اپوزیشن اور میڈیا اس بحث سے آگے نکل چکے ہیں کہ تحریک انصاف نے ہر کام کے لیے جو ڈیڈلائن دی ہے وہ پوری ہوئی یا نہیں۔ اب خود حکومت کو بھی اس گرداب سے باہر نکل کر عملی طور پر حکومت کرنی چاہیے اور بطور انتظامیہ خود کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہونے کے لیے تیار کرلینا چاہیے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ سرکاری اداروں میں اصلاحات لانی ہیں، معیشت درست کرنی ہے اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں… یہ تینوں اہداف پورے کرنے میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف نے حکومت کو ہر ممکن حد تک تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے منی بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ حکومت کے ہر اچھے اقدام کی حمایت کریں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے اس پیشکش کے بعد اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے کیسے آگے لے کر جائے گی۔ لیکن جس طرح وزیر خزانہ نے کمزور اعدادو شمار کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا ہے اُس پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو بیوروکریسی سے تعاون چاہیے، لیکن حکومت تو اس بجٹ کے لیے کاروباری طبقے اور خاص طور پر اُس بزنس کارٹل پر انحصار کیے بیٹھی ہے جو کبھی بھی ٹیکس دینے کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ہر حکومت سے رعایت مانگنا اس نے اپنی عادت بنا رکھی ہے۔ اب اسی کاروباری طبقے سے تحریک انصاف کی حکومت نے بھی امیدیں باندھ لی ہیں اور اب بھی کامیابی کا تناسب ماضی سے مختلف نظر نہیں آتا۔
تحریک انصاف حکومت میں آئی تو شروع دن سے ہی اسد عمر کا یہ مؤقف رہا کہ حکومت 9 ارب ڈالر کے خسارے میں ہے، لہٰذا یہ رقم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ اسد عمر تحریک انصاف کی حکومت میں وزارتِ خزانہ کے لیے حتمی چوائس تھے، لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس منصب کے لیے حکومت کی پہلی چوائس سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ تھے، لیکن تحریک انصاف کی ایک طاقتور لابی نے ان کا راستہ روک دیا تو وزیراعظم عمران خان کو وزارت ِخزانہ کا منصب اسد عمر کے حوالے کرنا پڑا، تاہم بیوروکریسی کے اہم کل پرزوں سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن اور ڈاکٹر عشرت حسین کے ساتھ کسی حد تک عبدالرزاق دائود کو پالیسی سازی کے اختیارات دے کر حکومت کی اکنامک ٹیم کا حصہ بنادیا گیا۔ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں ساری عرق ریزی اسی ٹیم کی ہے۔
اس بجٹ میں متوسط، غریب اور تنخواہ دار طبقے کے لیے کچھ نہیں ہے، بلکہ ماضی میں ملنے والی مراعات بھی اب چھین لی گئی ہیں۔ یہ بجٹ سابق سیکریٹری خزانہ اشفاق حسن خان، ڈاکٹر عشرت حسین اور مشیر سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود کی براہِ راست نگرانی میں تیار ہوا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا ماضی گواہ ہے کہ وہ وزارتِ خزانہ میں ہوتے ہوئے کبھی عوام دوست بجٹ بنانے کے حق میں نہیں رہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے اُن کی پہلی ترجیح رہے۔ یہ وزارتِ خزانہ کی اُس لابی میں شامل رہے ہیں جو ہمیشہ ہر مسئلے کا حل واشنگٹن کے سائے میں تلاش کرتی رہی ہے۔ یہ جوہرِ نایاب اب تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا نیوکلیس بنے ہوئے ہیں۔ یہی صلاحیت ڈاکٹر عشرت حسین کی ہے۔ ماضی میں وہ شاہ کی وفاداری میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ کرنسی نوٹ پر بانیِ پاکستان قائداعظم کی تصویر کے ساتھ جنرل پرویزمشرف کی تصویر چھاپنے کا خیال ایک اہم بریفنگ میں پیش کردیا، جسے اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے مسترد کردیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ جمالی اس کے بعد زیادہ عرصہ وزیراعظم نہیں رہے۔
منی بجٹ پر مزید بات بعد میں کریں گے، پہلے وزیراعظم کی ٹیم کی تشکیل کے لیے ترجیحات پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ اسد عمر کی طرح وزیر قانون بھی عمران خان کی پہلی چوائس نہیں تھے، ڈاکٹر بابر اعوان اس منصب کے لیے ان کی پہلی چوائس تھے، لیکن وزیراعظم کو ان کی کابینہ کے رکن اور ان کے ایک معتمد ساتھی کے ذریعے ایک اعلیٰ شخصیت نے پیغام بھیجا کہ وہ انہیں وزیر قانون حتیٰ کہ اٹارنی جنرل کے عہدے پر بھی دیکھنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اس پیغام کے بعد وزیراعظم نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا۔ اسی طرح نعیم الحق، زلفی بخاری اور عون چودھری بھی حکومت کے کسی عہدے کے لیے عمران خان کی پہلی چوائس نہیں تھے، تاہم یہ دونوں وزیراعظم کی خاص مجبوری کی وجہ سے عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسری صورت میں حکومت کو ذاتی قسم کی کچھ ’’نیوز لیکس‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا۔ عون چودھری اور نعیم الحق کے بعد زلفی بخاری کی مشیر کے عہدے پر تقرری کے بعد یہ اعتراض سامنے آیا ہے کہ دوستوں میں حکومتی عہدے بانٹے جارہے ہیں۔ اس اعتراض پر سب سے پہلے ایک دوست کا ہی ردعمل آیا۔ نعیم الحق نے اس اعتراض کو مسترد کردیا ہے۔
حکومت کے عہدوں کی تقسیم کے اس مختصر سے پس منظر کے بعد منی بجٹ پر آتے ہیں۔ اس حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر ماضی میں ایک صنعتی ادارے کے سربراہ کے طور پر حکومتی اکنامک ٹیم کو ہر سال بجٹ تجاویز بھیجا کرتے تھے لیکن ان کی ہر تجویز مسترد ہوتی رہی۔ حکومت کی اکنامک ٹیم اب بھی انہی افراد پر مشتمل ہے اور اسد عمر چونکہ اب خود وزیر خزانہ ہیں لہٰذا ماضی کے مقابلے میں وہ بجٹ کے لیے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہیں، اسی لیے وہ ٹیکس میں چھوٹ کے لیے نان فائلرز اور رئیل اسٹیٹ مافیا کے مطالبات تسلیم کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس مافیا کی جانب سے حکومت کو یہ سبز باغ دکھایا گیا ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں ایک بار پھر اندھا دھند اراضی کی خرید و فروخت کا کاروبار ہوگا اور حکومت کو ٹیکس ملے گا۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ جائداد کی قیمت کم ظاہر کرنے کے نظام کے ہوتے ہوئے حکومت کو انتہائی کم ٹیکس ملے گا۔ منی بجٹ میں یہی رعایت آٹو موبائل انڈسٹری کو دی گئی ہے۔ یہ دونوں فیصلے اس حقیقت کا کھلا اظہار ہیںکہ وزیر خزانہ اسد عمر پراپرٹی مافیا جو خود کو بلڈرز کہلواتا ہے، اور آٹو انڈسٹری کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے۔ اور خدشہ یہ بھی ہے کہ نتائج نہ ملے تو حکومت مستقبل میں اپنی اکنامک ٹیم بدلنے پر مجبور ہوجائے گی۔
منصب سنبھالنے سے قبل اسد عمر نے ایف بی آر سے بریفنگ لی تھی تو اُس وقت انہیں معاشی اصلاحات کے لیے بنیادی طور پر چار مشورے دیئے گئے تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ درآمدی بل کیسے کم کیا جاسکتا ہے اور ملک کو 33ارب ڈالر کے تجارتی خسارے سے کیسے باہر نکالا جاسکتا ہے، لیکن انہوں نے ان مشوروں کو نہایت بے اعتنائی سے مسترد کردیا اور جوابی طور پر تلخ جملے بھی کہے، جس پر اسی بریفنگ میں ردعمل آیا کہ نجی ادارے چلانے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ ایسی ہی صورتِ حال وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے ساتھ بھی پیش آئی تھی اور معاملہ بریفنگ میں شریک ایک افسر اور وزیر ریلوے کے مابین لفظ ’’شٹ اپ‘‘ کے جواب میں ’’یو شٹ اپ‘‘ تک پہنچا تھا۔
حکومت کی معاشی ٹیم پر ٹھوس اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ ایک ڈی ایم جی افسر کو چیئرمین ایف بی آر لگا دیا گیا ہے۔ انہیں ٹیکس وصولی کے نظام کی پیچیدگیوں اور مسائل کا قطعاً کوئی اِدراک نہیں۔ فی الحال تو وہ ایف بی آر میں ٹیکس نظام کا گورکھ دھندہ سمجھ رہے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر معاملات کو سمجھنے میں کتنا وقت مزید لیں گے؟ اُس وقت تک مہنگائی کے بہت سے طوفان آچکے ہوں گے۔
منی بجٹ پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) بنیادی اعتراض یہی اٹھا رہی ہے کہ تحریک انصاف پانچ سال تک حکومت پر تنقید کرتی رہی کہ وہ ٹیکس نیٹ نہیں بڑھا رہی، حالانکہ مسلم لیگ(ن) نے نان فائلرز پر کچھ پابندیاں لگائی تھیں۔ اِس حکومت نے اب یہ پابندیاں ہٹادی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ اس فیصلے سے ٹیکس دینے والا طبقہ ہار گیا اور نان فائلر جیت گیا ہے۔ حکومت نے نان فائلرز کو سہولت دے کر ٹیکس دینے والے کو پیچھے دھکیل دیا۔ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر ڈیڑھ سو ارب روپے کا بوجھ ڈالا۔ حکومت نے بینکنگ ٹرانزیکشن پر بھی ٹیکس بڑھا دیا ہے جس سے ایک لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن پر 200 روپے کاٹ لیے جائیں گے۔ یہ بالکل آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ حکومت نے ایمنسٹی اسکیم سے 120 ارب روپے جمع کیے تھے، اس سے حکومت کو 80 سے 90 ارب روپے ٹیکس ملے گا۔ ایک سال کے دوران حکومتی قرض اور واجبات میں 18.90 فیصد اضافہ ہوا۔ حکومت کے ذمے قرض اور واجب الادا رقم مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 87 فیصد ہے۔ حکومت کا مقامی قرض 16 ہزار 415 ارب روپے ہے۔ حکومتی اداروں کا قرض 1068 ارب روپے رہا۔ حکومت کا بیرونی قرض 10 ہزار 935 ارب روپے رہا۔ پاکستان پر 1442 ارب روپے کے واجبات ہیں اور قرضوں اور واجبات پر تقریباً 475 ارب روپے سود ادا کیا گیا۔
حکومت نے مالی سال کے بقیہ نو ماہ کے لیے جومنی بجٹ پیش کیا ہے اس میں مزید ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ سیمنٹ سیکٹر، پاور سیکٹر اور سی این جی کے نرخ بھی ایک سو اکتالیس فیصد تک بڑھا دیے گئے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ عام آدمی اور خاص آدمی کی قانونی تعریف اگر بیان کردی جائے تو حکومتوں کے ایسے بیان سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ ان فیصلوں سے تحریک انصاف کا ہر سلوگن اب کاغذی نعرہ بن کر رہ گیا ہے اور عام آدمی اور متوسط طبقے کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد سابق حکومت کی جانب سے تنخواہ دار طبقے کو دی گئی مراعات واپس لے لی گئی ہیں، جس پر تنخواہ دار طبقے کی شامت آگئی ہے۔ سرکاری اور غیرسرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جب کہ تاجروں اورصنعت کاروں سے مراعات واپس نہیں لی گئیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں یا تاجر، صنعت کار… سب کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور ماضی کی کسی بھی حکومت میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ ہر حکومت امراء کو ریلیف دیتی ہے اور غریبوں پر پیٹرول، بجلی، گیس اور انکم ٹیکس کے بم گراتی ہے۔ جن کی جائدادیں اربوں ڈالرکی ہیں، جن کی شوگر ملوں کی آمدنی کروڑوں روپے ماہانہ ہے، وہ چند ہزار ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت 48 لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں پر پوائنٹ 6 فیصد ٹیکس لگاکر فخر محسوس کررہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کتنے لوگوں کی تنخواہ 48 لاکھ روپے ہے؟ اور ان کے انکم ٹیکس سے حکومت کو کتنی آمدنی ہوگی؟ وفاقی حکومت نے تنخواہ دار طبقے کی کمرتوڑنے کے لیے فنانس ایکٹ 2018ء میں جو ترمیم کی ہے اُس کے تحت تنخواہ دار طبقے کو دی گئی رعایت کم کردی گئی ہے۔ پہلے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر ٹیکس نہیں تھا۔ یہ حد 12 لاکھ سے کم کرکے 4 لاکھ کردی گئی۔ ترمیم کے تحت 4 لاکھ سے 8 لاکھ تنخواہ لینے والوں کو ایک ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا، جبکہ 8 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تنخواہ پانے والوں کو2 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ یہ بھی امکان ہے کہ حکومت 400 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا چاہتی ہے، جبکہ بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے ختم کیے جارہے ہیں اور امپورٹ ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ بھی کیا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اب مشیر بن گئے ہیں انہیں پینشن بھی ملے گی اور نئی خدمات پر تنخواہ بھی۔