قائداعظم رائٹرز گلڈ اپنے بانی جلیس سلال کی قیادت میں سلور جوبلی کراس کرتی ہوئی تیزی سے اپنے مقاصد کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ دنوں گلڈ کی جانب سے بھوپالی ہائوس میں گلڈ کی موجودہ سیکریٹری جنرل معروف ناول نگار، کالم نگار نسیم انجم کے پانچویں ناول ’’سرِبازار رقصاں‘‘ کی باوقار تقریبِ اجراء کا انعقاد کیا گیا، جس میں اہم اربابِ ادب نے شرکت کی۔
نسیم انجم ایک کہنہ مشق لکھاری ہیں، ان کے کالم باقاعدگی سے ایک مؤقر روزنامے میں شائع ہوتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ان کا قلم عرصۂ دراز سے سرگرم عمل ہے، ’’سرِبازار رقصاں‘‘ ان کا پانچواں ناول ہے جس میں انہوں نے عقیدت کے نام پر گمراہی کو بڑی جرأت و بے باکی سے بیان کیا ہے۔
صدرِ محفل معروف صحافی، دانش ور محمود شام نے حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں لکھے گئے اپنے مضمون میں کہا کہ ’’نسیم انجم تاریخ کی طرح بے رحم ہیں، سب کچھ بلا کم و کاست بیان کردیتی ہیں اور اپنے کرداروں سے مکمل انصاف کرتی ہیں۔ میرے نزدیک ان کے ناول میں مرکزی کردار ’’نیلم‘‘ پاکستان کی تمثیل ہے، جو اُن سب اذیتوں اور مصائب سے گزرتی ہے جن سے ہمارا پاکستان گزر رہا ہے۔ ان کے کردار سلطان شاہ، شیخ، ڈاکٹر، سائیں… آپ پاکستان کی تاریخ جھانکیں تو یہ سب کردار آپ کو مل جائیں گے۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اُٹھایا جنھیں بڑے بڑے افسانہ نگار بھی ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔‘‘
مہمانِ خصوصی پروفیسر شاداب احسانی نے کہا کہ ’’ان کے پانچویں ناول کے نام سے اندازہ ہوا کہ یہ تصوف کا مکمل احاطہ کرتا ہوگا۔ لیکن اس میں صوفیانہ رنگ ضرور پایا جاتا ہے اور یہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔ پروفیسر خیال آفاقی نے جن کا تازہ آفاقی ناول ’’رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ علمی، ادبی حلقوں سے خراجِ تحسین وصول کررہا ہے، اپنے مضمون ’’لفظ لفظ رقصاں‘‘ میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے معاشرے میں پائی جانے والی عقیدت کے نام پر گمراہی کو موضوع بنایا ہے، یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اس غلیظ برائی کو جس جرأت و بے باکی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ ان کی قوتِ مشاہدہ کا بیّن ثبوت ہے، بلکہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ انہیں زبان و بیان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ ان کی مکالمہ نگاری میں افسانویت اور فرضیت کی حقیقت محسوس ہوتی ہے جس سے ناول ایک دستاویز کی صورت اختیار کر گیا ہے۔‘‘
پروفیسر سعید قادری نے کہا کہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بڑا وسیع ہے۔ انہوں نے ہمارے معاشرے کی سچی تصویرکشی کی ہے۔ پروفیسر شہناز پروین نے کہا کہ یہ ناول نگاری میں ایک منفرد مقام بنا چکی ہیں، یہ عام طور پر اپنے ناول کے تانے بانے کسی اہم اور معاشرتی پہلو کے گرد بُنتی ہیں۔ اس ناول میں بھی انہوں نے ایک اہم موضوع کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
معروف کالم نگار اور کراچی کی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز مرتب کرنے والے عثمان دموہی نے کہا کہ ناول کا موضوع ہمارے معاشرے کا ایسا گھنائونا پہلو ہے جو کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ انہوں نے اس مسئلے کو اُجاگر کرکے ہماری سوئی ہوئی انتظامیہ کو جگانے کی کوشش کی ہے۔
معروف شاعر جن کا شعری مجموعہ ’’جہادِ سخن‘‘ ادبی حلقوں میں معروف ہے، نے اپنے منظوم تبصرے میں کہا:
نیکی اور بدی کا یہ میدانِ جنگ ہے
ناول کے ہر مقام پر منظر کشی ہے خوب
قرطاس پر ہے جیسے کہ لفظوں کا اک چمن
پروفیسر شاہین حبیب صدیقی نے بھی منظوم تبصرہ پیش کیا۔ تقریب کے میزبان علم دوست وسیم بھوپالی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب نسیم انجم کے کالموں کا مجموعہ بھی شائع ہوجانا چاہیے۔ تقریب کی نظامت پروفیسر شازیہ ناز عروج نے کی، جبکہ کم سن حذیفہ حماد نے تلاوتِ کلام پاک اور صغیر احمد جعفری نے نعتِ مبارکہ پیش کی۔ تقریب میں اربابِ ادب کے ساتھ معروف ادیب، نقاد، شاعر خواجہ رضی حیدر، معروف نقاد جمال نقوی، ڈاکٹر معین الدین احمد، نوری الہدیٰ، فہیم اسلام انصاری، شاکر انور، سلمان صدیقی، نجیب عمر، پروفیسر فائزہ احسان، ڈاکٹر جویریہ یوسف، قاسم بیگ، نسیم احمد شاہ، کاشف ہاشمی، حلیم انصاری، حنا یوسف اور جلیس سلاسل نے بھی شرکت کی۔