ٹوپلس ٹو ڈائیلاگ، اسلام آباد کے لیے واضح امریکی پیغام

کم و بیش سب کا ہی اتفاق ہے کہ سی پیک ملکی معیشت کے لیے بہترین منصوبہ ہے، لیکن تحریک انصاف کا اس حوالے سے مختلف مؤقف ہے، وہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت اور چین کے مابین ہونے والے معاہدے پر مکمل نظرثانی چاہتی ہے۔ ایسا ہوا تو یہ معاہدہ نئے سرے سے ترتیب دیا جائے گا۔ نئے معاہدے کے لیے چین کی حکومت تیار ہوگی یا نہیں ہوگی، نئی شرائط کیا ہوں گی، اس بارے میں ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہوا۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس منصوبے میں مقامی صنعتیں بھی شامل ہوں، لیکن حکومت کے پاس اس بارے میں کوئی ہوم ورک نہیں؟ حکومت کی یہ بھی خواہش ہے کہ اس منصوبے میں سعودی عرب کو بھی شامل کرلیا جائے، وزیراعظم اسی لیے سعودی عرب جارہے ہیں۔ ایسا ہوا تو وسائل سعودی حکومت فراہم کرے گی اور ہماری صنعتوں کے لیے آکسیجن سعودی حکومت بنے گی۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں سعودی عرب گوادر میں آئل سٹی بنانے جارہا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان کو اپنی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے 9 بلین ڈالر کی ضرورت ہے، سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت سے وسائل وہاں سے لے کر حکومت آئی ایم ایف کے دبائو سے باہر نکل سکتی ہے۔
ہم پر اس وقت دوسرا دبائو امریکہ کی جانب سے ہے جو ہر قیمت پر اس خطے میں دو سال کے اندر اندر بھارت کو معاشی جن بنانا چاہتا ہے، اسی لیے ہمیں دفاعی لحاظ سے کمزور کرنے کی خاطر پاکستانی فوجی افسروں کے لیے امریکہ میں تربیتی پروگرام بند کردیا ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈ میں سے 300 ملین ڈالر کی ادائیگی روک رکھی ہے۔ اگرچہ امریکی وزیر خارجہ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے پاکستان سے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو ازسرنو منظم کرنے پر اتفاق کیا ہے، لیکن امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے نئی دہلی میں بھارت کی قیادت سے ’’ٹو پلس ٹو‘‘ ڈائیلاگ اسلام آباد کے لیے بہت واضح پیغام ہے۔ ان مذاکرات میں مائیک پومپیو اور امریکی سیکریٹری دفاع جان میٹس شریک ہوئے، جبکہ بھارت کی نمائندگی مودی سرکار کی کابینہ کی دو خواتین ارکان وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع نرملا ستھارامن نے کی۔ بھارت کے ساتھ سیکورٹی سمجھوتے ”Comcasa” کے بعد اب امریکہ بھارت کو حساس نوعیت کی دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔ اس سمجھوتے سے امریکہ اور بھارت کی فوجوں میں مشترکہ آپریشن کرنے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ بھارت کو جدید ترین مواصلاتی ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہوگی اور امریکہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنانے میں مدد دے گا۔
امریکہ بھارت مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تبادلہ خیال ہوا۔ طے ہوا کہ امریکہ اور بھارت کی افواج مشترکہ مشقیں بھی کریں گی۔ نئی دہلی میں ہونے والی ’’ٹو پلس ٹو‘‘ ملاقات میں امریکہ بھارت دفاعی تعاون کا جو سمجھوتا ہوا ہے اس کا ہدف پاکستان کے علاوہ چین ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان میں ڈومور کہا، بھارت میں کہا کہ ’’جوچاہو مانگو‘‘، اور جنگی ہتھیاروں کی خریداری کے بہت بڑے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس سب کے باوجود یہ بھی بہت بڑی حقیقت ہے کہ بھارت اور امریکہ اس خطے میں اپنی آنکھوں میں سجائے کسی بھی خواب کی تعبیر نہیں پاسکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان ہی واحد ملک ہے جو آج دنیا کی نظروں میں اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے، ہماری لیڈرشپ اگر درست تجزیہ کرکے پیش رفت کرتی رہی تو ہمارا ہر اٹھتا ہوا قدم بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی بدنامِ زمانہ ٹرائیکا کی جڑیں اکھاڑ کر رکھ دے گا۔
سی پیک کے لیے حکومت اگرچہ اپنی ترجیحات لانا چاہتی ہے لیکن اس کی صفوں میں گھسے ہوئے مافیا کے اپنے کاروباری مفادات ہیں۔ یہ مافیا پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے خوش نما نعروں کی آڑ میں ملک کی قیمتی اراضی ہتھیانا چاہتا ہے اور برطانیہ میں کاروبار کرنے والا انیل مسرت اس گروہ کا سرخیل بن کر سامنے آرہا ہے۔ سی پیک کے لیے اب تک جو نئی پیش رفت ہوئی ہے اس کی تفصیلات کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ گوادر کی ترقی پہلا ہدف ہے، اور خصوصی اقتصادی زون دوسری ترجیح ہے، اس کے بعد ریلوے کی ایم ایل ون لائن کی اپ گریڈیشن پر کام شروع ہوگا۔ وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کی سربراہی میں 8 رکنی کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے دیگر ارکان میں وزیر خارجہ، وزیر قانون و انصاف، وزیر خزانہ، وزیر پیٹرولیم، وزیر ریلوے، مشیر امورِ تجارت، ٹیکسٹائل و صنعت و پیداوار، سرمایہ کاری اور وزیر مملکت برائے داخلہ شامل ہیں۔ پاکستان سی پیک کے نو اقتصادی زونز میں سے چار کو ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ ان اقتصادی زونز میں چین سے چند درجن صنعتی یونٹس اور دو سو سے زائد چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو منتقل کیا جائے۔ ان میں بلوچستان میں گوادر، پنجاب میں فیصل آباد، سندھ میں دھابیجی اور خیبر پختون خوا میں رشکئی کے اقتصادی زون شامل ہیں۔ اقتصادی زونز کی سبسڈی کا معاملہ حل ہوگیا ہے اور چین سے صنعتی یونٹس اور چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی منتقلی کی توقع ہے۔ بیجنگ میں اسموگ کے باعث اس وقت چین نے 35 ہزار صنعتی یونٹس بند کیے ہوئے ہیں اور ان میں سے چند سو یونٹس کو سی پیک کے خصوصی اقتصادی زونز میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سی پیک میں تیسرے فریق کی شرکت پر توجہ دی جائے گی۔ سی پیک کے جوائنٹ ورکنگ گروپس کے اجلاس اسی سال ماہ اکتوبر میں بلائے جارہے ہیں۔ اس کے بعد اگلا اجلاس دسمبر میں ہوگا۔
دولت مند برٹش پاکستانی تجارتی شخصیت انیل مسرت بھی اب میدان میں اترے ہیں، وہ5 ملین گھروں کی تعمیر کے لیے عمران خان کے منصوبے پر کام کریں گے۔ عمران خان کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے انیل مسرت کے کردار پر بہت شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ انیل مسرت کے ساتھ ایک دوسری شخصیت صاحبزادہ جہانگیر کی ہے، یہ پاک سرزمین پارٹی کی رہنما فوزیہ قصوری کے بھائی ہیں۔ انیل مسرت کابینہ کے ایک اجلاس میں بھی شریک ہوئے ہیں۔ اسی اجلاس میں 5 ملین گھروں کی تعمیر کے لیے روڈمیپ کی تیاری پر گفتگو ہوئی تھی۔ انیل چاہتے ہیں کہ ملک میں بلڈرز کی ایک نئی کھیپ تیار کی جائے تاکہ پہلے سے موجود بلڈرز کا تعمیراتی شعبے پر قبضہ ختم کیا جائے۔ انیل یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس افراد کے لیے ون ونڈو آپریشن کے ذریعے آسان اقساط پر قرضے ملیں جس سے وہ مکانات کے مالک بن سکیں گے اور خریداروں کو یورپ کی طرز پر مورٹگیج کی سہولت ملے گی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ میں نے عمران خان سے کہا ہے کہ اس کے لیے بینکنگ قوانین میں تبدیلی لانا پڑے گی اور وہ اس تجویز پر عمل کے لیے رضامند ہیں۔میں نے لاہور اور میانوالی میں جگہیں حاصل کی ہیں اور ان پر خواتین اور بچوں کے مفت علاج کے لیے اسپتال کی تعمیر کروائوں گا، جس کے لیے فنڈنگ یوکے میں قائم میری فلاحی تنظیم کرے گی۔ انیل مسرت تواتر سے شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے لیے بھی فنڈز فراہم اور فنڈ ریزنگ کرتے ہیں۔ 48 سالہ انیل نے ایک چھوٹے پراپرٹی تاجر کی حیثیت سے اپنا کام شروع کیا اور مسلسل انتھک محنت سے وہ پراپرٹی کے کاروبار کی ایک بڑی شخصیت بن گئے، جن کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 300ملین پائونڈز کے قریب ہے۔ وہ برطانیہ کی امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں اور برطانیہ بھر کے مختلف مقامات پر ان کی کمپنی میں 350افراد ملازمت کرتے ہیں۔ ایسے مافیا کی شمولیت حکومت کی ترجیحات پر کچھ سرخ نشان لگا رہی ہے، اور شاید اسی لیے حکومت نے اب بدعنوان افسر شاہی پر بھی ہاتھ ہولا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کہ سختی کے باعث کچھ’’ فیصلے‘‘ متاثر ہوسکتے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے سرکاری ملازمین سے کہا ہے کہ وہ بیورو کریسی کو تحفظ دیں گے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ افسر شاہی سیاست کا شکار ہوچکی ہے، لیکن اب کہتے ہیں کہ انہیں کسی بھی سرکاری افسر کی سیاسی وابستگی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ اس لیے کہا کہ تین ہفتوں کے دوران افسروں نے کام کرنا چھوڑ رکھا تھا، پاکپتن میں ہونے والے واقعہ نے حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں، اور اس کے بعد ڈی سی چکوال کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اب یہ معاملہ پارلیمنٹ کے پاس پہنچ چکا ہے کیونکہ اس میں حکمران جماعت کے ایک رکن ملوث ہیں۔ ڈی سی چکوال نے اس رکن پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان پر ریونیو افسروں اور پٹواریوں کے تبادلوں کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اور تبادلے نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس پر ڈی سی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا،جس پر اب یہ معاملہ اسپیکر کے حوالے کردیا گیا ہے،تاہم چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنروں کے خلاف انضباطی کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ہی طریقوں سے بیوروکریسی سیاسی دباؤ سے آزاد ہوگی؟ وزیراعظم نے سرکاری افسروں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نوآبادیاتی دور کے طور طریقے بدلیں۔ انہوں نے اس کی وضاحت بھی کی کہ پرائم منسٹر ہاؤس کی لگژری گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور بھینسیں اسی لیے فروخت کی جارہی ہیں کہ اس سے نوآبادیاتی ذہنی سانچہ تبدیل ہوگا۔ کاش ایسا ہوجائے، لیکن جو سرکاری افسر اب تک نوآبادیاتی دور کے کرّ وفر سے نہیں نکل سکے اور بیس بیس کنال کے گھروں میں رہ رہے ہیں، اور بیک وقت درجنوں سرکاری ملازم اُن کے گھروں پر مختلف قسم کی خدمات انجام دیتے ہیں، کیا وہ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں نیلام ہونے کے بعد کسی خودکار طریقے سے اپنا ذہن بدل لیں گے؟ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہوگا۔ بیوروکریسی کو عوام کا خادم بنانے اور نوآبادیاتی مائنڈسیٹ بدلنے کے لیے الگ سے کوششیں کرنا ہوں گی جو بارآور بھی ہوں۔ ماضی میں بھی ایسی نیم دلانہ کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہیں ہوئیں۔ اب بھی اگر بیوروکریسی کو عوام کا خادم اور سیاسی دباؤ سے آزاد ریاست کا ملازم بنانا ہے تو قائداعظمؒ کے فرمان پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ جس طرح بیوروکریسی پہلے سیاسی دباؤ میں تھی آج بھی وہ کسی نہ کسی شکل میں اس کا شکار رہے گی، فرق صرف یہ پڑے گا کہ پہلے دباؤ ڈالنے والے مسلم لیگی تھے، اب تحریک انصاف والے ہیں۔