اقتدار سنبھالنے سے قبل اور فوری بعد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سادگی اختیار کرنے اور کفایت شعاری کے ذریعے قومی وسائل کے ضیاع کو روکنے کے اعلانات پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کا تقاضا بھی ہے، اور عام انتخابات سے قبل کی کئی تقاریر کو روبہ عمل لانے کے لیے بھی لازم ہے۔ اس کے علاوہ مدینہ منورہ کی جس اسلامی ریاست کو تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے لیے لازم ٹھیرایا ہے، اس نمونے کی پیروی بھی اسی بات کی متقاضی ہے کہ وزیراعظم، ان کی کابینہ کے ارکان اور پارٹی قیادت تکلفات و تعیشات سے پاک سادہ زندگی اختیار کرے، اور چونکہ عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں کی پیروی کرتی ہے، یوں سادگی ہمارے پورے معاشرے کا شعار قرار پائے۔ پاکستان جس قسم کی اقتصادی صورتِ حال سے دوچار ہے اور جس طرح ہماری قوم کا بچہ بچہ اندرونی اور بیرونی سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، ان قرضوں سے نجات اور قومی اقتصادی بحران سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ امر لازم ہے کہ سرکاری اور عوامی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں قوم ان بھاری اخراجات سے جان چھڑاکر خود انحصاری اور خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے گزشتہ دنوں اس ضمن میں وزیراعظم کی زیرصدارت منعقدہ ایک اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے متعلق ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کے شاہانہ طرزِ بود و باش کے باعث عام لوگ پریشانی سے دوچار ہیں، اس لیے نئی حکومت نے ماضی کے شاہانہ طور طریقوں کو ترک کرکے سادگی اپنانے اور بھاری اخراجات بچانے کا فیصلہ کیا۔ شفقت محمود نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ 1096 کنال پر محیط وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد کو ایک اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا، وزیراعظم ہاؤس پر سالانہ 47 کروڑ روپے کے اخراجات آتے تھے جس کی بچث ہوگی، وزیراعظم ہاؤس کے پیچھے موجود زمین پر یونیورسٹی کے لیے نئی عمارت تعمیر کی جائے گی، اس کے لیے پی ٹی ون بنایا جائے گا۔
یونیورسٹی کے قیام کے لیے وزیر تعلیم شفقت محمود، چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری اور ڈاکٹر عطاء الرحمن پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے۔ یہ یونیورسٹی تعلیمی لحاظ سے منفرد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ ہاؤس مری جس کی تزئین و آرائش پر حال ہی میں پنجاب حکومت نے 50 کروڑ روپے خرچ کیے، اسے ہیرٹیج بوتیک ہوٹل بنایا جائے گا۔ اس عمارت پر سالانہ چار کروڑ روپے کے اخراجات آتے تھے۔ پنجاب ہاؤس مری کو سیاحتی کمپلیکس میں تبدیل کیا جائے گا، جس پر سالانہ ڈھائی کروڑ روپے اخراجات آرہے تھے۔ شفقت محمود نے بتایا کہ راولپنڈی میں پنجاب ہاؤس اور اس سے ملحق گورنر انیکسی کو جو کہ مجموعی طور پر 70 کنال اراضی پر محیط ہیں جن پر سالانہ 4 کروڑ روپے اخراجات آرہے تھے، اعلیٰ تعلیمی ادارے میں تبدیل کیا جائے گا، اس بارے میں فیصلہ پنجاب حکومت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ گورنر ہاؤس لاہور جو کہ 700 کنال اراضی پر مشتمل ہے، اس میں قائم ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور اسکول کو الگ کرکے عمارت میں میوزیم اور آرٹ گیلری بنائی جائے گی، جب کہ اس کے پارکس کو عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔ گورنر ہاؤس کی مال روڈ والی دیوار کو گراکر یہاں خوبصورت جنگلہ لگایا جائے گا تاکہ عوام باہر سے بھی اس کا نظارہ کرسکیں۔ اجلاس میں 19 شاہراہ قائداعظم کو کرافٹ میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہاں وزیراعلیٰ کا دفتر قائم تھا اور اس عمارت پر 8 کروڑ روپے کے سالانہ اخراجات آتے تھے، اس عمارت کے کانفرنس ہال کو پبلک کے لیے رینٹ آؤٹ کیا جائے گا اور اس سے بھی آمدن حاصل ہوگی۔ چنبہ ہاؤس جو کہ تاریخی عمارت ہے، کو گورنر ہاؤس کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس مال روڈ لاہور جو اس وقت فارن آفس کے پاس ہے، ان سے گفت و شنید کے بعد اسے فائیو اسٹار ہوٹل میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر ہاؤس کراچی کو گورنر ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اجلاس میں قصر ناز کراچی کی عمارت کو فائیو اسٹار ہوٹل میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر ہاؤس بلوچستان کو میوزیم اور بلوچ ہیرٹیج میں تبدیل کیا جائے گا، جب کہ اس کے پارکس کو صرف خواتین کے لیے مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر ہاؤس پشاور جو کہ ایک تاریخی عمارت ہے، اسے میوزیم اور قبائلی ثقافت کا عکاس بنایا جائے گا۔ نتھیا گلی گورنر ہاؤس کو ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل اور سیاحتی مقام میں تبدیل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت کو سالانہ 105 کروڑ روپے کی بچت ہوگی اور یہ عمارتیں آمدن کا ذریعہ بنیں گی۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم کی زیر صدارت عمل درآمد کمیٹی کام کررہی ہے جو اس پر عمل کرائے گی۔ شفقت محمود نے واضح کیا کہ ایوانِ صدر سے متعلق غور و فکر جاری ہے، تاہم حتمی فیصلہ دوسرے مرحلے میں کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سے دی گئی تفصیل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئی حکومت اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں بڑی حد تک سنجیدہ ہے اور اعلانات سے بڑھ کر اب عملی اقدامات کا آغاز بھی کردیا گیا ہے، چنانچہ سندھ کے گورنر ہاؤس کے بعد اس اتوار 16 ستمبر کو شاہراہ قائداعظم لاہور پر واقع پنجاب کا وسیع و عریض گورنر ہاؤس بھی عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ عوام کو اپنا شناختی کارڈ دکھاکر صبح نو سے شام چھے بجے تک گورنر ہاؤس میں داخلے کی عام اجازت تھی۔ لوگوں نے اس اجازت سے بھرپور استفادہ کیا۔ اتوار کی چھٹی کے باعث گورنر ہاؤس پہلے ہی دن شہریوں سے کھچا کھچ بھر گیا اور شہری اپنے ساتھ لائے ہوئے بچوں کو گورنر ہاؤس کے بارے مبں بتاتے ہوئے دیکھے گئے کہ اس جگہ پر ہمارے باپ دادا بھی نہیں آئے تھے جہاں آج تم سیر کررہے ہو۔ بچے، بوڑھے، نوجوان گورنر ہاؤس کے کونے کونے کی سیر کرتے رہے، سیلفیاں بناتے رہے۔ شہریوں کے لیے یہ تاریخی لمحات تھے جنہیں وہ کیمرے میں محفوظ کررہے تھے اور خوشی سے نہال تھے۔ بچے کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔ وسیع و عریض پارک، لان اور دیگر حصے ان کے لیے بانہیں پھیلائے کھڑے تھے۔
گورنر ہاؤس 76 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے، اس وسیع و عریض رقبے پر ایک پہاڑی ہے جس کے اوپر بیٹھنے اور سیر کے لیے پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک سوئمنگ پول ہے جو کہ گورنر پنجاب اور خاص مہمانوں کے لیے بنایا گیا جو کہ مکمل طور پر لاک تھا۔ باہر جالیوں سے اندر کا خوبصورت منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ ساتھ ہی بچوں کے لیے ایک پلے لینڈ بھی بنایا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک چڑیا گھر، جہاں خوبصورت پرندے جن میں کبوتر، تیتر، مور اور مختلف نسل کی مرغیاں شامل ہیں، رکھی گئی ہیں اور ساتھ ہی ایک خوبصورت جھیل بھی بنائی گئی ہے جو تقریباً دس بارہ کنال کے رقبے پر محیط ہے جس کا نظارہ کرنے کے لیے ایک شاہی طرز کی بالکونی نما عمارت تعمیر کی گئی ہے اور یہ منظر انتہائی خوبصورت اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ گورنر ہاؤس کے اندر ملازمین کے لیے ڈھائی سو کے قریب کوارٹرز بھی ہیں جہاں پر گورنر ہاؤس کی مکمل دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کرنے والے ملازمین آباد ہیں۔ اسی طرح گورنر ہاؤس کے اندر ایک گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز ہائی اسکول ہے جہاں 18 سو کے لگ بھگ لڑکے لڑکیاں اول تا دہم تعلیم حاصل کررہے ہیں، اور اسی طرح ایک ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بھی ہے جہاں تین سو کے قریب لڑکے لڑکیاں مختلف کورسز کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ گورنر ہاؤس میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے، جب کہ ایک جیم خانہ کلب کی خوبصورت عمارت اور وسیع گراؤنڈ بھی ہے، اور اس گراؤنڈ میں ایک بزرگ حضرت سید عنایت علی میران شاہ جیلانی (المعروف) حضرت بابا روڑے شاہ کا مزار بھی ہے۔ اس مزار پر بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔
سیرکی آزادی کے اس ایک دن میں بھی البتہ گورنر ہاؤس کی مرکزی عمارت تک لوگوں کو رسائی نہیں دی گئی تھی، اور یہ عالی شان عمارت سارا دن سیکورٹی اداروں کے اہل کاروں کے حصار میں رہی۔ اس طرح گورنر ہاؤس کے اندر ملازمین کی رہائشی کالونی کی جانب بھی شہریوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
کفایت شعاری اور بچت کی اس مہم کے تحت وزیراعظم ہاؤس میں فالتو قرار پانے والی بلٹ پروف اور اعلیٰ نسل کی 102 گاڑیاں بھی17 ستمبر کو نیلام عام کے لیے پیش کی گئیں، جن میں سے پہلے مرحلے میں 62 گاڑیاں فروخت ہوگئیں جن سے حکومت کو بیس کروڑ روپے کی رقم حاصل ہوئی۔ مزید گاڑیاں اگلے مرحلے میں نیلامی کے لیے پیش کی جائیں گی۔ اگرچہ مزید بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے، تاہم اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو حکومت کے یہ اقدامات بہرحال مثبت جانب ایک قدم ہیں، کیونکہ پاکستان جیسا غریب اور کھربوں روپے کا مقروض ملک حکمرانوں کی عیش و عشرت پر اٹھنے والے اربوں روپے کے یہب اخراجات بچا کر اندرونی و بیرونی قرضوں کے بھاری بوجھ سے نجات حاصل کرسکتا ہے، اور عیاشی سے بچنے والی رقم عام آدمی کی فلاح و بہود اور غربت کے خاتمے کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں بہت سے ترقی یافتہ ممالک اور فلاحی ریاستوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جہاں کے حکمران عام آدمی کی سطح کے معیارِ زندگی کو اپناتے اور سادگی سے زندگی گزارتے ہیں۔ عام لوگوں ہی کی طرح ایک سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں اور عوام کو تنگ نہیں کرتے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اچھی جانب جس سفر کا آغاز کیا گیا ہے یہ کامیابی سے آگے بڑھتا رہے اور کوئی انہونی اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔