برطانیہ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر کمپنیوں کی دہی میں مشروب سے بھی زیادہ چینی موجود ہوتی ہے۔ سائنس جرنل ’بی ایم جے اوپن‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتا چلا کہ صرف برطانیہ کی مارکیٹوں میں دستیاب 900 اقسام کی دہی میں بھی مشروب سے زیادہ چینی موجود تھی۔ بڑے بڑے برانڈز کی دہی کے اجزاء سے بچوں کے لیے تیار کی گئی آئس کریم، چاکلیٹ اور دیگر میٹھے کھانوں میں بھی چینی کی حد سے زیادہ مقدار پائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق عام طور پر مارکیٹ میں دستیاب دہی اور اس کے اجزاء سے تیار کردہ چیزوں میں ہر 100 گرام میں 16 گرام چینی کی مقدار پائی گئی، جو مشروب سے بھی زیادہ مقدار ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کے لیے دہی کے اجزاء سے تیار کی جانے والی آئس کریم سمیت دیگر غذاؤں میں بھی ہر 100 گرام پر 9 گرام سے زیادہ چینی پائی گئی، جو بچوں کے لیے مقررہ حد سے زائد مقدار ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف خالص دودھ سے قدرتی طریقے سے تیار ہونے والی دہی میں ہی چینی کی مقدار درست ہوتی ہے، ساتھ ہی گریک اسٹائل کی دہی کو بھی دیگر کے مقابلے بہتر قرار دیا گیا۔
کھال کو اسپیکر اور مائیک میں بدلنے والی حیرت انگیز ایجاد
جنوبی کوریا کے السن نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (یواین آئی ایس ٹی) کے پروفیسر ہیون ہیوب کو اور دیگر ماہرین نے سننے اور بولنے سے معذور افراد کے لیے یہ ٹیکنالوجی وضع کی ہے۔ تاہم اسے معمولی رد و بدل کے ساتھ ’’اشیا کے انٹرنیٹ‘‘ (انٹرنیٹ آف تھنگز یا ’’آئی او ٹی‘‘) اور طبی آلات میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے انتہائی باریک، شفاف اور موصل نینو پرت تیار کی، جو چاندی کے ایسے نینو تاروں سے بنی ہے جسے 90 درجے کے زاویے پر چٹائی کی طرح بُنا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں کسی بھی جگہ لگا کر اسپیکر میں بدلا جاسکتا ہے۔ اسی طرز پر ایک اور آلہ بنایا گیا ہے جو مائیکروفون کا کام کرتا ہے۔ اس پرت کی موٹائی بھی انتہائی کم ہے جو ایک میٹر کے چند اربویں حصے کے برابر ہے جسے چپکانے کے لیے پولیمر پر رکھا گیا ہے۔ ہلکی پھلکی اسٹیکر نما اس پرت کو کسی بھی جگہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ آواز کی لہروں کو باقاعدہ اور قابلِ فہم ’’صدا‘‘ میں تبدیل کرتی ہے۔ اسے تبدیل کرکے آواز کے اِن پٹ اور آؤٹ پٹ آلات میں بھی ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہرین نے دوسرے مرحلے میں جِلد سے چپکنے والے لاؤڈ اسپیکر اور مائیکروفون تیار کیے جو باریک ہونے کے باوجود آواز کے سگنل خارج کرسکتے تھے، اور اسپیکر کی موٹائی صرف 100 نینومیٹر تھی۔ اگلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کو تجارتی پیمانے پر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
کینسر کے خطرے سے تحفظ، کیسے ؟
فرنچ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نمک، چینی اور چربی کا غذا میں زیادہ استعمال کینسر کا خطرہ 11 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ کیک، بسکٹ، پڈنگ، ٹماٹو کیچپ، سرخ اور پراسیس گوشت وغیرہ کینسر کا خطرہ بڑھانے والی چند غذائیں ہیں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ صحت بخش غذا کو ترجیح دیتے ہیں، ان میں کینسر کا امکان بہت کم ہوتا ہے، جبکہ ناقص غذا پسند کرنے والوں میں اس جان لیوا مرض کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی غذا آنتوں، غذائی نالی اور معدے کے سرطان کا خطرہ بڑھاتی ہے، جبکہ مردوں میں پھیپھڑوں اور خواتین میں جگر یا بریسٹ کینسر کا خطرہ زیادہ بڑھتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ غذا کینسر جیسے مرض سے بچائو میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور لوگوں کا انتخاب انہیں امراض سے بچا سکتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ جنک فوڈ کا بہت زیادہ استعمال بھی کینسر کا شکار بنا سکتا ہے۔
مچھر پلاسٹک کے باریک ٹکڑوں کو جانوروں میں منتقل کررہے ہیں، تحقیق
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کے ماہرین نے کہا ہے کہ پلاسٹک سے آلودہ پانی میں فروغ پانے والے مچھروں کے لاروا کے جسم میں پلاسٹک کے باریک ذرات چلے جاتے ہیں جو بالغ ہونے تک ان کے جسم میں موجود رہتے ہیں۔ جب زمینی جانور یا پرندے ان مچھروں کو کھاتے ہیں تو وہ پلاسٹک ان جانوروں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے، اس طرح مچھر پورے غذائی چکر میں پلاسٹک پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پلاسٹک کی آلودگی اب خشکی، پانی اور ہوا سمیت ہر جگہ موجود ہے۔ اس وقت بھی مچھلیاں، پرندے اور دیگر جانور پلاسٹک سے متاثر ہورہے ہیں، لیکن مائیکرو پلاسٹک یعنی پلاسٹک کے 5 ملی میٹر باریک ٹکڑے بھی سمندری اور خشکی والے جانوروں کے لیے زہرِ قاتل بنے ہوئے ہیں، کیونکہ حادثاتی طور پر یہ ان کے پیٹ میں جاکر ایک طویل غذائی چکر کو بھی متاثر کررہے ہیں۔
ریڈنگ یونیورسٹی کی پروفیسر ایمنڈا کالان نے تجرباتی طور پر مچھر کے 150 لاروا کو ایسی خوراک دی جس میں پلاسٹک کے مختلف جسامت والے ذرات بھی موجود تھے، لاروا کے درجے میں ہی ان میں سے 15 کیڑوں کا مطالعہ کیا گیا۔ پھر دوسرے مرحلے میں مچھر بننے کے بعد ان میں سے 15 بالغ مچھروں پر تحقیق کی گئی۔