ترجمہ: ’’پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو، جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی۔‘‘ (البلد:17-90)
اہلِ ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگ دل، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا، بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آپس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غم خوار معاشرہ ہوتا ہے۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شانِ رحیمی کا مظہر ہے، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اُس رسول کا نمائندہ ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا کہ ’’ ومآارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین‘‘(الانبیاء: 106:21)۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑھ کر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ یہی رحم کی صفت ہے۔ مثال کے طور پر آپؐ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی۔ حضرت جَریر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)
حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص کہتے ہیںکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘(ابودائود۔ ترمذی)
حضرت ابوسعیدؓ خدری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (بخاری فی الادب المفرد)
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے۔‘‘ (ترمذی)
ابودائود نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو حضرت عبداللہؓ بن عمرو کے حوالے سے یوں نقل کیا ہے:
’’جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:
’’بدبخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کرلیا جاتا ہے۔‘‘ (مسند احمد۔ ترمذی)
حضرت عیاضؓ بن حمار کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین قسم کے آدمی جنتی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم اور رقیق القب ہو۔‘‘ (مسلم)
حضرت نعمانؓ بن بشیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدردی کے معاملے میں ایک جسم کی طرح پائو گے کہ اگر ایک عضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہؓ بن عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہوگا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوشی کرے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ان ارشادات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اس آیت میں دی گئی ہے اُس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے۔
(تفہیم القرآن، ششم، ص344۔346، البلد، حاشیہ 14)
اعتدال و میانہ روی
حضرت عبداللہ بن سَرجِس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُسنِ کردار، بردباری اور اعتدال و میانہ روی، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔ (ترمذی)
یعنی یہ اوصاف معمولی اور کم درجے کے نہیں ہیں۔ ان اوصاف کو انبیا علیہم السلام کی سیرت میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ جو شخص جس قدر اپنی سیرت و کردار میں ان اوصاف کو جگہ دے گا، وہ اسی قدر فیضانِ نبوت سے فیض یاب سمجھا جائے گا۔
اعتدال و میانہ روی زندگی کے ہر معاملے میں مطلوب ہے۔ دانش مند وہی ہے جو زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط کے بجائے معتدل طرزِعمل اختیار کرے۔