امریکی وزیرخارجہ کا دورہء پاکستان اور ….!۔

چچا سام ایک بار پھر پاکستان سے ناراض ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کبھی دوست نہیں رہے۔ ان ممالک کے تعلقات ہندوپاک کی ان شادیوں کی طرح ہیں جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں مگر بچوں کے مستقبل اور خاندان کی عزت کے لیے بادلِ ناخواستہ نباہ کیا جاتا ہے۔کئی برس پہلے امریکہ کی سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن صاحبہ کے دورۂ اسلام آباد میں ایک خاتون نے پاک امریکہ تعلقات کو ساس بہو کے روایتی رشتے سے تشبیہ دی تھی جہاں نٹ کھٹ ساس کسی طور اپنی بہو سے راضی نہیں۔
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے حالیہ دورے میں پاک امریکہ تعلقات میں پڑی سلوٹیں کسی حد تک ہموار ہوتی نظر آرہی تھیں۔ واشنگٹن کے صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان نے CPEC منصوبے کو وقتی طور پر منجمد یا کم ازکم سست کردینے پر رضامندی ظاہر کردی تھی، جبکہ چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر نظرثانی کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے CPEC پر نظرثانی کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا ہے، لیکن سیانوں کا خیال ہے کہ وضاحت ’’موذیوں‘‘ کا منہ بند کرنے کے لیے ہے۔ خبررساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر اسلام آباد نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی ادائیگی المعروف بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی تو واشنگٹن اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ دوسرے دن وائس آف امریکہ (VOA) نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی۔ VOA کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے اس کی نامہ نگار کو بتایا کہ واشنگٹن پاکستان کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے مثبت کردار ادا کرسکے۔ اسی کے ساتھ پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے اعلان کیا کہ آئی ایم ایف کے وفد کو مذاکرات کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اس سال جولائی میں جناب پومپیو نے متنبہ کیا تھا کہ امریکہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ایسے کسی بھی ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج کی فراہمی پر اعتراض کرے گا جو پاکستان چین سے لیے جانے والے قرض اتارنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہو۔ واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے پیارومحبت اور آئی ایم ایف کے حوالے سے امریکی مؤقف میں تبدیلی کی وجہ سی پیک کے بارے میں وہ یقین دہانیاں ہیں جو جناب پومپیو کو اسلام آباد میں کروائی گئی ہیں اور جس کا کھلا اقرار اسلام آباد کے لیے ممکن نہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان اس لحاظ سے پاکستان کے لیے حوصلہ افزا تھا کہ اس سے ایک دن پہلے یعنی 10ستمبر کو قدامت پسند مرکزِ دانش Federalist Society for Law and Public Policy Studies المعروف فیڈرلسٹ سوسائٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے مشیرِ خصوصی برائے قومی سلامتی جناب جان بولٹن نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گرد کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ ملک کے جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں۔ فیڈرلسٹ سوسائٹی امریکہ کا ایک انتہائی بااثر ادارہ ہے۔ امریکہ کی زیادہ تر بار ایسوسی ایشنز اس کی رکن ہیں اور سپریم کورٹ کے تمام قدامت پسند جج اس سے وابستہ ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے جسٹس گورسچ کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو جناب گورسچ کا نام فیڈرلسٹ سوسائٹی نے پیش کیا تھا۔ قانون کا انتہائی مؤقر رسالہ ’ہارورڈ جنرل آف لا اینڈ پبلک پالیسی‘ فیڈرلسٹ سوسائٹی ہی شائع کرتی ہے۔ امریکی کانگریس پر سوسائٹی کے اثرات بہت گہرے ہیں، چنانچہ قانون سازی کے باب میں سوسائٹی خاصا اثررسوخ رکھتی ہے۔ اس ادارے کے سامنے پاکستان کے جوہری اسلحہ کے بارے میں مسٹر بولٹن نے جو مصرع طرح پیش کیا تھا اُس پر ایک مربوط غزل سرائی کا خطرہ تھا، لیکن امریکی انتظامیہ کی جانب سے کوئی بیان بازی دیکھنے میں نہیں آئی جس سے لگ رہا تھاکہ اپنے دورۂ پاکستان سے امریکی وزیر خارجہ کسی حد تک مطمئن ہیں اور سی پیک پر نئی حکومت کا مؤقف، فکر اور طرزِعمل امریکی توقعات کے بہت قریب ہے۔
واشنگٹن میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ امریکی وزارت ِخارجہ چینی ترکستان کے اویغور باشندوں کی حالتِ زار پر ایک جامع رپورٹ تیار کررہی ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد اویغور باشندوں پر چینی حکومت کے ظلم و تشدد اور ثقافتی تطہیر کو بے نقاب کرنا ہے۔ واشنگٹن کو امید ہے کہ پاکستان اس مہم میں امریکہ کا ساتھ دے گا۔
تاہم مہرو محبت کا یہ سلسلہ ایک ہفتے سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ نئی ناراضی کی وجہ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت عدالتِ عظمیٰ نے رفاہی تنظیم ’فلاحِ انسانیت فائونڈیشن‘ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ نوازشریف حکومت نے ہندوستان کے دبائو پر جماعت الدعوۃ پر پابندی لگادی تھی۔ جماعت الدعوۃ کے خلاف سابق حکومت کا رویہ انتہائی معاندانہ تھا۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے بھی نوازشریف اور اُن کے رفقا اس انداز میں باتیں کرتے تھے جیسے پاکستان کے خلاف گواہی دے رہے ہوں۔گزشتہ برس میونخ میں امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر دفاع جناب خواجہ محمد آصف نے فرمایا ’’جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید اور دوسرے افراد معاشرے کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ انھوں نے بہت فخر سے بتایا کہ ماضی میں لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ پر پابندی لگائی جاچکی ہے اور یہ جماعتیں پاکستان اور پاکستان سے باہر بالواسطہ دہشت گردی میں ملوث رہ چکی ہیں۔ معزولی کے بعد اس معاملے پر میاں نوازشریف کا رویہ مزید سخت ہوگیا۔ ملتان میں جلسہ عام سے پہلے میاں نوازشریف نے روزنامہ ڈان کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کی جس میں ان کا لہجہ بے حد کسیلا تھا۔ اس دوران انھوں نے جو کہا اس کا روزنامہ ہندو میں شائع ہونے والا متن اور اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
،،We have is olated our selves. Despite making sacrifices, our narrative is not being accepted. Afghanistan’ s narrative is being accepted, but ours is not. We must look into it. Militant organisations are active. Call them non-state actors — should we allow them to cross the border and kill 150 people in Mumbai? Explain it to me. Why can’t we complete the trial?’’
’’ہم نے خود کو دنیا میں تنہا کردیا ہے۔ قربانیوں کے باوجود دنیا ہمارے بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی اور افغانستان کے مؤقف کو سراہتی ہے۔ ہمیں اس طرف دیکھنا چاہیے۔ شدت پسند تنظیمیں (پاکستان میں) سرگرم ہیں۔ آپ انھیں غیر ریاستی عناصر کہہ سکتے ہیں۔ کیا ہمیں ان (تنظیموں) کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد عبور کرکے ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کردیں؟ مجھے آپ سمجھائیں کہ (ان دہشت گردوں) کے مقدمات اب تک مکمل کیوں نہیں ہوئے؟
(روزنامہ ہندو، 12 مئی 2018ء)
سابق پاکستانی وزیراعظم کا اشارہ ممبئی میں تشدد و دہشت گردی کی اُس واردات کی طرف تھا جو 26 نومبر 2008ء کو پیش آئی، جب 10 مبینہ دہشت گردوں نے ممبئی کے 12 مقامات کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ کارروائی 4 دن جاری رہی جس میں سرکاری اعلان کے مطابق 9 دہشت گردوں سمیت 164 افراد مارے گئے۔ زندہ پکڑے جانے والے اجمل قصاب کو بعد میں پھانسی دے دی گئی۔ اس واقعے کو ہندوستانی 9/11کے وزن پر 11/26 بھی کہتے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود ہندوستان نے آج تک اس سلسلے میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیا اور پورا مقدمہ اس واقعے کے سرغنہ اجمل قصاب کے اس اعترافی بیان پر مشتمل ہے جس میں اُس نے کہا کہ ’’کارروائی کا حکم لکھوی چاچا نے دیا تھا‘‘۔ اسی عدالت میں اجمل نے بدترین تشدد کے نتیجے میں اپنی ادھڑی ہوئی کھال بھی دکھائی تھی۔ اس کے بعد اعترافی بیان کی اخلاقی حیثیت کیا رہ جاتی ہے! نوازشریف حکومت نے ہندوستان کے دعوے کو بلا ثبوت من و عن قبول کرلیا، لیکن پاکستانی عدالتوں نے تشدد کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اعترافی بیان کو مسترد کردیا اور ٹھوس ثبوت کے بغیر گرفتار کیے جانے والے لکھوی صاحب کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ یہی معاملہ مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کا ہے کہ ہندوستان ان لوگوں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کو تیار نہیں۔ بے گناہوں کا وحشیانہ قتل انسانیت کے خلاف ناقابلِ معافی جرم ہے، لیکن محض قیاس اور شک کی بنا پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالتے ہی جناب احسن اقبال نے جماعت الدعوۃ سے وابستہ رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن پر بھی پابندی لگادی اور تنظیم کے فلاحی منصوبوں کا کنٹرول حکومت نے سنبھال لیا۔ تھرپارکر میں فلاح انسانیت نے بہت سے کنویں کھدوائے ہیں، جبکہ آب نوشی کے لیے چھوٹے چھوٹے ذخیرۂ آب تعمیر کیے ہیں۔ مسلم لیگی حکومت نے آب نوشی کے کچھ منصوبے جماعت احمدیہ کی رفاہی تنظیم کے حوالے کردیئے جس پر Freethinkers, Pakistan Secular اور بھینسا سمیت اسلام بیزار سماجی سائٹس سے مسخرہ پن کا آغاز ہوا، مثلاً ایک پوسٹ تھی ’’کیا جماعت احمدیہ کے کھودے ہوئے کنویں کا پانی مسلمانوں کے لیے حلال ہے؟‘‘ حالانکہ جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں فیس بُک اور ٹوئٹر تک محدود تھیں۔ اس سے سوشل میڈیا پر لن ترانی اور اسلامی عقائد کی تضحیک ہی ممکن ہے۔ عوام کی خدمت کے لیے پیروں کو غبار آلود کرنا ہوتا ہے جو کنووں پر تختی لگانے والوں کے بس کی بات نہ تھی۔
تھرپارکر کی ہندوآبادی نے ان پابندیوں کے خلاف مظاہرے کیے۔ ہندو عورتیں سیکڑوں میل کا سفر کرکے کراچی پریس کلب آئیں۔ یہ امپورٹیڈ پرفیوم سے مہکتی سول سوسائٹی کی بیگمات نہیں تھیں، بلکہ ان کے بوسیدہ لباس اور میک اَپ سے بے نیاز اجڑے ہوئے چہروں سے عیاں تھا کہ یہ بے چاری محنت کش ہی نہیں فاقہ کش بھی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ’’ہندوئوں کی خدمت گزار فلاحِ انسانیت پر پابندی ختم کرو‘‘۔ اس مظاہرے پر Freethinkersنے تبصرہ کیا کہ ’’مولبیوں‘‘ نے ہندو خواتین کو بھی جنت کے قصے سناکر ذہنی طور پر ’مفلوج‘ کردیا ہے۔
دوسری طرف حافظ سعید اپنی فریاد لے کر پنجاب ہائی کورٹ جاپہنچے اور 4 اپریل کو جسٹس امین الدین خان نے حکم دیا کہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کے خلاف ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے جس سے رفاہی اور فلاحی سرگرمیاں متاثر ہوں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے نہ صرف اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا بلکہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پیمرا کو حکم دیا کہ فلاح انسانیت کی میڈیا کوریج پر پابندی لگادی جائے۔ اصولی طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد فلاح انسانیت کی سرگرمیوں پر پابندی اٹھ جانی چاہیے تھی، لیکن وزیرداخلہ نے پابندی برقرار رکھی۔
12ستمبر کو جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے فلاحِ انسانیت کو اپنی رفاہی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دی، اسی کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پیمرا کی طرف سے فلاح انسانیت کے میڈیا بلیک آئوٹ پر وفاقی حکومت سے 10 دن کے اندر جواب طلب کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس حکم پر جہاں نوازشریف اور احسن اقبال بے حد مغموم ہیں وہیں امریکی وزارتِ خارجہ بھی خوش نہیں۔ چونکہ یہ عدالتی فیصلہ ہے اس لیے واشنگٹن سے کوئی سرکاری بیان تو جاری نہیں ہوا لیکن صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تادم تحریر حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق فلاحِ انسانیت کو خدمتِ خلق کی مکمل آزادی نہیں دی۔ ان کے اثاثے اب تک حکومت کی تحویل میں ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ نوازشریف کے انداز میں عمران حکومت بھی فلاحِ انسانیت کو مکمل آزادی دے کر امریکہ سے پنگا لینے کے موڈ میں نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ عدالتی حکم کو نظرانداز کردینے سے امریکہ راضی ہوگا یا نہیں، لیکن ان پابندیوں سے تھر کے فاقہ کش اور پیاسے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔