کراچی سرکاری اسپتال ، مسائل اور حل

کسی بھی شہر میں علاج معالجے کے لیے مفت اسپتال کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ کراچی میں بھی سرکاری اسپتال موجود ہیں لیکن آبادی کے لحاظ سے ان کی تعدا د بہت کم ہے۔ کراچی کی آبادی 2کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہر میں موجود سرکاری اسپتال شہریوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کی کوششیں تو کررہے ہیں، ماضی کے مقابلے میں ان میں بہتری آئی ہے، لیکن ان میں آج بھی بڑے اور گمبھیر مسائل ہیں اور سہولیات کا فقدان ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ علاج کے حصول کے لیے آنے والے لمبی قطار کے اذیت ناک عمل سے گزرتے ہیں۔ شہر کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مریضوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ آج ان کی باری آئے گی بھی یا نہیں۔ ایک مسئلہ اسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ مریض ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹروں اور ادویہ کی قلت ہے۔ یہ اور ان جیسے کئی مسائل پر گفتگو کے لیے فرائیڈے اسپیشل فورم کے تحت ’’سرکاری اسپتال، مسائل اور حل‘‘ کے عنوان سے فورم کا انعقاد کیا گیا۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے اور اس پر کئی فورم ہوسکتے ہیں اور ہم کوشش کریں گے کہ آئندہ مزید اس پر فورم کا انعقاد کیا جائے۔ سرِدست ہماری کوشش تھی کہ کراچی کے اسپتالوں کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے ان اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی زبانی صورت حال کا جائزہ لیا جائے کہ ایک آدمی کو آسان علاج مہیا کرنے میں کیا دشواریاں ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔اس میں ہونے والی گفتگو سے اتفاق یا اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور اس پر اظہارِ خیال کے لیے ہمارے صفحات بھی حاضر ہیں۔ فورم میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، ہیڈ ایمرجنسی وارڈ ڈاکٹر سیمی جمالی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارۂ صحت برائے اطفال (این آئی سی ایچ) ڈاکٹر سید جمال رضا، ڈین آف جے پی ایم سی (جناح اسپتال کراچی) اینڈ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر اقبال آفریدی، سربراہ جے پی ایم سی ڈپارٹمنٹ آف ریڈیالوجی اینڈ سائبر نائف، رکن پیشنٹ ایڈ فائونڈیشن پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود، ایم ایس ڈاکٹر روتھ فائو اسپتال (سول اسپتال،کراچی) ڈاکٹر توفیق، ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر روتھ فائو اسپتال ڈاکٹر عارف نیاز، ڈپٹی ڈائریکٹر کے ایم سی ڈاکٹر خاور نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی میزبانی کے فرائض جہانگیر سید نے انجام دیے۔
مریضوں کی تعداد استعداد سے مستقل بڑھتی جارہی ہے
ڈاکٹر سیمی جمالی
ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، ہیڈ ایمرجنسی وارڈ
اپنے اسپتال کے مسائل پر بات کرنے کے لیے آپ کی دعوت پر مشکور ہوں۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر سندھ کا ایک قدیم اور بڑا اسپتال ہے جو قیام پاکستان کے وقت رائل ایئر فورس بیس اسپتال کے نام سے جانا جاتا تھا، جسے بعد میں بانیٔ پاکستان نے اپنی زندگی میں خود اپنا نام دے کرعزت بخشی۔ یہ ہمارے لیے بہت اعزاز کی بات ہے، اس لیے ہم بھی پوری کوشش کرتے ہیں اور بلامبالغہ میں یہ بات کہہ رہی ہوں کہ ہم نے اپنی جان لگا دی ہے اس اسپتال کے لیے، اور یہاں اپنے قائد کے نام کے اس اعزاز کو برقرار رکھنے کے لیے ہم سب بھرپور محنت کرتے ہیں۔ یہ ساڑھے سولہ سو بستر پر مشتمل اسپتال ہے، جس میں سندھ سمیت ملک بھر سے ہر قسم کے مریض آتے ہیں، اور ہماری نو ریفیوزل پالیسی ہوتی ہے۔ ہر مریض کو ابتدائی طبی امداد مفت دی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر وارڈ بھی مہیا کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ دنیا کا بہترین اسپتال ہے، ہمیں بھی کئی مسائل ہیں، کام کا بوجھ بہت ہے افرادی قوت کم ہے، اس کی وجہ سے ایک آدمی پانچ افراد کے برابر کام کرتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوالٹی ورک پر سمجھوتا نہ کریں۔ ہمارے پاس عملہ ضرورت کے مطابق نہیں ہے، اس لیے ہم دستیاب افرادی قوت سے ہی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن عملاً ایسا پوری طرح ممکن نہیں ہوپاتا کیونکہ ہمارے پاس مریضوں کی تعداد استعداد سے مستقل بڑھتی جارہی ہے۔
حکومت سے ہمیں جو کچھ ملتا ہے، اُس کے علاوہ بھی دورانِ سال ہمارے پاس شارٹ کمنگز بہت ساری چیزوں کی ہوجاتی ہیں جنہیں ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بنیادی طور پر مریضوں کو سہولیات، علاج معالجہ ہمارے ذریعے سے پہنچانے والے ایک پُل کا کام کرتی ہے جو حکومت کسی وجہ سے نہیں کرپاتی۔ اس لیے انہیں ہم ایک برج کہتے ہیں۔ ایسی سہولیات اور ایسے ٹیسٹ ہمارے اسپتال میں کیے جاتے ہیں جو کسی عام اسپتال میں انسان سوچ نہیں سکتا۔ یہ سب سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
اس ضمن میں مختلف این جی اوز پیشنٹ ایڈ فاؤنڈیشن و دیگر نے ہمارے اسپتال میں بہترین کام کیے اور اُن کاموں کو برج کیا ہے جو حکومت نہیں کرسکی تھی۔ جو کام یہاں ہوا ہے وہ کہیں اور نہیں کیا جا سکتا۔ این جی اوز کو تشفی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کرکے اللہ کی رضا پاتے ہیں، جبکہ حکومت کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ عوام مستفید ہوجاتے ہیں۔ اس ملک کے، اس شہر کے بہترین لوگ ہیں جو اس کام میں شامل ہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر یہ کام ہوتا ہے۔ یہ سارا کام باہمی تعاون سے ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں اس وقت سرجیکل کمپلیکس کی عمارت زیر تعمیر ہے، یہ عمارت اگر این جی او تعمیر کررہی ہے تو اس کے آلات کے لیے حکومت پیسہ دیتی ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا، سب کچھ این جی اوز نے کیا ہے۔ حکومت مسلسل سرپرستی کررہی ہوتی ہے۔ حکومتی فنڈ سے جو کام ہوئے ہیں اُن میں اسپیشل وارڈ، ایمرجنسی، میڈیسن، وارڈ 5، بیرکس شامل ہیں۔ بم دھماکے کے بعد ہمارے ایمرجنسی وارڈ کے لیے حکومت نے بھرپور فنڈ دیا، لیکن اس میں مزید چار چاند این جی اوز نے لگا کر ایسا بنادیا ہے جس کی مثال شاید پورے ملک میں نہ مل سکے۔ اسی طرح حکومتی اشتراک سے سرجیکل وارڈ 6 اور7، سائیکاٹری اور چیسٹ کے جو بلاک بنے ہیں اُن میں تمام تر جدید سہولیات مریضوں کو مہیا کی گئی ہیں۔ اس وقت ہمارا اسپتال ریڈیالوجی سہولیات جس طرح فراہم کررہا ہے وہ پورے ملک میں مثالی ہے۔
اسپتال کو جدید خطوط پر چلانے کے لیے ہمیں مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ فنڈز کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے اِس سال ہمیں پہلے سے زیادہ فنڈ اور ادویہ کی مد میں خاصی معاونت کی۔ لیکن یہ فنڈز بھی ضرورت پوری نہیں کرپاتے۔ اعداد و شمار کو دیکھیں تو ایک دن کی صرف او پی ڈی میں سات ہزار مریض آتے ہیں، صرف ان کے اسپتال آنے کے نتیجے میں روزانہ جو اثرات کسی اسپتال میں پڑتے ہیں اُس کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ حکومت جو فنڈز ہمیں فراہم کرتی ہے، اُن کے استعمال کا طریقہ کار خاصا طویل المدت اور مشکل ہوتا ہے۔ ٹینڈرنگ کے عمل، سیپرا قوانین کے طریقہ کار پر جب ہم جاتے ہیں تو یہ ایسا نہیں کہ آپ دکان گئے اور سامان خرید کر لے آئے۔ ٹینڈر کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے، اس میں کسی کو اعتراض ہوجائے تو معاملہ لٹک جاتا ہے۔ اگر اس طویل طریقے کے بجائے یہ براہِ راست میرے ہاتھ میں ہو کہ کیا خریدنا ہے، کب خریدنا ہے تو میں یہ کرسکتی ہوں۔ میں اگر ایمان دار افسر ہوں تو شفافیت کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ کئی جگہ مرضی کروائی جاتی ہے۔ ادویہ ساز کمپنی کے حوالے سے مسائل ہوتے ہیں، اس لیے ان قوانین پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو بھی بچاکر رکھنا ہوتا ہے ایسے میں جب میڈیا بڑی کڑی نظر سے ہمارا تعاقب کررہا ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں انسانی جانوں کے معاملے میں اس حوالے سے ایفی شنٹلی کام کے لیے بہتر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اسپتالوں کے لیے کوئی بہتر پالیسی بنائی جائے۔ اگر وہی کام نجی سیکٹر میں ہورہا ہوتا ہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جن اداروں، این جی اوز کے ساتھ ہم کام کررہے ہوتے ہیں اُن کو فوری فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کی پابندی سے آزاد ہوتے ہیں۔
اس طرح میرے نزدیک مالی وسائل کے ساتھ سیکورٹی دوسرا اہم معاملہ ہے۔ جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ ہو، بم دھماکے سے لے کر کوئی حادثہ ہوا ہو، شہر میں ہمیشہ جے پی ایم سی نے لبیک کہا اور سب سے پہلے حتی المقدور اپنا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں ہم بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ایک دفعہ یہاں سیمنٹ میں بم ملا، جس کی پھٹنے سے قبل ہی نشاندہی ہوگئی اور کئی لوگوں کو بچا لیا گیا۔ ایک دفعہ دھماکا بھی ہوا، اور کئی لوگ جاں بحق ہوئے۔ ہمارے ڈاکٹروں کو مارنے کے کئی واقعات ہوئے، اسٹاف کے لوگ بھی عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے گورنر صاحب سے بات کرکے یہاں رینجرز بھی تعینات کرائی۔ شہر کے واقعات کا اثر ہمارے اسپتال کے اندر تک پہنچتا ہے۔ آج بھی مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اسپتال ہر طرح سے محفوظ نہیں ہے۔ بہت بیمار حالت میں ایک مریض کو لایا گیا جسے ہم نے فوراً وارڈ میں داخل کیا۔ مریض 70 سال کا تھا لیکن شدید علیل تھا اور انتقال کر گیا، جس کے نتیجے مریض کے لواحقین نے پورے وارڈ میں توڑپھوڑ، شور شرابا اور اسٹاف کے ساتھ مارکٹائی کی جس سے کئی لوگ ڈسٹرب ہوئے۔ ہم یہاں اپنی جان پر کھیل کر مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور نتیجتاً ہماری اپنی سیکورٹی ہی سوالیہ نشان بنی ہوتی ہے۔
ہماری اوّلین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے ہر مریض کو بہتر سے بہتر علاج فراہم کریں، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس عملہ کی کمی کا بھی ایک مسئلہ درپیش ہے۔ جناح اسپتال اس وقت دہرے کنٹرول میں ہے، جو انتظامی طور پر کسی ادارے کے چلنے کے لیے فائدہ مند نہیں۔ اگر کسی ادارے کا پے ماسٹر الگ ہوجائے اور افرادی قوت اور کنٹرولنگ اتھارٹی الگ ہو تو شدید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اندر کا دکھ یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان پر کھیل کر اس اسپتال کا نام و پرچم سربلند رکھا۔ ہم ملازمین ہیں، کام کرتے رہیں گے اپنی مدت ملازمت تک، لیکن یہ جو سیاسی گروپ بن جاتے ہیں وہ مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت نے سرکاری اداروں میں ایسے تمام گروپس پر پابندی بھی لگائی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے اس کے وفاقی یا صوبائی کنٹرول کا معاملہ طے ہو۔ یہاں لوگ اپنی پروموشن کے منتظر ہیں، نئی بھرتیوں کی ضرورت ہے، جائز حقوق جن کے ہیں وہ ملیں گے تو کام میں جان پڑے گی۔ ہماری امیدیں زندہ ہیں، نیتیں صاف ہیں اس لیے یقین ہے کہ ایمان داری سے کام کے نتیجے میں اللہ ضرور اپنے بندوں کو نوازے گا۔
ایک ہی بستر پر تین مریض موجود ہوتے ہیں
ڈاکٹر سید جمال رضا
ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارۂ صحت برائے اطفال(این آئی سی ایچ)
سرکاری اسپتال ایک اہم موضوع ہے۔ عوام کے پاس مسائل کا جو انبار ہے اُس میں صحت سرفہرست ہے۔ پانچ سو بستروں پر مشتمل پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا اور جنوبی پاکستان کا سب سے بڑا بچوں کا اسپتال ہے۔ ہماری سب سے بڑی مشکل ہمارا سائز ہے، جب یہ بلڈنگ بنی تھی تو یہ صرف96 بستروں کا اسپتال تھا، اُسی جگہ پر بستر بڑھتے بڑھتے پانچ سو سے تجاوز کرچکے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی بستر پر تین مریض موجود ہوتے ہیں۔ ہماری بھی اب تک نان ریفیوزل پالیسی ہے، ہم کسی کو داخلے کے لیے منع نہیں کرتے کیونکہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ یہ آخری اسٹاپ ہوتا ہے، اس کے بعد اُس بچے کو لے جانے کی کوئی اور جگہ نہیں ہوتی۔ ہماری دستیاب افرادی قوت اور سہولیات کی بھی ایک استعداد ہے۔ جب اُس تعداد سے مریض تجاوز کرجائیں اور اُس میں 120سے 150مریض آجائیں تو نہ ہی ان کو ڈاکٹر دیکھ پائے گا، نہ عملہ ڈیل کر پائے گا۔ جو آبادی اس شہر کی ہے اُس کے حساب سے کم از کم شہر کے ہر ضلع میں ایک ایسا اسپتال ہونا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ بستر بڑھانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، اسپتال بڑھانے سے مسئلہ حل ہوگا۔ اس کے علاوہ پرائمری، سیکنڈری ہیلتھ سینٹر پر توجہ دی جائے تو اس سے بھی فرق پڑے گا۔
کورٹ کیس ہمارے اوپر بھی ہے، پچھلے دس سال سے میں انچارج تو ہوں لیکن میر ے ہاتھے بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے اسپتال میں ایک اپائنٹمنٹ بھی دس سال میں نہیں ہوسکا۔ ہر فورم پر احتجاج کیا ہے، آواز اٹھائی ہے، سرکار ی افسر کے طور پر ہم نے حکومت کو تو بھرپور توجہ دلائی ہے، لیکن عدالت کے معاملے تو عدالت ہی سے حل ہوں گے۔ ان تمام مسائل کے باوجود ہم نے حالات کو بہت بہتر کیا ہے، بستر سے لے کر ڈپارٹمنٹ اور سہولیات کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہم نہ تقرر کرسکتے ہیں نہ پروموشن، تو کیسے کمی کو دور کریں گے!
بجٹ ضرور ہمیں جاری ہوتا ہے لیکن اُس کے جاری ہونے کا عمل سہ ماہی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ دواؤں کا مسئلہ ضرور ہوتا ہے۔ حکومت نے ایک سینٹرل پروکیورمنٹ کمیٹی بنادی ہے۔ بجٹ ہو بھی تو ہم صرف وہی ادویہ لے سکتے ہیں جو کمیٹی منظور کرے، اس کے بغیر ہم دوا نہیں لے سکتے۔ اس کمیٹی کا طریقہ کار خاصا لمبا ہوتا ہے، جب وہ فیصلہ کرتی ہے تو دوسرا فریق کورٹ سے اسٹے آرڈر لے آتا ہے۔ اس سارے عمل میں ہم دوا نہیں لے سکتے، نتیجتاً مریض یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اسپتال میں دوا نہیں مل رہی۔ لوگ درست کہتے ہیں کہ دوا نہیں مل رہی، لیکن یہ وجہ نہیں کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں، ہم مجبور ہوتے ہیں کہ جب تک وہ خریداری کا عمل کلیئر نہیں ہوتا ہم دوائی نہیں لے سکتے۔ مرکزی خریداری کمیٹی کے اجلاس اور ادویہ کی منظوری میں وقت لگتا ہے۔ جس کمپنی کی دوائی منظور نہیں ہوتی وہ کورٹ جاکر اسٹے آرڈر لے آتی ہے۔ صوبائی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں اس معاملے پر خاصی بات ہوئی ہے اور سندھ کے وزیراعلیٰ نے ادویہ کے مسئلے کے حل کی جانب خصوصی توجہ دی ہے۔ اپروچ کے معاملے میں حکومت اگر ماضی کے مقابلے میں صحت کی جانب توجہ بڑھائے گی اور ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے گی تو مسائل کا حل بھی جلدی نکلے گا۔ وزیراعلیٰ کی آمد کے موقع پر ہم نے اُن کے سامنے مسائل پیش کیے، زمین کی بات ہوئی جس پر اُنہوں نے مثبت پیش رفت کی، لیکن ان سارے کاموں میں وقت لگتا ہے۔ این آئی سی وی ڈی کا ماڈل الگ ہے، بورڈ آف گورنرز کا طریقہ کار ہے جس کی وجہ سے بہت ساری سہولت مل جاتی ہے۔ جناح اسپتال اور ہمارا بورڈ آف گورنرز نہیں ہے، ہم براہِ راست سندھ حکومت کے بجٹ کے تحت آتے ہیں۔ اس لیے یہ انتظامی فرق ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ شارٹ ٹرم حل یہ ہے کہ پابندیاں ختم کی جائیں، فیصلہ سازی کی آزادی ہونی چاہیے۔ لانگ ٹرم میں مزید اسپتال بنانے کی ضرورت ہے، اور سب سے بڑی دیرپا منصوبہ بندی آگہی کی ہے، اگر ہم پینے کا صاف پانی عوام کو نہ دیں اور بیماریوں سے بچنے کا شعور نہ دیں تو چاہے ٹائیفائیڈ کا کتنا ہی علاج کرتے چلے جائیں، بیماروں میں کمی واقع نہیں ہوگی۔
ہمیں مزید اسپتال بنانے ہوں گے۔ صحت کی سہولت عوام کو اپنے گھر کے قریب ملنی چاہیے
ڈاکٹر اقبال آفریدی
ڈین آف جے پی ایم سی (جناح اسپتال کراچی)
اینڈ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی
میں دعاگو ہوں کہ آج کی نشست اصلاحِ احوال کا سبب بن سکے۔ اسپتالوں کی حالت پر بات کریں تو جس طرح پیلے اسکول میں لوگ اپنے بچوں کو کم بھیجتے ہیں ایسا معاملہ اسپتال کا نہیں ہے۔ یہاں آج بھی آپ کو بے انتہا رش ملے گا۔ غریب آدمی پڑھائی کے لیے تو نجی اسکول کو ترجیح دے گا لیکن علاج کے لیے وہ سرکاری اسپتال کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے ہمارے لیے باعثِ فخر بھی ہے اور احساس ذمے داری کو بڑھانے کا سبب بھی ہوتا ہے۔ ہماری پالیسی نوریفیوزل کی ہوتی ہے، اس لیے ہم تمام مریضوں کا بلاتفریق علاج کرتے ہیں۔ کراچی کی آبادی کے حساب سے تو ان اسپتالوں کو چار گنا بڑا ہونا چاہیے تھا۔ جناح اور سول اسپتال میں کراچی کے جن علاقوں سے لوگ زیادہ آتے ہیں وہاں ہمیں مزید اسپتال بنانے ہوں گے۔ صحت کی سہولت عوام کو اپنے گھر کے قریب ملنی چاہیے، اس سے بہت سارے فائدے ہوں گے۔ ہماری صرف یہ ذمے داری نہیں کہ ہم مریض کی تیمارداری و علاج کریں، بلکہ ہم ساتھ ساتھ عوامی آگہی، ٹیچنگ، ٹریننگ، اعلیٰ تعلیم، تحقیق سب کام کرتے ہیں۔ ہمارے اسپتال اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ڈگری اور ڈاکٹر کو مشاہرہ بھی دیتے ہیں۔ یہ لوگ جنہیں ہم تربیت دیتے ہیں اِن کو ہم بروئے کار بھی لاتے ہیں اور اثاثہ بناتے ہیں۔ صرف جناح اسپتال کی مثال دوں تو پاکستان میں اس وقت 500 ماہرینِ نفسیات ہیں جن میں سے 160 ہم نے تیار کیے ہیں۔ گویا پاکستان کا ہر چوتھا ماہرِ نفسیات ہمارا تیار کردہ ہے۔ اس لیے ہم صرف علاج ہی نہیں کرتے بلکہ ماہرین کی تیاری اور تحقیق کا کام بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں حکومت اس مد میں کوئی گرانٹ نہیں دیتی، اس کے باوجود افرادِ کار کی صلاحیت کی ترقی اور مزید تحقیقی سفر کو آگے رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ کم ترین بجٹ کے باوجود ہماری کارکردگی ایسی ہے کہ لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کم از کم 5 تحقیقی مقالے لکھے، اگر یونیورسٹی کا پروفیسر ہے تو 15 تحقیقی مقالے لکھے اور شائع کرائے۔ یہ سب ہم اپنے وسائل سے کرتے ہیں۔ عوام نے ہمیں اس مد میں سپورٹ کیا۔ ٹیسٹ اور ٹریننگ پر اخراجات کے لیے رقم ہم خود جمع کرتے ہیں۔ نجم الدین آڈیٹوریم اس کی ایک مثال ہے جو ہم نے بنایا۔ اس سب کے باوجود اساتذہ کی تربیت میں اعتماد کا معاملہ یہ ہے کہ ہم عالمی معیار سے کم ہیں، لیکن ہم پر مریضوں اور اساتذہ کی تربیت کے معاملے میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ جناح اسپتال میں ہم نے ساڑھے چھے ہزار پودے لگائے، اس کے اثرات دیکھیں کہ ہم نے ہیٹ اسٹروک کا مقابلہ کیا، ماحول میں بھی مثبت تبدیلی واقع ہوئی۔
آبادی بڑھنے اور اس کے مطابق بروقت وسائل اور سہولیات پیدا نہ ہونے سے واقعی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے اوپر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے، سہولیات ناکافی ہیں، جس کے لیے بجٹ کو منصوبہ بندی کے ساتھ بڑھانا چاہیے۔ اگر بدین یا سانگھڑ میں کسی کے ہائپر ٹینشن یا شوگر بڑھنے کو وہیں کنٹرول کرلیا جائے تو آگے کے لاکھوں کے اخراجات بچ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا متبادل حل ناگہانی آفات کو چھوڑ کر عوام کو کئی بیماریوں سے بچانا بھی ہے۔ عوام میں بیماریوں سے بچنے کا شعور دینا بھی منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹروں کی پروموشن بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ڈاکٹر خدمت کے جذبے کے تحت آتا ہے، لیکن اُس کو ایک نظام میں مقرر کردہ چیزیں نہ ملیں تو اُس پر اثرات پڑتے ہیں۔ اب آپ اندازہ کریں کہ 20گریڈ افسر کے ڈاکٹر کو گاڑی نہیں دی جاتی۔ جو نوکری میں جائز سہولیات، مراعات خواہ وہ پروموشن کے سلسلے میں ہوں یا آگے پالیسی سازی میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے ہوں، وہ اگر اُسے نہیں ملیں باقی سب کو مل رہی ہوں تو وہ بھی انسان ہونے کے ناتے اثرات لیتا ہے۔ ان حالیہ انتظامی مسائل کے نتیجے میں ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد ہمارے پاس سے چلی گئی، ایسے قیمتی افراد کو بروئے کار لانے کے لیے اس جانب توجہ لازمی دینا ہوگی۔
بطور ماہر نفسیات میں یہ کہتا ہوں کہ انسانی جسم میں دماغ بہت اہم ہے۔ آج ہمارے سماجی مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ہر تیسرا شخص ان امراض میں کسی نہ کسی شکل میں مبتلا ہے۔ اس کے لیے بجٹ کے علاوہ میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ذہنی صحت پر ہمارے بجٹ کا 0.4 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی سے کئی بیماریوں کی روک تھام ممکن ہے۔ اس ضمن میں ہم اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کے حوالے سے جو آگہی دیں گے وہ ملکی ترقی، انسانی ترقی اور صحت مند معاشرے کا بھی باعث بنے گی۔ دماغی صحت دیگر اعضائے جسمانی کی طرح ناگزیر اہمیت کی حامل ہے۔
جب تک آگاہی اور بہتر صحت کی سہولیات یعنی بیماری سے بچنے والا ماحول نہیں دیا جائے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا
پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود
سربراہ جے پی ایم سی ڈپارٹمنٹ آف ریڈیالوجی
اینڈ سائبر نائف، رکن پیشنٹ ایڈ فائونڈیشن
اگر پاکستان میں صحت کا نظام ٹھیک نہیں ہے تو یہ بتانا ہوگا کہ آپ اُس کو کس بنیاد پر خراب قرار دیتے ہیں۔ ہم مثال لیتے ہیں برطانیہ کی، جس کی این ایچ ایس(نیشنل ہیلتھ سروس) کا بجٹ124بلین پاؤنڈ سالانہ ہے۔ یہ این ایچ ایس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ منسٹری ہے، اور یہ وہ بجٹ ہے جو صرف8کروڑ کی آبادی کے لیے ہے۔ یہاں آبادی 20کروڑ ہے، اگر چاروں صوبوں کا ملا لیں تو 2 بلین پاؤنڈ سالانہ بھی نہیں بنتا۔ اب اس میں سے ہر ایک کو اُسی کا حصہ ملنا ہے تو اندازہ کرلیں۔ اس میں پنجاب، سندھ سمیت باقی تمام صوبے شامل ہیں۔ اس کے بعد تقسیم در تقسیم ہوتا ہوا اس کا ایک معمولی حصہ اسپتالوں کو ملے گا۔ یہ ضرور ہوگا کہ بڑے اسپتالوں کو کچھ زیادہ مل جائے گا، مگر وہ بھی لامحدود نہیں ہوگا۔ کیا برطانیہ میں لوگ NHS سے مطمئن ہیں؟ 8کروڑ کی آبادی کے لیے 124بلین پاؤنڈ لگنے کے باوجود بھی وہاں الٹرا ساؤنڈ، نی جوائنٹ، ایم آر آئی کے لیے لمبی تاریخیں ہی ملتی ہیں۔ تو ثابت یہ ہوا کہ بجٹ کوئی اتنا معنی نہیں رکھتا۔ بجٹ ہم بھی کتنا ہی بڑھا لیں، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حل کے لیے صرف بجٹ بڑھانے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ پہلے آبادی کا کنٹرول بہت ضروری ہے۔ جب تک آگاہی اور بہتر صحت کی سہولیات یعنی بیماری سے بچنے والا ماحول نہیں دیا جائے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے کرنے کا کام یہ ہوسکتا ہے کہ چھوٹا ہو یا بڑا اسپتال، بجٹ میں اضافے کے لیے عوام کو شامل کریں۔ عوام خود اپنی زکوٰۃ، صدقات کی مد میں غریب مریضوں کے علاج میں مدد کریں۔ یہی حقیقت میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہے۔ اگر کسی غریب مریض کو دوائی نہیں مل رہی یا اُسے ٹیسٹ کی فوری سہولت دستیاب نہیں تو آپ اُس کی مدد کریں۔ ہمارے پاس جناح اسپتال میں جب ایک سی ٹی اسکین مشین تھی تو ایک دن میں چار سی ٹی ہوتے تھے، آج چار مشینیں ہیں تو ساڑھے تین سو مریض ہوتے ہیں۔ سہولت بڑھاتے ہیں تو مریض بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے اپنے اطراف کے مریضوں کی مدد کرنے کا سلسلہ عوام کو خود شروع کرنا ہوگا۔ میرے محکمے کا آڈٹ کریں تو صرف پچھلے سال کا تخمینہ تقریباً پونے چار ارب روپے کا سامنے آئے گا۔ یہ وہ رقم ہے جو ٹیسٹ کرانے کے لیے جناح اسپتال میں آنے والے غریب مریضوں کو دیگر اسپتالوں اور لیبارٹریز کو دینی تھی۔ یہاں مریض آتے، اُن کو ٹیسٹ لکھ کر دیا جا تا، جس کی سہولت اُس وقت یہاں نہیں تھی۔ اب ان تمام سہولیات کے آنے سے غریب مریضوں کو جو فائدہ ہوا ہے یہ اُس کی ایک جھلک ہے۔ یہ اُن غریب لوگوں کے پیسے بچائے گئے ہیں جنہیں علاج تو جناح اسپتال میں کرانا ہوتا ہے لیکن ٹیسٹ کی سہولیات نہ ہونے کے سبب یہ ٹیسٹ دیگر اسپتالوں اور لیبارٹریز سے کروانے تھے۔ جناح اسپتال میں پیشنٹ ایڈ فاؤنڈیشن نے ایسا نظام بنایا ہے کہ ہم بلڈنگ، اسٹاف، مشینوں، ادویہ کو فوکس کرتے ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خلا پُر کریں۔ بلڈنگ نہیں ہے یا قابلِ مرمت ہے تو کسی سے بلڈنگ کی مرمت یا تعمیر کا کام کرواتے ہیں، کہیں بلڈنگ ہے اور آلات چاہئیں تو ہم کسی کو بولتے ہیں کہ مشینیں عطیہ کردو، کہیں افراد درکار ہوتے ہیں یا کوئی اورسہولت درکار ہوتی ہے تو ہم اُس خلا کو پُر کرتے ہیں۔ یہی ہمارا، کام کا طریقہ کار ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت اس معاملے میں بالکل فارغ ہوگئی ہو۔ پہلے جب ہمارا بجٹ 22 لاکھ تھا تو حکومت 15کروڑ خرچ کرتی تھی۔ اُس وقت جب جناح اسپتال وفاق میں تھا تو بجٹ 1.2بلین روپے تھا، آج یہ 3.4 بلین پر پہنچ چکا ہے۔ حکومت نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ضروریات بجٹ بڑھانے کے ساتھ ہی بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ہمارا ملک ہے، ہمارا شہر ہے، قائداعظم کا اسپتال ہے، قائداعظم کا گھر ہے، یہ سب کے فادر آف نیشن ہیں۔ سب اس کی بہتری کے لیے مل کر کردار ادا کریں تبھی مسائل کا حل نکلے گا، صرف حکومت پر چھوڑنا عملاً قابلِ اصلاح نہیں ہوگا۔ یہ کام اشتراک سے ہی ممکن ہوگا۔
آغا خان اسپتال جیسی سہولیات ہم بالکل مفت فراہم کررہے ہیں
ڈاکٹر توفیق
ایم ایس ڈاکٹر روتھ فائو اسپتال (سول اسپتال،کراچی)
ڈاکٹر روتھ فاؤ اسپتال، پاکستان کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا اسپتال ہے۔ سوا سو سال قبل جب ہمارا اسپتال بنا تو اُس وقت کے مطابق دوسو بیڈ تھے، آج یہ دو ہزار بیڈ پر مشتمل ہے۔ پہلے وہ دو ڈھائی سو مریض دیکھتا تھا، آج بارہ ہزارکو ڈیل کرتا ہے، تو ایسی جگہ مسائل ضرور پیدا ہوں گے۔ انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ اس کو خوش اسلوبی و احسن طریقے سے حل کرے اور سسٹم کو لے کر چلے۔
ہمیں ہماری حکومت مکمل سپورٹ کرتی ہے، جو جو مسئلہ ہم بتاتے ہیں اُس کو دیکھتی ہے۔ بجٹ کا معاملہ ایسا ہے کہ ادویہ کا بجٹ ہمارا پورا ہوتا ہے۔ ادویہ دیتے ہیں، تمام سرجری، علاج سب مفت ہوتے ہیں۔ اپنے بجٹ کو پراپرلی مینج کرنے اور بانٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہم بھی عالمی معیار کے سیپرا قوانین کے مطابق خریداری کرتے ہیں جس میں وقت لگتا ہے، لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس کو اپنی ضرورت کے مطابق مینج کریں، کبھی کبھی دو تین ماہ لیٹ ہوجاتے ہیں، اس کے لیے ہم بروقت اندازہ کرلیتے ہیں کہ فلاں چیز لیٹ ہوسکتی ہے تو پہلے ہی ہم اس کو اسٹاک کرلیتے ہیں۔ گلن باری کا مریض آتا ہے اور اُس کو دس لاکھ تک کی ادویہ درکار ہوتی ہیں، ہم اُس کو وہ ادویہ فراہم کرتے ہیں، ڈاگ بائیٹ کے کیسز ہوں، کوئی بھی اینٹی بائیوٹک ہو، آپریشن تھیٹر چلا گیا تو ہر طرح کی ادویہ 99فیصد ہم خود فراہم کرتے ہیں۔
ہمارے پاس بچوں کے وارڈز میں بھی ہر طرح کی سہولت ہے، ایمرجنسی بھی ہم نے بہترین معیار کی بنائی ہے۔ بچوں کے لیے وینٹی لیٹر اور انکیوبیٹر کی مکمل سہولیات بھی ہیں، لیکن ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے، اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ شاید فلاں سہولت نہیں ہے۔آپ خود سوچیں کہ آبادی کس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لانڈھی، کورنگی کے مریض بھی ہمارے پاس آتے ہیں، اگر اُن کے اضلاع میں ایسی سہولیات ہوں تو جناح و سول اسپتال پر لوڈ کم ہوگا۔ دو کروڑ کی آبادی کے لیے ایک یا دو اسپتال کیسے پورے ہوسکتے ہیں! ایک بلڈنگ ہے جس میں ہم دس وینٹی لیٹر لگا سکتے ہیں، بیس نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے الگ اسپتال بنانا ہوگا۔ ایک بچے کا وینٹی لیٹر اُْتار کر دوسرے کو نہیں لگایا جا سکتا۔ دس سے پچاس ہزار روپے لوگ نجی اسپتالوں میں دیتے ہیں، ہم بالکل مفت یہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔ بچوں کے ایمرجنسی سینٹر میں اب تک 8 لاکھ بچے مستفید ہوچکے ہیں۔
ہم نے اپنے اسپتال کے پورے نظام کو جدید ڈیجیٹلائزڈ طریقے پر مکمل پیپرلیس بنایا ہے، پورے اسپتال کو آئی ٹی کے ضمن میں جدید سافٹ ویئر کے ساتھ لیبارٹریز تک سے جوڑ دیا ہے۔ مریض کی سہولت کے لیے ایک معلوماتی سینٹر بنایا ہے۔ ڈاکٹروں کو پی سی دیئے ہیں، اس حد تک سسٹم سے ڈیٹا کو جوڑا گیا ہے کہ ڈاکٹر کسی بھی وقت، حتیٰ کہ اپنے موبائل فون پر بھی مریض کی رپورٹ یا ڈیٹا تک رسائی لے سکتا ہے۔ آپ صرف نام بتائیں، مریض کا مکمل ڈیٹا آپ کو مل سکتا ہے۔
سروسز دیں تو مریض خودبخود بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت سات ہزار کی او پی ڈی چل رہی ہے۔ ہم بہترین معیار کی مفت سہولت جس طرح دیتے ہیں تو آپ اندازہ کریں کہ یہ بارہ ہزار مریض روزانہ کہاں سے آرہے ہیں۔ آغا خان اسپتال جیسی سہولیات ہم بالکل مفت فراہم کررہے ہیں۔ سینئر مایہ ناز ڈاکٹر علاج و مشورے کے لیے دستیاب ہیں۔
آنے والے بارہ ہزار مریض زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ واش روم جانے پر فلش ٹینک نہیں چلاتے، پان کی پیک تھوک دیتے ہیں، کچرا پھیلا دیتے ہیں۔ میں آپ کے توسط سے یہ کہنا چاہوں گاکہ اسپتال قطعاً کچرا پھیلانے والی جگہ نہیں ہے، اسپتال کو صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ انتظامیہ تو اپنی کوشش کرتی ہے لیکن غیر معمولی کچرا پھیلانا، گندگی پھیلانا خود پورے ماحول اور مریضوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس کی آگہی نہایت ضروری ہے۔ جگہ جگہ ہم نے کچرے کے ڈبے رکھے ہیں، لکھ کر ہدایات جگہ جگہ لگائی ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عوام ان ہدایات کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ یہ میرے نزدیک اہم مسئلہ ہے۔
مریض اسپتال میں آتا ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اُس کو بہترین خدمات فراہم کریں۔ اگر آپ کسی کے بہکاوے میں آجاتے ہیں تو یہ آپ کی آگہی و شعور کی کمی ہے۔ مریض جب اسپتال میں آتا ہے تو ایک نظام ہے جو ہر جگہ ہی ہوتا ہے۔ مریض پہلے ایمرجنسی میں آتا ہے، پھر وہاں سے متعلقہ وارڈ کے ڈاکٹر کو بلایا جاتا ہے جو اُس کو مزید چیک کرتے ہیں، ابتدائی ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں تجزیہ اور علاج کا فیصلہ کرنے کے لیے۔ اس میں وقت لگتا ہے تو مریض کے رشتے دار اِدھر اُدھر اطلاع دیتے ہیں، وہاں سے اُن کو مشورے آنا شروع ہوتے ہیں کہ یہاں کیوں آگئے؟ میرا فلاں ڈاکٹر جاننے والا ہے، رعایت کردے گا، علاج بھی اچھا ہوگا، وہاں لے چلو۔ بس یہاں وہ ڈگمگا جاتے ہیں۔ اس لیے میں آپ کے توسط سے کہنا چاہوں گا کہ سول اسپتال اپنے ہر مریض کا بہتر سے بہتر علاج کرنا چاہتا ہے اور اس کی مکمل صلاحیت بھی رکھتا ہے، اپنے مریض کا علاج تسلی سے کرائیں، ان شاء اللہ کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
جتنی شکایات آتی ہیں اُن میں اخلاقی پہلو کی کمزوری ضرور ملتی ہے
ڈاکٹر عارف نیاز
ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر روتھ فائو اسپتال
(سول اسپتال،کراچی)
میں اس موضوع کے اخلاقی پہلو پر بات کرنا چاہوں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سرکاری اسپتال کی انتظامیہ اگر کسی حقیقی مسئلے کا شکار ہے تو وہ اخلاقی پہلو ہے۔ مریض جب آتا ہے تو سب سے پہلے اُس کا سامنا ڈاکٹر سے ہوتا ہے، اگر اُس کو ڈاکٹر سے مناسب، تسلی بخش، اعلیٰ اخلاقی طرز کے جملے نہ ملیں تو اس کا تاثر خراب ہوجاتا ہے۔ اس معاملے میں انتظامیہ خود کچھ نہیں کرسکتی۔ مریض کے اخلاقی پہلو کا ہمیں اپنے آپ سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ تو پہلے ہی پریشان حالت میں آتا ہے، اور سب مریض مختلف سماجی، ذہنی و تعلیمی پس منظر رکھتے ہیں۔ میرے پاس جتنی شکایات آتی ہیں اُن میں اخلاقی پہلو کی کمزوری ضرور ملتی ہے۔ مریض سے ہسٹری لینے کے دوران بات چیت کا انداز مجھے کمزور محسوس ہوتا ہے جو مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹروں کے درمیان اجتماعی طور پر اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔
nn