نام کتاب: سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مصنف: شیخ مصطفی حسنی السباعی
مترجم: ملک غلام علی
صفحات: 111، قیمت 150 روپے
ناشر: قرطاس،فلیٹ نمبر A-15 گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک 15 کراچی
موبائل: 0321-3899909
ای میل: saudzaheer@gmail.com
ویب گاہ: www.qirtas.co.nro
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کو اپنے والدِ محترم ڈاکٹر افتخار احمد مانکپوری، رکن جماعت اسلامی کی لائبریری سے ’’سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نام سے زیرِ نظر رسالہ ملا جو ملک غلام علی صاحب معاون مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ترجمہ کردہ تھا، اس کو انہوں نے بڑے اہتمام سے اپنے مکتبے سے شائع کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن جماعتِ اسلامی سے متعلق ایک قدیمی مکتبے ’مکتبہ چراغِ راہ‘ لاہور بیرون لوہاری دروازہ سے شائع ہوا تھا۔ اس کے مصنف اخوان المسلمون کے شام کے امیر ڈاکٹر شیخ مصطفی حسنی السباعی تھے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر تحریر فرماتی ہیں:
’’مصطفی حسنی السِّباعی (1964-1915ء) گزشتہ صدی میں عرب دنیا کا ایک معروف نام تھا۔ وہ کئی شعبوں میں سرگرمِ عمل تھے۔ شام کی سیاست میں فعال، ’’شبابِ محمد‘‘ اخوان المسلمون کی شامی شاخ کے بانی، ماہر تعلیم، مفکر، مصنف اور شاندار خطیب، مصطفی السباعی 1915ء میں موجودہ شام کے شہر حمص میں پیدا ہوئے۔
اسی ولایۃ سوریا میں مصطفی حسنی السباعی نے اس وقت جنم لیا جب دنیا پہلی جنگِ عظیم کی ہولناکیوں کی لپیٹ میں تھی۔ ان کے آباء کا تعلق آلِ سباعی سے تھا، جو حمص کا ایک معروف اور کثیر الافراد خاندان تھا۔ اُس وقت حمص کی تقریباً ربع آبادی، اسی خاندان کے افراد پر مشتمل تھی۔ مصطفی سباعی نے اعلیٰ تعلیم مصر کی جامعہ الازہر (قاہرہ) سے حاصل کی، جو ان دنوں قدیم و جدید مکالموں کی آماجگاہ تھی اور وہاں جدید فکری ارتقاء کا سفر شروع ہوچکا تھا۔ جامعہ الازہر کے شعبہ اسلامی الٰہیات سے انہوں نے ’’السنۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی‘‘ (The Sunnah & its role in islamic Legislation) کے موضوع پر اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔
قیامِ مصر کے دوران وہ اخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البناء کے خطابات سننے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح قاہرہ کے مشہور ہفتہ وار اخبار ’’الفتح‘‘ کے صاحبِ علم ایڈیٹر محب الدین الخطیب کی صحبت سے بھی مستفید ہوئے۔ مصطفی سباعی کی ابتدائی تحریریں ’’الفتح‘‘ میں ہی شائع ہوئیں۔ ان دنوں (1939-1927ء) ’’الفتح‘‘ ہی ایک ایسا اخبار تھا، جس کے صفحات پر مشرق و مغرب کے اہم دانشوروں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ مثلاً امیر شکیب ارسلان، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی، مصطفی الرفاعی، حسن البناء، مصطفی سباعی، عمر بہاء الامیری، عبدالقہار مدکر (انڈونیشیا)، محمد مکین (چین)، عبدالمنعم خلاف وغیرہ۔
شام واپس جانے کے بعد مصطفی سباعی، دمشق یونیورسٹی میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ چند برسوں بعد ’’کلیۂ قانون اور اسلامی شریعت‘‘ (Faculty of Islamic Jurisprudence & the school of Law) کے ڈین مقرر ہوگئے اور 1961ء تک اس منصب پر فائز رہے۔
1941ء میں انہوں نے ’’شبابِ محمد‘‘ نامی تنظیم بنائی اور شام کی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ ’’شبابِ محمد‘‘ نے خود کو قومی اتحاد سے جوڑے رکھا، اور فرانسیسی انتداب (French Mandate) کی مخالف رہی۔ فکری طور پر شبابِ محمد مصر کی اخوان المسلمون سے مربوط تھی۔
شام پر فرانسیسی انتداب اپریل 1946ء تک قائم رہا۔ مصطفی سباعی اس انتداب اور فرانسیسی پالیسیوں کے شدید ناقد رہے، اور اس حوالے سے سختیاں بھی برداشت کیں۔
اسی سال یعنی 1946ء میں انہوں نے ’’شبابِ محمد‘‘ کو اخوان المسلمون کی شامی شاخ کی حیثیت دے دی۔ 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام نے عالمِ عرب بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ہیجان برپا کردیا۔ عرب ممالک نے، جن میں شام بھی شامل تھا، اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کیں، اس موقع پر مصطفی سباعی نے بھی اپنے نوجوانوں کے چھاپہ مار دستے تشکیل دیئے، لیکن یہ کارروائیاں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔ 1949ء میں وہ رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ 3 اکتوبر 1964ء کو محض 49 برس کی عمر میں مصطفی سباعی وفات پا گئے۔ ان کے علمی آثار میں شامل ہیں: الدین والدولۃ فی الاسلام، اشتراکیت الاسلام، ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بعنوان السنت و مکانتھا فی التشریح الاسلامی (اسلامی قانون سازی میں سنت کا مقام) اس کا اردو ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔
شیخ مصطفی سباعی نے سنتِ رسولؐ کے نام سے ایک اہم مقالہ لکھا تھا جس کا اردو ترجمہ ملک غلام علی صاحب نے کیا جو جماعتِ اسلامی کے دیرینہ رکن تھے اور عربی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ یہ ترجمہ ان کے قائم کردہ مکتبہ چراغ راہ، لاہور سے 1956ء میں شائع ہوا۔ مکتبہ چراغ راہ نے اور بھی قابلِ ذکر کتابیں شائع کیں۔ سنتِ رسولؐ کی اہمیت اور ضرورت کے پیشِ نظر ادارۂ قرطاس سے اس کی اشاعتِ نو کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ترجمہ ملک غلام علی کا برقرار رکھا گیا ہے۔ متن میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہے، پوری علمی دیانت کے ساتھ اس علمی مساعی کو دوبارہ پیش کیا جارہا ہے، جس کی آج بھی اتنی ہی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جتنی ساٹھ برس قبل تھی۔ امید ہے علمی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی ہوگی۔‘‘
چونکہ موضوع نہایت اہم ہے، اس لیے ہم کتاب کے محتویات قدرے تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔
باب اول: سنت کا مفہوم اور نظام دین میں اس کا مقام
سنت کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم، وجوب اطاعتِ رسول حینِ حیات، وجوب اطاعت بعدِ وفات
باب دوم: حدیث کی روایت و کتابت، عہدِ نبوی اور دورِ صحابہ میں
صحابہ سنتِ رسولؐ کو کیسے اخذ کرتے تھے؟، عہدِ نبوی میں احادیث کیوں مرتب نہیں کی گئیں؟، کیا عہدِ نبوی میں احادیث لکھی ہی نہیں گئی تھیں؟، عہدِ نبوی کے بعد حدیث کے بارے میں صحابہ کا مؤقف، کیا حضرت عمرؓ نے کثرتِ روایت کی بنا پر کسی صحابی کو قید کیا تھا؟، کیا صحابہ قبولِ حدیث کے لیے کچھ شرائط رکھتے تھے؟، صحابہ کا سفر برائے حدیث،
باب سوم: فتنہ وضع حدیث
موضوع احادیث کی ابتدا، حدیث میں وضع کا عمل کس پود سے شروع ہوا؟، احادیث میں وضع کے اسباب، سیاسی اختلاف، کیا خوارج بھی حدیثیں گھڑتے تھے؟، زندقہ، عصبیت، قصے اور وعظ، فقہی اور کلامی اختلافات، جذبہ خیر کے ساتھ ساتھ دین سے جہالت، بادشاہوں کا تملق اور چاپلوسی
باب چہارم: سنت کی محافظت کے لیے محدثین کا مجاہدۂ عظیم
وضع احادیث کے فتنہ کو دبانے کے لیے علماء کی کوششیں، حدیث کی اسناد، صحابہ اور دیگر ائمہ فن سے توثیق، راویوں پر نقد و جرح اور ان کے حالات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے والے، وہ لوگ جو اپنی عام گفتگو میں جھوٹ بولتے ہوں، اگرچہ ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے کا ثبوت نہ ہو، اہلِ بدعت اور ہواپرست، زنادقہ، فُسّاق اور سادہ لوح لوگ، حدیث کی تقسیم و تمیز کے عام اصول کی وضع و تدوین، صحیح، حسن، ضعیف، مرسل، منقطع، مُعَضّل، شاذ، منکر، مضطرب، سند کی علاماتِ وضع، متن کی علاماتِ وضع
باب پنجم: استدراک
شیعی عالم کا خط، سباعی صاحب کا جواب
باب ششم: تدوینِ سنت اور علوم حدیث
تدوین سنت، علم مصطلح حدیث، علم جرح و تعدیل، متفرق علوم حدیث، رُواۃ کی معرفت، مسانید، آثار موقوفہ کی پہچان، مُدُرَج کی پہچان، حدیث صحیح و سقیم کی عام معرفت، معرفت علل حدیث، مذاہب محدثین کی معرفت، معرفت تصحیفات، معرفت مراتب صحابہ، معرفت تابعین، کتب موضوعات و وضاعین
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے۔ تحریکِ اسلامی سے متعلق ہر شخص کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ علوم حدیث کے طلبہ کے لیے بھی مفید ہے۔
کراچی میں ناشر کے علاوہ فضلی بک اردو بازار اور کتاب سرائے اردو بازار لاہور سے بھی دستیاب ہے۔
………
نام کتاب: افکارِ قرآن
تالیف: شیخ ابراہیم بن عمر السکران
ترجمہ: محمد ظہیر الدین بھٹی
صفحات: 144، قیمت 160 روپے
ناثر: البدر پبلی کیشنز۔ 32، فرسٹ فلور، ہادیہ حلیمہ سینٹر اردو بازار لاہور ۔ فون نمبر
042-37225030
042-37245030
0300-4745729
0333-4173066
البدر پبلی کیشنز کے مالک ہمارے بھائی عبدالحفیظ احمدؒ تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے سعادت مند صاحبزادے علی سعید صاحب نے البدر کے کاروبار کو کامیابی سے جاری رکھا ہوا ہے اور مفید اسلامی و تحریکی کتب کی اشاعت جوش و جذبے سے برقرار رکھی ہوئی ہے۔ مترجم کتاب جناب محمد ظہیرالدین بھٹی تحریر فرماتے ہیں:
’’محترم علی سعید صاحب اپنے والدِ گرامی عبدالحفیظ احمد رحمۃ اللہ علیہ کے سچے جانشین ثابت ہوئے ہیں۔ بالکل انہی کی مانند علم کی نشر و اشاعت میں دلچسپی اور اہلِ علم کا احترام ان کا شیوہ ہے۔ خلوص و محبت سے مالامال ہیں۔ نت نئے دینی، علمی اور تاریخی عنوانات پر کتابیں شائع کرنا آپ کو ورثے میں ملا ہے۔ ان میں سے ایک کتاب ’’الطرس الی القرآن‘‘ ہے جسے سعودی عرب کے دانشور ابراہیم بن عمر السکران نے قلم بند کیا ہے۔ مؤلف کا انداز و اسلوب دلکش اور اچھوتا ہے۔ آپ نے قرآن مجید سے متعلق بہت سی ایسی باتیں ایسے انوکھے زاویے سے لکھی ہیں کہ جس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔ قرآن کے جاہ و جلال اور اثر رسوخ کو متعدد مثالوں سے واضح کیا ہے۔ قرآن سامعین کو کیسے ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور انسان قرآن سن کر کیسے حیران و ششدر بلکہ مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے، اسے بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اُن لوگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو سنگ دل ہیں اور راہ گم کردہ ہیں۔ مؤلف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے کسی لمبے چوڑے نصاب کی حاجت نہیں بلکہ ایک براہ راست راستے پر چلنا ہے۔ قرآن کے وہ کون کون سے مقامات ہیں جو لائقِ تدبر ہیں؟ اس موضوع پر ابراہیم صاحب نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ آپ نے ایک باب میں اُمّ القرآن ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ رمضان کی راتوں کا قرآن سے کیا تعلق ہے؟ اس پر مؤلف نے لکھنے کا حق ادا کردیا ہے۔ سب سے آخری اور کتاب کے سب سے طویل باب میں ’’قرآن کے باہمی ربط و ضبط اور تعلق کی بنیاد‘‘ کو مؤلف نے بڑے احسن انداز سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی بے شمار آیات سے استدلال کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ قرآن کا مقصود انسانوں کے دلوں کو اللہ سے جوڑنا ہے، اللہ کی یاد سے دل کو معمور اور آباد کرنا ہے۔ قلبِ انسانی کو ہر وقت اللہ سے مربوط رکھنا چاہیے۔ دل کبھی بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ رہیں۔ دل اللہ کی یاد سے آباد رہیں، ایک ایسی حقیقت ہے جو ایک مالا کے موتیوں کی مانند پورے قرآن میں موجود ہے۔ یہی قرآن حکیم کا باہمی ربط و ضبط ہے کہ وہ نفسِ انسان کو اپنے خالق کی یاد سے معمور کرتا ہے۔ میں نے قارئین کی سہولت کے لیے ان مقاماتِ ربط پر نمبر شمار لگادیے ہیں۔ قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے، یہ کتاب انسانوں کے لیے باعثِ نجات ہے۔ دنیا و آخرت کی سعادتیں اسی کتاب سے وابستہ ہیں، مگر افسوس کہ ہم مسلمان اس سے غافل و لاپروا ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو قرآن میں تدبر کی دعوت دینا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس مختصر کتاب کے مطالعہ کے بعد قارئین کتاب اللہ کی طرف لوٹیںگے۔ قرآن مجید میں گہری دلچسپی لیںگے اور اس میں اچھی طرح غور و فکر کے بعد اس پر عمل کریںگے۔ اور یوں وہ دنیا و آخرت کی سعادتِ کبریٰ سے سرفراز ہوں گے۔‘‘
قرآن فہمی اور قرآن مجید سے قلبی ربط کے لیے اس قسم کی کتابیں بہت ضروری ہیں۔ ان کے لکھنے والے، ترجمہ کرنے والے اور ان کو طبع کراکر عامۃ المسلمین تک پہنچانے والے ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں۔ ان شاء اللہ اس کا اجرا اللہ سے ملے گا۔ جن عنوانات کے تحت مضامین لکھے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
دستک، قرآن کا اثر رسوخ، دیکھو وہ کیسے حیران و ششدر رہ گئے!!، اشعریوں کے ٹھکانے، سنگ دل، گم گشتہ راہ آوارہ لوگ، لمبا نہیں مختصر سیدھا راستہ، قرآن کے مقاماتِ تدبر، سورۃ الفاتح اُمّ الکتاب، رمضان کی راتوں میں گونج،کتاب اللہ میں باہمی ربط و تعلق کی بنیاد یعنی دل کو اللہ کی یاد سے معمور کرنا۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے۔ حسین رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔
…………
نام کتاب: پاکستان میں اردو سیرت نگاری۔ ایک تعارفی مطالعہ (2018 – 1947ء)
مؤلف: ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
صفحات: 208
ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز اے۔17/4، ناظم آباد نمبر4، کراچی
فون نمبر: 021-36684790
ای میل : info@rahet.org
ویب گاہ: www.rahet.org
فیس بک: zawwar academy publication
فیس بک: research academy for higher education & technology
یہ کتاب دارالعلم و التحقیق برائے اعلیٰ تعلیم کے زیر اہتمام طبع کی گئی ہے۔ یہ اس کی طبع دوم ہے۔ مؤلف نے اس کا انتساب ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور اپنے فکر و فن کی کاوشیں پیش کرنے والے سیرت نگاروں کے نام کیا ہے۔
ڈاکٹر سید عزیزالرحمن تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستان میں سیرت نگاری کے حوالے سے پینسٹھ سالہ سفر کی داستان دراصل راقم کی ایک گفتگو ہے، جو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقد ایک نشست میں 26نومبر 2009ء کو کی گئی تھی۔ خلافِ توقع اسے پسند کیا گیا اور اس نشست میں موجود کئی ایک اہلِ علم نے اسے شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی، مگر اُس وقت یہ گفتگو زیادہ تر زبانی تھی، چند اشارے تھے جو کاغذ پر تحریر تھے، بعد میں اس نشست کے سرپرست اور راقم کے مہربان و مخدوم جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا حکم موصول ہوا کہ اسے مرتب کیا جائے۔ اس نشست کی صدارت ڈاکٹر قبلہ ایاز جامعہ پشاور نے فرمائی تھی، اس نشست میں مخدوم مکرم جناب ڈاکٹر صاحب زاد ساجد الرحمن ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی اور نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بھی راقم کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ ان حضرات نے بھی اس گفتگو کو مرتب اور شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ سو یوں یہ کم سواد تحریر سیرت شناسوں کی خدمت میں ادب اور عاجزی کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔
اس مختصر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ سیرتِ طیبہ پر کسی بھی حوالے سے لکھی جانے والی اہم ترین کتب میں سے کچھ حصے کا مختصر تعارف سامنے آجائے۔ سچ یہ ہے کہ ایسی کسی فہرست میں کسی کتاب کو شامل کرنے کے لیے تو کوئی ضابطہ مقرر کیا جاسکتا ہے، مگر کسی کو شامل نہ کرنے کے لیے کوئی ضابطہ وضع نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر کسی کتاب کی اس فہرست میں عدم موجودگی کو راقم کی لاپروائی یا عدم دلچسپی سے زیادہ موضوع کی وسعت اور صفحات کی محدودیت پر محمول کیا جائے تو راقم شکر گزار ہوگا۔
اس تحریر میں توجہ کتبِ سیرت کے مختصر تعارف پر مرکوز کی گئی ہے۔ ان کتب کا تجزیاتی مطالعہ اور ان پر ناقدانہ نظر الگ موضوع ہے۔ یہ ہلکی پھلکی تحریر اس کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی، البتہ اگر کہیںکوئی بات زیادہ قابل توجہ محسوس ہوئی تو اس کے اظہار میں تامل نہیں کیا گیا۔
ان سطور کو ترتیب دینے میں ہمیشہ کی طرح برادرم حافظ محمد عارف گھانچی کی معیت اور تعاون حاصل رہا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس خطبے کے محرک و سرپرست جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سابق ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی ہیں۔ ان ہی کی دل چسپی سے یہ سطور قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔ راقم ان تمام حضرات کے شکریے کے ساتھ یہ سطریں سیرت شناسوں کو ہدیہ کررہا ہے، دعائوں کی درخواست کے ساتھ‘‘۔
دوسرے ایڈیشن کے لیے ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’ الحمدللہ چھے سال کے وقفے کے بعد اس تعارفی تحریر کی دوسری توسیعی اشاعت پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ کتاب پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ کتب ِسیرت کے اندراجات میں اضافہ کیا گیا ہے، اور تفصیلات میں بھی۔ اس طرح اب یہ کتاب مزید مفید معلومات فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام اضافے سابقہ عنوانات کے ذیل میں ہی کیے گئے ہیں۔ البتہ ایک عنوان ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ بھی بڑھایا گیا ہے، کیوں کہ اردو میں سیرتِ طیبہ پر اس عنوان پر بھی تیزی سے نئی مطبوعات سامنے آرہی ہیں، اس لیے ان کا تعارف بھی ضروری سمجھا گیا۔ باقی تقریباً ہر عنوان کے ذیل میں تھوڑا بہت اضافہ ضرورہوا ہے۔
اصل ضرورت اردو کے ذخیرۂ سیرت کا ازسرِنو جائزہ اور اس کا تجزیہ کرنے کی ہے، مگر یہ کام کون کرے؟ یہ کام بنیادی طور پر ملک کے طول و عرض میں کثرت سے موجود مسانید سیرت اور تیزی سے پھیلتی ہوئی جامعات اور ان کے شعبہ ہائے علومِ اسلامیہ کا ہے، جہاں سے بڑی تعداد میں ایم فل اور پی ایچ ڈی مسلسل سامنے آرہے ہیں، مگر وہاں کا معیار ہمیں کسی بڑی امید کی اجازت نہیں دیتا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب سیرتِ طیبہ پر تقریباً ہر جگہ کام ہورہا ہے، اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں سے نئی چیزیں میسر آرہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو دراز کرے، اور ہمیں اس شعبے میں خدمات کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین۔
حسبِ سابق معلومات کی فراہمی اور مشاورت میں حافظ محمد عارف گھانچی، مدیر کتب خانۂ سیرت اردو بازار کراچی معاون رہے ہیں، مگر ان سے اس قلم کار کا تعلق اور سیرتِ طیبہ سے ان کا ربط کسی رسمی اظہار سے ماورا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیرتِ طیبہ سے تعلق کو صاحبِ سیرت سے اصلی اور حتمی ربط و ارتباط کا ذریعہ اور باعث بنادے، آمین‘‘۔
جن موضوعات پر اس کتاب میں معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
پاکستان میں اردو سیرت نگاری۔ ایک تعارفی مطالعہ، مطالعۂ سیرت اور برعظم پاک و ہند، اردو سیرت نگاری کے تین ادوار، اسالیبِ سیرت، پاکستان میں سیرت نگاری کا آغاز، اہم کتب، مختلف موضوعات پر کتبِ سیرت، قرآن حکیم کی روشنی میں سیرتِ طیبہ، فہرست کتبِ سیرت قرآنی، ادبی پہلو، فہرست منظوم کتبِ سیرت، پی ایچ ڈی کے مقالات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک مذہبی کتب میں، مطالعۂ سیرت اور مستشرقین، محاضراتِ سیرت، خواتین کی سیرت نگاری، فہرست کتبِ سیرت خواتین، مقالاتِ سیرت، تراجم ِسیرت، فہرست اردو تراجمِ سیرت،بچوں کے لیے کتب،سفر نامے، اٹلس / سیرت البم،سیرت انسائیکلو پیڈیا،سیرت کانفرنس،سیرت ایوارڈ یافتہ کتب،رسائل وجرائد،سیرت نگاری کا جائزہ،فہارس کتب، خلاصہ
مشہور سیرت نگار سید فضل الرحمن تحریرفرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کا عظیم ورثہ اگرچہ ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے لیکن اپنے اسلاف کی صحیح جانشینی کے حق دار صرف وہی قرار پائیں گے جو اپنا فرض پہچانتے ہوئے اسلاف کی تابندہ اور پُرشکوہ علمی و تحقیقی روایات کو آگے بڑھانے میں حتی المقدور اور حسب ِتوفیق اپنا کردار ادا کریں گے ‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔ سیرت لائبریری میں وقیع اضافہ ہے۔