سانحۂ کربلا اور شہادتِ حسینؓ تاریخ اسلامی کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔ صدرِ اوّل میں رونما ہونے والے اس سانحہ کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کا مؤقف اس لحاظ سے مبنی برحق تھا کہ انھوں نے ملوکیت کا راستہ روکنے اور احیائے خلافت کے لیے آواز بلند کی تھی۔ اسلام کو اس کی صحیح روح کے ساتھ سمجھا جائے تو اس امر میں ذرّہ برابر شک نہیں رہ جاتا کہ اسلام نے انسانیت کو ملوکیت کے بجائے خلافت کا نظام عطا کیا۔ اسلام کی روح آمرانہ فیصلوں کے مقابلے میں مشاورت کا نہ صرف تقاضا کرتی ہے بلکہ اسے اہلِ اسلام اور اسلامی ریاست کا بنیادی تشخص قرار دیتی ہے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اس انداز سے کی تھی کہ آمریت و ملوکیت کا کوئی تصور بھی ان کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ کئی لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ امام حسینؓ نے حکومت کے خلاف کیوں اتنا بڑا اقدام کیا جس کے نتیجے میں ان کو اپنی اور اپنے خاندان و اعیان کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے اسلام کے نظامِ خلافت کی روح اور طریق کار کو سمجھنا ضروری ہے۔
محمد مصطفیؐ تو اللہ کے نبی تھے۔ نبی انسانوں کا مقرر کردہ نہیں ہوتا، اسے اللہ تعالیٰ خود اس مقام پر فائز فرماتا ہے۔ آپؐ نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ آپؐ پر سلسلۂ انبیا مکمل ہوچکا ہے، اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپؐ کے ارشاد کے مطابق دورِ نبوت کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوت کا دور تھا۔ خلیفہ کا تقرر اس کی اہلیت، صلاحیت، صالحیت، علم اور تقویٰ کی بنیاد پر امت کو کرنا ہوتا ہے۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے جو مناقب بیان کیے، ان سے واضح طور پر یہ اشارہ تو ملتا تھا کہ جماعتِ صحابہ میں سب سے بلند تر مقام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہے، مگر آپؐ نے ایک خاص حکمت کے تحت واضح الفاظ میں اپنے بعد انھیں اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ وہ حکمت یہی تھی کہ آپؐ کی امت کے ذمے انتخابِ خلیفہ کا جو عظیم کام ہے وہ باہمی مشاورت سے انجام پائے۔ چونکہ آپؐ کے کئی اشارات سے صحابہؓ سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں آپؐ کی کیا سوچ تھی۔ اسی وجہ سے جماعتِ صحابہ میں بالاتفاق یہ رائے تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام اصحابِ رسول میں سے افضل ہیں۔ انھیں افضل البشر بعد الانبیاء کا شرف جو حاصل ہے، تو یہ حدیث پاک سے ثابت ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپؐ کے جانشین کا تقرر ایک اہم اور فوری نوعیت کا مسئلہ تھا۔ اسی وجہ سے صحابہؓ نے کسی تاخیر کے بغیر فوری طور پر اس کو حل کرنے کی طرف توجہ دی۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صحابہؓ نے مشاورت سے آپؐ کے جانشین کا فیصلہ کیا اور پوری جماعتِ صحابہ کا اس پر اجماع ہوگیا کہ حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے۔ آپؓ کا تعلق نسبتاً ایک چھوٹے قبیلے بنوتیم سے تھا مگر بڑے قبائل سے تعلق رکھنے والے تمام صحابہؓ نے بالاتفاق آپؓ کی خلافت کو قبول کرتے ہوئے آپؓ کی بیعت کی۔ پھر عامۃ الناس نے بھی ان کبار صحابہؓ کی تقلید کی۔ تمام مستند تواریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے۔ امام ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ میں اس واقعے کی پوری تفصیل محفوظ کردی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے مذکورہ کتاب کی جلد 5 ،صفحہ 248۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ تقریباً ڈھائی سال خلافت کی ذمے داری کو بطریقِ احسن نبھانے کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو مرض الموت میں انھوں نے اہلِ شوریٰ کو طلب کیا۔ خلیفۂ راشد نے ان لوگوں کے سامنے اپنے جانشین کے لیے نام تجویز کرنے کی بات رکھی۔ شوریٰ کے یہ سب ارکان بلند مرتبت صحابہؓ تھے۔ ان میں حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت سعید بن زید، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت ابوالاعور رضی اللہ عنہم کے نام آتے ہیں۔ اول الذکر پانچ صحابہ تو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ان کا تعلق مہاجرین سے ہے، جبکہ آخری دو صحابہ انصار میں سے ہیں اور ان کی بھی بڑی فضیلت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بیان کی گئی ہے۔ عشرہ مبشرہ میں سے بعض دیگر صحابہ اس وقت مختلف مہمات پر ہونے کی وجہ سے مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ اہلِ مشاورت نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا کہ ان کے ذہن میں کس کا نام ہے؟ تو آپؓ نے حضرت عمرؓ کا نام بتایا۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ نے ایک تحریر بھی لکھوائی تھی، جس کے کاتب حضرت عثمان بن عفانؓ تھے اور اس میں بھی حضرت عمرؓ ہی کا نام تجویز کیا تھا۔ امام طبری نے اپنی مشہور کتاب تاریخ الامم والملوک میں لکھا ہے کہ تمام صحابہ نے نہ صرف اس تجویز سے اتفاق کیا بلکہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ نے تو واضح الفاظ میں کہا کہ امت عمر بن خطابؓ کے سوا کسی اور شخص پر متفق نہیں ہوگی۔ یہ واقعہ امام ابن اثیر نے بھی لکھا ہے۔ (دیکھیے الکامل فی التاریخ، ج4، ص 51-52، اسد الغابۃ، ج 4، ص 70) یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سے کہا گیا کہ عمر بن خطابؓ کی طبیعت اور مزاج میں قدرے سختی ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ اس پر ذمے داری کا بوجھ پڑے گا تو سختی نرمی میں بدل جائے گی۔ اور یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔
حضرت عمرؓ قبیلہ بنو عدی کے فرد تھے۔ انھیں ان کی اہلیت و صلاحیت کی بنیاد پر خلیفۂ اوّل، ان کی مجلسِ شوریٰ اور پھر پوری امت نے بطور خلیفۂ ثانی منتخب کیا۔ سیدنا عمرؓ اپنے دس سالہ دورِ خلافت میں نہایت قابلِ قدر کارنامے سرانجام دینے کے بعد ایک بدبخت پارسی ابولولو فیروز کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ انھیں اپنی شہادت بالکل سامنے نظر آئی تو انھوں نے مستقبل کے خلیفہ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک چھے رکنی کمیٹی مقرر کی۔ یہ سب ارکان عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ ان میں حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی ملتے ہیں۔ جب خلیفۂ دوم کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ اپنے بیٹے عبداللہؓ کو بھی اس کمیٹی کا رکن بنادیں، تو انھوں نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے۔ اسدالغابہ میں ہے:’’عبداللہ بن عمر تمھارے ساتھ تو رہے گا مگر اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔‘‘
شوریٰ نے اس اہم موضوع پر اپنے اجلاس میں بحث و تمحیص کے بعد طے کیا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ عوام الناس سے استصواب کرائیں اور پھر مجلس میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مجلس میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ دونوں کے بارے میں آرا برابر تھیں۔ اسی لیے عوام کے سامنے کوئی نام تجویز کرنے سے پہلے ان کی طرف رجوع ضروری سمجھا گیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے تین دن رات انتہائی محنت و مشقت سے اس اہم اور نازک ترین ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کا حق ادا کیا۔ جن جن لوگوں تک وہ پہنچ سکتے تھے، ان کی رائے انھوں نے معلوم کی۔ گھروں میں بیٹھی پردہ نشین خواتین سے بھی رائے لی گئی۔ چراگاہوں میں جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے چرواہوں اور مدینہ کے آس پاس خیمہ زن مسافروں سے بھی ان کی رائے پوچھی گئی۔ تیسرے دن کے اختتام پر حضرت عبد الرحمن ابن عوفؓ مجلس کے پاس آئے اور ان سب کی موجودگی میں مسجد نبوی کے اندر اعلان فرمایا کہ امت کی اکثریت نے عثمان بن عفانؓ کو یہ ذمے داری اٹھانے کا مکلف بنایا ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی تمام لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، حتیٰ کہ ہجوم کی وجہ سے ان تک پہنچنا بھی خاصا دشوار ہوگیا تھا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے اسد الغابۃ ج4، ص 75، البدایۃ والنھایۃ، ج7، ص 145-146)
حضرت عثمانؓ نے تقریباً بارہ سال خلافت کی۔ ان کی خلافت کے آخری دور میں کچھ فتنے سراٹھانے لگے۔ انھی فتنوں کے نتیجے میں وہ فساد رونما ہوا جس میں آپ کو مدینہ کے اندر شہید کردیا گیا۔ خلیفۂ سوم کی مظلومانہ شہادت کے بعد امتِ مسلمہ پر ایک بہت ہی مشکل اور کڑا وقت آگیا۔ صحابہ کرامؓ اس صورتِ حال سے سخت پریشان تھے۔ اس موقع پر مدینہ کے سب لوگوں نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے درخواست کی کہ وہی اس نازک گھڑی میں امت کی قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ امام طبری کے بقول حضرت علیؓ نے فرمایا کہ کسی دوسرے پر یہ ذمے داری ڈالو، میں وزیر و مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دیتا رہوں گا۔ مگر لوگ کسی اور کے بارے میں سوچنے پر بھی تیار نہ تھے۔ شدید اصرار پر انھوں نے فرمایا کہ خلافت پوری امت کی امانت ہے۔ یہ خفیہ طریقے سے اور چند لوگوں کے درمیان طے نہیں پاسکتی۔ اس پر لوگوں نے انھیں کہا کہ وہ مسجد میں تشریف لائیں اور خود اپنی آنکھوں سے پورا منظر دیکھ لیں۔ جب وہ مسجد میں تشریف لائے تو جم غفیر والہانہ ان کی طرف لپکا اور سب نے بلا اختلاف و استثنا ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
المیہ یہ ہوا کہ شام کے گورنر حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ نے حضرت علیؓ کی خلافت کو متنازع بنانا چاہا، جبکہ صحابہؓ کی اکثریت اور عمومی رائے عامہ ان پر اعتماد کا اظہار کرچکی تھی۔ حضرت معاویہؓ انعقادِ خلافت سے قبل حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے۔ دراصل یہ مطالبہ بھی اسی صورت میں پورا ہوسکتا تھا جبکہ نظام قائم ہوجاتا اور اسے تسلیم کرلیا جاتا۔ حضرت معاویہؓ کے ایک تندوتیز خط کے جواب میں چوتھے خلیفۂ راشد نے نہایت حکمت و ملائمت کے ساتھ لکھا کہ میری بیعت انھی لوگوں نے کی ہے، جنھوں نے مجھ سے قبل ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور جو شرائط ان کے انتخاب کے لیے تھیں انھی شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے مہاجرین و انصار نے میری بیعت کی ہے۔ جناب معاویہؓ کا حضرت علیؓ کو خلیفہ تسلیم نہ کرنا ایک المیے سے کم نہیں، لیکن بہرحال حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے شام میں اپنی الگ حکومت تشکیل دی، جس کے بارے میں انھیں کئی صحابہ نے ان کے استفسار پر بتایا کہ وہ خلیفۂ راشد نہیں بلکہ بادشاہ ہیں۔ سیدنا معاویہؓ خود بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ خلیفہ کے بجائے بادشاہ ہیں۔ وہ کھرے انسان تھے، اس لیے اس معاملے میں انھوں نے غلط تعبیرات کا سہارا نہیں لیا۔ چوتھے خلیفۂ راشد سیدنا حضرت علیؓ نے تقریباً پونے پانچ سال تک حکومت کی۔ پھر انھیں ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے دھوکے سے شہید کردیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے حضرت حسنؓ کی بیعت کی گئی، مگر انھوں نے چھے ماہ بعد امت کو افتراق سے بچانے کی خاطر حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے ساتھ مصالحت کرکے ان کی بیعت کرلی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: میری امت میں خلافت 30 سال تک رہے گی، پھر ملوکیت کا دور شروع ہوجائے گا۔ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حدیث کے راوی حضرت سفینہؓ سے سعید بن جمہانؓ نے تفصیل پوچھی تو انھوں نے چاروں خلفائے راشدین کے دورِ خلافت کو الگ الگ بیان کیا اور فرمایا یہ تیس سال پورے بنتے ہیں۔ سعید نے کہا: مگر بنو امیہ تو سمجھتے ہیں کہ وہ بھی خلفا ہیں۔ حضرت سفینہ نے فرمایا: یہ غلط کہتے ہیں۔ یہ تو بدترین حکمران اور ملوکیت کے مظہر ہیں (سنن الترمذی جلد 8 ص 167، روایت سعید بن جُمْھان و سفینۃ)۔ علامہ علقمیؒ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے شیخ نے فرمایا کہ ان تیس برسوں میں چاروں خلفائے راشدین کے دورِِ خلافت کے ساتھ سیدنا حسن بن علیؓ کے دور کو بھی شامل کیا جائے تو پورے تیس سال بن جاتے ہیں۔ (عون المعبود جلد دہم صفحہ 164) علقمی نے محدث امام نووی کی کتاب تہذیب الاسماء کے حوالے سے ان کی رائے بھی اس قول کی تصدیق میں نقل کی ہے کہ حضرت حسنؓ کی مصالحت پر تیس سال کا عرصہ مکمل ہوتا ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ کی اس مصالحت کے وقت خلافت کو تیس سال مکمل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشن گوئی کے مطابق خلافت کی جگہ ملوکیت کا دور آنا تھا، سو وہ آگیا۔ بادشاہ ہونے کے باوجود حضرت معاویہؓ صحابیِ رسول تھے اور عادل تھے۔ ان کی بادشاہت کو صحابہؓ نے عمومی طور پر قبول کیا، تاہم جب انھوں نے اپنی ملوکیت کو موروثی بنانا چاہا تو صحابہؓ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ تمام معروف صحابہ تو مزاحمت پر ڈٹے رہے جبکہ دیگر صحابہ نے اتمامِ حجت کے بعد خاموشی اختیار فرمالی مگر اس فیصلے پر صاد نہیں کیا۔ یزید کو حکمران تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کی فہرست میں صحابہ کی بڑی تعداد کے نام آتے ہیں۔ انصار و مہاجرین کی اکثریت نے یزید کی حکمرانی پر نکیر کی۔ ان میں حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت حسین بن علی، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر، حضرت احنف بن قیس اور حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یزید اپنی ذاتی حیثیت اور کردار کے لحاظ سے بھی خلافت کا کسی صورت اہل نہ تھا اور پھر اس کے تقرر اور نامزدگی کا طریقہ بھی موروثی بادشاہت کا اثبات اور مشاورت و اہلیت کا انکار تھا۔ اس وجہ سے سیدنا امام حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ نظامِ اسلام کے ایک اہم ترین رکن کے خاتمے پر خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے جدوجہد کا راستہ اپنایا جائے۔ آپ نے بہت بڑی قربانی دی مگر یہ اصول کہ اسلام میں نظامِ حکومت شورائی اور مبنی بر اہلیت ہے، زندہ کردیا۔
کربلا کا دل فگار واقعہ
واقعاتِ کربلا تفصیلی ہیں مگر اختصار کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جب حضرت امام حسینؓ کو تمام راستے مسدود کرکے جنگ پر مجبور کردیا گیا تو پھر آپؓ نے پیٹھ نہیں پھیری۔ البتہ یہ بھی آپؓ کی عظمت ہے کہ رات کو آپؓ نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا کہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔ انھیں یا تو میری بیعت چاہیے یا پھر سر۔ آپ لوگوں سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔ آپ رات کی تاریکی میں خاموشی سے یہاں سے کوچ کرجائیں، میں ان سے خود نمٹ لوں گا۔ مگر ان کے سب ساتھیوں نے یک زبان یہ کہا کہ ہم کسی صورت آپؓ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا آپؓ کے ساتھ ہے۔ آپؓ کے ان ساتھیوں میں حر بن یزید اور اس کے چند رفقا حقیقت میں بنوامیہ کی طرف سے آپؓ کا راستہ روکنے والوں میں شامل تھے، مگر آپؓ کی پُراثر تقریر کو سن کر انھوں نے سرکاری ذمے داریوں اور مناصب کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا اور آپؓ کے ساتھ آخر وقت تک وفاداری کا حق نبھایا۔
9 محرم کو عملاً جنگ شروع ہوگئی۔ قافلۂ حسین کے جاں نثار ایک ایک کرکے شہید ہوتے چلے گئے۔ اس دوران ایک بڑا دلدوز واقعہ پیش آیا، جسے مورخین نے نقل کیا ہے۔ سیدنا حسین ابن علیؓ نے اپنے ایک شیر خوار بچے کو گود میں اٹھا رکھا تھا، جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود آپؓ کو گود میں اٹھایا کرتے تھے۔ دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا اور اس بچے کے حلق میں پیوست ہوگیا۔ آپؓ کی گود ہی میں یہ معصوم شہید ہوگیا۔ آپؓ اس کا خون پونچھتے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے اللہ! یہ خون بھی تیرے راستے میں قربان ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیان تُو ہی فیصلہ کرنے والا ہے۔ ان لوگوں نے ہمیں خود ہی یہاں آنے کی دعوت دی اور اب یہی ہمارے قتل کے درپے ہیں۔ (واقعۂ کربلا از پروفیسر سید ابو بکر غزنوی، ص 47-48)
جب آپؓکے سب ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوگئے تو آپؓ نے ایک یمنی چادر اپنے بدن پر لپیٹ لی۔ پھر تلوار لے کر میدان میں اترے۔ وہ جس جانب جھپٹتے تھے جنگجو منتشر ہوجاتے تھے۔ آپؓ کو کئی زخم لگ چکے تھے اور پیاس سے بھی آپؓ نڈھال تھے۔ موت آنکھوں کے سامنے تھی مگر آپؓ بلا خوف و خطر دشمن سے نبرد آزما رہے۔ کربلا کا ذرہ ذرہ اس شہیدِ وفا کو دیکھ کر پکار رہا تھا ؎
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
۔10 محرم کے روز ظہر اور عصر کے درمیان آپؓ کی شہادت ہوئی۔ آپؓ کے قاتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شمر بن ذی الجوشن تھا، جبکہ یہ رائے بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپؓ کو قبیلہ مُذحج کے ایک بدبخت شخص نے شہید کردیا۔ یہ رائے امام ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ میں دی ہے۔ (دیکھیے ج8، ص 188) اس کے مقابلے میں تاریخ طبری میں جس شخص کو آپؓ کا قاتل قرار دیا گیا ہے، وہ نسان بن انس نخعی تھا، اور آپؓ کا سر کاٹنے والے کا نام طبری نے خولی الاصبعی بیان کیا ہے۔ یہی رائے امام ذہبی کی بھی ہے۔ آپؓ کا سر کاٹنے والا شقی القلب جب سنگ دل ابن زیاد کے پاس پہنچا تو بڑے فخر سے یہ اشعار پڑھے:
اوقر رکابی فضۃ و ذھبا
فقد قتلت الملک المحجبا
قتلت خیر الناس اَمَّا وَ اَبَّا
و خیرھم اذ ینسبون نسبا
یعنی میرے اونٹ کو سونے اور چاندی سے لاد دو۔ میں نے ایسے بادشاہ کو قتل کیا ہے جس تک رسائی بڑی مشکل تھی۔ میں نے اس انسان کو موت کے گھاٹ اتارا جس کے ماں باپ سب انسانوں سے افضل تھے۔ یہ وہ شخص ہے جو تمام بنی نوعِ آدم میں اعلیٰ ترین نسب کا حامل تھا۔
ایامِ کرب و بلا میں بعض مواقع پر خیموں میں موجود خواتین کی طرف سے اگر کسی نوعیت کی پریشانی کا اظہار ہوا تو اس عظیم انسان نے انھیں بہترین انداز میں تلقین فرمائی کہ مومن کی ڈھال صبر ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حیاتِ ابدی کو اتنے مؤثر اور دلنشین پیرائے میں بیان فرماتے رہے کہ ان کے ملفوظات پڑھ کر دل کو عجیب تسکین ملتی ہے۔ اگر امام حسینؓ کمزوری دکھا جاتے تو ایک بہت بڑا فکری انحراف رونما ہوجاتا۔ اس میں شک نہیں کہ عملی طور پر خلافت ملوکیت میں بدل گئی جو امت کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے، مگر یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ اگر فکری لحاظ سے بھی یہ امت راستہ کھو بیٹھتی تو اس کا حال بھی ان دیگر مذاہب کی طرح ہوتا جو الہامی کتب اور وحیِ ربانی کی روشنی سے فیض یاب ہونے کے باوجود مکمل طور پر اپنی منزل سے نابلد ہوگئے اور اپنا تشخص کھو بیٹھے۔ شہادتِ حسین ایک بہت بڑا سانحہ ہے لیکن اس کے بعد کے مراحل اس سے بھی زیادہ دلدوز ہیں۔
مستند روایات کے مطابق حضرت حسینؓ کا سر کاٹ کر پہلے کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا، پھر دمشق میں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ دونوں جگہ ان دونوں بدبخت افراد نے نواسۂ رسول کے بارے میں گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ یزید کے دربار میں جب امام کا سر پیش کیا گیا تو اس نے آپؓ کے چہرہ مبارک پر ایک چھڑی سے ٹہوکا دیا۔ مؤرخین کے مطابق اس نے بار بار یہ حرکت کی۔ اس موقع پر دربار میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ بھی موجود تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور انھوں نے کہا: اے یزید! اس چہرۂ مبارک سے چھڑی الگ کرلو۔ خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے بارہا یہ منظر دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبارک لبوں سے اس چہرے کو نہایت محبت سے چوما کرتے تھے۔ دونوں درباروں میں خاندانِ اہل بیت کی عفت مآب بیٹیوں کو بھی حاضر کیا گیا اور دونوں جگہ ابن زیاد اور یزید نے بڑے تکبرکا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حسین باغی تھا جو اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ہر دو مقامات پر حضرت حسینؓ کی شیردل ہمشیرہ سیدہ زینب بنتِ علیؓ نے ان کو منہ توڑ جواب دیا۔
یزید کو حضرت معاویہؓ نے بارہا یہ نصیحت کی تھی کہ وہ حضرت حسینؓ کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے اور انھیں حکمت سے شیشے میں اتارنے کی کوشش کرے۔ البدایۃ والنہایۃ کے الفاظ ہیں انظر حسین بن فاطمۃ بنت رسول فانہ أحب الناس إلی الناس فصل رحمہ وارفق بہ (دیکھیے ج8، ص 162)۔ حسین بن فاطمہ بنت محمدؐ کا خصوصی خیال رکھنا کیونکہ وہ معمولی آدمی نہیں۔ لوگوں کے دلوں میں ان کی بڑی محبت ہے۔ ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے صلہ رحمی اور نرمی کا اہتمام کرنا۔ ابن الاثیر نے بھی لکھا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے یزید کو خصوصی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمھارے مقابلے پر حسین بن علیؓ خروج کریں اور تم انھیں زیر کرلو تو عفو و درگزر کا معاملہ کرنا، کیونکہ وہ ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں۔ نیز وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا بڑا حق ہے۔ (دیکھیے الکامل ج3، ص 259)
یزید نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرنے کے بجائے وہ راستہ اختیار کیا جو ظلم، شقاوت، سنگ دلی اور قطع رحمی کی بدترین مثال ہے۔ یزید کے بعض وکلا اس کی بریت ثابت کرنے کے لیے یہ دُور کی کوڑی بھی لاتے ہیں کہ اس نے حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا، یہ محض عبید اللہ بن زیاد کا عمل ہے۔ ان وکلا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں کہ اگر اس نے ایسا حکم نہیں دیا تھا تو:
1۔ کیا اس نے ابنِ زیاد سے کوئی ہلکی سی بھی باز پرس کی کہ اس کے حکم کے بغیر اس نے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟
2۔ تاریخ کے اس ریکارڈ کا کیا کیا جائے کہ ابن زیاد جس سے یزید نالاں تھا، اس واقعہ کے بعد اس کا پسندیدہ اور چہیتا گورنر بن گیا؟
3- جب شہیدِ کربلا کا سر یزید کے دربار میں پہنچا تو ابن زیاد ہی کی طرح ان کے چہرۂ اطہر پر چھڑی سے ٹہونکے کیوں دیے گئے؟
4- اتنے بڑے سانحے کے بعد بناتِ اہلِ بیت کو جس لب و لہجے میں اپنے دربارمیں اس نے مخاطب کیا اس کا اخلاقی یا انسانی لحاظ سے کیا جواز تھا؟
یزید کے اس عمل کی کوئی توجیہ ممکن نہیں۔ البتہ امام ابن تیمیہؒ کی طرح ہمارا مؤقف یہ ہے کہ اس کے باوجود سبّ و شتم اسلامی نقطۂ نظر سے ہرگز پسندیدہ عمل نہیں۔ یزید کا جو بھی جرم ہے، اس کا بدلہ وہ اللہ کے ہاں پارہا ہوگا اور روزِ محشر بھی پائے گا۔ اخلاقِ نبوی سے جو کچھ ہم نے سیکھا ہے، اس کا جوہر تو یہ ہے کہ کسی بدترین دشمن کو، کسی کٹّر کافر کو اورکسی ناپاک جانور کو بھی کبھی گالی نہ دو۔ تاریخ کا کوئی باب ہو یا اپنے ذاتی معاملات، ایک مومن کے لیے اسوۂ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ جہاں ہم اپنا یہ مؤقف واضح کرنا چاہتے ہیں وہیں ہم بلا خوف لومۃ لائم یہ حقیقت بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یزید جیسا ایک فرد جس کے بارے میں اس دور میں زندہ صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی اکثریت کے خیالات و ملفوظات غیر مبہم انداز میں بتاتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی ناپسندیدہ کردار ہے، نرم گوشہ رکھنا بڑی جسارت اور ناانصافی ہے۔ پھر یہ تو ایک جرم سے کم نہیں کہ جس شخصیت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے نوجوانوں کا سردار ہونے کی بشارت دی، جسے آپؐ نے اپنے بازوئوں اور کندھوں پر اٹھایا، اور جسے آپؐ نے اپنا محبوب قرار دیا، اس کے مقابلے میں یزید جیسے ایک مستبد، بدعمل اور قاتل حکمران کو ترجیح دی جائے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کافی واضح ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اسی کے ساتھ کھڑا ہوگا، جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔ المرأمع من احبہ ( صحیح بخاری کتاب الأدب باب علامۃ حب اللّٰہ عزوجل حدیث نمبر 5702)
واقعاتِ کربلا کی تفصیلات مورخین نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ قلم بند کی ہیں، مگر ہمارے نزدیک اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اسلام کا نظامِ خلافت اتنا قیمتی اثاثہ ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دی جاسکتی ہے۔ آمریت و ملوکیت اور استبداد و ظلم کا نظام اتنا ناپسندیدہ ہے کہ اسے مسترد کرنا اور اسے بدلنے کے لیے جدوجہد کرنا تقاضائے ایمانی ہے۔ انسان کی زندگی میں ابتلا و امتحان کے مرحلے آتے ہیں۔ ان مراحل میں ایک بندۂ مومن کی کیا شان ہونی چاہیے، یہ بھی واقعاتِ کربلا اور اس کے مابعد پیش آمدہ مراحل میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھی چند لمحات کے لیے سخت صورتِ حال سے دوچار ہوئے مگر شہادت نے یہ سختیاں جلد ہی ختم کردیں۔ البتہ بچ جانے والا قافلہ جس میں ایک مرد کے سوا باقی سب خواتین تھیں، عزیمت کا پہاڑ بن کر تاریخ میں جگمگا رہا ہے۔ ہمیں ہر مرحلے میں اس سے سبق اور حوصلہ حاصل کرنا چاہیے۔
(ماخوذ از ’’شہادتِ امام حسینؓ کا حقیقی پیغام‘‘)