمعہ بازار لگادیا جاتا ہے لیکن ملک کی معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور ٹیکسوں کی وصولی کا سادہ اور منصفانہ نظام قائم کرنے سے پہلوتہی کی جاتی ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ ملک میں ٹیکس کا کلچر نہیں ہے۔ بلکہ کرپشن، بدعنوانی اور رشوت و کمیشن کی رقوم کو تحفظ دینے کے لیے شفاف اور منصفانہ ٹیکس کے نظام کی تشکیل سے گریز کیا جارہا ہے۔ مختصر مدت میں نئی حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اُن سے مہنگائی کا سیلاب آگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنے وزرا کے ساتھ مشاورتی اجلاس کیا ہے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی ایسا قدم سامنے نہیں آیا ہے کہ جس سے عوام کے مسائل یعنی کم از کم مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کی اُمید کی جاسکے۔ بڑی جماعتوں کو عوام نے اگر مسترد کیا ہے تو اس لیے کہ ان کے رہنما انتخابی مہم کے دوران جوشِ خطابت میں سہانے خواب دکھاتے ہیں۔ کیا یہ روایت ’’تبدیلی‘‘ کے علَم برداروں اور دعویداروں کی جانب سے بھی برقرار رہے گی؟ حکومت کے صرف چند دنوں میں ٹیکسوں میں اضافے، ڈالر کی قیمت اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کی نئی لہر آگئی ہے۔ متوسط اور غریب طبقات کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ معاشی صورتِ حال کے بارے میں خدشات برقرار ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بھی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں کے زخم خوردہ ہیں۔ سخت اقدامات کے باوجود اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرے اور طاقت ور، خوش حال اور بااثر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالے، جب ہی ’’تبدیلی‘‘ کے دعوے حقیقت بن سکیں گے۔