بلدیاتی نظام کو جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، اسی لیے بلدیات کو ’’مقامی حکومت‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کے ذریعے نئی قیادت ابھر کر صوبائی اور وفاقی حکومت تک پہنچتی ہے۔ ایک وقت تھا جب طلبہ یونینز بھی قومی سطح پر قیادت کی فراہمی کے لیے نرسری کا کام کرتی تھیں، مگر جب سے اس نرسری کو جبراً بند کیا گیا ہے وفاقی و صوبائی جمہوری اداروں کے لیے قیادت کی فراہمی کا بلدیاتی نظام کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ باقی نہیں رہا۔ ہماری ملکی تاریخ کی یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں جب بھی منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ مقامی حکومتیں وجود ہی میں نہ آنے پائیں، اور اگر بہ امر مجبوری یہ مقامی حکومتیں کسی وقت تشکیل بھی پا جائیں تو انہیں پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا جائے۔ جمہوری حکومتوں کے اس طرزعمل کی تازہ اور عمدہ مثال جنرل پرویزمشرف کے آمرانہ دور کے بعد وجود میں آنے والی پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی حکومتیں ہیں، جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کو ختم کرنا اپنا فرضِ اولین سمجھا، اور پھر طویل عرصے تک ان کو نیا جنم نہیں لینے دیا۔ اس دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے بار بار حکم دیا گیا کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرائے جائیں، مگر حیلوں بہانوں سے اس کام کو ٹالا جاتا رہا، اور آخر جب عدالتِ عظمیٰ نے حتمی تاریخوں کا الٹی میٹم دے کر صوبائی حکومتوں کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے پر مجبور کردیا تو بھی پہلے مرحلے پر ایسا نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا جس میں بلدیات کی حیثیت نمائشی اداروں سے زیادہ کچھ نہیں تھی، اور اختیارات نام کی کوئی چیز ان کو نہیں سونپی گئی تھی۔ پھر جب یہ ادارے وجود میں آ بھی گئے تو جو معمولی اور برائے نام اختیارات قانون میں انہیں دیئے گئے تھے، وہ بھی بلدیاتی نمائندوں کو منتقل نہیں کیے گئے اور عملاً انہیں عضوِ معطل بناکر رکھا گیا۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے صوبائی حکومتوں کے اس طرزعمل پر صدائے احتجاج بھی بلند کی جاتی رہی مگر حکمرانوں نے اسے صدا بہ صحرا سے زیادہ حیثیت نہیں دی۔ اس کے برعکس فوجی حکمرانوں نے، ان کا مقصد کچھ بھی ہو، اپنے اقتدار کے ادوار میں مقامی حکومتوں کے نظام کو زیادہ مؤثر اور بااختیار بنایا، جس کی ایک اچھی مثال جنرل پرویزمشرف کے دور میں متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نظام میں مقامی حکومتوں کے ذمے داران کو خاصا بااختیار بناکر مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کی ایک بھرپور اور جان دار کوشش کی گئی تھی اور اس کے خاطر خواہ مثبت نتائج بھی دیکھنے میں آئے تھے، مگر جمہوری حکمرانوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اس نظام کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے فوری طور پر اس کا بوریا بستر گول کرنا ضروری سمجھا۔
یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی مؤثر بلدیاتی نظام کی ترویج پر توجہ دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اتوار 23 ستمبر کو صوبائی دارالحکومت کے دورے پر آئے تو نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل اُن کے ایجنڈے میں سرفہرست تھی۔ چنانچہ اس موقع پر اپنی زیر صدارت منعقدہ حکومت اور پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپنی توجہ نئے بلدیاتی نظام پر مرکوز رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا پی ٹی آئی حکومت کا سب سے اہم ایجنڈا ہے جس کا مقصد عوام کو صحیح معنوں میں با اختیار بنانا ہے۔ اختیارات کی عوامی سطح پر منتقلی کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ عوام اپنے منتخب نمائندوں کا مؤثر احتساب کرسکیں۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور لوکل باڈیز کے نظام سے نئی لیڈرشپ کو اوپر آنے میں مدد ملے گی۔ ماضی میں جمہوری نظام میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی توجہ قانون سازی پر کم، جب کہ دیگر امور بشمول اختیارات اور فنڈز کے حصول پر زیادہ رہی ہے۔ لوکل باڈیز کے نظام کا مقصد اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہے، اور لوکل باڈیز کا ایک ایسا نظام متعارف کرایا جائے گا جس میں عوامی نمائندوں کو کسی سطح پر بھی بلیک میل نہ کیا جا سکے تاکہ وہ اپنی تمام تر توجہ عوام کی فلاح پر مرکوز کرسکیں۔ نئے نظام کی بنیاد جمہوری اقدار پر مبنی ہوگی جس میں گورننس اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ لوکل باڈیز نظام کو آئندہ 48 گھنٹوں میں حتمی شکل دی جائے۔
اجلاس میں شریک وفاقی وزیر اطلاعات نے اس ضمن میں مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ بلدیاتی نظام آرٹیکل 140 اے کے خلاف ہے۔ یہ نظام آئین کی بنیادی شرط پوری نہیں کرتا، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اب بلدیاتی نظام سادہ اور براہِ راست ہوگا، ڈسٹرکٹ میئر اور تحصیل میئر کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے، پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں نے 48 گھنٹے مانگے ہیں۔
اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم عمران خان صوبہ خیبر میں اپنی 2013ء کی صوبائی حکومت کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام سے خاصے متاثر ہیں جسے پرویز خٹک کی کابینہ میں جماعت اسلامی کے صوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور صوبائی حکومت کی بہتر کارکردگی میں اس نظام نے بہت اچھے نتائج دیئے تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی صوبہ خیبر اور پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی تیاری میں عنایت اللہ خان کے تیار کردہ اسی نمونے کو سامنے رکھا گیا ہے۔ پنجاب میں نئے نظام کو حتمی شکل دینے کی ذمے داری صوبائی کابینہ کے سینئر اور بلدیات کے وزیر عبدالعلیم خان اور وزیر قانون راجا بشارت کے سپرد کی گئی۔ یہ دونوں حضرات جنرل پرویزمشرف کے دور میں پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی کابینہ کے رکن تھے اور اس دور کے بلدیاتی نظام کی خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی آگاہ ہیں، چنانچہ صوبہ خیبر کے ایک مؤثر نظام کا نمونہ سامنے ہوتے اور اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں انہیں نئے نظام کے لیے سفارشات کو حتمی شکل دینے میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں۔ سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان نے وزیراعظم کی جانب سے دی گئی 48 گھنٹے کی مہلت ختم ہونے پر منگل کے روز واضح کیا کہ صوبے میں نئے بلدیاتی نظام پر مشاورت مکمل ہوگئی ہے اور نئے نظام کا ڈھانچہ تشکیل دے لیا گیا ہے جس کی حتمی منظوری وزیراعظم سے حاصل کی جائے گی۔ نئے نظام کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر بلدیات نے بتایا کہ نئے نظام میں میئر و ڈپٹی میئر کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر اور ڈائریکٹ ہوگا، جب کہ دیہی علاقوں میں ویلیج کونسل اور شہری علاقوں میں نیبرہڈ کونسلز بنیں گی، جن میں غیر جماعتی بنیادوں پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پہلے تین ارکان کو ممبر بنایا جائے گا، جب کہ ہر کونسل میں خاتون، یوتھ اور مینارٹی کے لیے تین مخصوص نشستیں ہوں گی۔ پہلی مرتبہ پنجاب حکومت اپنے ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ بلدیاتی نمائندوں کے لیے مختص کرنے جارہی ہے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 30 فیصد بلدیاتی نمائندوں کو دیا جائے گا، جنہیں مقامی اور ضلعی سطح پر ایسی اسکیموں کے لیے خرچ کیا جائے گا جس کے اختیارات بالکل واضح ہوں گے اور کہیں کوئی اوور لیپنگ نہیں ہوگی۔ 10 سے 20 ہزار نفوس پر مشتمل ایک حلقہ تشکیل دیا جائے گا اور کم سے کم آبادی کی نمائندگی کرنے والے کونسلر کو بھی اپنی ترقیاتی اسکیمیں دینے اور لاکھوں روپے کے فنڈز خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ ماضی کے وزیراعلیٰ کے اختیارات اب ہر شہر کے میئر کے پاس ہوں گے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے پارٹی نہیں پاپولیرٹی کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی سفارش کی گئی ہے جو ایک نیا لیکن مربوط تجربہ ہوگا، پنجاب میں ایسا بلدیاتی سیٹ اپ سامنے لائیں گے جس پر مخالفین بھی انگلی نہ اٹھا سکیں۔
تحریک انصاف کی نئی حکومت کے عزائم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماضی کے تمام تجربات سے آگے جاکر مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کا عزم رکھتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام میں اٹھارہ محکمے مقامی حکومتوں کے تابع کیے گئے تھے جب کہ نئے نظام میں چوبیس محکموں کو ضلع کی سطح تک تقسیم کیا جائے گا۔ صوبے کے پانچ بڑے اضلاع میں بااختیار ضلعی حکومتیں قائم کی جائیں گی۔ تحصیل اور ٹاؤنزکی سطح پر میئرز اور ڈپٹی میئرز یا ناظمین اور نائب ناظمین بھی عوام کی براہِ راست رائے سے منتخب ہوں گے۔ بلدیاتی نمائندوں کی نگرانی کے لیے ایک مقامی کمیشن کی تشکیل بھی نئے نظام کا حصہ ہے جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اس کمیشن کی تیار کردہ رپورٹس کی روشنی میں بلدیاتی عہدیداروں کی کارکردگی کو جانچا جائے گا اور بدعنوانی یا نااہلی وغیرہ کی شکایت پر ان کے خلاف کارروائی بھی ہوسکے گی۔ پہلے جو فنڈز ترقیاتی منصوبوں کے لیے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو دیئے جاتے تھے اب وہ مقامی نمائندوں کی صوابدید اور نگرانی میں ہوں گے۔ اس طرح بلدیاتی عہدیداروں کو مصالحتی کونسلوں کے ذریعے معمولی نوعیت کے مقامی تنازعات مقامی سطح پر طے کرانے کے اختیارات بھی تفویض کیے جائیں گے۔
مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے جو خدوخال اب تک سامنے آئے ہیں، بظاہر اس کے نتیجے میں ایک مؤثر، بھرپور اور مفید بلدیاتی نظام وجود میں آتا دکھائی دے رہا ہے جس سے عوام کے مسائل ان کے گھر کی قریب ترین سطح پر حل ہوسکیں گے، تاہم اس نئے نظام کی حقیقی افادیت اس کے عملی نفاذ کے بعد ہی ثابت ہوسکے گی، کیونکہ ماضی کے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتیں دعوے تو بہت بلند بانگ کرتی ہیں مگر عمل کے میدان میں حقائق خاصے مختلف اور تلخ ہوتے ہیں۔ بہرحال دنیا بہ امید قائم است۔۔۔ دیکھیے تحریک انصاف اپنے دعووں پر کس حد تک عمل کرتی ہے۔