وزیراعظم عمران خان کی طرف سے مودی کو لکھے گئے جوابی خط میں دعوتِ مذاکرات پر بھارت کا مثبت رویہ پانی کا بلبلہ ہی ثابت ہوا۔ مذاکرات پر آمادگی کے ایک دن بعد ہی بھارت نے وزرائے خارجہ کی ملاقات اور مذاکرات سے انکار کردیا، اور یوں اب امریکہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات نہیں ہوسکے گی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی برف پگھلنے کا امکان بھی باقی نہیں رہا۔
بھارت نے وزرائے خارجہ کی ملاقات سے انکار کی تین وجوہات بیان کیں: (1)جموں سیکٹر میں بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک حوالدار کی ہلاکت، (2)وادی میں تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت، اور3) (کشمیرکی نئی نسل کے ہیرو برہان وانی شہید کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ ملاقات سے قبل اس طرح کے اقدامات سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی طرف سے مذاکرات اور ملاقات سے انکار کو داخلی دبائو کا شاخسانہ قرار دیا۔
بھارت نے اس مرحلے پر دنیا بھر کے امن پسندوں کو ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی مایوس کیا ہے، جو پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا ازحد خواہش مند ہے، کیونکہ پاک بھارت کشیدگی کا اثر پاک امریکہ تعلقات پر بھی منفی انداز سے پڑ رہا ہے۔ امریکہ کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربتیں پاکستان کو اُس سے قدم بقدم دور کرتی جارہی ہیں۔ امریکہ نے پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کا اعلان ہوتے ہی اس کا زبردست خیرمقدم کیا تھا۔ امریکی میڈیا نے بھی کہنا شروع کیا تھا کہ امریکہ عمران خان کو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا موقع دینا چاہتا ہے۔ خود بھارت پر بھی امریکہ کا غیر محسوس دبائو تھا، کیونکہ امریکہ دہشت گردی کا ڈھول تو بھارت کے ساتھ مل کر بجاتا ہے مگر جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات عالمی سطح پر ہوتی ہے تو امریکہ کے لیے بھارت کی ہاں میں ہاں ملانا یا اس کی کالک اپنے ہاتھوں اور چہرے پر مَلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے امریکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امریکہ کو پاکستان کے جس سطح کے تعاون کی ضرورت ہے وہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب بھارت افغانستان کو اڈہ بنانے کی روش ترک کردے۔ اب بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تار دوبارہ جوڑنے سے انکار کرکے خطے کے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت پاکستان کو آنے والے انتخابات کا موضوع بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان حال ہی میں انتخابی عمل سے گزرا ہے، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے انتخابی مہم میں بھارت اورکشمیر کو قطعی موضوع نہیں بنایا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کی رائے عامہ میں بھارت کے حوالے سے ایک ٹھیرائو کے آثار ہیں، مگر بھارت کے انتہا پسندوں کو یہ ماحول سازگار اور پسند نہیں۔ اسی لیے وہ حکومتوں کو اعتدال اور مذاکرات سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات اور ملاقاتوں سے انکار کی یہ روش صرف بھارت ہی نہیں، جنوبی ایشیا کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔
پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ ہوتے ہی بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے پاکستان کو دھمکی دے ڈالی۔ جنرل راوت کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اسی کی زبان میں سبق سکھایا جائے اور درد محسوس کرایا جائے، پاکستانی فوج اس طرح سدھرنے والی نہیں، جواب کے لیے جگہ اور وقت کا انتخاب خود کریں گے کیونکہ جنگ ایک سرپرائز کا نام ہوتی ہے۔ جنرل راوت کے اس دھمکی آمیز بیان کے جواب میں پاکستان کی طرف سے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت کا مذاکرات سے انکار افسوسناک ہے۔
بھارت کا رویہ متکبرانہ ہے۔ اس کی قیادت بصیرت سے محروم اور ذہنیت چھوٹی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی آرمی چیف کی طرف سے دھمکی کا بھرپور انداز میں جواب دیا اور کہا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، مس ایڈونچر کی کوشش کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے۔ فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے داخلی مسائل ہمارے کندھے پر رکھ کر حل نہ کرے۔
جنرل بپن راوت کی دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بھارت کی مودی حکومت کئی داخلی مسائل کا شکارہے اور اسے چند ماہ بعد انتخابی معرکہ بھی درپیش ہے۔ داخلی مسائل میں سرفہرست حال ہی میں طیاروں کی خریداری میں کمیشن کا اسکینڈل ہے۔ اپوزیشن جماعتیں طیاروں کے سودے میں مودی پر کمیشن کا الزام عائد کررہی ہیں اور گزشتہ روز ’’ہمارا وزیراعظم چورہے‘‘ ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ تھا۔ ابھی ابتدائے عشق ہے اور آگے چل کر یہ اسکینڈل مودی حکومت اور بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ مودی پاکستان کے انتخابی نتائج اور یہاں تشکیل پانے والے منظر سے بھی کبیدہ خاطر ہیں، کیونکہ ان کی خواہش’’حسینہ واجد‘‘ طرز کی ایک فرینڈلی حکومت کا قیام تھا۔ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد جو خیرسگالی کے جذبات اور اشارے ہوئے وہ محض رسمِ دنیا نبھانے اور زخموں کو چھپانے کی کوشش تھی۔
مودی کی ایک اور مشکل مقبوضہ وادیٔ کشمیر ہے جو مچھلی کی طرح بھارت کے ہاتھ سے پھسلتی جارہی ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے اور وہاں کی زمین اور عوامی دنیا ایک ایسی دلدل بن کر رہ گئی ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت دھنستا چلا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سویلین سیٹ اَپ قائم کرنے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہوسکیں۔ یہ مودی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست میں ایک اہم نکتہ ہے۔ اس لیے مودی حکومت کے پاس واحد آپشن پاکستان کارڈ رہ جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی پہلے سے موجود ہے اور بھارت اب اس کشیدگی کو کسی مہم جوئی میں بدلنے کا خواہش مند ہے تاکہ بھارت کا تیزی سے بدلتا ہوا منظرنامہ ایک نئے انداز سے تبدیل ہوکر رہ جائے۔ چند برس قبل بھارت کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈراما رچا چکا ہے۔ یہ سرجیکل اسٹرائیکس کہاں ہوئیں بھارت نے کبھی یہ نہیں بتایا، جبکہ پاک فوج ہمیشہ ایسی کارروائی کی تردید کرتی رہی، اور خود بھارتی میڈیا نے یہ بھانڈا پھوڑا تھا کہ سرجیکل اسٹرائیکس بالی وڈ کی کسی فلم کی طرح مقبوضہ کشمیر کے جنگلوں میں شوٹ کی گئی تھیں، ان کا حقیقت سے دور کا تعلق نہیں تھا۔ اب بھارت پھر کوئی مہم جوئی کرسکتا ہے، مگر یہ برصغیر کا المیہ ہوگا اور کئی المناک واقعات کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور بھارت کو بھرپور جواب دینے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ موجودہ حالات میں عالمی طاقتوں کو بھارت کو کسی مہم جوئی اور حماقت سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، بصورتِ دیگر دونوں ملکوں کی تاریخ میں المناک واقعات کی ایک اور لڑی کی ایک کڑی وجودمیں آئے گی۔