مذاکرات کے لیے بھارت کی ناں

عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے بھارت کو دیرینہ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازعات کی بات کی جاتی ہے تو ذہن خودبخود کشمیر کی طرف جاتا ہے جو71 برس سے پاک بھارت کشیدگی کی صلیب پر جھول رہا ہے۔ بھارت کے معروف کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو تقریبِ حلف برداری میں بلاکر خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا گیا تھا، مگر واپسی پر نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ جو ہوا اب کوئی بھارتی اس طرح کا خطرہ مول لینے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔ پاکستان کی طرف سے جانے والے اشاروں، کنایوں کے بے نتیجہ ہوجانے کے کچھ ہی دن بعد وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے دل گرفتہ انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کے تمام اشاروں کا بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہیں آیا۔ اب وزیراعظم عمران خان نے آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی چاہتا ہے مگر اس کے لیے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو روکنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں، اگر عمران حکومت تجدیدِ تعلقات چاہتی ہے تو اسے دہشت گردی کے محاذ پر کارروائی کرنا ہوگی۔ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے آنے کے باوجود کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے بظاہر یوں دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت نے مذاکرات کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ رکھا ہے، اور اس کے جواب میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ختم کرنے کی شرط رکھ دی ہے۔
مقبوضہ کشمیر پاک بھارت تعلقات کا بادنما ہے۔ اس کی اندرونی صورتِ حال سے یہ اندازہ نہایت آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان ہے یا نہیں۔ آج کے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا اندازہ بھارت کے ’نیشنل ہیرالڈ‘ نامی ویب اخبار میں رنجیت بھوشن کے ’’کشمیر وادی: آپ زخموں پر کیسے مرہم رکھتے ہیں‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون سے لگایا جاسکتا ہے۔اس مضمون میں دو حقائق کا آغاز میں ہی اعتراف کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ عوامی مقامات بالخصوص جنازہ گاہوں میں مسلح نوجوانوں کا سرِعام نمودار ہوکر گھومنا یہ بتارہا ہے کہ بھارتی ریاست کشمیر وادی پر اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ دوئم یہ کہ ماضی میں غلط حکمت عملی اپنانے کے باوجود بھارت نے وادی کے ساتھ ایک مقبوضہ علاقے جیسا سلوک نہیں کیا جیسا کہ اب ہورہا ہے۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں من موہن سنگھ اور پرویزمشرف کی کیمسٹری مل جانے کی بات کسی اور کی طرف سے نہیں، خود جنرل پرویزمشرف کی طرف سے باربار دہرائی جاتی رہی۔ گویاکہ دونوں حکمرانوں میں ذہنی ہم آہنگی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ مگر جب کیمسٹری مل جانے کا دعویٰ کیا جارہا تھا تو مقبوضہ کشمیر میں بائیولوجی تباہی وبربادی کا شکار ہورہی تھی، انسانی زندگی ارزاں تھی، اور بھارتی فوجی ’’پکڑو اورمارو‘‘ کے اصول کے تحت نوجوانوں کا قتلِ عام کررہے تھے جس کی وجہ سے وادی میں انسانی جذبات کا پارہ نقطۂ کھولائو کو پہنچ چکا تھا، اور پھر کشمیر کے حالات میں جوہری تبدیلی نہ آنے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات اور امن کا عمل ریورس ہوکر رہ گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ کشمیر میں خون بہہ رہا ہو اور پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہو، ممکن نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حقیقی اور دیرپا امن کی ہر راہ کشمیر سے ہوکر گزرتی ہے۔ اب بھی عمران خان نے بھارت کو مذاکرات کے اشارے دئیے تو جواب میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بڑھا دیا۔ وادی میں روزانہ درجن بھر افراد کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ کشمیریوں کو بچوں کی لاشوں کے تحفے روزانہ کی بنیاد پر مل رہے ہیں۔ صرف ایک دن میں جنوبی کشمیر میں کولگام کے علاقے میں پانچ افراد کو شہید کیا گیا، جبکہ بائیس افراد شدید زخمی ہوکر اسپتالوں میں جاپہنچے۔ اس سے پہلے روز چھے افراد کو شہید کیا گیا تھا۔ نصف درجن افراد کا خون بہہ جانا اب وادی میں روز کا معمول ہے۔ وادی کے اخبارات بدترین سنسر شپ کا شکار ہوچکے ہیں، جو کسر باقی رہ گئی وہ انٹرنیٹ کی بار بار بندش سے پوری کی جاتی ہے، اور اس طرح وادی کو ایک سائونڈ پروف مذبح بنادیا گیا ہے۔
عمران خان کے تمام اشاروں کے جواب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی چیرہ دستیاں مذاکرات سے بھارت کی ’’ناں‘‘ ہی تھی، اب اس کا باضابطہ اعلان بھارتی وزیر دفاع نے کردیا۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی تمام سفارتی صلاحیتیں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے وقف کردینی چاہئیں۔ عیاش اور مخبوط الحواس سفیروں اور سفارت کاروں کی چھانٹی کرکے یہ ذمے داریاں سنجیدہ، باوقار اور مسئلہ کشمیر سے گہری اور ذاتی دلچسپی رکھنے والے سفارت کاروں کو سونپنی چاہئیں۔ لندن میں ایک تقریب میں مضحکہ خیز حرکات کرکے گل کھلانے والا بظاہر ایک ہائی کمشنر تھا، مگر اس طرح کے کردار پاکستانی سفارت خانوں میں جا بجا ملتے ہیں۔ سب سے پہلے سفارت خانوں کی تطہیر ہونی چاہیے اور ٹھیک شخص کو ٹھیک مقام پر متعین کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی دنیا میں پاکستان کشمیر کا مقدمہ جان دار انداز میں لڑسکتا ہے۔