ہاتھوں سے پائمال کرنا

شعر تو خوب ہے، آپ بھی سنیے (یا پڑھیے)

کوئی تو بات ہوگی جو کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب، اپنے ہی ہاتھوں سے پائمال

اس شعر میں ’ہی۔ہی‘ کی معیوب تکرار سے قطع نظر ’’ہاتھوں سے پائمال‘‘ کرنے کا جواب نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر کو پائمال کا مطلب نہیں معلوم۔ ’پامال‘ یا ’پائمال‘ کا مطلب ہے ’’پیروں سے روندنا، کچلنا‘‘۔ ’پا‘ کا مطلب ’پیر‘ ہے۔ شاعری میں پائے کوب کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی پیروں سے کوٹنا، لاتیں مارنا وغیرہ۔ اب یہ کوئی شاعر ہی بتائے کہ ہاتھوں سے پیروں کا کام کیسے لیا جاتا ہے؟ اور پھر خواب کیسے پائمال ہوتے ہیں؟
ہم خوامخواہ شاعری کی کلاس لینے بیٹھ گئے، گو کہ خود کبھی اس خوف سے شاعری نہیں کی کہ دوسرے اسے پامال کردیں گے۔ کچھ دن پہلے ایک اخبار کی سرخی تھی ’’دنیا بھر میں جگ ہنسائی‘‘۔ یہ ترکیب ایک بزرگ شاعر نے بھی اپنی نظم میں استعمال کی ہے۔ بھائی! جگ تو دنیا ہی کو کہتے ہیں۔ انگریزی کا جگ اور ہے۔ اب ’’دنیا میں جگ ہنسائی‘‘ کا مطلب کیا ہوا؟ یعنی دنیا میں دنیا ہنسائی۔ خواجہ میر درد کا مشہور شعر ہے ؎

جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

’جگ بیتی‘ یعنی دنیا جہاں کی سرگزشت، یہ اصطلاح اردو میں عام ہے۔ ’جگ‘ ہندی کا لفظ ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ میں ’و‘ کا بے جا استعمال بڑھتا جارہا ہے اور بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اس زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ السلام وعلیکم ، بلند و بانگ، علائو الدین، بہائو الدین، چاق و چوبند وغیرہ۔ ان سب میں ’و‘ غیر ضروری ہی نہیں بالکل غلط ہے۔ ہم نے ایک بار بڑے بزرگ ادیب و شاعر کو توجہ دلائی تھی کہ انہوں نے اپنی کتاب میں اپنے والد کا نام ’علائو الدین‘ لکھا ہے جب کہ یہ غلط ہے، تو انہوں نے ڈانٹ دیا کہ آپ تو میرے والد تک پہنچ گئے۔ حالانکہ ہم نے غلط املا کی نشاندہی کا جرم کیا تھا۔ مفتی منیب الرحمن بلاشبہ بہت بڑے عالم ہیں اور اردو ہی کیا عربی، فارسی پر بھی کامل عبور ہے۔ ایک بڑے مدرسے کے پرنسپل ہونے کے ناتے پروفیسر بھی کہلاتے ہیں۔ ان کی ’’تفہیم المسائل‘‘ کے عنوان سے کئی جلدوں میں بڑی معرکہ آرا (معرکۃ الآرا نہیں) تصنیف ہے۔ ہم نے اس سے بہت استفادہ کیا ہے۔ تفہیم المسائل (جلد نمبر9) میں انہوں نے کئی جگہ علائو الدین لکھا ہے۔ اسے کمپوزنگ یا کتابت کی غلطی نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے بھی ایسی علمی اور دینی کتابوں کی پروف ریڈنگ بہت احتیاط سے کی جاتی ہے۔ محترم مفتی منیب الرحمن رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، ان کے فتوے پر ہم رمضان کا آغاز کرتے اور عید مناتے ہیں۔ اب اگر وہ علاء الدین کو ’’علائو الدین‘‘ لکھیں تو اسے فتویٰ سمجھ لینا چاہیے، اور جن لوگوں پر ہم نے اعتراض کیا اُن سے معذرت کرلینی چاہیے۔
لیکن ایک معاملہ اور ہے جس میں معذرت کی گنجائش نہیں۔ 6 ستمبر کو جسارت کے ادارتی صفحے پر حضرت مفتی صاحب کا ایک مضمون ’’جدید فلاحی ریاست کے موسّس‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ارشادِ رسولؐ ہے: اے اللہ ازراہ کرم ’ابوجہل بن ہشام‘ یا ’عمر بن خطاب‘ میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ، قوت اور طاقت عطا فرما‘‘۔ ان جملوں کو ارشادِ رسولؐ کہا گیا ہے جو نہ صرف غلط ہے بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے کوئی غلط بات یا جملہ منسوب کرنے پر سرزنش فرمائی ہے۔ مفتی منیب سے زیادہ اور کون اس بات سے واقف ہوگا۔ انہوں نے عمر بن ہشام کا نام ہی بدل دیا۔ ابوجہل اس کا نام نہیں تھا بلکہ اس کی جہالت کی وجہ سے اسے یہ لقب ملا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے‘‘۔ یعنی دو عمر میں سے کسی ایک کو اسلام کے لیے باعثِ قوت بنا۔ اور اللہ کریم نے عمر ؓ بن خطاب کو یہ اعزاز عطا فرمایا۔ اسی لیے سیدنا عمر ؓ کو ’’دعائے رسولؐ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ ابوجہل یعنی جہل والا ان معنوں میں جاہل نہیں تھا جو عام ہیں، یعنی ناخواندہ۔ وہ قریش کے چند خواندہ لوگوں میں سے تھا اور ابوالحکم کہلاتا تھا۔ جَہالت (’ج‘ بالفتح) کا مطلب ناواقفیت، بے وقوفی، اجڈ پن بھی ہے۔ لغات کے مطابق جہل اور جاہل اس کو بھی کہتے ہیں جو جانتے ہوئے بھی سچ کا اقرار نہ کرے اور اپنی ضد پر اڑا رہے۔ ابوجہل کو خوب معلوم تھا کہ حق کیا ہے، لیکن اس کے تکبر نے اسے عمر بن ہشام سے ابوجہل بنادیا، اللہ تعالیٰ نے عمرؓ بن خطاب کو فضیلت عطا کرنی تھی سو وہ ایمان لے آئے۔
گزشتہ دنوں جسارت کے ایک اداریے کی سرخی تھی ’’جوڈیشیل لاء‘‘۔ متن میں ’’مارشل لاء‘‘ بھی تھا۔ ہم پہلے بھی یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ لا (LAW)انگریزی کا لفظ ہے، اس کے آگے ہمزہ کی چڑیا بٹھانا غلط ہے۔ اگر عربی کا لاء ہو تو چلو کوئی بات نہیں۔ ویسے عربی کے ایسے الفاظ اردو میں آئیں تو ان کے آگے ہمزہ غلط نہ سہی غیر ضروری تو ہے۔ مثلاً دعا، فضا، جزا وغیرہ۔ جسارت میں ایک بار پھر ’’گڑھے مردے اکھاڑنا‘‘ شائع ہوا ہے۔ اب یہ کیسے گڑھے ہیں جن میں مُردے پڑے ہیں! یہ محاورہ دراصل ’’گڑے مردے اکھاڑنا ‘‘ ہے، یعنی گئی گزری باتوں کو سامنے لانا۔ غالب کا مصرع ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
جس کو گاڑا جائے وہ گڑا مُردہ ہوگا، لیکن غالب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کعبہ کوئی قبرستان نہیں جس میں کسی کو گاڑا جائے خواہ وہ برہمن ہی کیوں نہ ہو۔ اور بھلا ہندو کب اس پر راضی ہوتے! وہ تو ارتھی پھونک دیتے ہیں، گاڑتے نہیں۔ صورت حال یوں ہے کہ نہ تم باز آئو، نہ ہم باز آئیں۔
19ستمبر کے ایک اخبار میں بڑا دلچسپ جملہ نظر سے گزرا ’’سکھر ایئرپورٹ کی جامہ تلاشی‘‘۔ یعنی پورے ایئرپورٹ کو جامہ پہنایا گیا پھر تلاشی لی گئی، بڑا مشکل کام ہے۔ ممکن ہے رپورٹر کے ذہن میں جامع تلاشی ہو۔ جسارت میں ایک بار کسی فرد کی جامع تلاشی بھی شائع ہوچکا ہے۔ ہمارے صحافی بھائیوں کو جامہ اور جامع کا فرق معلوم کرلینا چاہیے۔ جامہ فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: کپڑا، پوشاک، لباس، قبا، پیراہن۔ حج کرنے والا جو لباس (دو چادریں) مقررہ مقامات (میقات) سے پہن لیتا ہے وہ جامۂ احرام کہلاتا ہے۔ میرؔ کا شعر ہے ؎

جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نا محرم رہا

اور جامع کا مطلب ہے جمع کرنے والا، شامل، حاوی (عربی صفت) بطور مونث وہ بڑی مسجد جس میں نماز جمعہ ادا کی جائے، جامع مسجد، وہ بڑی مسجد جس میں بہت سے آدمیوں کی گنجائش ہو۔ صحیح ’مسجد جامع، ہے۔ اسی سے جامعیت ہے یعنی جامع ہونا، سب طرح کی خوبیاں وغیرہ
عوام اب جمع مذکر نہیں ہوسکتے۔ یہ پکے پکے مونث واحد بن چکے ہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ نومنتخب صدر عارف علوی، جن کی مادری زبان (غالباً) اردو ہے اور تعلق کراچی سے ہے، وہ بھی عوام کو مونث بنانے پر تلے ہوئے ہیں، یعنی عوام یہ کرتی ہے، وہ کرتی ہے۔ سونے پر سہاگا والا محاورہ یہاں استعمال نہیں ہوسکتا، جو محاورہ ہمارے ذہن میں ہے اس کا استعمال ہمارے وزیراعظم کو اچھا نہیں لگے گا، اور وہ خواہ کچھ نہ کہیں، انہوں نے جو ترجمان رکھا ہوا ہے وہ ضرور پوچھیں گے، کہ ان کا کام یہی ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کی والدہ (مرحومہ) اردو بولنے والی تھیں۔ یعنی عمران خان کی مادری زبان اردو ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے بھی فرمایا ’’عوام بدلے گی‘‘۔ یہ 17ستمبر کے ایک بڑے اخبار کی سرخی تھی۔ عمران خان کی اس غلطی کے اس ’’کثیر الاشاعت‘‘ اخبار کے نیوز ایڈیٹر بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔ عمران خان تو وزیراعظم ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن اخبار میں بیٹھے ہوئے ہمارے صحافی بھائیوں کو تو خیال رکھنا تھا۔