تقو یٰ

تقویٰ کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقویٰ ہے کیا چیز۔ تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں، بلکہ دراصل یہ نفس کی اُس کیفیت کا نام ہے جو خداترسی اور احساسِ ذمے داری سے پیدا ہوتی ہے، اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمے داری و جواب دہی کا احساس ہو، اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں، اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیتِ الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے، اور اُن انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کردی ہے۔ یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اُس کا ضمیر بیدار ہوتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے۔ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو، اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پارہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کررہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خودبخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خداترسی ہر اُس موقع پر اُس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور اِس خیال سے بھی اُس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرے میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِ فکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے، اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ بس اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جاسکتی ہو، وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو سکھا دی گئی ہیں، ان کی پابندی تو انتہائی اہتمام کے ساتھ ہورہی ہے، مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوئوں میں وہ اخلاق، وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِعمل ظاہر ہورہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار، ایمان کے ابتدائی مقتضات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ یعنی حضرت مسیح ؑ کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جارہے ہیں اور اونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جارہے ہیں۔
حقیقی تقویٰ اور مصنوعی تقویٰ کے اس فرق کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے اندر طہارت و نظافت کی حس موجود ہے، اور پاکیزگی کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ایسا شخص گندگی سے فی نفسہٖ نفرت کرے گا خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو، اور طہارت کو بذاتِ خود اختیار کرلے گا خواہ اس کے مظاہر کا احاطہ نہ ہوسکتا ہو۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے جس کے اندر طہارت کی حس موجود نہیں ہے مگر وہ گندگیوں اور طہارتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے جو کہیں سے اس نے نقل کرلی ہیں۔ یہ شخص اُن گندگیوں سے تو سخت اجتناب کرے گا جو اس نے فہرست میں لکھی ہوئی پائی ہیں، مگر بے شمار ایسی گھنائونی چیزوں میں آلودہ پایا جائے گا جو اُن گندگیوں سے بدرجہا زیادہ ناپاک ہوں گی جن سے وہ بچ رہا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اس فہرست میں درج ہونے سے رہ گئیں۔ یہ فرق جو میں آپ سے عرض کررہا ہوں، یہ محض ایک نظری فرق نہیں ہے بلکہ آپ اس کو اپنی آنکھوں سے اُن حضرات کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں جن کے تقویٰ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف اُن کے ہاں جزئیاتِ شرع کا یہ اہتمام ہے کہ ڈاڑھی ایک خاص مقدار سے کچھ بھی کم ہو تو فسق کا فیصلہ نافذ کردیا جاتا ہے۔ پائنچہ ٹخنے سے ذرا نیچے ہوجائے تو جہنم کی وعید سنادی جاتی ہے۔ اپنے مسلکِ فقہی کے فروعی احکام سے ہٹنا ان کے نزدیک گویا دین سے نکل جانا ہے۔ لیکن دوسری طرف دین کے اصول و کلیات سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی پوری زندگی کا مدار انہوں نے رخصتوں اور سیاسی مصلحتوں پر رکھ دیا ہے۔ اقامتِ دین کی سعی سے گریز کی بے شمار راہیں انہوں نے نکال رکھی ہیں۔ غلبۂ کفر کے تحت ’اسلامی زندگی‘ کے نقشے بنانے ہی میں ان کی ساری محنتیں اور کوششیں صرف ہورہی ہیں، اور انہی کی غلط رہنمائی نے مسلمانوں کو اس چیز پر مطمئن کیا ہے کہ ایک غیر اسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے، بلکہ اس کی خدمت کرتے ہوئے بھی ایک محدود دائرے میں مذہبی زندگی بسر کرکے وہ دین کے سارے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ مطلوب نہیں ہے جس کے لیے وہ سعی کریں۔ پھر اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے سامنے دین کے اصلی مطالبے پیش کرے اور سعیِ اقامتِ دین کی طرف توجہ دلائے تو صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی بات سنی اَن سنی کردیتے ہیں بلکہ کوئی حیلہ، کوئی بہانہ اور کوئی چال ایسی نہیں چھوڑتے، جو اس کام سے خود بچنے اور مسلمانوں کو بچانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس پر بھی ان کے تقویٰ پر کوئی آنچ نہیں آتی اور نہ ہی مذہبی ذہنیت رکھنے والوں میں سے کسی کو یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے تقویٰ میں کوئی کسر ہے۔ اسی طرح حقیقی اور مصنوعی تقویٰ کا فرق بے شمار شکلوں میں ظاہر ہوتا رہتا ہے، مگر آپ اسے تب ہی محسوس کرسکتے ہیں جب تقویٰ کا اصل تصور آپ کے ذہن میں واضح طور پر موجود ہو۔میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع، قطع، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انہیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقتِ تقویٰ ہے، نہ کہ مظاہر۔ حقیقتِ تقویٰ جس کے اندر پیدا ہوگی اُس کی پوری زندگی ہمواری و یک رنگی کے ساتھ اسلامی زندگی بنے گی۔
(تفہیم احکام القرآن، جلد اول(