بلوچستان کی حکومت نے کابینہ مکمل کرلی۔ پہلے مرحلے میں 27 اگست کو 10وزراء اور ایک مشیر کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا۔ دوسرے مرحلے میں 8 ستمبر کو مزید 2 وزراء اور تین مشیروں کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ صوبے کی 16 رکنی کابینہ میں 8 وزراء اور 2 مشیروں کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ تحریک انصاف کا ایک وزیر، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک وزیر اور ایک مشیر، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک وزیر، اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک مشیر کابینہ میں شامل ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے نواب زادہ طارق مگسی کو محکمہ تعمیرات و مواصلات، عارف محمد حسنی کو محکمہ خزانہ، محمد سلیم کھوسہ کو محکمہ داخلہ و قبائلی امور، ضیاء اللہ لانگو کو محکمہ جنگلات و جنگلی حیات، سردار صالح بھوتانی کو محکمہ بلدیات اور دیہی ترقی، عبدالرحمان کھیتران کو سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی، نور محمد دمڑ کو محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، سردار سرفراز چاکر کو محنت و افرادی قوت اور ظہور احمد بلیدی کو محکمہ اطلاعات کی وزارت دی گئی ہے۔ مٹھا خان کاکڑ کو مشیر برائے حیوانات و ڈیری ڈویلپمنٹ، اور عبدالرؤف رند کو مشیر برائے محکمہ ماہی گیری مقرر کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری کو صحت، بی این پی عوامی کے اسد بلوچ کو محکمہ خوراک، سماجی بہبود اور غیر رسمی تعلیم، اور عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی کو زراعت و امدادِ باہمی کی وزارت دی گئی ہے۔ اے این پی کے ہی ملک نعیم بازئی کو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ کو صوبائی وزیر کھیل و ثقافت، محکمہ آثار قدیمہ اور امور نوجوانان کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ میر نعمت اللہ زہری کی چھوڑی ہوئی سینیٹ کی نشست پر 12ستمبر کو انتخاب ہوا جس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگٹی 37 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوگئے۔ ان کو تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی کے ارکان نے ووٹ دیا۔ مقابلے میں ایم ایم اے (جے یو آئی) کے رحمت اللہ کاکڑ تھے جنہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے9 اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے ایک رکن کے تعاون سے20 ووٹ لیے۔ تحریک انصاف کا امیدوار دست بردار ہوگیا تھا۔ نون لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری اسمبلی نہ آئے۔ ان کے بھائی نعمت اللہ زہری جو کہ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی ہیں، سردار عبدالرحمان کھیتران اور گہرام بگٹی نے کسی کو بھی ووٹ نہ دیا۔ ان اراکین کو کسی جانب جانا چاہیے تھا، شاید یہ سرفراز بگٹی کو ووٹ دینا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ اس صورت میں کسی کو بھی ووٹ نہ دینے کی ہدایت پر عمل کیا۔4 ستمبر کو صدارتی انتخاب میں عارف علوی کو بلوچستان اسمبلی میں45 ووٹ ملے۔ ان کو بی اے پی، تحریک انصاف، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی عوامی کے علاوہ سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی اپنے چھ نکات پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر ووٹ دیا۔ مولانا فضل الرحمن کو15ووٹ ملے۔ انہیں پشتون خوا میپ کے رکن نصراللہ زیرے نے بھی ووٹ دیا۔
جام کمال مخلوط حکومت کی قیادت کررہے ہیں، انہیں تحریک انصاف کی خفگی کا سامنا ہے۔ جام کمال کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ اپنے مراسم اچھے رکھیں، حزبِ اختلاف کو اس کا جائز حق اور اہمیت دیں۔ مستقبل قریب میں حزب اختلاف ان کے کام آسکتی ہے۔ اب تک حزب اختلاف کا رویہ بھی مثبت اور نرم ہے۔ ثناء بلوچ کی قیادت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے جام کمال سے ملاقات بھی کی۔ باتیں یہ محو گردش ہوئیں کہ بی اے پی کے بعض ارکان تحریک عدم اعتماد کے قانونی پہلوئوں پر ماہرین سے مشاورت میں ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جام کمال کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تلوار کو نگاہ میں رکھیں۔ جام کمال کو اپنی جماعت کے چند ارکان پر بطور خاص نظر رکھنا ہوگی۔ حزبِ اختلاف سے ان کا معاملہ بگڑنا نہیں چاہیے۔ جام کمال اپنے جس وژن کا اظہار کرچکے ہیں اسی پر عمل پیرا ہوں، کیونکہ صوبہ گوناگوں مسائل اور مالی مشکلات کی لپیٹ میں ہے۔ خود جام کمال کہہ چکے ہیں کہ ریکوڈک کیس میں بلوچستان نے صرف وکلا کو ساڑھے تین ارب روپے دیئے۔ اگر دس ارب ڈالر جرمانہ لگ گیا تو بلوچستان اور وفاقی حکومت کے لیے اس کی ادائیگی مشکل ہوگی، اسی لیے کوشش کررہے ہیں کہ ریکوڈک کے حوالے سے بات چیت سے مسئلہ حل ہو۔ جام کمال اچھی گورننس قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں جس کے لیے ضروری ہے کہ بدعنوان عناصر کو سسٹم سے دور رکھا جائے۔ اچھے اور دیانت دار افسران اہم عہدوں پر ہوں گے تو نہ صرف ان کے لیے آسانی ہوگی بلکہ صوبے میں ترقیاتی عمل شفاف طریقے سے عمل پذیر ہوگا۔ خیال رہے کہ اراکینِ اسمبلی اپنے مفاد کی خاطر بد عنوان لوگوں کو قریب لائیں گے۔ جام کمال اس راہ میں حائل ہوں گے تو ان کے خلاف یہ سب مل کر پروپیگنڈا کریں گے، اور دوسرے قانونی مسائل پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کی بات بھی کی ہے، چونکہ وہ خود اس نظام کا حصہ رہ چکے ہیں، دو بار لسبیلہ کے ضلع ناظم رہے ہیں اس لیے انہیں اس بات کا تجربہ ہے کہ بنیادی حکومتوں کے مسائل اور ضرویات کیا ہیں، اور کس طرح ان اداروں کو ترقی اور بنیادی علاقائی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جام کمال کہہ چکے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو خودکفیل اور با اختیار بنائے بغیر عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، اس لیے بلدیاتی نظامِ حکومت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں فیصلے صوبے کے وسیع تر مفاد میں کیے جائیں گے۔ نیز اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصوبے آئندہ ٹھیکہ دینے کی بنیاد کے بجائے عوامی ضروریات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بنائے جائیں گے۔