پیشکش: ابوسعدی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت و تکریم کے مرکز
’’آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپؐ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں آپؐ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔
میں ایک عاجز ترین، انتہائی خاکسار، بندۂ ناچیز اتنی عظیم، سب بڑوں سے بڑی ہستی کو بھلا کیا اور کیسے نذرانۂ عقیدت پیش کرسکتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضعِ قانون تھے، عظیم سیاست دان تھے، عظیم حکمران تھے۔‘‘
(کراچی بار ایسوسی ایشن۔25جنوری1948ء)
ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں؟ کون سی چٹان ہے جس پر اُن کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟
وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآنِٖ عظیم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ یک جہتی پیدا ہوگی، ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، اس لیے ایک ہی اُمت‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ، کراچی 1943ء)
جدید معیشت اور ٹیکنالوجی کے قصیدے
ہارون الرشید کا دلچسپ واقعہ ہے۔ وہ ایک دن محل سے سیر کے لیے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک شاعر فکرِسخن میں محو اور غرق کچھ تصنیف کررہا ہے اور کاغذ پر اشعار ابرِباراں کی طرح برس رہے ہیں۔ ہارون نے طنزاً پوچھا: کیا جھوٹ گھڑ رہے ہو؟ شاعر نے بے ساختہ جواب دیا: حضورِ والا کی شان میں قصیدہ لکھ رہا ہوں۔
عہدِ حاضر کے جدیدیت پسند مفتی اسی طرح جدید سائنس، جدید معیشت اور جدید ٹیکنالوجی کے کمالات پر مشتمل جھوٹے قصیدے تصنیف کررہے ہیں۔ اسی کراچی شہر کے بلاول گوٹھ، صفورا گوٹھ، بھٹائی کالونی، اورنگی ٹائون، مچھر کالونی، ہاکس بے کے اردگرد کے غریب علاقے، لیاری، کراچی کے قدیم ساحلی علاقے جہاں لاکھوں لوگ چھ فٹ کے ایک کمرے میں چھ چھ سات سات افراد کی صورت میں رہ رہے ہیں۔ اس چھوٹے سے کمرے میں رہنے والوں کا روزانہ خرچ، دیگر اخراجات، روز کا کرایہ، مکان کا کرایہ نکال کر تیس روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی میں یہ دن بھر کی غذا، دوا، دودھ، اناج مہیا کرتے ہیں۔ یہ دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتے ہیں، ہڑتال کے دنوں میں یہ محدود آمدنی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں تو دو دو دن بھوکے رہتے ہیں، ان کے چھوٹے شیرخوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہیں کہ بھوکی ماں کے سینے میں قدرت کے عطا کردہ دودھ کے سوتے جدید سرمایہ داری اور جدید انسان کے رویوں نے خشک کردیئے ہیں۔ ہڑتال کے دنوں میں ماں چھوٹے شیر خوار بھوکے بچوں کو شکر ملا پانی پلاکر بڑا کرتی ہے۔ اس شہر میں وہ گھر بھی ہیں جہاں حاملہ عورت دو دو تین تین دن فاقے سے رہتی اور صحت مند بچے کو جنم دیتی ہے۔ لیکن ان گھرانوں کے مرد ڈاکے نہیں ڈالتے، یہ غیرت مند کسی سے مانگتے بھی نہیں۔ یہ بھوکے رہ کر عزت بچاتے ہیں۔ کسی سے شکایت تک نہیں کرتے۔ یہ واقعات افسانے، کہانیاں اور من گھڑت نہیں ہیں۔ راقم السطور ان دل ہلا دینے والے واقعات کا عینی شاہد ہے اور اس کا دل لہو لہو ہے۔ وہ ان خاندانوں کو ذاتی طور پر جانتا ہے۔ سوات کے پچاس لاکھ متاثرین کے کیمپوں میں لاکھوں بچے روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ یہ صرف میرے ملک کا حال ہے۔ افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ، چین، روس، ہر جگہ غربت کا رقص جاری ہے، اللہ کی مخلوق بھوکی ہے اور در بہ در ہے۔ اس غربت میں لوگ اپنے ذوقِ جمالیات کے لیے قد بڑھانے کے لیے دو دو لاکھ ڈالر خرچ کرتے ہیں اور اس میں حرج کوئی نہیں ہے۔ ایک دنیادار فقیہ بھی یہی فتویٰ دے گا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، آپ کا پیسہ ہے، رزقِ حلال ہے، اس سے اپنا علاج معالجہ شریعت کی نظر میں محمود ہے۔ جمیل نظر آنے اور جمال کے لیے رزقِ حلال خرچ کرنے میں کوئی امرِ شرعی مانع نہیں ہے۔ ظاہریت پرست یا حرف پرست [Literalist] اور صرف لفظوں کے ظاہری علم تک محدود جدیدیت پسند مفتی اسی قسم کے فتوے دے سکتے ہیں۔ امام غزالیؒ کی ’’احیاء العلوم‘‘ ایسے لفظ پرست مفتیوں کی علمیت اور حقیقت کھول کر رکھ دیتی ہے۔
دو لاکھ ڈالر خرچ کرکے چار انچ قد بڑھانے والی جدید، سفاک، قاتل خونی عورت سے پوچھا جائے کہ تمہیں بھوکے کو کھلاتے ہوئے، ننگے کو پہناتے ہوئے، مفلسوں کی مدد کرتے ہوئے کیوں اچھا نہیں لگتا؟ تو اس کا جواب ہوگا: مجھے ایسا کرکے اپنے بارے میں اچھا لگتاہے، میں اچھی لمبی نظر آتی ہوں، مجھے سکون ملتا ہے، میرا احساسِ کمتری ختم ہوتا ہے، یہ میری آزادی ہے۔ It makes people feel good about themselves قدیم انسان جس کی روح زندہ تھی مار دیا گیا ہے، اور اس کی لاشوں کے ملبے پر جدید تہذیب اور جدید انسان کی تعمیر و تشکیل کی گئی ہے جو حاسد، حریص، لالچی اور مریض ہے۔ وہ اپنی ذات، اپنے نفس، اپنی خواہشات کی سطح سے اوپر اٹھنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ جدید فلسفے نے اسے نفس کی قبر میں محدود و مقید کردیا ہے، اور قبر کا حال مُردہ ہی جانتا ہے۔
(خالد جامعی صاحب کے ایک مضمون سے اقتباس)
سوختہ سامانی
ہوائے الحاد رنگِ ملت کو ہر روش پر بدل رہی ہے
جو بات بگڑی، بنے وہ کیونکر، جو چل گئی ہے وہ چل رہی ہے
نہ عاقبت کا کسی کو ڈر ہے، نہ عزتِ قوم پر نظر ہے
سروں میں سودا سما رہا ہے، دلوں سے غیرت نکل رہی ہے
جو پیشوا خود ہوں رند مشرب، تو کیا جمے رنگِ وعظ و مذہب
قلوب شیطاں کے متبع ہیں، زبان قرآں پہ چل رہی ہے
جو قوم ہمسایہ ہے ہماری، نہیں ہے اس پر بلا یہ طاری
ہم اپنی مستی میں گر رہے ہیں، وہ ہوش میں ہے سنبھل رہی ہے
ہم اپنی صورت بگاڑتے ہیں، بنا رہی ہے وہ اپنے گھر کو
ہم اپنا نقشہ مٹا رہے ہیں، وہ اپنے سانچے میں ڈھل رہی ہے
خدا کی ساعت یہاں کی صدیاں، چھپی نہیں ہیں ہماری بدیاں
بلائیں آئیں اور آرہی ہیں، کوئی گھڑی ہے کہ ٹل رہی ہے
زبانِ اکبرؔ میں کب یہ قدرت کہ کہہ سکے رازِ سوزِ حسرت
وہ شمع اس کو بیاں کرے گی جو گورِ سیّد پہ جل رہی ہے
(اکبر الٰہ آبادی)
آدمی اور سانپ
ایک دن ایک بچہ کھیت میں کھیل رہا تھا۔ اتفاق سے اس کا پائوں ایک سانپ پر جا پڑا۔ سانپ نے غصے میں آکر اس بچے کو کاٹ لیا۔ بچہ وہیں مرگیا۔ بچے کا باپ اس واقعہ سے بہت رنجیدہ ہوا اور ہاتھ میں ڈنڈا لے کر سانپ کو مارنے اس کے پیچھے دوڑا۔ سانپ اپنے بل کی طرف بھاگا۔ جب بل میں گھسنے لگا تو اس آدمی نے اتنی زور سے سانپ کو ڈنڈا مارا کہ اس کی دُم کٹ گئی لیکن وہ آرام سے بل میں گھس ہی گیا۔ دوسرے دن آدمی نے سوچا کہ اس سانپ کو مکرو فریب سے ختم کیا جائے اور اپنا بدلہ پورا کیا جائے۔ یہ سوچ کر وہ شہد، آٹا اور نمک بل کے پاس ڈال کر بولا: اے سانپ! میں چاہتا ہوں ہم تم دوبارہ آپس میں دوستی کرلیں اور دل میں جو نفرت پیدا ہوگئی ہے اس کو ختم کر ڈالیں۔ سانپ نے اندر ہی سے جواب دیا: اے دوست! تم دوستی کرنے کے لیے زیادہ تکلیف نہ کرو اور پریشان مت ہو، کیونکہ جب تک اپنے مرے ہوئے بیٹے کی یاد اور تکلیف تمہارے دل میں رہے گی اور مجھے اپنی کٹی ہوئی دُم کا دکھ دل میں رہے گا، اُس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپس میں مل جائیں اور دوستی کرلیں۔