پیشکش:ابوسعدی
ایک روز اکبر بادشاہ اپنے دربار میں بینگن کی برائی بیان فرمارہے تھے جو کچھ اس قسم کی تھی کہ بینگن بھی کوئی ترکاری ہے! مضر صحت، کالا کلوٹا، بے ڈول وغیرہ وغیرہ۔ بیربل ہاں میں ہاں ملاتے جاتے تھے اور برابر کہے جارہے تھے کہ ’’حضور آپ صحیح فرما رہے ہیں۔‘‘
دوسرے روز جب اکبر بادشاہ اپنے دربار میں تشریف لائے اور دربایوں کے سامنے بینگن کی تعریف کے پل باندھنے لگے تو ہاں میں ہاں ملانے اور جی حضور، جی حضور کہنے والوں میں بیربل سب سے آگے تھے۔ اکبر بادشاہ متعجب ہوکر سوچنے لگے کہ جب میں کل بینگن کی برائی کررہا تھا تو بیربل ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور آج جب بینگن کی تعریف کررہا ہوں تو بھی جی حضور، جی حضور کررہے ہیں۔ انہوں نے بیربل سے اس کا سبب جاننا چاہا تو بیربل نے بڑے ادب و احترام سے کہا: ’’حضور! آپ کا نوکر ہوں، بینگنوں کا نہیں۔‘‘
امیری اور غریبی کا فرق
کہتے ہیں کہ ایک فقیر کو ایک مدفون خزانہ مل گیا اور وہ بہت بڑا امیر بن گیا۔ ایک دن اس کے ایک دوست نے پوچھا: ’’کہیے امیری اور فقیری میں کیا فرق دیکھا؟‘‘ کہا: ’’بہت بڑا فرق۔ جب میں فقیر تھا اور محفل میں کوئی بات کرتا تھا تو لوگ کہتے کہ بکواس بند کرو، لیکن اب میں کیسی ہی بکواس کروں لوگ کہتے ہیں: ماشاہ اللہ، منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔‘‘
روما کے اہلِ قلم
روما کی سلطنت 700ق م میں قائم ہوئی تھی۔ پہلی پانچ صدیوں میں کسی کتاب کا سراغ نہیں ملتا۔ نیاس (Naeius) (200ق م) غالباً پہلا رومی مصنف ہے جس نے کچھ یونامی کتابوں کو لاطینی میں منتقل کیا اور چند ایک ڈرامے لکھے۔ دوسرا صاحبِقلم ڈراما نویس پلاٹس (Plautus)(184ق م)، تیسرا ایک شاعر انیس (Ennius)(169ق م) اور چوتھا ایک ادیب کیٹو (Cato)(149ق م) تھا۔ ابتدا سے ولادتِ مسیح تک صرف بیس اہلِ قلم کے نام ملتے ہیں جن میں سے اکثر شاعر، ڈراما نگار اور افسانہ نویس تھے۔ مؤرخ صرف ایک تھا، یعنی لیوی (17ق م)۔ شعرا و ادبا میں مشہور یہ تھے: سسرو(43 ق م)، گیلس(20ق م)، ورجل(19ق م)، ہوریس(8ق م) اور لوقن(65ق م)۔ یہ تمام غیر عیسائی رومی تھے۔
پہلی صدی عیسوی میں روما نے تقریباً تیس مصنف پیدا کیے اور بعد کی نو صدیوں میں صرف بیس نام ملتے ہیں۔ درست کہا تھا رابرٹ بریفالٹ نے:
’’اس میں شبہ نہیں کہ قسطنطنیہ کا دربار، اس کے بازار، محل، رقص گاہیں، کھیل کے میدان اور اکھاڑے بہت شاندار تھے لیکن اس نے ایک ہزار سال کی زندگی میں ترقی تو درکنار ترقی کا ایک شرارہ تک پیدا نہ کیا۔ وہ ایسی بستیوں میں گھری ہوئی تھی جو تاریکی سے نکلنے کے لیے بے تاب تھیں۔ لیکن بازنطینی (رومی) تہذیب نے ان کے لیے کچھ نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ عربوں نے آکر ان کے بیڑے ڈبو دیے اور ان کی تجارت پر قبضہ کرلیا۔ رہا رومیوں کا ادب، تو وہ بالکل بے مغز، بے حقیقت، جعلی، صنمیاتی اور اوہام پرستی سے لبریز تھا… یہ ادب آج بھی پڑھنے کے قابل نہیں… گوبازنطینی سلطنت کو بے شمار مواقع حاصل تھے لیکن اس نے کچھ نہ کیا، کیونکہ اصلی اقتدار جاہل راہبوں کے ہاتھ میں تھا جو علم کے دشمن تھے۔ نیز رومیوں کو یونان اور اس کے ادب سے چڑ تھی، اس لیے وہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔‘‘
(ملخص)(ڈاکٹر غلام جیلانی برق، ماہنامہ چشم بیدار)
بہترین پیغام
1۔ غلطی ماننے اور گناہ چھوڑنے میں کبھی دیر مت کریں، کیونکہ سفر جتنا طویل ہوتا جائے گا، واپسی اتنی ہی دشوار ہوگی۔
2۔ اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفاف رکھو، کیونکہ جس طرح قطروں سے دریا بنتا ہے، اسی طرح سوچوں سے ایمان بنتا ہے۔
3۔ کسی کی مدد کرتے وقت اُس کے چہرے کی طرف مت دیکھو، ہوسکتا ہے کہ اس کی شرمندہ آنکھیں تمہارے دل میں غرور کا بیج بو دیں۔
4۔ انسان تب سمجھ دار نہیں ہوتا جب وہ بڑی بڑی باتیں کرنے لگے، بلکہ وہ سمجھ دار تب ہوتا ہے جب وہ چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھنے لگے۔
5۔ جاہل کے سامنے عقل کی باتیں مت کرو کیونکہ وہ بحث کرے گا، پھر ہار دیکھ کر دشمن بن جائے گا۔
6۔ زندگی میں اگر کچھ کھونا پڑے تو یہ دو سطریں یاد رکھنا: ’’جو کھویا ہے اس کا غم نہیں، لیکن جو پایا ہے وہ کسی سے کم نہیں۔ جو نہیں ہے وہ ایک خواب ہے اور جو ملا ہے وہ لاجواب ہے۔‘‘
7۔ لوگ کہتے ہیں: کسی کے چلے جانے سے زندگی نہیں رک جاتی… لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ لاکھوں کے ملنے سے بھی ایک کی کمی پوری نہیں ہوتی۔
8۔ عورت کی بد اخلاقی یہ ہے کہ وہ نامحرم سے خوش اخلاقی سے پیش آئے۔
(انتخاب: قاری نجم السحر)
آہ کی قیمت
ہرات کے ایک آدمی نے حج کا ارادہ کیا لیکن کسی وجہ سے رہ گیا۔ ایک دن وہ مسجد میں حج فوت ہونے پر آہیں بھر رہا تھا کہ خواجہ ابو احمد ابدالؒ (966ء) مسجد میں داخل ہوئے اور اس کی حالت دیکھ کر فرمانے لگے: میں نے چارحج کیے ہیں وہ تم لے لو اور یہ آہیں مجھے دےدو۔