جماعت اسلامی 26 اگست 1941ء کو قائم ہوئی جب جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس وقت برصغیر ہند تھا اور جب یہ جماعت بن رہی تھی تو اس وقت برصغیر سے انگریز رخصت ہونے کی تیاری کر رہا تھا اور برصغیر کے بطن سے ایک نئی اسلامی مملکت پاکستان کو وجود میں آنا تھا۔اسلامی سلطنت کی بنیاد دراصل سلطان محمود غزنوی اورشہاب الدین غورینے رکھی ان حملوں کے نتیجے میں ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوگئی اور پھر تاریخ نے مسلمان حکمرانوں کے زوال کی داستان بھی اپنے سینے میں محفوظ رکھی اور ہند کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے ہاتھ سے عظیم مملکت نکل گئی اور برطانوی سامراج کے ہاتھ میں سونے کی چڑیا آگئی 1857ء کے بعد سے برطانیہ حکمران ہوگیا ہندوستان میں افغانستان کے حکمرانوں نے اسلام کی دعوت دی اور حکومت قائم کی اور ہندو اسلام کی طرف راغب ہوگئے ان حکمرانوں کے ساتھ بعض بزرگ بھی آگئے اور انہوں نے بھی اسلام کو پھیلایا اس طرح افغانستان کے حکمرانوں نے ایک عظیم اسلامی پاکستان کی بنیاد رکھ دی یوں اسلام برصغیر ہند میں جڑ پکڑ گیا دیوبند میں دینی مدرسہ قائم ہوا تو دیوبندی مسلک کی بنیاد پڑ گئی اور رائے بریلی میں مدرسہ قائم ہواتو بریلوی مسلک کی بنیاد پڑ گئی یوں مکتبہ دیوبندی اور مکتبہ بریلوی نے جگہ بنالی اس طرح مسلمانوں میں یہ تقسیم وجود میں آگئی اور صوفیا نے بھی اپنا اپنا مکتبہ فکر قائم کردیا اور وہ فوت ہوگئے تو ان کے مزاروں کو ان کے ماننے والوں نے ایک اور سوچ پیدا کردی یوں اسلام مسلکوں میں تقسیم ہوگیا مہدوی سوچ بھی داخل ہوگئی یہ شیعہ مسلک نہ تھا بہادر یار جنگ اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں اس کی شکل بگڑ گئی تو یہ ذکری فرقہ وجود میں آگیا جو بلوچستان میں موجود ہے رسولؐ جس دین کو لائے تھے اس کا حلیہ اس طرح بگڑ گیا اور وحدت تقسیم ہوگئی اور امت فرقوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور اسلامی سلطنتیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں ایک سازش کے تحت تقسیم کردی گئیں۔ عجم اور عرب تقسیم میں بھی نظر آگئی اس تقسیم کو ہم عرب اور ترک میں دیکھ سکتے ہیں یوں عجم اور عرب تقسیم اسلام میں در آئی برطانوی سامراج نے اس تقسیم میں بھرپور کردار ادا کیا فلسطین کو ترکوں سے چھین لیا تو برطانوی سامراج کی فوج میں عرب اور ہندوستانی مسلمان شامل تھے جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو برطانوی فوج میں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی شامل تھے اور انہوں نے جنگ عظیم میں حصہ لیا مصر میں جب ہٹلر کی فوج پہنچ گئی اور جنرل رومیل نے ایک حصہ پر قبضہ کرلیا تو جنرل رومیل نے اس شکست خوردہ فوج میں دیکھا کہ ہندوستان کے مسلمان بھی شامل تھے اور جنرل رومیل نے ان مسلمان فوجیوں کو دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی اور کہا کہ آپ برطانیہ کی فوج میں کیسے شامل ہوئے ہیں یہ تو غاصب حکمران ہیں جنگ عظیم کے اثرات پورے عالم اسلام پر پڑے برطانیہ نے عربوں کو تقسیم کیا اور اس نے ترکوں اور عربوں کو لڑایا یہ نفرت کمال اتا ترک کے دور میں عروج پر تھی اس لئے کہ فلسطین جب ترکوں کے ہاتھوں سے نکلا تو اس فوج میں عرب سپاہی موجود تھے وہ نفرت آج جاکر کم ہوئی اور ترک اتا ترک کے دور سے اب نکل گیا ہے 1917ء کے بعد سے عالم اسلام انتشار کا شکار ہوگیا تھا برطانیہ فرانس اٹلی نے مسلم ممالک پر قبضہ کرلیا تھا اور روس نے بھی ایسا ہی کیا ۔ زار نے مسلمان ممالک پر قبضہ کرلیا یہ عالم اسلام کا بدترین انتشار تھا جو ہر طرف نظر آرہا تھا اور برصغیر ہند مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے بعد بدترین انتشار کی زد میں تھا اور دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی عالم اسلام ان لمحوں میں دو طرح کے انتشار کا شکار تھا ایک انتشار یہ تھا کہ اسلامی ممالک استعمار کے قبضے میں چلے گئے تھے
اور دوسری طرف اس غلامی نے نظریاتی انتشار بھی پیدا کردیا تھا۔ مایوسی ان پر مسلط ہوگئی تھی کشمکش اور جدوجہد تھی تو بڑے محدود پیمانے پر تھی اور کوئی منظم جدوجہد نہ تھی افکار کا انتشار چھا گیا تھا مایوسی تھی اور ہر طرف نظر آرہی تھی یہ نقشہ تھا جس میں سید ابو علی مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھ دی اور سید مودودی نے چھبیس اگست 1970ء کو جماعت کے یوم تاسیس پر لاہور میں خطاب کیا یہ خطاب سننے کیلئے جماعت کے ارکان اور متفقین موجود تھے اور مولانا کی تقریر کو ٹیپ کیا گیا بعد میں مولانا نے تقریر کو تحریر کی شکل دی۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ آج سے ٹھیک انتیس سال پہلے اسی تاریخ کو ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اسی لاہور شہر کے ایک محلے میں ا یک چھوٹی سی کوٹھی کے ایک کمرے میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں پورے ہندوستان سے 75 آدمی شریک ہوئے تھے اور انہوں نے ایک جماعت قائم کی تھی جس کا نام جماعت اسلامی رکھا گیا تھا یہ میرے بائیس سال کے مسلسل تجربات ، مشاہدات ، مطالعے اور غور و فکر کا نتیجہ تھا جس نے ایک اسکیم کی شکل اختیار کرلی اور اس اسکیم کے مطابق جماعت اسلامی بنائی گئی۔ آج پہلی مرتبہ میں جماعت اسلامی کے اس تاریخی پس منظر کو بیان کررہا ہوں جسے میں نے آج تک اپنی کسی تحریر یا تقریر میں بیان نہیں کیا اپنے قریبی ساتھیوں کے سامنے بھی میں نے کبھی کبھی اس کے بعض اجزاء کا ذکر کیا ہے لیکن ایک مربوط شکل میں تاریخ کے طور پر اس کے بیان کرنے کی کبھی نوبت نہیں آئی آج اس کے بیان کرنے کی ضرورت محسوس کررہا ہوں کہ کہیں میں اس تاریخ کو اپنے ساتھ قبر میں ہی میں نہ لے جاؤں اور لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ میرے تجربات اور مشاہدات اور مطالعہ و غور و خوض کے نتائج تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کی اسکیم کی شکل اختیار کی۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس براعظم ہند میں ایک عظیم الشان تحریک برپا تھی ایک طرف مسلمان جنگ عظیم اول کے بعد مقامات مقدسہ اور خلافت اسلامیہ کیے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیار ہوگئے تھے اس وقت مسلمانوں کے ذہن پر تحفظ خلافت کے جذبے کا غلبہ تھا جس کی قیادت تحریک خلافت کررہی تھی اور ہندوؤں کے ذہن پر سوراج کے حصول کا جذبہ غالب تھا جس کی قیادت کانگریس کررہی تھی گاندھی جی تو سب کے قائد مان کر بالاتفاق موالات کی ایک زبردست تحریک شروع کی اس تحریک میں مسلمانوں کے چند اکابر کو چھوڑ کر سب شریک تھے۔ میں اس وقت سولہ سترہ سال کی عمر کا ایک نوجوان لڑکا تھا فطری طور پر میرے دل میں اپنی قوم کے لیڈروں پر اعتماد تھا اور ہونا چاہیے تھا اور اس تحریک میں ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے شریک تھا ہر مسلمان کی طرح میرے دل میں بھی یہ غم تھا کہ مسلمانوں کی ایک رہی سہی سلطنت وہ مٹ رہی ہے خلافت جیسی کچھ بھی باقی رہ گئی تھی جو دنیا کے مسلمانوں کو جمع کرسکتی تھی وہ ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور مسلمانوں کے مقامات مقدسہ خطرے میں پڑ گئے ہیں اس پس منظر کو بیان کرنے کے بعد اپنے تجزیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں انگریزوں نے ہندوستان آکر اپنے ملک پر قیاس کرتے ہوئے اس ملک کی آبادی کو ایک حد تک فرض کرلیا ہے اوراس مفروضے پر وہ اپنے ملک کے نظام کو یہاں بھی جمہوری ادرات قائم کررہے ہیں ہندو قوم کے لئے یہ بات سب سے زیادہ مفید تھی وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر جو جمہوری نظام بھی قائم ہوگا اس کا سارا فائدہ ذہن کو حاصل ہوگا اور آخر کار مسلمان ان کے ماتحت بلکہ ایک طرح سے ان کے غلام بن جائیں گے یہ بات کانگریس کی تحریک کے مطالعے کے بعد میرے سامنے آگئی تو وہ میری کھٹک میرے دل میں پیدا ہوئی کہ ہماری قوم کے اکابر آخر کیا سوچ کر کانگریس کا ساتھ دے رہے ہیں مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے لیڈر اس بات کو تسلیم کرتے رہے کہ واقعی یہاں ہندوستان میں ایک آزاد جمہوری حکومت اسی اصول پر بننی چاہئے کہ یہاں کے باشندے ایک قوم ہیں اور مسلمانوں کو آئینی تحفظات حاصل ہونے چاہئیں اس کے بعد وہ بیان کرتے ہیں کہ لیکن اگر کبھی ہندوستان سے انگریزوں کے قبضے سے نکلے گا تو آزاد ہندوستان میں مسلمان آئینی تحفظات کی دستاویز کو ہاتھ میں لئے پھریں گے اور ہندو جو چاہیں گے وہ کریں گے مسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ہندو اکثریت کی دست برد سے اپنے آپ کو بچاسکیں ۔
سید مودودی جماعت اسلامی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس پس منظر کو بیان کررہے تھے کہ جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی۔ اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا کہ 1928ء تک ہندوستان میں عام خیال یہ پایا جاتا تھا کہ آزادی کی کوئی تحریک مسلمانوں کو ساتھ ملائے بغیر نہیں چل سکتی اور مسلمان بھی اس بھروسے پر تھے کہ کانگریس آزادی کے راستے پر ہمیں ساتھ لئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی لیکن ۱۹۲۹ء تک پہنچتے پہنچتے گاندھی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ اس قوم کے اندر کوئی قیادت باقی نہیں رہی ہے اس میں کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے اور اب میں صرف ہندوؤں کو لے کر انگریزی حکومت سے لڑ کر آزادی حاصل کرسکتا ہوں تو 1929ء میں پہلی مرتبہ اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں آزادی کی جنگ لڑوں گا تم ساتھ آؤ تو تمہیں ساتھ لے کر تم نہ آؤ تو تمہارے بغیر اور تم مزاحمت کرو تو تمہاری مزاحمت کے باوجود گاندھی کے الفاظ یہ تھے
with you or with out you so inspite of you
جب اس شخص نے یہ بات کہی تو اس وقت میں نے اندازہ کرلیا اب اس ملک میں مسلمانوں کی خیر نہیں ہے ان حالات کا تجزیہ کیا اور پھر مولانا مودودی نے 1932ء میں رسالہ ترجمان القرآن کی ابتداء کی اس وقت کام کی جو ترتیب میرے ذہن میں یہ تھی کہ سب سے پہلے مغربی تہذیب و افکار کے اس غلبہ کو توڑا جائے جو مسلمانوں کے ذہین طبقہ پر مسلط ہورہا تھا یہ بات ان کے ذہن نشین کی جائے کہ اسلام اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے اپنا ایک نظام تہذیب رکھتا ہے اپنا ایک سیاسی نظام رکھتا ہے اپنا ایک معاشی نظام رکھتا ہے اپنا ایک نظام فکر اور نظام تعلیم رکھتا ہے جو ہر لحاظ سے مغربی تہذیب اور اس کے متعلقات سے فائق ہے یہ خیال ان کے دماغ سے نکالا جائے کہ تہذیب و تمدن کے معاملے میں انہیں کسی سے بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت ہے انہیں بتایا جائے تمہارے پاس اپنا ایک پورا نظام زندگی موجود ہے جو دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہے۔ یوں مولانا نے اپنے رسالہ ترجمان القرآن کے ذریعے اپنے خیالات کو آگے بڑھایا وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1937ء میں حیدر آباد سے دہلی آنے کا اتفاق ہوا اس سفر کے دوران اپنے کمپارٹمنٹ میں ایک مشہور ہندو لیڈر کو دیکھا اور بہت سے مسلمان بھی اس میں موجود تھے میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈاکٹر سے بالکل اس طرح باتیں کررہے تھے جیسے ایک محکوم قوم کے افراد ایک حاکم کے فرد سے باتیں کرتے ہیں یہ منظر میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ حیدر آباد دکن پہنچا تو میری راتوں کی نیند اڑگئی سوچتا رہا کہ اللہ اب سرزمین میں مسلمانوں کا کیا انجام ہوگا آخر کار میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھا جو مسلمانوں اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول کی صورت میں شائع ہوا ہے مولانا مرحوم نے اپنے ایک اور سفر کا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ 1930ء میں ایک مرتبہ پھر میں نے شمالی ہند کا سفر کیا اور اس موقع پر لاہور میں علامہ اقبال سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حیدر آباد چھوڑ کر پنجاب منتقل ہوجاؤں ان کی رائے تھی کہ آگے چل کر جنوبی ہند میں میرے لئے کام کے مواقع کم سے کم ہو تر ہوتے چلے جائیں گے اور جو کام اب مجھے کرنا ہے اس کیلئے پنجاب زیادہ موزوں ہے ان کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا چنانچہ مارچ 1978ء میں ہمشیہ کیلئے حیدر آباد دکن کو خیرباد کہہ کر پنجاب منتقل ہوگیا۔1938ء میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ دوم اور مسئلہ قومیت کے نام سے شائع کیا میرے پیش نظر اولین کام یہ تھا کہ مسلمانوں کو کسی طرح اپنی قومی شخصیت اور قومی انفرادیت فراموش نہ ہونے دوں اور ان کو غیر مسلم قومیت کے اندر جذب ہونے سے بچاؤں میں نے اپنا پورا زور اس کام میں صرف کردیا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم قومیت کے اندر جذب ہونے سے بچایا جائے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ تم اپنی ایک مستقبل قومیت رکھتے ہو تمہارے تقریر کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ تم کسی دوسری قومیت میں ضم ہوجاؤ اس کے بعد 1939ء اور اس کے بعد کا دور آیا اور مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا پاکستان کی تحریک اٹھنا شروع ہوگئی آخر کار 1940ء میں قرار داد پاکستان کی شکل اختیار کرلی آگے چل کر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ مسلمان قوم خدا کے فضل سے اب ہندو قوم کے اندر جذب ہونے سے بچ گئی اس کے اندر اب اپنی قومیت کا احساس اب اتنا زیادہ مضبوط ہوگیا تھا کہ کسی ہندو نہرو اور کسی گاندھی کے بس کا یہ کام نہیں رہا کہ ان کو ہندوؤں یا ہندوستانی قومیت کے اندر جذب کرسکے اب جو مسئلہ میری نگاہ میں اہم تھا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے یہ اسلامی حکومت کیا چیز ہوتی ہے اسے قائم کرنے کے لئے کسی سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے کس طرح کی تحریک سے وہ قائم ہوسکتی ہے اور ایک اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی قومی حکومت میں اصولاً کیا فرق ہوتا ہے اسی غرض کیلئے میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھنا شروع کیا جو بعد میں مسلمانوں اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم کے نام سے شائع ہوا اس کے مضامین زیادہ تر 1939ء سے 1940ء تک لکھے گئے اور اس کا کچھ حصہ 1941ء میں لکھا ہوا ہے۔ مولانا کی ان کتابوں پر مخالفین نے شدید تنقید کی لیکن انہوں نے اس کو نظر انداز کیا اور اپنی اس سوچ کو آگے بڑھاتے رہے اور اس طرف آتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج اس سے متعلق جس کا جو جی چاہے کہتا رہے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں اس وقت میرا فرض یہی تھا کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلاؤں کہ محض قومی حکومت تمہارا مقصد نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمہارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ تم ایک اسلامی حکومت قائم کرو اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے جس سیرت و کردار کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے تو پھر جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کرنی چاہئے جو صاحب کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے آتے نظر آرہے تھے جس وقت تحریک پاکستان اٹھی اور 1940ء میں قرار داد پاکستان پاس ہوتی ہے ظاہر بات ہے کہ اس وقت کوئی شخص بھی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملک تقسیم ہوجائے گا اور پاکستان بن جائے حتیٰ کہ 1947ء کے آغاز تک بھی یہ بات یقینی نہیں تھی کہ پاکستان بن جائے گا اس وقت جو اہم ترین سوالات میرے ذہین میں تھے وہ یہ تھے کہ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان میں ایک شکل تو یہ پیش آسکتی ہے کہ پاکستان کیلئے کوشش کرکے مسلم لیگ ناکام ہوجائے اور ہندوستان میں انگریز واحد ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر ایک جمہوری حکومت قائم کرکے ہندوؤں کے حوالے کرکے چلا جائے اس صورت میں کیا کرنا ہوگا دوسری مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے اور ملک تقسیم ہوجائے اس صورت میں جو کروڑوں مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کا کیا حشر ہوگا اور خود پاکستان میں اسلام کا جو حشر ہوگا جس قسم کے عناصر پاکستان تحریک میں شامل ہورہے تھے ان کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر سمجھ رہا تھا کہ یہ عناصر جمع ہوکر ایک ملک بناسکتے ہیں ایک قومی حکومت قائم کرسکتے ہیں لیکن ان عناصر سے کبھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک اسلامی ملک حکومت بنائیں گے میں اس کو بالکل صاف دیکھ رہا تھا کہ مسئلہ ایک شخص کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ اس تحریک میں جو لوگ شامل ہورہے ہیں جو اس میں پیش پیش تھے جو اس تحریک کو چلارہے تھے ان کے کریکٹر کو دیکھتے ہوئے ان کی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم ان کے خیالات اور ان کی ہرچیز کو دیکھتے ہوئے ان سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں میں یہ اندازہ کررہا تھا کہ یہ ایک ملک بناسکتے ہیں لیکن اس کو اسلامی حکومت نہیں بناسکتے آگے تقریر کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں اور جو ایک ملک مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کوئی کیسے بچایا جاسکتا ہے اور اسے اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے یہ موقع تھا جب میں نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔ میں نے اپنے طویل تجربات اور مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہئے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں بھی قابل تعریف ہوں میں نے یہ رائے قائم کی اصل اہمیت کثرت تعداد کی نہیں بلکہ قابل اعتماد و سیرت و کردار رکھنے والے کارکنوں کی ہے خواہ وہ تھوڑے ہی افراد ملیں مگر بہرحال ہماری جماعت ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہئے جن میں سے ایک ایک فرد کی سیرت قابل اعتماد ہو جس کے قول عمل پر لوگ بھروسہ کرسکیں جسکے ہاتھ میں مسلمان اپنا مال اطمینان کے ساتھ دے سکیں اور کہتے ہیں کہ میں نے اپنے طویل تجربات مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ مسلمانوں کی تحریکوں کے ناکام ہونے یا ابتداء میں کامیاب ہوکر آخر کار ناکام ہوجانے کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تنظیم کی کمی بھی ہے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی کا نظام سیاست سخت اور مضبوط ہونا چاہئے اس میں ذرا برابر بھی ڈھیل گوارا نہیں کرنی چاہئے خواہ کوئی رہے یا جائے عزیز سے عزیز آدمی بھی چلا جائے تو کوئی پرواہ نہ کی جائے بلکہ تنظیم میں ڈھیل نہ ہونے دی جائے اس لئے کہ غیر منظم جماعت کبھی ایسی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی جو تنظیم کے ساتھ اٹھنے والی ہوں ایک قلیل تعداد جماعت اگر منظم ہو اور حکمت کے ساتھ کام کرے تو وہ پوری ایک قوم کو سنبھال سکتی ہے لیکن لاکھوں انسانوں کی بھیڑ آپ جمع کرلیں اور اس کے اندر تنظیم نہ ہو تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتی اس بناء پر ہم نے جماعت میں شریک کرنے کیلئے ایک ایسا معیار تجویز کیا ہے کہ جو اسلام کی رو سے مسلمان کے کم سے کم شرائط ہیں۔ ایک اور چیز جس کو ہم نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھا وہ یہ تھی کہ جدید دور قدیم تعلیم یافتہ دونوں قسم کے عناصر کو ملا کر ایک تنظیم میں شامل کیا جائے اور یہ دونوں مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کے لئے ایک تحریک چلائیں میں اپنے سابقہ تجربات کی بناء پر میری یہ رائے تھی کہ خالص جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت چاہئے اپنی جگہ اسلام کے معاملے میں کتنی مخلص ہو لیکن چونکہ وہ دین کو نہیں جانتی اس لئے تنہا وہ ایک اپنی نظام قائم نہیں کرسکتی اس طرح محض دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اگرچہ وہ دین کو خوب جانتے ہیں مگر چونکہ انہوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی جس سے وہ ایک جدید دور میں ایک جدید ریاست کا نظام چلاسکیں اس لئے صرف ان پر مشتمل کوئی خالص مذہبی جماعت بھی نہ دینی نظام قائم کرسکتی ہے نہ اسلام کی بنیاد پر جدید دور میں ایک اسلامی ریاست کا نظام چلا سکتی ہے ان وجوہ سے میرے نزدیک یہ ناگزیر تھا کہ ان دونوں گروہوں کو ملایا جائے کہ جماعت کے اندر جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو نہ صرف مخلص مسلمان ہوں بلکہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کے لئے بھی تیار ہوں اور جن کا ذہن اس حد تک مطمئن ہوکہ کسی بات کو تسلیم کرنے کے لئے وہ عقل دلیل کو شرط نہ سمجھتے ہوں بلکہ یہ دلیل ان کے لئے کافی ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا یہ حکم ہے اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اور رسولؐ کا یہ حکم ہے تو پھر بلا تامل وہ سر جھکادیں اسی طرح ان علماء کو بھی شامل کیا جائے جس کے اندر گروہی تعصب موجود نہ ہو اور جو خود اس بات کی ضرورت سمجھے کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لئے انہیں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہئے جماعت کی یہ کوشش بھی تھی کہ ہر فرقہ اور مسلک کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے ظاہر بات ہے کہ اصل اسلام قرآن اور سنت کو ماخذ قانون ماننے کا نام ہے اور ہر وہ شخص مسلمان ہے جو ان دونوں چیزوں کو قانون کا ماخذ مانتا ہو۔
اور دوسری طرف اس غلامی نے نظریاتی انتشار بھی پیدا کردیا تھا۔ مایوسی ان پر مسلط ہوگئی تھی کشمکش اور جدوجہد تھی تو بڑے محدود پیمانے پر تھی اور کوئی منظم جدوجہد نہ تھی افکار کا انتشار چھا گیا تھا مایوسی تھی اور ہر طرف نظر آرہی تھی یہ نقشہ تھا جس میں سید ابو علی مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھ دی اور سید مودودی نے چھبیس اگست 1970ء کو جماعت کے یوم تاسیس پر لاہور میں خطاب کیا یہ خطاب سننے کیلئے جماعت کے ارکان اور متفقین موجود تھے اور مولانا کی تقریر کو ٹیپ کیا گیا بعد میں مولانا نے تقریر کو تحریر کی شکل دی۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ آج سے ٹھیک انتیس سال پہلے اسی تاریخ کو ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اسی لاہور شہر کے ایک محلے میں ا یک چھوٹی سی کوٹھی کے ایک کمرے میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں پورے ہندوستان سے 75 آدمی شریک ہوئے تھے اور انہوں نے ایک جماعت قائم کی تھی جس کا نام جماعت اسلامی رکھا گیا تھا یہ میرے بائیس سال کے مسلسل تجربات ، مشاہدات ، مطالعے اور غور و فکر کا نتیجہ تھا جس نے ایک اسکیم کی شکل اختیار کرلی اور اس اسکیم کے مطابق جماعت اسلامی بنائی گئی۔ آج پہلی مرتبہ میں جماعت اسلامی کے اس تاریخی پس منظر کو بیان کررہا ہوں جسے میں نے آج تک اپنی کسی تحریر یا تقریر میں بیان نہیں کیا اپنے قریبی ساتھیوں کے سامنے بھی میں نے کبھی کبھی اس کے بعض اجزاء کا ذکر کیا ہے لیکن ایک مربوط شکل میں تاریخ کے طور پر اس کے بیان کرنے کی کبھی نوبت نہیں آئی آج اس کے بیان کرنے کی ضرورت محسوس کررہا ہوں کہ کہیں میں اس تاریخ کو اپنے ساتھ قبر میں ہی میں نہ لے جاؤں اور لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ میرے تجربات اور مشاہدات اور مطالعہ و غور و خوض کے نتائج تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کی اسکیم کی شکل اختیار کی۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس براعظم ہند میں ایک عظیم الشان تحریک برپا تھی ایک طرف مسلمان جنگ عظیم اول کے بعد مقامات مقدسہ اور خلافت اسلامیہ کیے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیار ہوگئے تھے اس وقت مسلمانوں کے ذہن پر تحفظ خلافت کے جذبے کا غلبہ تھا جس کی قیادت تحریک خلافت کررہی تھی اور ہندوؤں کے ذہن پر سوراج کے حصول کا جذبہ غالب تھا جس کی قیادت کانگریس کررہی تھی گاندھی جی تو سب کے قائد مان کر بالاتفاق موالات کی ایک زبردست تحریک شروع کی اس تحریک میں مسلمانوں کے چند اکابر کو چھوڑ کر سب شریک تھے۔ میں اس وقت سولہ سترہ سال کی عمر کا ایک نوجوان لڑکا تھا فطری طور پر میرے دل میں اپنی قوم کے لیڈروں پر اعتماد تھا اور ہونا چاہیے تھا اور اس تحریک میں ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے شریک تھا ہر مسلمان کی طرح میرے دل میں بھی یہ غم تھا کہ مسلمانوں کی ایک رہی سہی سلطنت وہ مٹ رہی ہے خلافت جیسی کچھ بھی باقی رہ گئی تھی جو دنیا کے مسلمانوں کو جمع کرسکتی تھی وہ ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور مسلمانوں کے مقامات مقدسہ خطرے میں پڑ گئے ہیں اس پس منظر کو بیان کرنے کے بعد اپنے تجزیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں انگریزوں نے ہندوستان آکر اپنے ملک پر قیاس کرتے ہوئے اس ملک کی آبادی کو ایک حد تک فرض کرلیا ہے اوراس مفروضے پر وہ اپنے ملک کے نظام کو یہاں بھی جمہوری ادرات قائم کررہے ہیں ہندو قوم کے لئے یہ بات سب سے زیادہ مفید تھی وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر جو جمہوری نظام بھی قائم ہوگا اس کا سارا فائدہ ذہن کو حاصل ہوگا اور آخر کار مسلمان ان کے ماتحت بلکہ ایک طرح سے ان کے غلام بن جائیں گے یہ بات کانگریس کی تحریک کے مطالعے کے بعد میرے سامنے آگئی تو وہ میری کھٹک میرے دل میں پیدا ہوئی کہ ہماری قوم کے اکابر آخر کیا سوچ کر کانگریس کا ساتھ دے رہے ہیں مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے لیڈر اس بات کو تسلیم کرتے رہے کہ واقعی یہاں ہندوستان میں ایک آزاد جمہوری حکومت اسی اصول پر بننی چاہئے کہ یہاں کے باشندے ایک قوم ہیں اور مسلمانوں کو آئینی تحفظات حاصل ہونے چاہئیں اس کے بعد وہ بیان کرتے ہیں کہ لیکن اگر کبھی ہندوستان سے انگریزوں کے قبضے سے نکلے گا تو آزاد ہندوستان میں مسلمان آئینی تحفظات کی دستاویز کو ہاتھ میں لئے پھریں گے اور ہندو جو چاہیں گے وہ کریں گے مسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ہندو اکثریت کی دست برد سے اپنے آپ کو بچاسکیں ۔
سید مودودی جماعت اسلامی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس پس منظر کو بیان کررہے تھے کہ جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی۔ اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا کہ 1928ء تک ہندوستان میں عام خیال یہ پایا جاتا تھا کہ آزادی کی کوئی تحریک مسلمانوں کو ساتھ ملائے بغیر نہیں چل سکتی اور مسلمان بھی اس بھروسے پر تھے کہ کانگریس آزادی کے راستے پر ہمیں ساتھ لئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی لیکن ۱۹۲۹ء تک پہنچتے پہنچتے گاندھی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ اس قوم کے اندر کوئی قیادت باقی نہیں رہی ہے اس میں کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے اور اب میں صرف ہندوؤں کو لے کر انگریزی حکومت سے لڑ کر آزادی حاصل کرسکتا ہوں تو 1929ء میں پہلی مرتبہ اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں آزادی کی جنگ لڑوں گا تم ساتھ آؤ تو تمہیں ساتھ لے کر تم نہ آؤ تو تمہارے بغیر اور تم مزاحمت کرو تو تمہاری مزاحمت کے باوجود گاندھی کے الفاظ یہ تھے
with you or with out you so inspite of you
جب اس شخص نے یہ بات کہی تو اس وقت میں نے اندازہ کرلیا اب اس ملک میں مسلمانوں کی خیر نہیں ہے ان حالات کا تجزیہ کیا اور پھر مولانا مودودی نے 1932ء میں رسالہ ترجمان القرآن کی ابتداء کی اس وقت کام کی جو ترتیب میرے ذہن میں یہ تھی کہ سب سے پہلے مغربی تہذیب و افکار کے اس غلبہ کو توڑا جائے جو مسلمانوں کے ذہین طبقہ پر مسلط ہورہا تھا یہ بات ان کے ذہن نشین کی جائے کہ اسلام اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے اپنا ایک نظام تہذیب رکھتا ہے اپنا ایک سیاسی نظام رکھتا ہے اپنا ایک معاشی نظام رکھتا ہے اپنا ایک نظام فکر اور نظام تعلیم رکھتا ہے جو ہر لحاظ سے مغربی تہذیب اور اس کے متعلقات سے فائق ہے یہ خیال ان کے دماغ سے نکالا جائے کہ تہذیب و تمدن کے معاملے میں انہیں کسی سے بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت ہے انہیں بتایا جائے تمہارے پاس اپنا ایک پورا نظام زندگی موجود ہے جو دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہے۔ یوں مولانا نے اپنے رسالہ ترجمان القرآن کے ذریعے اپنے خیالات کو آگے بڑھایا وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1937ء میں حیدر آباد سے دہلی آنے کا اتفاق ہوا اس سفر کے دوران اپنے کمپارٹمنٹ میں ایک مشہور ہندو لیڈر کو دیکھا اور بہت سے مسلمان بھی اس میں موجود تھے میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈاکٹر سے بالکل اس طرح باتیں کررہے تھے جیسے ایک محکوم قوم کے افراد ایک حاکم کے فرد سے باتیں کرتے ہیں یہ منظر میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ حیدر آباد دکن پہنچا تو میری راتوں کی نیند اڑگئی سوچتا رہا کہ اللہ اب سرزمین میں مسلمانوں کا کیا انجام ہوگا آخر کار میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھا جو مسلمانوں اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول کی صورت میں شائع ہوا ہے مولانا مرحوم نے اپنے ایک اور سفر کا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ 1930ء میں ایک مرتبہ پھر میں نے شمالی ہند کا سفر کیا اور اس موقع پر لاہور میں علامہ اقبال سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حیدر آباد چھوڑ کر پنجاب منتقل ہوجاؤں ان کی رائے تھی کہ آگے چل کر جنوبی ہند میں میرے لئے کام کے مواقع کم سے کم ہو تر ہوتے چلے جائیں گے اور جو کام اب مجھے کرنا ہے اس کیلئے پنجاب زیادہ موزوں ہے ان کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا چنانچہ مارچ 1978ء میں ہمشیہ کیلئے حیدر آباد دکن کو خیرباد کہہ کر پنجاب منتقل ہوگیا۔1938ء میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ دوم اور مسئلہ قومیت کے نام سے شائع کیا میرے پیش نظر اولین کام یہ تھا کہ مسلمانوں کو کسی طرح اپنی قومی شخصیت اور قومی انفرادیت فراموش نہ ہونے دوں اور ان کو غیر مسلم قومیت کے اندر جذب ہونے سے بچاؤں میں نے اپنا پورا زور اس کام میں صرف کردیا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم قومیت کے اندر جذب ہونے سے بچایا جائے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ تم اپنی ایک مستقبل قومیت رکھتے ہو تمہارے تقریر کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ تم کسی دوسری قومیت میں ضم ہوجاؤ اس کے بعد 1939ء اور اس کے بعد کا دور آیا اور مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا پاکستان کی تحریک اٹھنا شروع ہوگئی آخر کار 1940ء میں قرار داد پاکستان کی شکل اختیار کرلی آگے چل کر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ مسلمان قوم خدا کے فضل سے اب ہندو قوم کے اندر جذب ہونے سے بچ گئی اس کے اندر اب اپنی قومیت کا احساس اب اتنا زیادہ مضبوط ہوگیا تھا کہ کسی ہندو نہرو اور کسی گاندھی کے بس کا یہ کام نہیں رہا کہ ان کو ہندوؤں یا ہندوستانی قومیت کے اندر جذب کرسکے اب جو مسئلہ میری نگاہ میں اہم تھا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے یہ اسلامی حکومت کیا چیز ہوتی ہے اسے قائم کرنے کے لئے کسی سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے کس طرح کی تحریک سے وہ قائم ہوسکتی ہے اور ایک اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی قومی حکومت میں اصولاً کیا فرق ہوتا ہے اسی غرض کیلئے میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھنا شروع کیا جو بعد میں مسلمانوں اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم کے نام سے شائع ہوا اس کے مضامین زیادہ تر 1939ء سے 1940ء تک لکھے گئے اور اس کا کچھ حصہ 1941ء میں لکھا ہوا ہے۔ مولانا کی ان کتابوں پر مخالفین نے شدید تنقید کی لیکن انہوں نے اس کو نظر انداز کیا اور اپنی اس سوچ کو آگے بڑھاتے رہے اور اس طرف آتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج اس سے متعلق جس کا جو جی چاہے کہتا رہے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں اس وقت میرا فرض یہی تھا کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلاؤں کہ محض قومی حکومت تمہارا مقصد نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمہارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ تم ایک اسلامی حکومت قائم کرو اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے جس سیرت و کردار کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے تو پھر جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کرنی چاہئے جو صاحب کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے آتے نظر آرہے تھے جس وقت تحریک پاکستان اٹھی اور 1940ء میں قرار داد پاکستان پاس ہوتی ہے ظاہر بات ہے کہ اس وقت کوئی شخص بھی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملک تقسیم ہوجائے گا اور پاکستان بن جائے حتیٰ کہ 1947ء کے آغاز تک بھی یہ بات یقینی نہیں تھی کہ پاکستان بن جائے گا اس وقت جو اہم ترین سوالات میرے ذہین میں تھے وہ یہ تھے کہ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان میں ایک شکل تو یہ پیش آسکتی ہے کہ پاکستان کیلئے کوشش کرکے مسلم لیگ ناکام ہوجائے اور ہندوستان میں انگریز واحد ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر ایک جمہوری حکومت قائم کرکے ہندوؤں کے حوالے کرکے چلا جائے اس صورت میں کیا کرنا ہوگا دوسری مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے اور ملک تقسیم ہوجائے اس صورت میں جو کروڑوں مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کا کیا حشر ہوگا اور خود پاکستان میں اسلام کا جو حشر ہوگا جس قسم کے عناصر پاکستان تحریک میں شامل ہورہے تھے ان کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر سمجھ رہا تھا کہ یہ عناصر جمع ہوکر ایک ملک بناسکتے ہیں ایک قومی حکومت قائم کرسکتے ہیں لیکن ان عناصر سے کبھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک اسلامی ملک حکومت بنائیں گے میں اس کو بالکل صاف دیکھ رہا تھا کہ مسئلہ ایک شخص کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ اس تحریک میں جو لوگ شامل ہورہے ہیں جو اس میں پیش پیش تھے جو اس تحریک کو چلارہے تھے ان کے کریکٹر کو دیکھتے ہوئے ان کی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم ان کے خیالات اور ان کی ہرچیز کو دیکھتے ہوئے ان سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں میں یہ اندازہ کررہا تھا کہ یہ ایک ملک بناسکتے ہیں لیکن اس کو اسلامی حکومت نہیں بناسکتے آگے تقریر کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں اور جو ایک ملک مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کوئی کیسے بچایا جاسکتا ہے اور اسے اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے یہ موقع تھا جب میں نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔ میں نے اپنے طویل تجربات اور مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہئے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں بھی قابل تعریف ہوں میں نے یہ رائے قائم کی اصل اہمیت کثرت تعداد کی نہیں بلکہ قابل اعتماد و سیرت و کردار رکھنے والے کارکنوں کی ہے خواہ وہ تھوڑے ہی افراد ملیں مگر بہرحال ہماری جماعت ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہئے جن میں سے ایک ایک فرد کی سیرت قابل اعتماد ہو جس کے قول عمل پر لوگ بھروسہ کرسکیں جسکے ہاتھ میں مسلمان اپنا مال اطمینان کے ساتھ دے سکیں اور کہتے ہیں کہ میں نے اپنے طویل تجربات مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ مسلمانوں کی تحریکوں کے ناکام ہونے یا ابتداء میں کامیاب ہوکر آخر کار ناکام ہوجانے کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تنظیم کی کمی بھی ہے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی کا نظام سیاست سخت اور مضبوط ہونا چاہئے اس میں ذرا برابر بھی ڈھیل گوارا نہیں کرنی چاہئے خواہ کوئی رہے یا جائے عزیز سے عزیز آدمی بھی چلا جائے تو کوئی پرواہ نہ کی جائے بلکہ تنظیم میں ڈھیل نہ ہونے دی جائے اس لئے کہ غیر منظم جماعت کبھی ایسی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی جو تنظیم کے ساتھ اٹھنے والی ہوں ایک قلیل تعداد جماعت اگر منظم ہو اور حکمت کے ساتھ کام کرے تو وہ پوری ایک قوم کو سنبھال سکتی ہے لیکن لاکھوں انسانوں کی بھیڑ آپ جمع کرلیں اور اس کے اندر تنظیم نہ ہو تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتی اس بناء پر ہم نے جماعت میں شریک کرنے کیلئے ایک ایسا معیار تجویز کیا ہے کہ جو اسلام کی رو سے مسلمان کے کم سے کم شرائط ہیں۔ ایک اور چیز جس کو ہم نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھا وہ یہ تھی کہ جدید دور قدیم تعلیم یافتہ دونوں قسم کے عناصر کو ملا کر ایک تنظیم میں شامل کیا جائے اور یہ دونوں مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کے لئے ایک تحریک چلائیں میں اپنے سابقہ تجربات کی بناء پر میری یہ رائے تھی کہ خالص جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت چاہئے اپنی جگہ اسلام کے معاملے میں کتنی مخلص ہو لیکن چونکہ وہ دین کو نہیں جانتی اس لئے تنہا وہ ایک اپنی نظام قائم نہیں کرسکتی اس طرح محض دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اگرچہ وہ دین کو خوب جانتے ہیں مگر چونکہ انہوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی جس سے وہ ایک جدید دور میں ایک جدید ریاست کا نظام چلاسکیں اس لئے صرف ان پر مشتمل کوئی خالص مذہبی جماعت بھی نہ دینی نظام قائم کرسکتی ہے نہ اسلام کی بنیاد پر جدید دور میں ایک اسلامی ریاست کا نظام چلا سکتی ہے ان وجوہ سے میرے نزدیک یہ ناگزیر تھا کہ ان دونوں گروہوں کو ملایا جائے کہ جماعت کے اندر جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو نہ صرف مخلص مسلمان ہوں بلکہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کے لئے بھی تیار ہوں اور جن کا ذہن اس حد تک مطمئن ہوکہ کسی بات کو تسلیم کرنے کے لئے وہ عقل دلیل کو شرط نہ سمجھتے ہوں بلکہ یہ دلیل ان کے لئے کافی ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا یہ حکم ہے اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اور رسولؐ کا یہ حکم ہے تو پھر بلا تامل وہ سر جھکادیں اسی طرح ان علماء کو بھی شامل کیا جائے جس کے اندر گروہی تعصب موجود نہ ہو اور جو خود اس بات کی ضرورت سمجھے کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لئے انہیں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہئے جماعت کی یہ کوشش بھی تھی کہ ہر فرقہ اور مسلک کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے ظاہر بات ہے کہ اصل اسلام قرآن اور سنت کو ماخذ قانون ماننے کا نام ہے اور ہر وہ شخص مسلمان ہے جو ان دونوں چیزوں کو قانون کا ماخذ مانتا ہو۔