صدر ڈونلڈٹرمپ کتنے ہی متنازع، متلون مزاج اور غیر سنجیدہ کیوں نہ سمجھے جاتے ہوں، دنیا میں امریکی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے وہ مرحلہ وار آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دنیا کے ہر خطے میں موجود روایتی امریکی حلیفوں کو نئے سرے سے منظم کیا ہے اور نئے دور کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے ان حلیفوں کے نئے رول متعین کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما کے مقابلے میں یہ روایتی امریکی حلیف ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ زیادہ پُرجوش ہیں اور دنیا میں طاقت کی کشمکش میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ کے لیے اصل چیلنج دنیا میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثرات ہیں۔ یہ اثرات دنیا میں امریکی بالادستی کے مقابلے میں طاقت کے ایک نئے مرکز کے طور پر وجود میں آنے والی سپر پاور کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ کہیں معاشی تعاون کی صورت میں، کہیں اسٹرے ٹیجک منصوبوں کی شکل میں، کہیں فوجی تعاون کی صورت میں یہ چیلنج ہرگزرتے دن کے ساتھ امریکہ کی ’’یونی پولر‘‘ (Uni Polar) بالادستی میں نقب لگا کر اپنا حصہ وصول کرتا چلا جارہا ہے۔ اگرچہ اب تک کہیں بھی چین، امریکہ کشمکش نے عسکری تنازع کی صورت اختیار نہیں کی ہے، لیکن امریکی جارحانہ رویہ کسی بھی مرحلے پر یہ محاذ بھی کھول سکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ دونوں طرف سے عسکری محاذ کے کھل جانے کی تیاری بھی پوری موجود ہے۔
ایک طرف امریکہ نے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ’’انڈوپیسفک‘‘ الائنس کے ذریعے بحرالکاہل سے بحرہند اور خلیج فارس تک، اور دوسری طرف بحر جنوبی ہند (South China Sea) تک نگرانی، انٹیلی جنس اور ملٹری تعاون کا نیٹ ورک تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، جس میں آسیان ممالک کو بھی شامل کرکے اسے مزید مضبوط کیا جارہا ہے۔ جب کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک اور مصر و اردن کو شامل کرکے ایک نئے اتحاد کی شکل دی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کی اقوام متحدہ میں کی گئی آخری تقریر میں اس کا حوالہ موجود ہے۔
افغان جنگ امریکی انتظامیہ کے لیے کئی لحاظ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ امریکہ افغانستان کو جوں کا توں چھوڑ کر جا نہیں سکتا، کیوں کہ اس سے اولاً تو امریکہ کی شکست کا تاثر حقیقت میں بدل جائے گا جس کا امریکہ کسی طرح بھی متحمل نہیں ہوسکتا، اور دوئم یہ کہ اس کے بعد خطے میں چین اور روس کی بالادستی مسلمہ حقیقت بن جائے گی، اور بھارت کو بھی خطے میں امریکہ کے بجائے مقامی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑے گا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کا رویہ پاکستان کے لیے کبھی دھمکی آمیز ہوجاتا ہے اور کبھی خطے میں پاکستان کی اہمیت کو قبول کرنے اور امن کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے کے وعدے کیے جانے لگتے ہیں۔ امریکی تاریخ کی یہ مہنگی ترین جنگ جس میں اب تک امریکی 700 بلین ڈالر سے زائد سرمایہ جھونک چکے ہیں، 17 سال گزرنے کے بعد بھی امریکی اہداف کے حصول سے کوسوں دور ہے۔
امریکہ کی مدد سے تشکیل دی گئی افغان حکومت دنیا کی بدعنوان ترین حکومتوں میں سے ایک ہے۔ افغان آرمی جو امریکی آرمی کی تربیت یافتہ ہے، خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ بلکہ خود امریکی رپورٹوں کے مطابق تقریباً ایک تہائی فوج سرے سے موجود ہی نہیں۔ یا تو فوجی چھوڑ کر جاچکے ہیں یا Ghost بھرتیاں کی گئی تھیں۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ حکومتی کنٹرول بیشتر اضلاع میں ضلعی ہیڈ کوارٹرز تک محدود ہے، باقی جگہ حکومت طالبان کی چلتی ہے۔ ایسے میں چند ہزار امریکی فوجی جو اپنے فوجی اڈوں میں قلعہ بند بیٹھے ہیں آخر کس طرح پورا ملک قابو میں رکھ سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی یاد بار بار ستاتی ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح پاکستان سے وہ کام لے جو خود امریکی افواج، افغان حکومت اور افغان فوج پچھلے 17 سال میں نہیں کرسکے۔ وہ بار بار کہتا ہے، مطالبہ کرتا ہے کہ طالبان کو نشانہ بنایا جائے، طالبان لیڈرشپ کو آمادہ کیا جائے کہ وہ بات چیت کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر امریکی افواج کی موجودگی میں شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرلیں اور بالآخر خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنیں۔
اس سے بڑھ کر امریکہ کا پاکستان سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ خطے میں امریکہ کی نگرانی میں ترقی پانے والے بھارت کی بالادستی کو قبول کرے اور اسے اپنی سرزمین کے ذریعے افغانستان تک فوجی اور معاشی رسائی دے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان امریکی مطالبات کو ماننے کے بعد امریکہ پاکستان کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں، بلکہ اس کے حصے میں صرف امریکی اور بھارتی محکومیت کا طوق ہے جو اسے قبول کرنا پڑے گا۔
ہر گزرتا ہوا دن خطے میں امریکی پوزیشن کو کمزور سے کمزور کرتا جارہا ہے، ایسے میں امریکہ میں پاکستان کے خلاف غم و غصہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ اگرچہ امریکی انتظامیہ کے بیانات پاکستانی کرتا دھرتائوں کو مستقبل قریب میں متوقع امریکی اقدامات کی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی تھنک ٹینکس میں جاری مباحث امریکی ارادوں کا پتا دیتے ہیں۔ ان تھنک ٹینکس کے مطابق اگر پاکستانی حکومت امریکی انتظامیہ کا کہا نہیں مانتی تو اس کے پاس درج ذیل اقدامات اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں:
٭دنیا کے سامنے پاکستان کے کرتوت کھول کر بیان کیے جائیں، مثلاً اُن تمام طالبان اور حقانی گروپ کے لیڈروں کے نام شائع کیے جائیں جو پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، اس سے بڑھ کر ان رہنمائوں کی پاکستان میں موجودگی کے علاقے اور سیٹلائٹ نقشے بھی عوامی سطح پر عام کیے جائیں۔
٭امریکی فوج اور ڈرون اپنے دشمنوں کا جارحانہ پیچھا کریں اور اگر وہ پاکستانی سرحدی علاقوں یا پاکستان کے اندر بھی پائے جائیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
٭پاکستان کی فوجی امداد مکمل طور پر بند کردی جائے۔
٭افغانستان میں موجود اتحادی افواج کو سامانِ رسد کی سپلائی کے متبادل راستے مستحکم کیے جائیں۔
٭پاکستان کا NON NATO اتحادی کا درجہ ختم کردیا جائے۔
٭عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کو قرضے کی سہولت امریکی دبائو کے ذریعے فوری طور پر روکی جائے۔
٭پاکستان کو فوری طور پر ’’دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے ملک‘‘ کی حیثیت دے کر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اُس فہرست میں شامل کردیا جائے۔
ماضی کی حکومتوں کی طرح نئی سیاسی حکومت کا عالمی تناظر میں یا خطے کے حوالے سے کوئی وژن نظر نہیں آتا۔ یا اگر کوئی وژن ہے تو تاحال سامنے نہیں آسکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی ناقابلِ فہم ہے جب کہ اس اجلاس میں کئی اہم ممالک کے سربراہانِ مملکت شریک ہوئے ہیں۔ نئے وزیراعظم کا مؤقف خطے کے مسائل بھارت، کشمیر، افغانستان اور مغربی ممالک کے حوالے سے سامنے آنے کا یہ سنہری موقع تھا۔
اس صورتِ حال میں حکومتی سطح پر خارجہ محاذ پر ہونے والی سرگرمی عوام کو یہ سمجھنے پر مجبور کررہی ہے کہ ماضی کی طرح خارجہ محاذ آج بھی Out Source ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے کامرس اور انڈسٹری عبدالرزاق دائود کی جانب سے سی پیک کے کچھ معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لینے اور انہیں شفاف بنانے کا جو مطالبہ سامنے آیا ہے وہ اس قدر مبہم تھا کہ کسی کی سمجھ میں ہی نہ آسکا، اور جب اس پر اُن سے استفسار ہوا تو انہوں نے اس کی تردید کردی کہ اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا گیا۔ یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مشیر صاحب کے اس بیان کے نتیجے میں کون سے معاہدوں کا جائزہ لیا جائے گا؟ ان میں کیا غیر شفافیت تھی؟ وہ شفافیت بعد میں کس طرح اور کس کے ہاتھوں یقینی بنائی گئی؟ اور ان معاہدوں کے غیر شفاف ہونے کا کس کو فائدہ ہوا اور کون ذمے دار تھا؟ یہ سب پاکستان کے عوام کبھی نہ جان سکیں گے۔
امریکی رویّے کے خلاف بظاہر پاکستانی حکمت عملی وہی نظر آتی ہے جو عمومی طور پر چین کی دیگر معاملات میں امریکہ کے ساتھ نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ براہِ راست مخاصمت (Friction) سے بچا جائے بلکہ مختلف الخیال قوتوں کو شریک کیا جائے تاکہ خطے میں ہر قوت کا اسٹیک موجود ہو اور حالات مکمل خرابی کی جانب نہ جاسکیں۔ غالباً سی پیک میں سعودی عرب کو تیسرے بڑے شراکت دار کی حیثیت سے شمولیت کی دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
لیکن پاکستانی عوام کے سامنے یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر جب امریکی سپریمیسی دائو پر لگی ہوئی ہے اور امریکی پیمانۂ صبر چھلکا پڑتا ہے کیا امریکی ان ’’چنوں اور موم پھلیوں‘‘ سے بہل جائیں گے؟
افغان طالبان کا پاکستانی علما کے نام خط
افغانستان کے طالبان نے پاکستانی علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی علماء کانفرنسوں میں شرکت نہ کریں۔ مذکو رہ کانفرنسوں میں طالبان کے خلاف فتویٰ جاری کرکے جہاد کی شرعی حیثیت کو اسلامی نکتہ نگاہ سے چیلنج کیا جائے گا تاکہ کانفرنسوں کے ذریعے افغانستان میں جاری جہاد کو کمزور کیا جاسکے۔ اگر امریکہ اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے پاکستان، بھارت، وسطی ایشیا اور عرب مسلمانوں کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوگا اور امت مسلمہ کے زوال کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگا۔ دشمن آپ کی شرکتِ محض سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔ ایسے اجتماعات میں علمائے کرام جتنی بھی حق بات کرلیں، دشمن اسے کوئی اہمیت نہیں دے گا۔ افغان طالبان نے پاکستانی علمائے کرام و مشائخ عظام کو ایک خط لکھا ہے،خبر رساں ایجنسی ’’این این آئی‘‘ کو موصول ہونے والے اس خط میں کہاگیا ہے کہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے امید ہے آپ صحت و عافیت کے ساتھ ہوں گے، ہم امارتِ اسلامیہ افغانستان کے منسوبین و متعلقین اور تمام افغان عوام کی نمائندگی کے ساتھ نیک تمنائیں اور اسلامی اخوت کی محبتیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں افغانستان گزشتہ سترہ سال سے امریکہ کی جارحیت کا شکار ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان اس کی ایک مقبوضہ ریاست بن جائے۔ وہ یہاں عسکری مراکز اور انٹیلی جنس اڈے قائم کرے تاکہ’افغانستان‘ کی اسٹرے ٹیجک حیثیت استعمال کرکے عالم اسلام کو کمزور اور ختم کرنے کی سازشیں کر سکے۔ خط میں کہاگیا کہ امریکہ اس سال طالبان (امارتِ اسلامیہ) پر مختلف طریقوں سے دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔ وہ عسکری، سیاسی، حتیٰ کہ مذہبی دباؤ بھی ڈالے گا تاکہ ہم جنگ سے دست بردار ہوجائیں۔ مذہبی دباؤ سے مطلب یہ ہے کہ افغانستان، پاکستان اور کچھ دیگر ممالک کے مسلم علماء کی کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی۔ ان کانفرنسوں میں طالبان کے خلاف فتویٰ جاری کرکے ان کے جہاد کی شرعی حیثیت کو اسلامی نکتہ نگاہ سے چیلنج کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا کہ اب جب کہ ان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عنقریب انڈونیشیا، کابل اور سعودی عرب کے بعد اورجگہوں میں بھی ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں گے۔ ہم علمائے کرام اور مشائخِ عظام سے یہ درخواست اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کانفرنسوں میں شرکتِ محض سے بھی احترازکیا جائے، کیوں کہ سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اگرچہ اس کانفرنس کا موضوع اور عنوان دینی ہے، اسے مسلم علماء کی مجلس قرار دیا جاتا ہے، مگر اس کا ہدف اور مقصد غلط ہے۔ اس کا اصل محرک اسلام کا شدید مخالف امریکہ ہے، وہ چاہتا ہے کہ ان کانفرنسوں کے ذریعے افغانستان میں جاری جہاد کو کمزور کرسکے۔ خط میں کہاگیا کہ دوسری بات یہ ہے کہ علمائے کرام اس طرح کی کانفرنسوں میں جس نیت سے بھی شریک ہوں، جس مجبوری کی وجہ سے بھی شرکت کریں، دشمن بہرحال آپ کی وہاں شرکتِ محض سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔ ایسے اجتماعات میں علمائے کرام جتنی بھی حق بات کرلیں، دشمن اسے کوئی اہمیت نہیں دے گا۔ اس طرح کی کانفرنسوں میں شرکت علماء کی معاشرتی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے، جس سے علما، طلبہ، عام مسلمان اور مجاہدین کے درمیان بداعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے جن قابلِ قدر علمائے عظام نے ساری زندگی مدرسہ و مسجد کے استغنا میں گزار دی ہے جو کہ للہ فی اللہ امتِ مسلمہ کے شان دار مستقبل کے لیے ایک عظیم دینی خدمت ہے، ہماری نظر میں علمائے کرام کی عزت و توقیر اسی میں ہے کہ ایسی مجالس سے گریز کیا جائے تاکہ اسلام دشمن قوتیں انہیں اپنے شیطانی اہداف کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔