چاہ کن را چاہ درپیش

ایک بدو کسی طرح خلیفہ معتصم باللہ کے دربار میں باریاب ہوگیا۔ خلیفہ کو وہ کچھ ایسا پسند آیا کہ اس نے بدوی کو اپنا مصاحب اور ندیم بنالیا۔ ہردم اُسے اپنے پاس رکھتا، اس سے باتیں کرتا، اس کی باتیں سنتا۔ خصوصیت اتنی بڑھ گئی کہ اُسے اجازت مل گئی کہ وہ جب چاہے بغیر کسی پوچھ گچھ کے حرم خلافت میں باریاب ہوسکتا ہے، کسی کی مجال نہیں کہ روک ٹوک کرسکے۔
معتصم کے ایک وزیر نے اس بدو کی یہ سرفرازی جو دیکھی تو دل میں جل گیا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: یہ شخص تو بڑے مزے میں رہا، ہینگ لگی نہ پھٹکری رنگ چوکھا آیا۔ خلیفہ سے انعام و اکرام کے سلسلے میں بھی کافی رقم اینٹھ لیتا ہے اور منصب کے نام سے بھی، کوئی ایسی ترکیب ہونی چاہیے کہ اس اُجڈ گنوار کا پتّا کاٹا جائے اور اُسے خلیفہ کے دربار سے حقیر و ذلیل کرکے بیک بینی و دوگوش نکلوایا جائے۔
یہ سوچ کر اس نے بدو سے رسم وراہ بڑھائی اور یارانہ پیدا کیا۔ وہ اس سے بہت زیادہ لطف اور خلوص کا برتائو ظاہر کرنے لگا، تاکہ بدو اُسے اپنا سب سے بڑا مخلص دوست سمجھنے لگے۔ کبھی اس کی دعوتیں کرتا، کبھی اُسے گانا سنواتا، کبھی اُسے اپنے ساتھ سیروتفریح میں شریک کرلیتا۔ آخر رفتہ رفتہ اس نے بدو کا اعتماد حاصل کرلیا اور وہ اُسے واقعی اپنا مخلص دوست سمجھنے لگا۔
ایک روز وزیر نے بدو کی دعوت کی اور اس کے لیے طرح طرح کے لذیذ اور مرغن کھانے پکوائے، لیکن ان کھانوں میں اس نے باورچی کو تاکید کرکے لہسن بہت زیادہ ڈلوادیا۔ کھانے کے بعد وزیر نے بدو سے کہا:
’’کہو کھانا پسند آیا؟‘‘
’’جی ہاں بہت زیادہ‘‘۔وزیر نے کہا: ’’لیکن آج خلیفہ سے دور ہی رہنا ذرا!!‘‘’’یہ کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ خلیفہ کو لہسن کی بو سے سخت نفرت ہے اور تمہارے منہ سے لہسن کی بو آرہی ہے‘‘۔
دعوت ختم ہونے کے بعد بدو چلا گیا اور وزیر سیدھا خلیفہ کے پاس پہنچا۔ اُس وقت بدو خلیفہ کے پاس موجود نہیں تھا، اس ڈر سے کہ کہیں خلیفہ لہسن کی بو نہ سونگھ لے۔ یہ اچھا موقع دیکھ کر وزیر نے خلیفہ سے بدو کی خوب برائیاں کیں اور کہا:
’’آج تو وہ آپ کی بہت برائیاں کررہا تھا!‘‘
خلیفہ معتصم نے حکم دیا: ’’بدو کو فوراً حاضر کیا جائے‘‘۔
وزیر اس اثناء میں کھسک گیا، خلیفہ نے بدو سے کہا: ’’قریب آئو!‘‘
وہ قریب آیا، لیکن احتیاطاً اُس نے اپنی آستین منہ پر رکھ لی کہ کہیں لہسن کی بو خلیفہ تک نہ پہنچ جائے۔
خلیفہ نے اپنے دل میں خیال کیا، وزیر نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ یقینا صحیح ہے، ورنہ اس پر اس وقت اتنی دہشت اور گھبراہٹ نہ ہوتی۔
خلیفہ نے اپنے ایک عامل کو خط لکھا: ’’حامل ہذا کی فوراً گردن اُڑادو‘‘۔
وہ خط بدو کو دیا اور کہا: ’’جائو اس کا جواب لے کر فوراً آئو!‘‘
بدو خلیفہ سے اپنا پروانۂ موت لے کر اپنی سادہ لوحی کے باعث خوشی خوشی باہر نکلا، وہاں وزیر موجود تھا، اس نے جو بدو کو خوش اور بے فکر پایا تو سمجھ گیا کہ اس گنوار نے پھر خلیفہ کو اپنی باتوں سے رجھا لیا ہے، اُس نے بدو سے دریافت کیا:
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘
وہ بولا: ’’خلیفہ کا مکتوب لے کر فلاں عامل کے پاس جارہا ہوں‘‘۔
یہ سن کر وزیر کو خیال ہوا، ضرور آج پھر اس گنوار نے انعام و اکرام حاصل کیا ہے، یہ سوچ کر کہنے لگا:
’’تم وہاں جانے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہو۔ یہ لو دو ہزار درہم، تم اپنے گھر جائو، آرام کرو، میں خلیفہ کا یہ مکتوب لے کر جاتا ہوں، اور جواب لاکر خلیفہ کو دے دوں گا، سچ پوچھو تو میرا یہی کام ہے۔‘‘
بدو رضامند ہوگیا، اور وزیر سے دو ہزار درہم لے کر ہشاش بشاش اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد وزیر نے وہ خط لیا اور سیدھا خلیفہ کے عامل کے پاس انعام و اکرام کی طلب میں روانہ ہوگیا۔ اس نے جاتے ہی خلیفہ کا نامہ عامل کی خدمت میں بھیج دیا، اور عامل نے وہ نامہ پڑھتے ہی اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ جو شخص باہر کھڑا جواب کا انتظار کررہا ہے اس کی گردن اُڑا دی جائے۔ غلام باہر آئے اور انہوں نے عامل کے حکم کی تعمیل کردی۔ وزیر چیختا ہی رہ گیا: میری تو سنو، مجھے دیکھو تو میں کون ہوں؟ لیکن وہاں کون سنتا تھا؟ وہ چیختا ہی رہ گیا اور اس کی گردن اُڑا دی گئی۔
اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد خلیفہ کو بدو اور وزیر کا خیال آیا، اس نے کہا:
’’بدوی کا کیا ہوا؟ اور وزیر کیوں حاضرِ دربار نہیں ہوتا؟‘‘
جواب دیا گیا:
’’بدوی شہر میں مقیم ہے، یاد نہیں کیا گیا اس لیے حاضر نہیں ہوا، اور وزیر صاحب نامعلوم کہاں ہیں، پتا نہیں۔‘‘
یہ جواب سن کر معتصم کو بڑی حیرت ہوئی، اُس نے بدو کو بلایا، اس سے ماجرا پوچھا۔
اس نے ساری کہانی ازاول تا آخر سنادی۔ معتصم کو جب اصل واقعہ معلوم ہوا تو وہ وزیر کی ہلاکت سے خوش ہوا اور بدو سے اور زیادہ اچھا برتائو کرنے لگا۔