سعودی عرب کی حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے عازمینِ عمرہ اور دوسرے زائرین کو اپنے تیس روزہ ویزے کے دوران میں کسی بھی شہر میں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ البتہ انھیں اپنی اس ایک ماہ کی مدت میں سے پندرہ دن مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گزارنا ہوں گے۔ وزارتِ حج اور عمرہ امور کے انڈر سیکریٹری عبدالعزیز وزان نے بتایا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دنیا بھر سے ایک ہزار سے زیادہ زائرین عمرہ کی مملکت میں آمد ہوئی ہے اور گزشتہ چار روز میں عمر ے کے 25 ہزار سے زیادہ ویزے جاری کیے گئے ہیں۔ اِس سال عازمینِ عمرہ کی تعداد 85 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور عمرہ سیزن شوال المکرم کے اختتام تک جاری رہے گا۔ گزشتہ سال کے دوران عمرہ کے لیے سعودی عرب آنے والے عازمین کی تعداد ستّر لاکھ سے کچھ زیادہ رہی تھی۔ سعودی عرب کے فراہم کردہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مناسکِ حج کی ادائی کے بعد مدینہ منورہ میں آنے والے زائرین کی تعداد 770704 تک پہنچ گئی ہے۔ مدینہ میں حج کمیٹی کے یونٹ برائے میڈیا اور سوشل کمیونی کیشن نے بتایا ہے کہ اس وقت مدینہ منورہ میں مقیم زائرین کی تعداد 175878 ہے۔
دنیا میں 1.3 ارب افراد ’’غربت کی لکیر سے نیچے‘‘ ہیں: اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے مجموعی افراد میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔
یہ بات اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اورOxford Poverty and Development کی جانب سے جمعرات کے روز جاری ہونے والے Multidimensional Poverty Index میں بتائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق 104 ممالک میں 1.3 ارب ایسے افراد ہیں جن کی درجہ بندی غربت کی لکیر سے نیچے کی گئی ہے۔ ان میں 18 برس سے کم عمر 66.2 کروڑ کم سن بچے شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی اکثریت (1.1 ارب افراد) دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح شہری علاقوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے غریب افراد میں سے 83فیصد صحرائے اعظم کے جنوب میں افریقا کے علاقے اور جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض ممالک میں حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کے سلسلے میں مثبت نتائج کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مثلاً بھارت میں اس نوعیت کے منصوبوں کے طفیل 2005ء سے 2016ء کے درمیان 27.1 کروڑ افراد غربت کے دائرے سے باہر آئے۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ڈائریکٹر ایکم شٹائنر کا کہنا ہے کہ اگرچہ غربت کی شرح بالخصوص بچوں میں انتہائی بلند ہے، اس کے باوجود غربت کے خاتمے کے لیے پیش رفت ممکن ہے۔ اقوام متحدہ ہر ایسے شخص کو غربت کے دائرے میں شمار کرتی ہے جس کی یومیہ آمدنی 1.9 ڈالر سے زیادہ نہ ہو۔
اسپین کا یورپی یونین سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ
آسٹریا میں یورپی یونین کے لیڈرز کی کانفرنس کے دوران اسپین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہسپانوی حکومت یورپی یونین پر زور دے گی کہ وہ فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپانوی سفارت کار اس سلسلے میں یورپی سفارت کاروں کے ساتھ غیر معمولی مذاکرات کرکے مشترکہ مؤقف طے کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر یورپی یونین نے ایسا نہ کیا تو اسپین فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلے گا۔
سمندرپار پاکستانیوں کی آئی ووٹنگ میںعدم دلچسپی
ضمنی انتخاب میں سمندر پار پاکستانیوں کے لیے آئی ووٹنگ کی سہولت کے حوالے سے تفصیلات سامنے آگئی ہیں جن کے مطابق 74 ممالک میں مقیم 7410 پاکستانیوں نے خود کو بطور ووٹر رجسٹرڈ کرایا، سب سے زیادہ 1993 سمندر پار پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات سے رجسٹرڈ کرایا۔ دستاویز کے مطابق سعودی عرب سے 1679 سمندر پار پاکستانی رجسٹرڈ ہوئے، یو کے سے957، کینیڈا سے 408 اور امریکہ سے 390 اوورسیز ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے۔ قطر سے 295، آسٹریلیا سے 257، کویت سے 166، بحرین سے 164، اومان سے 144، اٹلی سے 130 اور اسپین سے 89 ووٹرز رجسٹرڈ ہوسکے۔
اس کے علاوہ جرمنی سے 66، ملائشیا سے 50، فرانس سے 49، آئرلینڈ سے 47، سویڈن سے 38، نیوزی لینڈ سے 19، چین اور جاپان سے 18،18، ہالینڈ سے 17، سنگاپور، بیلجیم اور سوئٹزرلینڈ سے 16،16، جب کہ ترکی سے 11 ووٹرز رجسٹرڈ ہوسکے۔ ہانگ کانگ اور پرتگال سے صرف 10 دس ووٹرز ہی رجسٹرڈ ہوئے۔
حسن صہیب مراد
یہ1999ء کے سال کا ایک روشن دن تھا۔ اُس روز ہمدرد یونیوسٹی کا کانوکیشن تھا۔ کیسا اتفاق تھاکہ میرے ساتھ والی نشست حسن صہیب مراد کی تھی۔ یہ حسن بھائی کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔ ابتدائی تعارف کے بعد جب انہیں معلوم ہوا کہ میرا انتخاب کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ہوگیا ہے تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے مجھے کہا: ’’آپ ہمارے پاس لاہور کیوں نہیں آجاتے؟‘‘ یاد رہے یہ دودہائیوں پہلے کا ذکر ہے، اُس وقت حسن بھائی انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ چلا رہے تھے۔ نہ جانے اُن کی گفتگو میں کیا تاثیر تھی یا اُن کی دلآویز مسکراہٹ میں کیا سحر تھا کہ میں نے جدہ جانے کا ارادہ ترک کردیا اور حسن بھائی کے قافلے میں شریک ہوگیا۔ اس ابتدائی قافلے میں عابد شیروانی، حبیب واحدی، عبدالغفار غفاری، شاہین رشید اور زاہد وڑائچ بھی شامل تھے۔ سلیم منصور خالد کے گراں قدر مشورے بھی شامل ِحال تھے۔
برکت مارکیٹ میں کرائے پر ایک عمارت لی گئی تھی، جہاں اکنامکس اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈپارٹمنٹ تھے۔ حسن بھائی کا خواب تھا کہ سوشل سائنسز کی ایک فعال فیکلٹی کا اجراء کیا جائے۔ وسائل نہ ہونے کے برابرتھے، میرے پاس پرنٹر نہیں تھا، وہ میں حسن بھائی کے دفتر سے اٹھا لایا۔ یوں سوشل سائنسز اور ہیومنٹیز کی فیکلٹی کاآغاز 1999ء میں ہوا۔ ابتدا میں پانچ پروگرام آفرکیے گئے۔ حسن بھائی کے ساتھ خواب دیکھنا اور ان خوابوں کی تکمیل کے لیے جدوجہد میں ایک خاص طرح کی راحت تھی۔ مجھے یاد ہے کیسے دیوانہ وار میں اور فاروق کنور مرحوم فیکلٹی کے نئے پروگراموں کی تشہیر کے لیے لاہور اور لاہور سے باہر شہروں میںجاتے تھے۔ اس عرصے میں مجھے حسن بھائی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے لیے وہ باس سے زیادہ ایک دوست اور Mentor تھے۔ خواب تو ہم سب ہی دیکھتے ہیں، لیکن حسن بھائی کے خواب بڑے ہوتے تھے اورکبھی کبھی تو ہمیں لگتا تھا کہ اُن کی تعبیر مشکل ہے، لیکن اُن کی محنت، لگن اور جذبے سے بہت سے خوابوں کی تعبیریں اُن کی زندگی میں ہی مل گئیں۔ ان میں سے ایک یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی ہے، جس کا شمار ملک کی صفِ اوّل کی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، جو وسیع وعریض عمارت پر مشتمل ہے اور جس میں جدید ترین سہولتیں میسر ہیں۔ یہ سفر1991ء میں علامہ اقبال ٹائون میں ایک مکان کے دوکمروں پر مشتمل پورشن سے شروع ہوا، پھر منی مارکیٹ اورگارڈن ٹائون کی کرائے کی عمارتوں سے ہوتا ہوا جوہر ٹائون کی عظیم الشان یونیورسٹی تک آ پہنچا۔ کچھ اور خواب جن کی تعبیر انہیں زندگی میں ملی ان میں آفاق، آئی ایل ایم کالجز، اور نالج اسکولز کا قیام تھا، لیکن حسن بھائی کے خواب ختم نہیں ہوتے تھے۔ اُن کا ایک خواب یوایم ٹی کو انٹرنیشنل سطح پرمتعارف کرانا تھا۔ ان کا ایک اورخواب جس کا انہوں نے مجھ سے ذکرکیا، ایک فیڈرل یونیورسٹی کے چارٹر کا حصول تھا۔ خدا کرے اُن کے یہ خواب اُن کا جواں ہمت بیٹا ابراہیم پوری کرے۔
(شاہد صدیقی۔ دنیا، 18ستمبر2018ء)
’’کھایا پیا سب ہضم، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘
استنبول، متحدہ عرب امارات اور اسلام آباد میں گردش کرنے والی اطلاعات کے مطا بق اڈیالہ جیل کے خصوصی اسیروں کے ساتھ عنقریب این آر او، یعنی ’’کھایا پیا سب ہضم، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ ہونے جارہا ہے، جس کے لیے مودی اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو کی سفارش پر برطانوی حکومت تمام معاملات طے کررہی ہے (یاد رہے کہ جنرل پرویزمشرف پر دبائو ڈالتے ہوئے بے نظیر بھٹو سے این آر او بھی کونڈو لیزا رائس نے کروایا تھا)۔
میری اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں دو برادر اسلامی ممالک پاکستان کے سول اور عسکری سربراہوں سے معاملات طے کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کچھ یقین دہانیاں اور ضمانتیں دینے کے اقدامات اپنے عروج پر ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ معاملات ابھی طے ہونے باقی ہیں، جو عمران خان کے رواں ماہ سعودی عرب پہنچنے پر آگے بڑھیں گے۔ شنید یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اکتوبر کے شروع میں پاکستان کو ایک خاموش ڈپازٹ دینے جارہا ہے، جسے پاکستان دیکھ سکتا ہے، گن سکتا ہے اور جس کو چاہے دکھا سکتا ہے، لیکن اسے خرچ نہیں کرسکے گا، اور دس سے پندرہ ارب ڈالر کا یہ نمائشی تحفہ چار یا پانچ سال کی مدت تک پاکستان کے خزانوں کی رونق رکھا جائے گا۔
ذہن نشین رہے کہ2013ء کے انتخابات براہِ راست برطانوی، کیانی پلان کے تحت امریکی ہدایات پر کروائے گئے تھے۔ برطانوی ہائی کمیشن اور شہبازشریف کے درمیان ایک طویل ملاقات میں حسین نوازاور حسن نواز کے علاوہ اسحاق ڈار کے معاملات بھی طے ہوئے، اور باوثوق اطلاعات کے مطابق شہبازشریف جب کلثوم نواز کی میت لینے لندن پہنچے تو برطانوی اداروں کے اہم اراکین سے بھی معاملات طے کیے گئے۔ دوسری طرف اس وقت کچھ غیر ملکی طاقتوں کے تعاون سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی عسکری قیادت اور پنجاب کے عوام میں نفرت ابھارنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جیسے ہی نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر جیل سے رہائی پائیں تو پنجاب کے عوام بنگالیوں کی طرح اپنے قومی اداروں کے خلاف سڑکوں پر آجائیں۔ اس سلسلے میں نوازشریف اور مریم صفدر دونوں شیخ مجیب الرحمن اور حسینہ واجد کے کردار کے لیے خود کو سزا ہونے سے کوئی چھ ماہ قبل ہی ذہنی طور پر تیار کرچکے ہیں۔ یہ اس لیے بھی مشکل نہیں ہوگا کیونکہ شیخ مجیب الرحمن بننے کا اشارہ وہ کئی مرتبہ اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں دے چکے ہیں۔
(منیر احمد بلوچ۔ دنیا، 17ستمبر2018ء)
بھکر کے عوام قابلِ مبارک باد
ضمنی طور پر ایک انوکھی بات، دو روز پہلے واٹس ایپ پر آنے والی پوسٹ سے معلوم ہوئی۔ بھکر کے کسی سیاسی رہنما کا بیان بھکر کے اخبارات میں چھپا تھا۔ ان صاحب نے ان بیانات کے تراشے اکٹھے کرکے پوسٹ میں ڈال دیئے، اور اس پوسٹ سے پتا چلا کہ لاکھ سوا لاکھ آبادی والے اس شہر میں کم و بیش دس روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ بھکر ٹائمز، اپنا بھکر، بھکر ٹوڈے، گریٹر تھل ٹائمز، عوام کی عدالت، تھل ٹائمز، نمل ٹائمز وغیرہ۔ انوکھی بات ہے کہ نہیں؟ اتنے اخبارات تو فیصل آباد، پنڈی، ملتان سے بھی نہیں چھپتے۔ بھکر میں شرح خواندگی زیادہ ہے یا قوتِ خرید، یا پھر وہاں ذوقِ خبر بینی فراواں ہے؟ کچھ بھی ہو، بھکر کے عوام قابلِ مبارک باد ہیں۔ فی دس ہزار آبادی کے لیے ایک روزنامہ بنتا ہے۔ بڑے بڑے قومی اخبارات کے نیٹ ورک میں عموماً پانچ یا چھ اشاعتی مراکز ہوتے ہیں یعنی کراچی، لاہور، پنڈی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان۔ کچھ عرصے سے بعض گروپوں نے گوجرانوالہ اور فیصل آباد کو بھی ذیلی مرکز بنا لیا ہے۔ بھکر میں اخبارات کی اتنی مانگ کے پیش نظر قومی اخبارات کو اسے بھی اپنے مراکز میں شامل کرنا چاہیے۔ پھر پیشانی کی عبارت یوں ہوا کرے گی: لاہور، پنڈی، کوئٹہ، ملتان، پشاور اور بھکر سے چھپنے والا قومی روزنامہ۔
(عبداللہ طارق سہیل۔ روزنامہ 92 نیوز،18 ستمبر2018ء)