شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں سیکورٹی فورسز پر گھات لگاکر حملے اور اس کے جواب میں کی جانے والی کارروائی میں پاک فوج کے کیپٹن جنید سمیت حوالدار عامر، حوالدار عاطف، حوالدار ناصر، حوالدار عبدالرزاق، سپاہی سمیع اور انور نامی 7 فوجیوں کی شہادت اور 9 جنگوئوں کی ہلاکت کے تازہ واقعے سے ان خدشات نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا ہے کہ قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں بچے کھچے شدت پسند اب بھی نہ صرف کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں بلکہ وہ سیکورٹی فورسز کو چھپ کر نقصان پہنچانے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ متذکرہ حملہ دتہ خیل کے قریب ایک گائوں میں ہفتے کی صبح سیکورٹی فورسز پر معمول کے گشت کے دوران کیا گیا تھا۔ حملے کے فوراً بعد پاک فوج نے پورے علاقے میں ایک بڑی فوجی کارروائی کی اور چھپے ہوئے شدت پسندوں میں سے 9 کو ہلاک کردیا۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں شہید ہونے والے پاک فوج کے ان سات جوانوں کی نماز جنازہ گزشتہ دنوں جی ایچ کیو راولپنڈی میں ادا کی گئی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر اعلیٰ افسران اور جوانوں نے شرکت کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس آپریشن میں شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے جوانوں کی جی ایچ کیو میں نمازِ جنازہ کے بعد کیپٹن جنید کو مری، حوالدار عبدالرزاق کو استور، حوالدار عامر کو گلگت، حوالدار نصیر کو دیامیر، حوالدار آصف کو خانیوال اور سپاہی سمیع اللہ کو ہنزہ، جبکہ سپاہی اصغر کو غذر میں ان کے آبائی گائوں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقہ میر علی میں پلاسین کے مقام پر ایک سیکورٹی چیک پوسٹ کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ایک اہلکار کے شہید اور ایک کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ مقامی سرکاری ذرائع نے اسے ریموٹ کنٹرول دھماکا قرار دیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں ایک اور واقعے میں پاک افغان سرحد کے قریب زیارت کاکا صاحب میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ ہوا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق پانچ سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جن کو سی ایم ایچ بنوں منتقل کیا گیا ہے۔ زخمی ہونے والے اہلکاروں میں حوالدار امیر حسین، حوالدار امیر احمد، لانس نائیک مکمل شاہ، سپاہی وحید اللہ اور سپاہی شیراز خان شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان زخمیوں کا تعلق فرنٹیئر کانسٹیبلری سے ہے۔
شمالی وزیرستان کی طرح ماضی میں بری طرح دہشت گردی کا شکار رہنے والے ایک اور قبائلی علاقے باجوڑ میں بھی گزشتہ چند دنوں کے دوران بدامنی اور تخریب کاری کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں جن کے سبب علاقے میں ایک بار پھر خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ چند دن قبل باجوڑ کی تحصیل ماموند کے علاقے بدان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں پولیو ٹیم کی سیکورٹی پر مامور ایک نائب صوبیدار سرفراز شہید ہوگئے۔ وہ پولیو ڈیوٹی تقسیم کرنے کے بعد اپنی پوسٹ پر واپس جا رہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ سیکورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔ صوبیدار سرفرازکے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی اور گھر کے واحد کفیل تھے، ان کے چار بیٹے ہیں، اور بڑے بیٹے کی عمر 15سال ہے۔ شہید صوبیدار سرفراز کی نماز جنازہ لیوی لائن سول کالونی خار میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں ڈپٹی کمشنر باجوڑ محمود احمد خان، اے سی نواگئی انوارالحق، اے سی خار عارف خان یوسف زئی سمیت دیگر اعلیٰ سول و فوجی افسران اور قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔
ضلع باجوڑ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے باجوڑ میں دہشت گردی کا ایک اور خطرناک منصوبہ ناکام بنادیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کارروائی کے دوران کالعدم تحریک طالبان کے نائب آپریشنل کمانڈر سمیت دو دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ مارے جانے والے دہشت گردوں کے قبضے سے ایک خودکش بیلٹ اور اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز نے تحصیل ماموند کے پہاڑی علاقے گٹ آگرہ میں ایک خصوصی کارروائی کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے ضلع میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے ایک خودکش بمبار سمیت دو دہشت گرد ہلاک کیے۔ مارے جانے والے دہشت گردوں میں کالعدم تحریک طالبان باجوڑ کا نائب آپریشنل کمانڈر بھی شامل ہے جس کا تعلق تحصیل لوئی ماموند سے ہے، اس نے خودکش بیلٹ پہنی ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ کمانڈر کا شمار علاقے کے سب سے مطلوب عسکریت پسندوں میں ہوتا تھا جو مختلف سماج دشمن سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں سے طالبان کے نام پر بھتہ وصولی اور ملکانان پر مختلف حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مارا جانے والا مذکورہ کمانڈر ضلع کے مختلف علاقوں میں بم دھماکوں اور دیگر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہنے کے علاوہ ضلع باجوڑ کی تحصیل لوئی ماموند، وڑ ماموند اور تحصیل ناوگئی کے بعض علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان باجوڑ کا انچارج تھا۔
اسی طرح خیبر پختون خوا کے ایک اور جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی شہر میں چھپے ہوئے مبینہ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ان اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے ایک سرچ آپریشن کے دوران ڈیرہ میں ایک مبینہ دہشت گرد کو ہلاک کردیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ اتوار کی شب دو بجے کے قریب سیکورٹی فورسز نے ڈیرہ کے قدیم محلہ حیات اللہ میں سرچ آپریشن کیا جہاں انہوں نے فائرنگ کرکے ایک مبینہ دہشت گرد کو ہلاک کردیا جس کی شناخت عثمان ولد جاوید راجپوت کے نام سے ہوئی ہے۔ ہلاک ہونے والے شخص عثمان کے پاس سے جو اسلحہ برآمد ہوا ہے اس سے متعلق علاقے میں متضاد خبریں گردش کررہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ہلاک ہونے والا شخص مبینہ طور پر اُن دس لڑکوں میں شامل تھا جو رواں سال ماہ جون میں اس علاقے سے غائب ہوگئے تھے یا کردیئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختون خوا کا دوسرا بڑا شہر ہے جو دو قبائلی ایجنسیوں کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث پچھلے ایک عشرے میں دہشت گردی اور خاص کر ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے خاصا متاثر رہا ہے۔
یہاں ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بالخصوص اور اندرونی علاقوں میں بالعموم ہونے والے تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں افغان سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے، جس کا واضح ثبوت بڑی تعداد میں افغانستان میں پناہ حاصل کرنے والے وہ عناصر ہیں جنہیں کھلے عام نہ صرف افغان سرزمین پر تحفظ حاصل ہے بلکہ وہ یہاں سے پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ دراصل یہی وہ عوامل تھے جن سے مجبور ہوکر پاکستان کو پاک افغان بارڈر پر حفاظتی باڑ لگانے کا ایک مشکل اور تلخ فیصلہ کرنا پڑا، جس پر افغان حکومت مسلسل اعتراضات اٹھاتی رہی ہے۔ اس باڑ سے چونکہ پاک افغان سرحد کے محفوظ اور ریگولرائز ہونے کے قوی امکانات ہیں اس لیے افغان حکومت اس کی تنصیب کی نہ صرف مسلسل مخالفت کررہی ہے بلکہ اس کی تنصیب کی آڑ میں روڑے اٹکانے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پرگزشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر نصب کردہ خاردار تار کی آہنی باڑ کو افغان فورسز نے مبینہ طور پر توڑ کر ہٹالیا ہے۔
سرحد پار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحد پر افغان صوبہ قندھار کے اضلاع اسپن بولدک اور شورابک کے درمیان واقع ساڑوشاہانو علاقے میں افغان سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور پر سرحد پر پاک فوج کی نصب کردہ خاردار تار اور لوہے کے پائپوں پر مشتمل مضبوط آہنی باڑ کے کچھ حصے کو توڑ ڈالا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ کام صوبہ قندھار کے صوبائی پولیس سربراہ عبدالرزاق کے حکم پر کیا گیا۔ دوسری جانب پاک فوج کے جوانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر زور دیا ہے اور اس ضمن میں دونوں ممالک کے سرحدی محافظوں کے کمانڈروں کی ایک ہنگامی فلیگ میٹنگ بھی ہوچکی ہے، جس کے بے نتیجہ ختم ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ پاک فوج نے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے گزشتہ سال تقریباً 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر خاردار تار اور لوہے کے پائپوں پر مشتمل ڈبل سائیڈ پر متوازی آہنی باڑ لگانے کا کام شروع کیا ہے۔ پاک افغان سرحد پر اس طویل باڑ کی تنصیب پر 56 بلین روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو آئندہ سال دسمبر 2019ء میں مکمل ہوگی۔ لہٰذا اس تمام صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ افغان حکومت امریکی اور بھارتی ایما اور شہہ پر پاکستان کو تنگ کرنے، نیز اپنی سرزمین کو بھارتی عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں نہ صرف مبینہ طور پر ملوث ہے بلکہ وہ اور خاص کر اس حکومت میں بیٹھے ہوئے بھارت نواز بااثر حلقے اس ضمن میں ہر حد تک جانے پر تلے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے پاس اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کی خاطر باڑ کی تنصیب اور یہاں تخریبی کارروائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف مؤثر اور ٹارگٹڈ کارروائی کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔