پروٹین جسمانی نشوونما، مسلز کی مرمت، ٹشوز کو جوڑنے اور جلد کی صحت کے لیے بہت اہم ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ جسمانی وزن کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پروٹین کے زیادہ استعمال سے جسم میں بھوک کم کرنے والے ہارمونز کی سطح بڑھتی ہے، جبکہ بھوک بڑھانے والے ہارمونز کا لیول کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں طبی ماہرین لوگوں کو جسمانی وزن سے نجات کے لیے پروٹین کے زیادہ استعمال کا مشورہ دیتے ہیں، اور ناشتے میں انڈے کھانے کی عادت پروٹین کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سو گرام ابلے ہوئے انڈوں میں 13 گرام پروٹین ہوتا ہے جو کہ روزمرہ کے لیے درکار پروٹین کا 26 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈے پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ جز جسمانی وزن میں کمی کے لیے لازمی طور پر غذا کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سے ہٹ کر بھی انڈوں میں کیلوریز کی سطح کم ہوتی ہے، یعنی 78 کیلوریز۔ جبکہ اسے کھانے سے جسمانی میٹابولزم کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ انڈے کھانے سے جسمانی توانائی بھی بڑھتی ہے جبکہ ایک ہفتے میں ہی توند میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح گیس یا پیٹ پھولنے کا مسئلہ بھی دور ہوتا ہے۔
۔2019ء پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی آمد کا سال
پاکستان میں 2019ء میں جدید ترین 5 جی براڈ بینڈ ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ عندیہ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اے پی پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران دیا۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ فائیو جی سروس کو پاکستان میں اگلے سال متعارف کرایا جاسکتا ہے جس سے غیرملکی سرمایہ کاری بڑھانے میں مدد ملے گی۔ فائیو جی کیا ہے؟آج کل وائرلیس فور جی ایل ٹی ای ٹیکنالوجی کو اکثر موبائل نیٹ ورکس پر استعمال کیا جارہا ہے، جو کہ انتہائی تیز وائرلیس کمیونی کیشن ڈیٹا ٹرانسمنٹ کرنے کے لیے فراہم کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں فائیو جی نیٹ ورک کو گھروں پر انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، جبکہ اس کی رفتار آنے والے دور کی ٹیکنالوجیز کے لیے بھی موزوں ہوگی، جیسے ڈرائیور لیس کار سسٹم میں ڈیٹا کے لیے درکار اسپیڈ وغیرہ۔ گزشتہ سال اس کی آزمائش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ فائیو جی نیٹ ورک موجودہ موبائل انٹرنیٹ کنکشن سے سوگنا، جبکہ گھروں کے براڈ بینڈ کنکشن سے دس گنا تیز ہوگا، جس کی مدد سے پچاس جی بی کی فائل صرف دو منٹ، جبکہ سو جی بی کی فلم چار منٹ میں ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔ اس وقت امریکہ میں انٹرنیٹ کی اوسط رفتار صرف 55 میگا بٹ فی سیکنڈ ہے۔
پاکستان میں 80 فیصد بچے متوازن غذا سے محروم
وزارتِ قومی صحت سروسز (این ایچ ایس) غذائیت ونگ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6 سے 23 ماہ تک کے تقریباً 80 فیصد بچے متوازن غذا حاصل نہیں کرپاتے، جس کی وجہ سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ 40 فیصد پاکستانی بچوں کی نشوونما نامکمل ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس عمر کے نصف سے زائد بچے ٹھوس، نیم ٹھوس یا نرم غذا سے محروم رہتے ہیں، جبکہ 2 سال کی عمر تک کے صرف 22 فیصد بچے غذائی تنوع کے کم از کم معیار تک پہنچ پاتے ہیں۔ غذائیت سے بھرپور خوراک میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی دستیابی ہے، کیونکہ پھل، انڈے، گوشت مہنگے ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی قوتِ خرید سے دور ہیں، جبکہ دیسی کھانوں میں وٹامن بی 12، وٹامن اے، کیلشیم اور آئرن بمشکل ہی موجود ہوتے ہیں۔ غذائی قلت کو آٹے اور تیل سمیت وٹامن اے، ڈی اور فولک ایسڈ کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی بائیو ڈائیورسی فکیشن کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ گندم کی کچھ اقسام میں زنک اور فولک ایسڈ ہوتا ہے۔
آرگینک طریقے سے بنجر زمینوں کی بحالی
قصور کے قریب دریائے ستلج کی ریتیلی زمین میں سیکڑوں ایکڑ پر باغات اور سبزیاں کاشت کی گئی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں 70 لاکھ 44 ہزار ایکڑ زرعی رقبہ ایسا ہے جہاں سیم، تھور اور کلر کی وجہ سے زمین بے کار پڑی ہے، جبکہ 3 کروڑ 67 لاکھ ایکڑ اراضی پر مختلف اقسام کے پھل، فصلیں اورسبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔ اب ریتیلی اور ناقابلِ کاشت زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے آرگینک طریقہ اختیار کیا جارہا ہے جس سے کامیابی کے ساتھ مختلف اقسام کے باغات، فصلیں اور سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔ قصور کے قریب دریائے ستلج کی ریتیلی زمین میں سرسبز و شاداب امرود کا باغ اس کی واضح مثال ہے۔ نجی کمپنی کے سربراہ اور ایگری لینڈ ڈیویلپر سید بابر شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک غیرملکی کمپنی کے ساتھ کئی سال کی انتھک محنت اور تحقیق کے بعد آرگینک کھاد کا ایسا فارمولا وضع کرلیا ہے جس سے ریتیلی، سیم، تھور اور کلر زدہ زمین پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی قسم کی ریتیلی، سیم، تھور اور کلر زدہ زمین کو آرگینک کھاد، لیکویڈ (مائع) اور جڑی بوٹیوں سے قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ اس طریقے کے تحت زمین کی سطح سے چند فٹ نیچے آرگینک کھاد اور کیمیکل سے ایک جال بنایا جاتا ہے جو پانی کو مزید نیچے جذب نہیں ہونے دیتا۔ اس جگہ ایسی کیمیائی تبدیلی رونما ہوتی ہے جس سے ریتیلی اور سیم والی زمین قابلِ کاشت ہوجاتی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ یوریا سمیت دیگر کھادوں کی نسبت قدرتی اجزاء سے تیار ہونے والی آرگینک یعنی نامیاتی کھاد زیادہ اچھے نتائج دے رہی ہے۔