ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن اپنے ہی ملک اور اپنے ہی دیار میں گوناگوں مشکلات، مسائل اور بے انصافیوں کا شکار ہے۔ اس کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان کا دستور اور عدالتیں بھی اردو زبان کو اس کا حق اور انصاف دلانے میں ابھی تک ناکام ہیں… مگر یہ ایک لمبی کہانی ہے، جسے ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
اردو زبان کی پس ماندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے لکھنے کے طور طریقوں اور املا کی معیار بندی خاطر خواہ طریقے سے نہیں ہوسکی۔ جو کچھ ہوئی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ خلاف ورزی کرنے والوں میں اردو کے ادیب، شاعر، نقاد، اردو زبان سے متعلق ادارے اور اخبارات و رسائل سبھی شامل ہیں۔
اردو کے بہت سے الفاظ مختلف کتابوں، رسالوں اور اخبارات میں مختلف طریقوں سے لکھے جاتے ہیں۔ املا کا یہ اختلاف اور انتشار ایک افسوس ناک صورتِ حال کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس اختلاف کو کم اور دور کرنے کے لیے ذیل میں چند اصول اور قاعدے بیان کیے جارہے ہیں۔ ہر اصول اور ہر قاعدہ کسی نہ کسی دلیل یا سبب سے متعین کیا گیا ہے۔ ان اصولوں کو اختیار کرنے سے اردو املا کی بے قاعدگیاں کم ہوسکتی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اردو تحریروں میں کم از کم ان اصولوں کی پابندی کرلی جائے تو بڑی حد تک املا کے انتشار سے نجات مل سکتی ہے۔
یہ اصول اور قاعدے ہم نے نامور ماہرینِ املا (بابائے اردو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، رشید حسن خان، ڈاکٹر فرمان فتح پوری وغیرہ) اور بعض اہم اداروں (انجمن ترقی اردو، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد اور ترقی اردو بیورو دہلی) کی مرتب کردہ سفارشاتِ املا، اور اس موضوع پر منعقدہ متعدد ورک شاپوں، سیمی ناروں اور بحث مباحثوں میں شرکت یا ان کی رودادوں کے مطالعے اور ان پر غور و فکر کے بعد مرتب کیے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نکات اور تجاویز ماہرینِ املا اور علمی اداروں کی متفق علیہ ہیں۔
اخبارات و رسائل میں املا کی بے ضابطگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے سابق صدر نشین اور استاذ محترم ڈاکٹر وحید قریشی نے مخزن (شمارہ 16) میں اس پر تشویش ظاہر کی تھی، مگر ان کی آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ انہی دنوں ہم نے اخبارات و رسائل سے حسبِ ذیل الفاظ نوٹ کیے ہیں (صحیح املا واوین کے اندر دیا گیا ہے):
پنچائیت (پنچایت)۔ سرائیت (سرایت)۔ ذہین و فتین (ذہین و فطین)۔ ترجیہی (ترجیحی)۔ طفنن طباع (تفنن طبع)۔ دل پزیر (دل پذیر)۔ قوائد (قواعد)۔ لاپرواہی (لاپروائی)۔ گواراہ (گوارا)۔ معمور کیا (مامور کیا)۔ مطمع نظر (مطمح نظر) وغیرہ۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہایر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کے جن رسائل کو معیاری تحقیقی مجلّات (Approved Research Journals) قرار دیا ہے، ان میں بھی املا کے کسی ضابطے کی پابندی نہیں کی جاتی، بلکہ ایک ہی رسالے کے مختلف مضامین میں املا کا اچھا خاصا ’’تنوع‘‘ نظر آتا ہے۔
جامعات کے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات میں بھی املا کی صورتِ حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ مقالات کو نہ صرف اپنے مباحث اور اسلوبِ بیان بلکہ املا کے اعتبار سے بھی ’’مستند‘‘ خیال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تحقیق کاروں کے لیے صحتِ املا کا خیال رکھنا ازبس ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ ہمارے نزدیک کسی تحقیقی مقالے میں صحتِ املا سے غفلت اور لاپروائی ناقابلِ معافی ہے۔
آئندہ صفحات میں پیش کردہ 29 تجاویز کے ذریعے صحتِ املا کا ایک راستہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ ان پر غور کریں، اگر انتیس تجاویز میں سے مثلاً بیس یا پندرہ یا دس یا پانچ ہی نکات پر، آپ کا دل مطمئن ہو تو اپنی تحریروں میں ان پانچ اصولوں پر عمل پیرا ہوجائیں اور اپنے دائرۂ اختیار میں ان پانچ اصولوں کو رائج کرنے کی کوشش کریں۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ مضمون نام نہاد ’’عالمگیریت‘‘ کے بخار میں مبتلا اُن بقراط صفت دوستوں کے لیے نہیں ہے جو ’’عالمگیریت‘‘ کی قربان گاہ پر (املا کی تو حیثیت ہی کیا ہے، بذاتِ خود) اردو زبان اور اس کے رسم الخط کا بلی دان دینے کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں۔ اردو اہلِ قلم خصوصاً تحقیقی مقالہ نویسوں سے یہ توقع ہے کہ وہ امکانی حد تک ان اصولوں کو اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے اردو زبان کا بھلا اور ان کے تحقیقی مقالے کے صوری حسن اور معیار میں اضافہ ہوگا۔
راقم نے یہ مضمون 2003ء کے آخر میں مرتب کیا تھا۔ 2004ء کے اوائل میں بعض احباب اور اداروں کو بھیجا گیا۔ متعدد رسائل (’’اخبارِ اردو‘‘ اسلام آباد، ’’کتاب نما‘‘ دہلی، ’’ہماری زبان‘‘ دہلی وغیرہ) میں شائع بھی ہوا۔ بعض احباب کے مشوروں اور تجاویز کی روشنی میں اب یہ مضمون نظرثانی کے بعد پیش کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں، مَیں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اور جناب عبدالستار غوری کی توجہ کا ممنون ہوں۔
صحتِ املا کے چند اصول اور قاعدے
(1)… حتی الوسع لفظوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، خصوصاً مرکبات کو، مثلاً:
ان کو آپ کے کے لیے جائے گا
جس قدر خوب صورت آج کل قلم کار
عقل مند بے شک بے خوف ہم قدم
انہیں یوں لکھنا درست نہ ہوگا:
انکو آپکے کیلیے جائیگا
جسقدر خوبصورت آجکل قلمکار
عقلمند بیشک بیخوف ہمقدم
(2)… انگریزی اور یورپی الفاظ کو بھی الگ الگ لکھا جائے تو اس طرح انہیں پڑھنا نسبتاً آسان ہوگا، مثلاً:
کاپی رائٹ، پبلی کیشنز، یونی ورسٹی، سیمی نار
انڈی پینڈنٹ، ٹیلی گراف، ٹیلی وژن، ٹیلی فون
انسٹی ٹیوٹ، ایجی ٹیشن، سائنٹی فک، انسائی کلو پیڈیا
البتہ بعض الفاظ ملا کر ہی لکھے جائیں گے، جیسے:
کانفرنس، پارلیمنٹ، میونسپلٹی، وغیرہ۔
(3)… مرکب حروف (بھ۔ تھ۔ ٹھ وغیرہ) ہمیشہ ہائے مخلوط یا دو چشمی ’’ھ‘‘ سے لکھے جاتے ہیں، جیسے: انھوں، انھیں، تمھارا، جنھیں، کولھو، کمھار، بھائی، دلھن، سرھانا، بھٹی، دھندا، کلھاڑی، سیدھا وغیرہ۔ ’’مجھکو‘‘ غلط اور ’’مجھ کو‘‘ صحیح ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ:
الف: ’ہ‘ جب لفظ کے درمیان میں آئے اور ماقبل اور مابعد آنے والے حرف سے جڑی ہوئی ہو تو ہائے کہنی دار کہلائے گی۔ مثلاً: بہت، کہنی وغیرہ
ب: کسی لفظ کے شروع میں آنے والی ’’ہ‘‘ ہائے ہوز کہلاتی ہے، ہائے کہنی دار نہیں، مثلاً: ہمیشہ ہے، ہی وغیرہ۔
ج: اسی طرح کسی لفظ کے درمیان آنے والی ’’ہ‘‘ اگر ماقبل حروف سے جڑی ہوئی نہ ہو تو وہ بھی ہائے ہوز ہوگی، ہائے کہنی دار نہیں، مثلاً دہلی، لاہور وغیرہ۔
د: چنانچہ کہنی دار ’’ہ‘‘ اور ہائے ہوز والے لفظوں کو دو چشمی ’’ھ‘‘ سے لکھنا قطعی غلط ہوگا، مثلاً:
ھم، ھے، ھمیں، ھنزہ، ھمیشہ، غلط ہے… ہم، ہے، ہمیں، ہنزہ، ہمیشہ صحیح ہے۔
ہ: ہائے مخلوط یا دو چشمی ’’ھ‘‘ اور ہائے کہنی دار میں امتیاز کرنا ضروری ہے، ورنہ لفظوں کے معنی بدل جائیں گے، جیسے: بھائی اور بہائی … گھر اور گہر… بھی اور بہی … یہ سب مختلف المعانی الفاظ ہیں۔
(4)… بعض عربی الفاظ کے آخر میں الف کی آواز ہے، مگر وہاں بجائے الف کے ’’ی‘‘ اور ’’وائو‘‘ لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنادیا جاتا ہے (اسے کھڑی زبر بھی کہتے ہیں) جیسے: ادنیٰ، اعلیٰ، ربوٰ… مگر اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پورے الف سے رائج ہیں، جیسے: تماشا، تقاضا، ماجرا، مدّعا، ربا وغیرہ… (کئی الفاظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں) ایسے لفظوں کا املا اس طرح مناسب ہوگا، جیسے: ادنا، اعلا، تمنا، مدعا، مولا، دعوا، فتوا، معّرا، ربا وغیرہ۔ البتہ چند الفاظ کو، بطور استثنا، اس طرح لکھنا مناسب ہوگا، جیسے: مصطفی، مجتبیٰ، موسیٰ، عیسیٰ، تعالیٰ، یدطولیٰ، سدرۃ المنتہیٰ، اولیٰ، عقبیٰ، مقفّیٰ وغیرہ۔
(5)… سابقوں اور لاحقوں (بہ، چہ، کہ) کو ملا کر لکھنا بہتر ہوگا، مثلاً: بلکہ، چنانچہ، کیونکہ، چونکہ، جبکہ، بشرطیکہ، غرضیکہ، بخدا، بخوبی، بدقت، بہرحال، بدستور، بدولت، باندازہ، بطور، بحیثیت، بلحاظ وغیرہ۔
(6)… بعض عربی الفاظ کے درمیان حروف پر چھوٹا الف (کھڑی زبر) آتا ہے (جیسے: اسمٰعیل، رحمن) بہتر ہے ایسے الفاظ پورے الف سے لکھے جائیں۔ اس طرح کمپوزنگ میں بھی آسانی ہوگی۔ مثلاً: ابراہیم، اسماعیل، رحمان، اسحاق، یاسین، مولانا (نہ کہ مولیٰنا) لقمان، زکات، حیات وغیرہ۔
(7)… عربی اور ترکی کے کچھ الفاظ (اسی طرح غیر عربی یعنی انگریزی، ہندی اور یورپی زبانوں کے الفاظ) کو بھی ’ہ‘ سے نہیں، بلکہ الف سے لکھنا درست ہے، مثلاً: ملغوبا، قورما، سانچا، ڈاکیا، شوربا، ڈھانچا، معما، تماشا، بقایا، تمغا، مچلکا، حلوا، مربا، چغا، خون خرابا، ناشتا، آریا، خارا، داروغا، کٹورا، غنڈا، راجا، ڈراما، دھماکا، دھوکا، بھروسا، کلیجا، پتا، پتّا، باڑا، بلبلا، تارا، گھونسلا، میلا، انگارا، فرما، انڈا، کمرا وغیرہ۔
(8) اسمائے معرفہ مروج طریقے سے لکھے جائیں گے، جیسے: افریقہ، مرہٹہ، کلکتہ، چیکو سلواکیہ، آگرہ، شملہ، پٹنہ، ہزارہ، بنگلہ دیش، امریکہ وغیرہ۔
(9) بعض لفظوں میں ہمزہ اور بعض میں ’’ی‘‘ کا استعمال اس طرح ہوگا:
غلط، صحیح، غلط صحیح
لئے، لیے، چاہیئے، چاہیے
چاہئیں، چاہییں، لکھئے، لکھیے
کیجیئے، کیجیے، دیئے، دیے
(10)… ’’انشاء اللہ‘‘ کا املا قرآن پاک کے مطابق اس طرح لکھنا ضروری ہے: ’’ان شاء اللہ‘‘… اگر اسے ملا کر ’’انشاء اللہ‘‘ لکھیں گے تو اس کا معنی مختلف ہوجائے گا۔
(11)… اضافت کے قاعدے میں، لفظ کے آخری حرف کے نیچے زیر آتا ہے، جیسے: ماہِ رمضان، تحریکِ اسلامی، اتمامِ حجت… مگر جن لفظوں کے آخر میں یائے ساکن ہوتی ہے، اضافت کی صورت میں اس ’’ی‘‘ کے نیچے زیر آئے گا (نہ کہ ہمزہ) مثلاً:
غلط: مرضیٔ خدا، رعنائیٔ خیال، آزادیٔ وطن
صحیح: مرضیِ خدا، رعنائیِ خیال، آزادیِ وطن
ایسے مقامات پر ہمزہ لکھنا، مرزا غالب کے الفاظ میں ’’عقل کو گالی دینا ہے‘‘۔
(12)… عربی جمع اور مصادر کے آخر میں ہمزہ آتا ہے، مگر اردو میں ان کے آخر میں، بلکہ الف پر ختم ہونے والے تمام الفاظ کے آخر میں ہمزہ نہیں لکھیں گے۔ مثلاً: ابتدا، انتہا، ارتقا، التوا، ابتلا، استدعا، اولیا، انبیا، جہلا، وزرا، فقرا، حکما، غربا، املا، اخفا، القا، ایشیا وغیرہ صحیح ہے۔
البتہ عربی ترکیب میں ’ء‘ لکھا جائے گا۔ جیسے: عطاء اللہ۔ اختر النساء وغیرہ۔
الف پر ختم ہونے والے انگریزی الفاظ کے آخر میں ہمزہ لکھنا تو قطعی غلط ہے (بلکہ حماقت ہے، کیوں کہ ہمزہ صرف عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے) مثلاً: مارشل لا، بارایٹ لا… صحیح اور: مارشل لاء، بارایٹ لاء… غلط ہے۔
(13)… الف پر ختم ہونے والے الفاظ اگر مرکبِ اضافی میں مضاف بن کر آئیں تو انھیں لکھنے کی صحیح صورت یہ ہوگی: حکماے اسلام، ابتداے کار، بوے گل… یعنی ’’ے‘‘ پر ہمزہ نہیں ہوگا، کیوں کہ ’’ے‘‘ اضافت کی علامت ہے، اور ہمزہ کی قائم مقام ہے، اس کے اوپر ایک ہمزہ لگانا زائد اور غیر ضروری ہے۔
(14)… مرکب عطفی کی صورت یہ ہوگی: شعرا و ادبا، فقرا و مساکین، آبا و اجداد وغیرہ۔
(15)… قانون امالہ: جن واحد مذکر لفظوں کے آخر میں ’ہ‘ یا ’الف‘ ہو اور ان کی جمع یائے تحتانی (ے) لگانے سے بن سکتی ہو اور ان کے فوراً بعد حرف عاملہ (مغیرہ) یعنی: تک، سے، کو، کے، کی، میں، پر، وغیرہ میں سے کوئی حرف آئے تو اردو املا میں اس ’ہ‘ یا ’الف‘ کو یائے تحتانی سے بدل دیا جائے گا، مثلاً:
٭ آپ کے بارہ میں… ٭اس افسانہ کا…
٭ تمھارے بھروسا پر… ٭ اس چوراہا تک چلے جائو…
انھیں یوں لکھنا صحیح ہوگا:
٭ آپ کے بارے میں… ٭ اس افسانے کا…
٭ تمھارے بھروسے پر… ٭ اس چوراہے تک چلے جائو…
بعض استثنائی صورتیں بھی ہیں، مثلاً: میں انبالہ کا رہنے والا ہوں، یا وہ تین دن پہلے مدینہ پہنچ گیا، وغیرہ… خیال رہے کہ بعض الفاظ امالہ قبول نہیں کرتے، جیسے: امریکہ، دادا، نانا، چچا، ابا، ایشیا، والدہ وغیرہ۔ اسی طرح زیادہ تر اسماے معرفہ بھی جوں کے توں رہیں گے جیسے: کانگڑہ، افریقہ، ایتھوپیا، امریکہ، برما، ہمالیہ، رقیہ، جمیلہ وغیرہ۔
(16) گول ’ۃ‘ والے عرب کے متعدد لفظ حیاۃ، نجاۃ، رحمتہ وغیرہ اردو میں ’’ت‘‘ سے رائج ہیں۔ انھیں سب بلاتکلف حیات، نجات، رحمت وغیرہ لکھتے ہیں۔ مناسب ہے کہ ایسے سب لفظ ’’ت‘‘ ہی سے لکھے جائیں، جیسے: حیات، ممات، نجات، بابت، مسمات، تورات، نکات وغیرہ۔
(17)… بعض فارسی الفاظ، اردو میں فارسی کے طریقے پر اور کبھی اس سے مختلف انداز میں لکھے جاتے ہیں۔ اردو میں یکساں اصول اختیار کرتے ہوئے ایسے الفاظ کا یہ املا مناسب ہے: آئندہ، جوئندہ، نمائندہ، آزمائش، نمائش، آلائش، آرائش، آسائش وغیرہ… ہمزہ سے لکھے جانے والے کچھ عربی الفاظ یہ ہیں: فائق، شائع، حائل، مائل، رسائل، حقائق، مسائل، عقائد وغیرہ۔
(18)… چلنے، چھوڑنے اور پار کردینے کے معانی میں گذاردن، گذشتن اور گذاشتن کو، اور ان سے بننے والے لفظوں کو ’’ذ‘‘ سے لکھا جائے گا، جیسے: گذشتہ، سرگذشت، رہ گذر، گذرگاہ، درگذر، رفتِ گذشت، واگذاشت وغیرہ۔
(19)… ادا کرنے، پیش کرنے اور شرح کرنے کے معانی گزاردن مصدر اور اس سے بننے والے الفاظ ’’ز‘‘ سے لکھے جائیں گے، جیسے: نماز گزار، تہجد گزار، خدمت گزار، شکر گزار، عرضی گزار، گزارش (اگر اسے ’’گذارش‘‘ لکھیں گے تو یہ ’’گذاشتن‘‘ سے مشتق قرار پائے گا اور اس کے معنی ہوں گے: چھوڑنا)
(20)… پذیرفتن (قبول کرنا) سے پذیرائی، دل پذیر، اثر پذیر وغیرہ صحیح ہے، نہ کہ پزیرائی، دل پزیر، اثر پزیر وغیرہ۔
(21)… گزیدن (پسند کرنا، قبول کرنا) اور گزیدن (کاٹنا، ڈنگ مارنا) سے بننے والے لفظ ’’ز‘‘ سے صحیح ہیں: جاگزیں، خلوت گزیں، برگزیدہ، مردم گزیدہ، مارگزیدہ وغیرہ۔
(22)… گزرنا، گزارنا اردو کے مصدر ہیں۔ ان سے بننے والے لفظ ’’ز‘‘ سے لکھے جائیں گے، مثلاً: گزرا، گزراہوں، گزر جانا، گزارا (شکر خدا کہ گزارا ہورہا ہے)، گزربسر، گزار لینا، گزار دینا، وغیرہ۔ خیال رہے کہ اردو، ہندی اور انگریزی کے الفاظ میں ہمیشہ ’’ز‘‘ لکھی جائے گی۔
(23)… بعض الفاظ کے املا میں احتیاط ملحوظ رکھنا ضروری ہے: مثلاً:
غلط صحیح غلط صحیح
پرواہ پروا موقعہ موقع
لاپرواہی لاپروائی عقاید عقائد
سینکڑوں سیکڑوں ادائیگی ادائی/ ادائیگی
پائیدار پائدار استعفیٰ استعفا
اژدھام ازدحام ناراضگی ناراضی
مصرعہ مصرع زخار ذخار
معہ/ بمعہ مع لِللّٰہ لِلّٰہ
(24)… بعض مرکب الفاظ کے املا میں غلطی کی جاتی ہے، مثلاً: عبدالطیف اور رحمت اللعالمین غلط ہے۔ صحیح صورت یہ ہے: عبداللطیف اور رحمت للعالمین۔
(25)… بعض ہم آواز الفاظ کے املا کا تعین، ان کے معانی کے اعتبار سے ہوتا ہے، ’’مثلاً:
٭ گلا/ گلہ (شکایت) ٭ بیضا (سفید، روشن)، بیضہ (انڈا) ٭ نالا (ندی)، نالہ (فریاد) ٭ ذرہ (چھوٹا ٹکڑا)، ذرا (تھوڑا، قلیل) ٭ مسل (فائل)/ مثل ٭ لالہ (گل لالہ)، لالا (لقب) ٭ زہرا (حضرت فاطمہؓ کا لقب)، زُہرہ (ایک ستارہ)، زَہرہ (پتا، دلیری، ہمت) ٭ دانہ (بیج، دانہ گندم)، دانا (عقل مند) ٭آسیا (چکی)، آسیہ (فرعون کی بی بی کا نام) ٭ پارہ (ٹکڑا، حصہ)، پارا (سیماب) ٭ خاصہ (یہ عربی لفظ ہے معنی: طبیعت، عادت)، خاصا (بہ معنی= اضافہ، جیسے: اچھا خاصا۔ خاصیت) ٭ خاصہ(وہ نفیس چیز جو بادشاہوں اور امرا و وزرا کے لائق ہو۔ شاہی دستر خوان کا کھانا، ایک قسم کا سفید کپڑا۔ ان سب معنوں میں آتا ہے) ٭ سنہ (بمعنی سال)، سن (عمر) ٭ آزر (حضرت ابراہیمؑ کے والد/ چچا) ٭ آذر (آگ۔ آذر کدہ= آتش کدہ) بتانِ آزری اور آزرِ بت تراش… صحیح ہے۔ ٭ لفظ ’’ہندوستان‘‘: عام طور پر واو کے بغیر پڑھا جاتا ہے لہٰذا اس طرح لکھا جائے تو بہتر ہے ’’ہندُستان‘‘… البتہ کسی شعر میں حسب ضرورت ’’و‘‘ کے ساتھ ’’ہندوستاں‘‘ لکھا اور پڑھا جائے گا۔
(26)… بعض انگریزی الفاظ کا املا اس طرح صحیح ہوگا:
بنک نہ کہ: بینک
بائبل نہ کہ: بائیبل
انجنیر نہ کہ: انجینیر وغیرہ
٭ اب املا سے ہٹ کر، دو تین باتیں:
(27)… اردو کتابوں، رسالوں اور عبارتوں میں ہندسے بھی اردو ہی میں لکھنا مناسب ہوگا، جیسے: ۷،۱۳۶،۶۱۵… نہ کہ 615,136,7
(28)… بعض انگریزی الفاظ اب اردو کے الفاظ بن چکے ہیں۔ ان کی جمع اردو (نہ کہ انگریزی) قاعدے کے مطابق بنائی اور لکھی جائے گی، مثلاً اسکول/ اسکولوں… نہ کہ اسکولز، یونی ورسٹی/ یونی ورسٹیوں… نہ کہ یونی ورسٹیز۔ کالج/ کالجوں… نہ کہ کالجز۔ چیلنج، چیلنجوں… نہ کہ چیلنجز۔ پروگرام، پروگراموں… نہ کہ پروگرامز۔ جج/ ججوں… نہ کہ ججز وغیرہ۔
خیال رہے کہ اسکول، کالج، پروگرام، ہسپتال اور جج واحد ہیں مگر بخوبی اردو میں جمع کے معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
(29)… ’’انگریزیت‘‘ کا جو بھوت، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ہماری زبان پر بھی حملہ آور ہورہا ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ بلاضرورت انگریزی الفاظ کے استعمال سے گریز کیجیے۔ جہاں اردو الفاظ موجود ہوں، وہاں انگریزی الفاظ استعمال کرنا بلاجواز اور غیر شعوری ذہنی غلامی کی علامت ہے۔
’’ہر زبان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے املا کے قاعدے منضبط ہوں اور ان قاعدوں کی بنیاد، صحیح اصول پر ہو۔ اگر قاعدے معین نہ ہوں تو زبان کی یک رنگی اور یک سانی کو سخت صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوگا، اور اردو ابھی تک اس قسم کے خطرے میں ہے۔ عربی، فارسی، انگریزی، غرض ہر شایستہ زبان میں جو قاعدے مقرر ہیں، ہر لکھنے والا ان کی پوری پوری پابندی کرتا ہے، مگر اردو والے اپنے تئیں ہر قید سے آزاد سمجھتے ہیں۔ املا کی خرابی یا بے ضابطگی کی صورتیں جب کسی متمدن قوم کو پیش آئیں تو اس زبان کے زبان دانوں نے فوراً اُس خرابی یا بے ضابطگی کی اصلاح کی۔ ترقی کرنے والی قومیں اس زمانے میں بھی اپنی زبان کے لفظوں کی لکھاوٹ میں ضروری ترامیم اور مناسب اصلاح کرتی رہتی ہیں۔ عام طور پر اصلاح کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ ایک لکھنے والا، اپنی رائے کو دخل دے کر، ایک غلط راہ اختیار کرتا ہے، اور دوسرے، بغیر تحقیق کیے ہوئے، اس غلطی کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ جہاں کسی غلطی کی تکرار ہوئی، یا وہ کتابوں اور اخباروں میں راہ پا گئی، عوام کے لیے یہ ایک بہت بڑی سند ہوگئی کہ فلاں لفظ ایک کتاب میں یا کسی اخبار میں یوں لکھا ہوا دیکھا ہے۔ بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو صحت اور اصول پر نظر رکھتے ہیں۔ بڑا گروہ، مقلدوں یا عادت کے بندوں کا ہوتا ہے، اور تدارک یا اصلاح کی ذمے داری اہلِ تحقیق پر عائد کی جاتی ہے۔ پس ایسی خرابیوں کا انسداد اس طرح ہوسکتا ہے کہ علمی انجمنیں اپنے فرض کا احساس کرکے نہ صرف قاعدے بنائیں، بلکہ ہر ممکن ذریعے سے انھیں عمل میں لانے کی کوشش کریں‘‘۔
(ڈاکٹر عبدالستار صدیقی مرحوم)