سندھی تحریر: امر سندھو
ترجمہ: اسامہ تنولی
پروفیسر امر سندھو سندھ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ گاہے بہ گاہے حالاتِ حاضرہ سمیت مختلف موضوعات پرخامہ فرسائی کیا کرتی ہیں۔ ان کا تحریر کردہ زیر نظر کالم بدھ 19 ستمبر 2018ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں شائع ہوا ہے۔ وطنِ عزیز کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کے تناظر میں سندھی اہلِ دانش وبینش کن خدشات میں مبتلا ہیں اور کس سوچ اور فکر و نظر کے حامل ہیں، یہ تحریر اس کی ایک عمدہ عکاس ہے۔ اس کالم کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’ایک ہی پیج پر باہم اکٹھا ہونے کا تاثر اس سے بہت پہلے کا ہے، جب عمران خان نیازی نے ابھی وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانا تو دور کی بات، الیکشن کے لیے اپنے امیدوار بھی منتخب نہیں کیے تھے۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے ہی معاملہ کسی حد تک واضح ہوچکا تھا، لیکن بعد ازاں جن چند مذہبی جماعتوں پر گویا کہ ایک طرح سے کچھ روز قبل تک پابندی عائد تھی، انہیں اجازت دیے جانے سمیت الیکشن کمیشن نے جس ڈرامائی انداز میں فیصلے کرنے شروع کیے اور انتظامی معاملات سے دست بردار ہوکر فوج کو ذمے داریاں سپرد کرڈالیں، پھر ایک ایک کرکے مختلف جماعتوں کے مضبوط امیدوار نااہل ہونا شروع ہوگئے تو پھر یہ امر زیادہ عرصے تک صیغۂ راز میں نہ رہ سکا کہ یہ ساری تیاریاں کس دولہا کو سہرا سجانے کے لیے کی جارہی ہیں؟
دولہا کی شیروانی تو 2013ء سے ہی تیار تھی، جو وقتاً فوقتاً جھاڑ پھونک کرنے کے لیے باہر بھی نکالی جاتی رہی، مگر دھرنوں سے اور حکومت کو ناکام کرنے کے لیے آخری کوشش تک ایک ہی صفحہ کے کچھ اہم کھلاڑی اسے آگے بڑھاتے ہوئے بھی مڈٹرم کا ماحول قائم نہیں کرسکے۔ بہرکیف یہ امر تو طے شدہ ہے کہ رسمی طور پر حلف اٹھاکر عہدے پر براجمان ہونے سے پیشتر ہی وہ اپنے آپ کو ساری بارات کا دولہا سمجھتے رہے (عمران خان کی طرف اشارہ ہے) درآں حالیکہ نکاح کی روایتی رسم میں بعض رکاوٹیں ضرور حائل تھیں۔ (گویا کہ ایک طرح سے عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب کی طرح معاملہ تھا۔ مترجم)
’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کے مصداق ہم میں سے بھی بہتوں نے بن بلائی بارات میں نہ صرف شرکت کی بلکہ کچھ نے تو دولہا پر ’’گھور‘‘ (پھینکے گئے روپوں) کی رقم بھی حاصل کرنے کے لیے اپنے ہاتھ پائوں مارے۔ ڈیزائن جس نے بھی بنایا خوب بنایا۔ نام جس نے بھی رکھا خوب رکھا۔ یہ ’’نیا پاکستان‘‘ تھا۔ اور یہ سب کچھ آنکھوں میں دھول جھونک کر، کھیل تماشہ کے بتاشے کھانے والوں کو ’’تبدیلی آئی رے‘‘ کی دھن پر نچایا گیا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں نے اپنی اس تماشہ آرائی سے سبھی کو اندھا کر ڈالا ہو۔ لیکن سلام اس سندھ کو ہے جس نے نیازی کو نو مرتبہ نہ کرتے ہوئے مثبت ردعمل نہیں دیا۔ سندھ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ مار کھایا ہوا ہے اور اس نے ’’پوسٹر بوائے‘‘ کی مقبولیت کے جھانسے میں زیادہ آنا پسند نہیں کیا۔ اس لیے اہلِ سندھ نے کسی ایسے خواب کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے تلخ حقائق، ناکامیوں، نااہلی سمیت ’’پرانے سندھ‘‘ ہی کو ایک بار پھر سندِ پذیرائی بخشی۔ سندھیوں نے یہ فراموش نہیں کیا تھا کہ ’’نیا پاکستان‘‘ کے نام پر ایک ہی پیج پر جتنی بھی قوتیں باہم یکجا ہوں گی ان میں ’’سندھ مسنگ‘‘ ہوگا۔ انہیں یہ بھی اندازہ تھا (اہلِ سندھ کی طرف اشارہ ہے) کہ جب بھی اوپر سے ’’مائنس سندھ‘‘ حکومت وارد ہوئی ہے، اس نے ہمیشہ ہی سندھ کے احتجاج کو مسترد کیا ہے۔ سندھ کو پیپلزپارٹی کی بدترین کرپشن اور انتظامی نااہلی کے باوجود یاد تھا کہ پرویزمشرف کا دور کس طرح سے اس پر مسلط ہوا تھا، کہ اسے نیچا دکھانے کے لیے شوکت عزیز کو ’’تر‘‘ (سندھ کے علاقے تھرپارکر) سے جتوا کر وزیراعظم بنوانے کے باوصف کراچی میں 12 مئی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے ناظم کو جتوانے کے لیے حیدرآباد کے تین ٹکڑے کردیے گئے۔ نہ سندھ کا اجتماعی حافظہ کمزور تھا اور نہ ہی اس کا سیاسی شعور خیبر پختون خوا کی طرح شکست یافتہ تھا کہ تبدیلی کے نام پر ’’اٹھارہویں ترمیم‘‘ یا ’’این ایف سی ایوارڈ‘‘ سے دست بردار ہوجاتا۔ اس لیے سندھ جو 2013ء کے الیکشن میں اس قدر متحرک دکھائی دیا تھا اس نے یہ جان لیا تھا کہ یہ تبدیلی کی ہوا اس کا بچا کھچا اثاثہ اٹھانے کے لیے ہی چل رہی ہے۔ لہٰذا طنز و تنقید، طعن و تشنیع اور حد درجہ لے دے کے باوصف اہلِ سندھ نے لگ بھگ اوپر سے مسلط کردہ اسٹیمپ شدہ سبھی امیدواروں کو ہرا دیا کہ پہلے کے مقابلے میں سیٹیں بھی حکمران پارٹی کو کہیں زیادہ ملیں۔ حالاں کہ بہت سارے سندھ پرست بڑے تجزیہ نگاروں نے دن رات کوشش کرکے باور کرانا چاہا کہ پرانا نظام اب کس دمِ واپسیں پر ہے۔ لیکن اجتماعی شعور کو شکست دینا ان کے بس سے باہر تھا، اور اس طرح سے ’’ایک پیج پر اکٹھا ہونے‘‘ کا اسکرپٹ کم از کم سندھ کی حد تک تو دراصل اسی وقت ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا جب سندھ سے مسنگ پرسنز کی طرح سے سندھ بھی مکمل طور پر مسنگ ہوچکا تھا۔
دوسری جانب سنجیدہ مشاہدہ نگاروں نے اس قدر ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد برپا ہونے والی تبدیلی کو محض پارلیمنٹ کے اندر Transformation of political power ہی نہ گردانا، بلکہ اس سارے ٹکسالی ٹرائیکا کے ڈیزائن کو بھی سمجھنے کی سعی کی کہ تبدیلی جس کا مرکز ’’عوامی سیاست‘‘ نہ ہو، وہ تبدیلی یقینا کسی بڑے بھونچال پر مبنی اور ’’سینگوں کے لیے کان کٹوانے‘‘ کے مصداق تھی۔ یہ بھی ایک امر واقع ہے کہ مشکل سے دولہا کے لوازمات پورے کروا کر اسے رسمی طور پر وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانا تھا۔ باقی رہا یہ کہ حکومت کس طرح سے، کون، کن بنیادوں پر چلائے گا، یہ معاملات بھی پہلے سے ہی طے شدہ تھے۔ جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر نے اسمبلی ارکان کو ڈھونے کا عمل محض ’’کارِخیر‘‘ کے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ ’’تقسیمِ کار‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تھا۔ پیپلز پارٹی کی اپنی دس برس پر محیط کارکردگی پر سندھ کا ’’چڑ جانا‘‘ بہت زیادہ تھا، اس لیے بہ ظاہر ’’انور مجید کی بھاگ دوڑ‘‘ سے لے کر ’’ادا اور ادی‘‘ (آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور)کی ’’نیبی حاضریوں‘‘ پر بھی سندھ نے اتنا زیادہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ سندھ بہ ظاہر اتنا آسان بھی نہیں جتنا کہ ’’مالکان‘‘ کا اندازہ تھا۔ آنکھ پہلے این ایف سی ایوارڈ پر تھی، آنکھ سندھ کے وسائل پر بھی مرتکز تھی۔ آنکھ اٹھارہویں ترمیم پر تھی۔ اٹھارہویں ترمیم جس نے حقیقت میں سندھ کے خزانے اور وسائل پر سندھ کے حقِ ملکیت کو آئین کا حصہ بناکر وفاق کی جانب سے کھانے والی ڈاڑھوں کو نکال ڈالا تھا۔ سندھ کے مالی وسائل کچھ کم تو ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی تیل اور گیس سے مالا مال سندھ اتنا غریب صوبہ ہے اور نہ اتنا خدا ترس ہے کہ اپنے بچوں کے بجائے وفاق کی پرورش و پرداخت کرنے میں لگ جائے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی پر یہ ناراضی ضرور تھی کہ اُس نے عرصہ دس برس تک کھایا، لیکن این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم، سندھ کا سرمایہ اور خزانہ و وسائل محض پارٹی ہی کے تو نہیں تھے، سندھ حکومت کے اختیار کے تحت ہی تو یہ اسے مل پائے۔ نئے پاکستان کا مطلب و مفہوم یہ تو نہیں ہے کہ سارے وسائل اور خزانہ محض اس لیے دوبارہ وفاق کے سپرد کردیے جائیں کہ وہ ان کی صحیح طور سے نگہداشت اور حفاظت نہیں کرسکتے۔ پھر تو یہ بڑی عجیب بات ہے!!
اِس وقت ملک کا بڑا داخلی مسئلہ خزانہ اور وسائل کی تقسیم ہے جو اب وفاق کے کنٹرول میں نہیں رہی ہے، اور ’’پرانا سندھ‘‘ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈیزائن تو یہ تھا کہ پاپولرازم والا پوسٹر بوائے اپنا کام کرجائے، لیکن سندھ کو یوں اور اس طور سے انڈراسٹیمیٹ کیا گیا کہ سمجھا یہ گیا کہ پیپلزپارٹی کی نالائقی کے سبب سندھی، سندھ ہی سے دست برداری اختیار کرلیں گے (یعنی اس مرتبہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اپنے ووٹ اور سپورٹ سے محروم رکھیں گے۔ مترجم) اور سندھ میں حکومت بہ طور تحفہ عمران خان نیازی کو کچھ اس طور سے دے دیں گے کہ ’’اب جو جی چاہے آپ کریں‘‘۔ لیکن یہ ہونا ممکن اس لیے بھی نہیں تھا کہ سندھ اپنے دوستوں کو پہچاننے میں خواہ بھلے سے غلطی کرے لیکن وہ اپنے دشمن کو دور ہی سے پہچان لیا کرتا ہے۔ اسی طرح سے سندھ نے بھی حالیہ الیکشن میں یہ پہچان لیا کہ اسے انتخاب تو کرنا ہے، اور پھر اس نے انہی سابقہ چہروں ہی کو لگ بھگ منتخب کیا ہے جنہوں نے سندھ میں عوام کو ’’تبدیلی‘‘ کے لیے مجبور کیا تھا۔ اس طرح اہل ِسندھ نے مذکورہ نوع کی ’’تبدیلی‘‘ کو سندھ میں ’’نوانٹری‘‘ دے ڈالی، کیوں کہ انہیں یہ پہلے ہی سے پتا تھا کہ ’’شوکت عزیز‘‘ نے ’’تھر‘‘ سے منتخب ہونے کے بعد کتنی مرتبہ دوبارہ آکر سندھ (اور اہلِ علاقہ) کا حال معلوم کیا تھا؟
اصل مالکان (مراد ہے اسٹیبلشمنٹ) کا باہم کوئی معاہدہ اور سودا بھی ہوا ہو گا( اُن سیاست دانوں سے جو تبدیلی کے علَم بردار تھے۔ مترجم)۔ کہیں پر ’’آدھا تمہارا، آدھا ہمارا‘‘ کی باتیں بھی ہوئی ہوں گی۔ فرینڈلی اپوزیشن کے قول و قرار بھی لازمی ہوئے ہوں گے۔ لیکن ایک امر جو بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ ’’سندھ کے حقِ حکمرانی، سندھ کے وسائل، سندھ کے خزانے اور سندھ کی مردم شماری پر ہاتھ ڈالنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہو گا‘‘۔ سندھ نے بغیر کسی قیادت اور سیاسی رہنمائی کے دہرے نظام کو رائج کیے جانے کے معاملے پر پیپلزپارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر ڈالا تھا تو بھلا پھر اہلِ سندھ نیازی کو اس قدر آسانی سے سندھ کے معاملات کے ساتھ چیرہ دستی کرنے کی اجازت کیوں کر دیں گے؟ ’’مزاحمت‘‘ سندھ کے سیاسی ضمیر کا ایک حصہ ہے اور اپنے حقوق پر حقِ ملکیت رکھنا بھی سندھیوں کا ازلی حق ہے۔ اس لیے سندھ کے ساتھ ڈیم کا یہ کھیل جنرل ضیا کو بھی مہنگا پڑا اور جنرل پرویزمشرف کو بھی راس نہ آسکا۔ اب نیازی خان بھی آزماکر دیکھ لیں۔ لیکن سندھ کو ظاہری طور پر دکھائی دینے والی سیاست کے پس پردہ محرکات کو بھی دیکھنا ہوگا۔
میری رائے میں مسئلہ محض ڈیمز کا بھی نہیں ہے۔ بڑا ایشو کراچی اور اس کے سیاسی و معاشی کنٹرول کا بھی ہے۔ ’’کراچی صوبہ‘‘ سے لے کر افغانیوں اور بنگالیوں کو پاکستانی پاسپورٹ دینے یا شہریت کا حق دینے میں بھی دراصل انسانی ہمدردی کے پیچھے پوشیدہ محرک یہی ہے کہ کسی طرح سے کراچی کی سیاست اور معیشت کو وفاقی کنٹرول کے تحت رکھا جا سکے۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے بذریعہ بلدیاتی نظام اور امن و امان کی بحالی کے نام پر لائی گئی رینجرز کے توسط سے اسے (کراچی کو) کنٹرول کیا جارہا تھا، لیکن اب صوبائی خودمختاری نے کسی حد تک وفاق کی جانب سے براہِ راست کنٹرول کرنے والے ہاتھوں کو کاٹ دیا ہے۔ اسی لیے کراچی ماسٹر پلان اور غیر ملکی امیگرنٹس کو شہریت اور ووٹ کا حق دینے کے ذریعے وفاق دراصل اپنی مداخلت اور اجارہ داری کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے محض سندھیوں ہی کو نہیں بلکہ غیر سندھیوں کو بھی خبردار رہنا پڑے گا کہ ایک ڈیم کا نام لے کر ساری قوم کو دیوار سے لگا کر ہم سے صوبائی خودمختاری یا وسائل پر حقِ ملکیت چھیننے کے لیے کوئی بڑا ڈراما تو تیار نہیں ہورہا ہے؟ ڈیم کے خلاف بھرپور مزاحمت اپنی جگہ، لیکن اس وقت سیاسی چوکسی کی ضرورت ہے۔
سندھ میں تبدیلی سے انکار کی سزا تیار ہے، تاہم سندھ کو بھی اپنی تیاری کرنا پڑے گی۔ نہ صرف یہ کہ وفاق کے بار بار رد کیے جانے والے منصوبوں کو دوبارہ مسترد کرنا ہے، بلکہ حکومتِ سندھ پر بھی یہ دبائو ڈالنا ہے کہ دریائے سندھ پر بننے والے ڈیموں، شہریت کے نام پر سندھ کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے یا پھر انتظامی طور پر کراچی کو (سندھ سے) الگ کرنے کی سازش کو حکومتی سطح پر وہ رد کرے، ورنہ اگر سندھ رد کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ سندھ سرکار کو بھی رد کر ڈالے گا۔ سندھ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی بھنک بھی پڑ رہی ہے۔ لہٰذا خبردار ہونا ضروری ہے۔ سندھ کی مالکی آخر کو ہمیں ہی کرنی ہے۔‘‘