آج کے جدید دور میں ہماری معاشرتی زندگی اور صحت کے منافی عادات نے جہاں بہت سے امراض کو جنم اور فروغ دیا، وہیں دانتوں کے امراض میں پائیوریا بھی تیزی سے پھیلنے والے عام مرض کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ قدیم طب میں اس مرض کو ماس خورہ کہتے ہیں اور قدیم طب میں اس کا شافی علاج بھی موجود ہے۔
ہمارے کھانے پینے کے آداب، دانتوں کی صفائی سے غفلت اور بعض اغذیہ نے اس مرض کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔
مرض کی کیفیت: ابتدا میں مریض جب دانت صاف کرتا ہے یا کُلّی کرتا ہے تو خون آلود پانی کا منہ سے اخراج ہوتا ہے۔ بروقت توجہ نہ دی جائے تو پھر اس خون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ کبھی صبح اٹھتے ہی مریض کے منہ سے خون آتا ہے۔ خون تھوک کر یا کُلّی سے دانت صاف کرکے مریض سمجھتا ہے کہ مرض ختم ہوگیا، حالانکہ مرض موجود ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ خون کی مقدار بڑھتی ہے اور اکثر اوقات خون کے ساتھ پیپ آتی ہے، منہ سے ناگوار بو بھی آنا شروع ہوجاتی ہے اور دانتوں کی صفائی کے باوجود وقتی فائدہ ہوتا ہے۔ بعد ازاں خون اور پیپ اکٹھے آتے ہیں، مسوڑھے کمزور اور جڑوں سے گلنا شروع ہوتے ہیں۔ دانت چونکہ مسوڑھوں میں پیوست ہوتے ہیں، مسوڑھے گل جاتے ہیں تو دانت بعض اوقات ہلنا شروع ہوجاتے ہیں اور جڑوں سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ مریض کے لیے کھانا پینا مشکل ہوجاتا ہے۔
مرض کے اسباب: ہمارے ہاں بچپن ہی سے بچوں کو چاکلیٹ، ٹافیوں، چیونگم اور میٹھی گولیوں کا کثرت سے استعمال بغیر احتیاط کے کرایا جاتا ہے، بچوں کے دانتوں کی صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نوجوان نسل رات گئے بازاری کباب، روسٹ، مرغ اور دیگر غذائیں پیٹ بھر کر کھانے کے بعد رات کو دانت صاف کیے بغیر سونے کی عادی ہوچکی ہے۔ رات کو گوشت یا میٹھا کھانے کے بعد گوشت کے ریزے اور مٹھاس چمٹی رہتی ہے تو منہ میں کیماوی عمل سے مسوڑھوں میں ابتداً تعفن پیدا ہوتا ہے جو کہ بعد میں مسوڑھوں کے اندر انفیکشن پیدا کردیتا ہے۔ اگر مریض توجہ نہ دے تو مسوڑھوں کی پکڑ کمزور ہوجاتی ہے اور دانتوں کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ معمولی کُلّی کرنے یا انگلی سے دانت صاف کرنے سے بھی مسوڑھوں سے پیپ سے آلودہ خون نکلنے لگتا ہے، اور اکثر اوقات ڈینٹسٹ حضرات پوری بتیسی نکالنے کا فیصلہ کردیتے ہیں۔ لیکن مصنوعی دانت قدرت کے انمول موتیوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہوتے۔
یہ مرض اب بڑھاپے یا جوانی کا مرض نہیں رہا بلکہ چھوٹی عمر کے نوجوان بھی اس کی زد میں آتے ہیں، اور مصنوعی دانت لگانے کی صورت میں بے کیف زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دانتوں کے اس تکلیف دہ مرض میں مرد و خواتین سبھی مبتلا ہوتے ہیں۔
پائیوریا کے انسانی صحت پر مضر اثرات:
پائیوریا اگرچہ دانتوں اور مسوڑھوں کا مرض ہے لیکن اس کے منفی اور مضر اثرات پوری انسانی صحت پر پڑتے ہیں۔ جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ دانتوں سے اچھی طرح چباکر کھائی جائے تو ہضم بھی ہوتی ہے اور جزوِ بدن بھی بنتی ہے۔ معدے میں جانے سے پہلے غذا کا دانتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سچے موتی غذا کے معدہ میں جانے سے پہلے قدرت کے چوکیدار ہیں۔ اگر دانت اور مسوڑھے صاف اور صحت مند ہوں گے تو اِن کے چبانے سے غذا عمدہ طریقے سے قابلِ ہضم بن کر لعابِ دہن کے ساتھ معدہ میں جائے گی اور ہضم سدی اور ہضم کبدی کے بعد صالح خوراک اور خون بدن کو ملے گا۔
پائیوریا کا مریض دقت برداشت کرکے غذا کو جیسے تیسے نگل لیتا ہے، لیکن مسوڑھوں کا گندا خون اور پیپ غذا میں شامل ہوجاتے ہیں جو کئی قسم کے امراض کو جنم دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں معدہ میں تیزابیت، کھانے کے بعد جلن اور گرانی پیدا ہوتی ہے۔ معدہ میں قراقر اور بدبودار ڈکاروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ زیادہ عرصے تک مرض رہے تو معدہ کا السر (ULCER) پیدا ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
احتیاطی تدابیر: بنیادی ضرورت تو یہی ہے کہ اِس مرض کو پیدا ہونے سے روکا جائے، سنتِ نبویؐ کے مطابق دانتوں کی صفائی کو اہمیت دی جائے۔ قدرت کا نظام اپناتے ہوئے اگر ایک انسان دن میں پانچ دفعہ وضو کرتا ہے، تو وہ مسواک نہ بھی کرے، صرف کلی کرلے تو دانت معمولی توجہ سے صاف رہتے ہیں، اور اگر مسواک یا کوئی عمدہ منجن معمول بنالیا جائے تو دانتوں کی حفاظت کا معاملہ دوچند ہوجاتا ہے۔
بچوں کو، کھانے سے پہلے، صبح اٹھتے ہی دانتوں کی صفائی کا پابند اور عادی بنایا جائے۔ رات کھانے کے بعد اور سونے سے پہلے دانتوں کی صفائی خصوصاً جب گوشت اور میٹھا استعمال کیا ہو، معمول بنایا جائے تو یہ مرض حملہ آور نہیں ہوتا۔
ایسے افراد جن کے دانتوں میں کھوڑ ہو، یا گوشت کے ریشے پھنس جاتے ہوں وہ خلال (Tooth Picks) سے دانتوں کی صفائی کریں۔ خلال کے لیے لکڑی کے ٹوتھ پکس کو ترجیح دی جائے۔
جدید تحقیق یہ بھی ہے کہ مختلف قسم کے ناقص نائیلون وغیرہ کے سخت ٹوتھ برش اور دانتوں کو چمک دار بنانے کے لیے مختلف کیمیکلز کا استعمال بھی اس مرض کو پیدا کرنے اور بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔ قدیم دور کے بزرگ جو ہمیشہ مسواک یا دیسی منجن استعمال کرتے ہیں ان کے دانتوں کی صحت آج بھی قابلِ رشک ہے۔ ناقص قسم کے منجن جو دانتوں کو ’’چمکانے‘‘ کا اشتہار دیتے ہیں اُن میں بھی ایسے اجزاء شامل ہیں جو مسوڑھوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس سلسلے میں احتیاط سے ہم اپنے دانتوں اور مسوڑھوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ سنت ِنبویؐ کے مطابق اگر مسواک میسر ہو تو تجربے سے ثابت ہے کہ وہ اِن جدید ٹوتھ پیسٹ اور برش سے زیادہ مفید ہے۔ صحت کے علاوہ سنت پر عمل کرنے کا ثواب اس کے علاوہ ہے۔
پائیوریا کے لیے چند مفید گھریلو نسخے:
٭ میتھرے ایک گرام، ایک کپ پانی میں جوش دے کر نمک حل کرکے کلیاں کریں، انتہائی مفید ہے۔
٭ امرود کے ایک دو پتّے پانی میں جوش دے کر نمک حل کرکے دانتوں کی صفائی کریں۔ جملہ امراضِ دنداں میں بے حد مفید ہے۔
٭ خوردنی نمک خالص لے کر کپڑے میں چھان کر میدہ کی طرح باریک کرلیں۔ 50گرام نمک میں روغن جرجیر اتنی مقدار میں ڈالیں کہ نمک تر ہوجائے، اسے کھرل میں ڈال کر اچھی طرح رگڑیں۔ عمدہ ٹوتھ پیسٹ تیار ہوگا۔ صبح و شام آہستہ آہستہ مسوڑھوں پر مَلیں۔ پہلے تین چار دن پیپ اور خون نکلے گا، بعد ازاں چند یوم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پائیوریا سے نجات مل جائے گی۔ روغن جرجیر نہ ملے تو روغنِ زیتون خالص شامل کرلیں۔
٭ پھٹکری سرخ، اگر نہ ملے تو پھٹکری سفید توے پر باریک کرکے نیم گرم آنچ پر پکائیں، جب پگھل جائے تو سرکہ انگوری خالص 25گرام چمچ سے ڈالتے جائیں۔ مسلسل یہ عمل جاری رکھیں، یہاں تک کہ بلبلے ختم ہوجائیں۔ سیاہ رنگ کا منجن تیار ہوگا۔ ماس خورہ کے خاتمے کے لیے عجیب تحفہ ہے۔
٭ دانتوں کی صفائی کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تازہ مسواک کو ترجیح دیں۔ اس مرض کے حملے کا امکان نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔
چنا
دالیں اور سبزیاں ہماری غذا کا لازمی حصہ ہیں۔ غریب افراد غربت کے سبب گوشت، مچھلی، انڈے، گھی، دودھ اور دہی زیادہ نہیں کھا سکتے، جب کہ امیر افراد زیادہ تر یہی اشیا کھانا پسند کرتے ہیں۔
غریب افراد کا گزارا زیادہ تر دالوں اور سبزیوں پر ہوتا ہے، لیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ انھیں بھی روز اپنے دستر خوان کی زینت نہیں بنا سکتے۔
یہ افراد نمکیات، حیاتین (وٹامنز) اور نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) جڑ والی ترکاریوں سے حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ افراد لوبیا، سویا بیج اور مسور کی دال کھا کر بھی غذائیت بخش اجزا حاصل کرتے ہیں۔
چنے کی دال کا پودا چھوٹا، مگر شاخ دار ہوتا ہے۔ اس کی چھوٹی پتیاں ساگ کے طور پر پکائی جاتی ہیں۔ چنے کی دال اُبال کر بھی کھائی جا سکتی ہے۔ عام طور پر دال میں مسالے اور ادرک ڈال کر پکایا جاتا ہے، جو بہت مزا دیتی ہے۔
چنے کی ہری بھری پھلیوں کو چاول میں ڈال کر پلائو بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ پلائو بہت ذائقے دار ہوتا ہے۔
کھانے کے شوقین افراد اس کی کچی پھلیوں کو بھوبھل (گرم راکھ یا ریت) میں ڈال کر پکاتے اور مزے لے کر کھاتے ہیں۔
چنا تندور میں بھون کر بھی کھایا جا سکتا ہے۔ گرم چنے کی خوشبو بہت سوندھی ہوتی ہے۔ بھنا ہوا چنا اکثر دفتروں میں کام کرنے والے، طالب علم، دکان دار اور دیگر پیشوں سے وابستہ افراد دوپہر کو کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں۔
چنے کو پیس کر بیسن بنا لیا جاتا ہے۔ بیسن کے سیو اور پکوڑے بنائے جاتے ہیں، جو اکثر شام کی چائے کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔
چنے کی دال سے حلوہ بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ حلوہ سوجی، مونگ کی دال اور میدے کے حلوے کی نسبت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ بیسن سے روٹی بھی بنائی جاتی ہے، جو ٹماٹر یا ہرے دھنیے کی چٹنی کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔
بعض گھروں میں چنے کی دال کی روٹی یا چنے کی دال کے پراٹھے بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہ پراٹھے بہت مزے دار ہوتے ہیں۔
بیسن میں دہی اور دیگر مسالے ڈال کر ’’کڑھی‘‘ بنا لی جاتی ہے۔ اس میں بیسن سے پھلکیاں بناکر ڈال دی جاتی ہیں، جو ’’کڑھی‘‘ کی لذت میں اضافہ کرتی ہیں۔ ’’کڑھی‘‘ روٹی یا چاول کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔
چٹ پٹے اور مزے دار پکوڑے بنانے کے لیے بیسن میں مسالے شامل کیے جاتے ہیں اور ہری مرچیں بھی کاٹ کر ملا دی جاتی ہیں۔ افطاری کے وقت یہ پکوڑے بہت مزا دیتے ہیں۔ پکوڑے کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے، ورنہ پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔
چنا بہت توانائی بخش غذا ہے۔ خشک یا بھیگا ہوا چنا گدھے اور گھوڑے کو کھلایا جاتا ہے، خاص طور پر دوڑ کے مقابلے میں شریک گھوڑوں کو چنا خوب کھلایا جاتا ہے تاکہ ان کی تیز رفتاری قائم رہے۔ چنا نزلے کی رطوبتوں اور خراب کولیسٹرول کو بھی کم کرتا ہے۔
چنے میں لحمیات (پروٹینز)، چکنائی، نشاستہ، کیلشیم، فولاد، حیاتین الف (وٹامن اے) اور تھایامین (THIAMINE) پائے جاتے ہیں، جو صحت کے لیے مفید ہیں۔
چنے کو اپنی روزانہ کی غذا میں ضرور شامل کریں، تاکہ صحت سے بھرپور زندگی گزاری جا سکے۔