مجیب الرحمن شامی
ڈاکٹر حسن صہیب مراد اگرچہ ساٹھ کے ہندسے کو چھونے والے تھے لیکن ان میں کہولت اور تھکاوٹ کا شائبہ تک نہیں تھا۔ توانائی سے بھرپور، لہجے میں عنفوانِ شباب کی جھلک تھی۔
ان کے پاس بیٹھنے اور ان سے باتیں کرنے کے بعد کچھ کر گزرنے، آگے بڑھنے اور اپنے اردگرد کو بدلنے کا جذبہ بیدار ہوتا تھا۔ اپنی چال ڈھال اور گفتار سے وہ چالیس سال کے بلند ہمت معلوم ہوتے تھے۔
جو کچھ وہ کرچکے تھے اس پر قانع نہیں تھے، جو کرنا چاہتے تھے اس میں مگن رہتے تھے۔ اول اول میرے لیے وہ خرم جاہ مراد کے بیٹے تھے اور اسی حوالے سے توجہ اور محبت کے مستحق۔ خرم صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے اولین رہنماؤں میں تھے۔ اس کے ناظم اعلیٰ رہے۔ ان کے والد سول انجینئر تھے، خود انہوں نے بھی اسی شعبے کا انتخاب کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئے، لیکن سرتاپا تحریک رہے۔ جمعیت کو ان کے عہد میں نئی رفعت عطا ہوئی۔ ان کے دعوتی اسلوب کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب میٹرک (یا ایف اے) کے نتائج کا اعلان ہوتا تو نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے لڑکوں کے نام نوٹ کرتے، ان کے پتے حاصل کرکے مبارک باد دینے پہنچتے، کتابوں کا تحفہ بھی لے جاتے اور جمعیت کا تعارف کراتے۔
اس طرح کئی ذہین نوجوان ان کے ہم سفر بنے، اور بعدازاں ممتاز ہوئے۔ یہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد کی باتیں ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد ان سے ایک سال جونیئر تھے، اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رفیقِ خاص۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ اپنے ابتدائی ایام میں کیسا چہرہ رکھتی تھی اور اس کو کس طرح کا خون مطلوب تھا۔
خرم مراد امریکہ سے پڑھ کر آئے تو جماعت اسلامی کے سپرد ہوئے، کراچی سے ڈھاکا پہنچے اور پھر وہیں کے ہورہے۔ یہاں وہ ایک انجینئرنگ کمپنی کے بڑے عہدے دار بن کر گئے تھے، لیکن مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کی آبیاری میں ان کا کردار نمایاں تر رہا اور وہاں وہ فصل کاشت ہوئی، جس کے سر اب تک کاٹے جا رہے ہیں، لیکن جڑیں کٹ نہیں پا رہیں۔
خرم مراد سقوطِ ڈھاکا کے بعد جنگی قیدی بنا کر لے جائے گئے، پاکستان واپس پہنچے تو لاہور کو مسکن بنایا۔ ان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت وافر مقدار میں عطا ہوئی تھی۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور اپنے دلنشیں اسلوب کی بناء پر دلوں میں اتر جاتے تھے۔
ان کی گفتگو بھی سحر انگیز تھی اور تحریر بھی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر بنائے گئے، ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھال کر اسے تازگی بخشی۔
جماعت سے اختلاف کرنے والے بھی ان کے نزدیک محترم تھے اور ان کے مضامین بھی ان کے ہاں جگہ پا سکتے تھے۔ خرم مراد دل کے مرض میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اسی کی نذر ہوگئے۔ تیسری بار آپریشن کا خطرہ مول لینا پڑا، برطانیہ کے ایک آپریشن تھیٹر میں جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ حسن صہیب مراد اپنے جلیل القدر والد ہی کے ذریعے پہچانے گئے، لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنا تاج محل تعمیر کرتے چلے گئے اور جب رخصت ہوئے ہیں تو ان کی قائم کردہ یونیورسٹی اور اس کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے دھاک بٹھا چکے ہیں۔ نجی شعبے میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
جدید پاکستان کے لیے ان کے فراہم کردہ رجالِ کار ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
حسن کراچی میں پیدا ہوئے لیکن ڈیڑھ دو سال ہی کے تھے کہ والد نے ڈھاکا کو مسکن بنالیا۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، چھٹی یا ساتویں میں تھے کہ خاندان دوسری ہجرت پر مجبور ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد والد اور دادا بھوپال سے کراچی پہنچنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کے دادا وہاں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ والد کے ماموں زاہد حسین سے ایک زمانہ واقف ہے کہ پاکستان کے اولین معماروں میں تھے، جنہوں نے اسٹیٹ بینک کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے گورنر بھی مقرر ہوئے۔
یہاں ہجرت کے بعد دنیا نئے سرے سے آباد کرنا پڑی تو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی نے دوسری ہجرت پر مجبور کردیا۔ خرم مراد نے اہلِ خانہ کو کراچی بھجوا دیا لیکن خود محاذ نہیں چھوڑا، بھارتی قید کی بھٹی سے گزر کر کراچی پہنچے۔
خرم مراد کی طرح حسن صہیب بھی اپنا راستہ آپ بنانے کے قائل تھے، ان کی پرورش اس ماں کی گود میں ہوئی تھی جو اپنے طور پر مقامِ رفعت پر تھیں۔ نواب بھوپال شاہ جہاں بیگم کی شادی نواب صدیق حسن خان سے ہوئی تھی، ان کے پڑپوتے سید ظہیر الحسن جماعت اسلامی بھوپال کے امیر تھے، ان کی بیٹی خرم مراد کے عقد میں آئیں اور حسن صہیب کو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے بامقصد زندگی گزارنے کا ذوق عطا ہوا۔ سول انجینئر بننے کے بعد وہ بیرون ملک گئے، وہاں ایم بی اے کیا، ڈاکٹریٹ کی، پاکستان واپس آئے۔ ایک صنعتی ادارے میں ملازمت مل گئی۔ وہاں کارکنوں کی بے نظمی، بے رغبتی اور بے ترتیبی دیکھی تو خیال پیدا ہوا کہ تربیت کا اہتمام ہوجائے تو ان کی پیداواری صلاحیت بہت بڑھ سکتی ہے۔
ادارے کے منتظمین نے اس تجویز پر کوئی توجہ نہ دی تو اپنے طور پر یہ کام کرنے کی ٹھانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن میں لیکچرار بننے کے لیے درخواست داخل کی کہ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی اہمیت اور طلب سے انکار ممکن نہیں تھا۔ انہیں انٹرویو کے لیے طلبی کا خط ملا تو اس سے دو دن پہلے سلیکشن بورڈ کا اجلاس ہوچکا تھا، گویا کارپردازان نے سوچ سمجھ کر یا بلا سوچے سمجھے انہیں مقابلے سے باہر کردیا تھا۔
حسن نے اپنے طور پر ’’انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ وسائل محدود تھے، لیکن حوصلہ محدود نہیں تھا۔ اس ادارے نے بعدازاں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کی شکل اختیار کی۔ وہ پیدائشی استاد تھے کہ بہت چھوٹی عمر میں بھی جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کیا بنیں گے؟ تو وہ کہتے وائس چانسلر۔ ایک بار این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی کے سربراہ ڈھاکا میں ان کے ہاں مہمان بنے تھے، ان کی عزت اور رعب داب دیکھ کر وائس چانسلر بننے کا شوق پال لیا۔
ان کی یہ آرزو پوری ہوئی کہ انہوں نے اپنے لیے آپ یونیورسٹی بنائی، مسلسل کئی سال اس کے سربراہ رہے اور اسے آسمان تک پہنچا دیا۔ وہ بڑے اعتماد سے پاکستانی طلبہ کو تلقین کرتے تھے کہ بلاسوچے سمجھے بیرون ملک جانے کے بجائے پاکستانی یونیورسٹیوں کو جانچیں، پرکھیں اور ان میں تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل سنواریں۔ ہر بیرونی یونیورسٹی ہر قومی یونیورسٹی پر سبقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے اساتذہ کی کہکشاں سجائی اور اپنے نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرکے دکھایا۔
گزشتہ سال ریکٹر کے عہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے آپ کو بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین کے طور پر محدود کرلیا۔ ان کے رفقا اس کے لیے تیار نہ تھے، لیکن ان کا استدلال تھا کہ بانی کو ادارہ اپنی ذات کے ساتھ باندھ نہیں لینا چاہیے۔ وہ اسے الگ اور آزاد دیکھنے کے آرزومند تھے،
اس لیے ذاتی پبلسٹی سے بھی گریز کرتے اور اجتماعات کی رونق بننے سے بھی انکاری ہوتے۔ وہ اپنا نقطہ نظر منوا گزرے، اور پاکستان کے انتہائی ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد اسلم کو اپنی ذمے داریاں سونپ دیں۔ نئے ریکٹر کے انتخاب کے لیے اخبارات میں باقاعدہ اشتہار دیا گیا اور سوفیصد میرٹ پر اپنا جانشین نامزد کردیا۔
ڈاکٹر اسلم جب انٹرویو کے لیے سلیکشن بورڈ میں پیش ہوئے تو یہ حسن صہیب کی ان سے پہلی ملاقات تھی۔ گویا انہوں نے اپنی ذات سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کا اہتمام شروع کردیا تھا۔
ان کا اکلوتا بیٹا ابراہیم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انہی کی اقدار کا ترجمان و پاسبان ہے۔ 10 ستمبر کو گلگت میں پاک چین سرحد کو چھو کر واپس آتے ہوئے جب ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی تو اسٹیئرنگ ابراہیم ہی کے ہاتھ میں تھا۔
تینوں ہم سفر محفوظ رہے، لیکن ان کے دماغ پر ایسی چوٹ لگی جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے، ان کی زبان بے ہوشی میں بھی اللہ، اللہ کا ورد کرتی رہی… کہ ہم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے
مرنے والے مر تو جاتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
’’مرنے والے‘‘ کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
(بشکریہ:روزنامہ پاکستان)
جسٹس (ر) تنزیل الرحمان کی رحلت
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج نامور قانون دان اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیرمین جسٹس (ر) تنزیل الرحمان کراچی میں انتقال کرگئے۔مرحوم کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں دس جلدوں پر مشتمل ‘‘مجموعہ قوانین اسلام’’ نمایاں ہے۔ جسٹس (ر) تنزیل الرحمن 16 جون 1928 کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بجنور میں نگینہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ 1948 میں ا?گرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ 1952 میں ایم اے اور 1954 میں ایل ایل بی کی سند کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ 1971 میں کراچی یونیورسٹی ہی سے اسلامی فقہ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اسلامی قوانین کے حوالے سے غیر معمولی خدمات پر حکومت نے انہیں 1971 میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ محمود عالم صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’مئی 1980میں صدر ضیاء نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو کی اور ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمن کو اس کا چیئرمین مقرر کیا۔ 27 مئی کو کونسل کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ضیاءنے قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر تنزیل الرحمن اپنے علم، تجربے اور دینی حمیت کے لحاظ سے اس منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت تھے۔کونسل نے تیز رفتاری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی شروع کردی۔ سود کی لعنت سے نجات حاصل کرنا ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ قوم کے لیے یہ خبر خوشی کا باعث تھی کہ 15 جون کو نظریاتی کونسل نے قومی معیشت سے سود کے خاتمے پر ماہرین کے پینل کی ایک رپورٹ اتفاقِ رائے سے منظور کرکے اسے حتمی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو بھیج دیا۔ یہ رپورٹ 118 صفحات پر مشتمل تھی۔ 16 ستمبر کو کونسل نے دسمبر 1981ء تک ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ایک ایکشن پلان کی سفارش بھی کردی۔ اپنی سفارشات میں کونسل نے موجودہ بینکوں میں سود سے پاک کائونٹروں کے قیام یا علیحدہ ماڈل بینک قائم کرنے کی مخالفت کی۔آپ15 جون 1990 کو ریٹائر ہوئے۔ جسٹس (ر) تنزیل الرحمن نے اسلامی فقہ کے علاوہ تفسیر بھی لکھی۔ 17 نومبر 1990 کو وہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس مقرر کیے گئے اور اس منصب پر انہوں نے 16 نومبر 1992 تک خدمات انجام دیں۔