شفق ہاشمی
فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں ہمارے ہم شہر جناب عبدالخالق بٹ کا خاکسار کے مقالے “ہند، ہندی، ہندوستان: ایک تہذیبی اور لسانیاتی جائزہ” پر مفصل مضمون شائع ہوا ہے۔ اپنے خوبصورت ابتدائیہ کے بعد، جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں، جناب نے چند”تسامحات“ کا ذکر کیا ہے۔ اپنی علمی سرگرمیوں کی بنا پر میں ان پر تفصیلی گفتگو تو نہیں کرسکتا، بس اجمالاً چند معروضات پیش ہیں۔
”سجستان“ کے حوالے سے ان کی توضیح مناسب ہے مگر مقالہ میں مذکورہ عبارت کا سقم سمجھ سے بالا۔ اس طرح ”ثمرقند“ کو اگر سمرقند لکھ دیا جائے تو کیا خوبی پیدا ہوجائے گی؟ دراصل مقامات کے ناموں کا صوتی پہلو اہم ہوتا ہے، نہ کہ حرفی پہلو۔”بالائی وادئ سندھ سے ابھرنے والی شاہراہِ ریشم“ سے یقیناًاشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ شاہراہِ ریشم کہیں خطہٴ پوٹھوہار سے تو نہیں گزرتی۔ مگر ادبی پہلو سے سیاق و سباق کو نظرانداز کرتے ہوئے بیانیہ کی وسعت کو اتنا محدود نہیں کیا جا سکتا۔ بجا ارشاد ہے کہ ”موہن جو داڑو“ کو موئن جودڑو لکھنا درست ہوگا، جس کا مفہوم Mound of the Dead ہے، مگر موجودہ شکل شرعی طور پر کیا ناجائز ہے؟ اگر تاریخی کتب کا مطالعہ کریں تو اکثر موہنجوداڑو لکھا پائیں گے۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر تارا چند کی”تاریخ ہند“۔ مطبوعہ ميكميلن، كلكتہ)۔ ”Chief Priest“ کو ناقد محترم”Priest Chief” پڑھ رہے ہیں، نہ جانے عمداً یا سہواً۔ اس ضمن میں دیگر تفصیلات قابل اعتناء نہیں۔
آریاؤں کے ضمن میں محترم نے”عام خیال“ کا ذکر کیا ہے کہ وہ ایشیائے کوچک سے نہیں بلکہ وسط ایشیا سے نمودار ہوئے۔ تاریخی لحاظ سے حقیقت وہی ہے جس کا اظہار کیا گیا ہے۔ مناسب ہوگا موصوف Encyclopedia of Religion and Ethics اور دیگر مستند کتب کا مطالعہ فرمالیں۔
ہند-اسلامی تہذیب کی برکتوں کے حوالے سے موصوف نے مضمون کے چند متفرق ٹکڑوں کی مدد سے تین پیراگرافس پر مشتمل تفصیلات کا تیاپانچہ کردیا ہے۔ چہ دلاورست یارم—!
کرشن اور رام کے ظہور کے حوالے سے جو فروگزاشت مجھ سے ہوئی اس کی نشان دہی پر میں محترم کا ممنون ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کردی جائے گی۔ رہی بات ان اکابر کے ”پیغمبرانہ“ پہلو کی، تو اصل صورت حال یہ ہے کہ وہ شخصیات حقیقی سے زیادہ دیومالائی ہیں، نہ جن کی زندگی کے حقائق واضح ہیں نہ تعلیمات، سوائے ان زبانی روایات کے جنھیں صدیوں بعد ترتیب دیا گیا۔ مہا بھارت، بھگوت گیتا اور رامائن اپنی موجودہ شکل میں یونانی شاعر ہومر کی رزمیہ منظوم داستانوںIliad اور Odyssey کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
”ہند و سند“ کے حوالے سے محترم نے فرمایا ہے کہ وہ سام بن نوحؑ کے ”دو صاحبزادگان“ تھے۔ یہ نہ صرف ایک مضحکہ خیز مفروضہ ہے بلکہ حقیقت سے کوسوں دور۔ مناسب ہوگا اگر کتابچہ کا ازسرنو ”محققانہ“ نہیں بلکہ طالب علمانہ مطالعہ کرلیا جائے تو تمام مغالطے دور ہوجائیں گے۔
ناچیز کی علمی مصروفیات اجازت نہیں دیتیں کہ محترم کے فرمودات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ جناب نے فرائیڈے اسپیشل کے حالیہ شمارے میں”کمبھ“ میلہ کے متعلق جوارشاد فرمایا ہے کہ وہ “دنیا کا سب سے بڑا ”مذہبی اجتماع“ ہے، اس پر چلتے چلتے صرف اتنا عرض کروں گا کہ چار سال بعد گنگا کنارے منعقد ہونے والا یہ میلہ جس میں دو سے تین لاکھ کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور جس میں سینکڑوں جانیں بھگدڑ کی نذر ہو جاتی ہیں کیا حج بیت اللہ کے سالانہ پچیس ،چھبیس لاکھ کے مقدس اجتماع سے بڑا شمار کیا جائے گا –؟