پاکستان معاشرے میں انتشار کیوں؟۔

بنیادی سبب کی ایک مختلف زاویے سے تلاش

پاکستانی معاشرہ روحِ انتشار کے (ادنیٰ) غلاموں میں تبدیل ہوچکا ہے، اب اس کے بارے میں صرف ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے، اور وہ یہ کہ یہاں کوئی بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی، اب بے اصولی ہی اس کا اصول ہے، اس کے افراد جس تن دہی کے ساتھ ہمہ جہت تخریبی عمل میں مصروف ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے باشندوں کی نظر میں اس کی تخریب ہی اس کی تعمیر ہے، اور اس کی موت ہی اس کی زندگی ہے۔ کتنی ہولناک بات ہے کہ موت ہماری تلاش میں نہیں بلکہ ہم خود موت کی تلاش میں ہیں۔
ہمارے صدیوں کے خواب اپنی تعبیر سے جتنے دور آج ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ اور ہمیں اس حقیقت کا جتنا کم احساس آج ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔ اس مرحلے پر یہ امر کتنا ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے اس انتشار اور زوال کے اسباب تلاش کریں، افسوس یہ کام بھی نہیں ہورہا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری یہ صورتِ حال دنیا کے دوسرے معاشروں سے مختلف ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ دنیا کے بہت سے معاشرے بھی ہماری جیسی صورتِ حال ہی سے دوچار ہیں اور دوچار ہورہے ہیں، مگر ہمیں یہ بھی تو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان معاشروں نے اپنے زوال کے اسباب تلاش کرکے انہیں دور بھی کیا، وہ ہماری طرح ’’عبوری دور‘‘ سے گزرنے کی معذرت کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں گئے۔ قومی تاریخ کے اس نازک دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حتی الامکان غیر جانب داری (بمعنی سفاکی) کے ساتھ یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اس وقت ہمارے معاشرے کی نفسیاتی، روحانی اور وجودی کیفیت کیا ہے؟ اور اس کیفیت کے اسباب کیا ہیں؟ اس سلسلے میں یہ بات اہم ترین ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے ان تمام تجزیوں کو نظرانداز کردیں، جو کسی خاص سیاسی، سماجی مسلک (بمعنی تعصب) کے تناظر میں لکھے گئے ہیں، اور اس سلسلے میں خالص انفرادی یعنی ذاتی نکتۂ نظر کو اختیار کریں، ایسے نکتۂ نظر کو جو ہمارے ذاتی تجربوں، مشاہدوں اور ادراکات کا نتیجہ ہو۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ بے پناہ گرد میں اَٹے ہوئے اس ماحول میں درست تجزیے تک پہنچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ انفرادی تجربوں اور مشاہدوں پر مبنی یہ تجزیے سو فیصد درست نہ ہوں، مگر ان کے بارے میں ایک بات تو طے ہوگی کہ یہ جھوٹے تجزیوں کے برعکس، چیزوں کو دیکھنے کا معمولی سہی، مگر ایک نیا زاویہ تو فراہم کریں گے۔ ویسے بھی سچ اپنے جوہر میں انفرادی ہوتا ہے، اجتماعی نہیں۔ اس پس منظر میں میرا یہ مضمون میرے ذاتی تجربوں، مشاہدوں اور ادراکات کا ’’شاخسانہ‘‘ ہے جس سے سماجی منافقین کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہاں تو انگریزی کے ایک مقولے کے مطابق ابتدا سے ابتدا کرتے ہیں۔
مجھے آج کل ایسے لوگوں پر بہت ہنسی آتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک Male Dominated معاشرہ ہے۔ میری ہنسی کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سات آٹھ ماہ سے اور خاص طور پر گزشتہ تین چار ماہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کے، جو بیانات اور ان کے حواری دانش وروں اور صحافی حضرات کے جو فرموداتِ عالیہ مضامین وغیرہ کی صورت میں اخبارات کی زینت بن رہے ہیں، انہیں پڑھ کر میرے ذہن میں صرف اور صرف ایک شخصیت کا تصور ابھرتا ہے… ایک ایسی جاہل، تنگ دل اور چڑچڑی عورت کا، جو ایک ہی چھت کے نیچے موجود اپنی سوتن کی قربت پر مارے جلاپے کے مری جا رہی ہو اور یہ سوچ رہی ہو کہ اگر اگلی صبح اس کی سوتن مر جائے یا کم از کم اس کا جیسا تیسا چہرہ کسی طرح داغ دار ہوجائے تو کتنا اچھا ہو۔ مطلب یہ کہ ہمارے معاشرے کی عظیم تر اکثریت کے رویّے پر ایک بیمار ذہن عورت کی نفسیات کا غلبہ ہوچکا ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو آپ کو بلاتخصیص اکثر بیانات و مضامین سے ’’اے نوج، تم پہ خدا کی لعنت‘‘… ’’اے ناس پیٹی تیرے اوتوں سوتوں کے نصیب پھوٹیں‘‘… اور عورتوں کے ایسے ہی مرغوب ارشادات کا تاثر ابھرتا نظر آئے گا۔ علامہ اقبالؒ زندہ ہوتے تو شاید اس صورت کو دیکھ کر ایک بار پھر کہہ دیتے:
ہائے اس قوم کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اور اگر منٹو زندہ ہوتا تو اس پر فقرہ لگاتا کہ ’’قوم کے اعصاب پر عورت نہیں تو کیا ہاتھی سوار ہوگا!‘‘
عورت کے، اعصاب پر سوار ہونے والی بات پر جو صاحبان جزبز ہوں، اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ بری صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ کیا آپ کو احساس نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں غیبت کا رجحان کس حد تک بڑھ چکا ہے، اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ غیبت کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کیا ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو ’’زنا‘‘ سے بھی زیادہ سخت اور سنگین قرار دیا ہے۔ معاملہ چونکہ اب مذہبی حدود میں داخل ہوگیا ہے اس لیے اپنی گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس ذیل میں ایک مستند حوالہ پیش کردیا جائے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’غیبت زنا سے زیادہ سخت اور سنگین ہے‘‘۔ بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضرت غیبت زنا سے زیادہ سنگین کیوں ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’(بات یہ ہے) کہ آدمی بدبختی سے زنا کرلیتا ہے تو صرف توبہ کرنے سے اس کی معافی اور مغفرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے، مگر غیبت کرنے والے کو جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی اُس نے غیبت کی ہے، اس کی معافی اور بخشش اللہ کی طرف سے نہ ہوگی۔‘‘ (معارف الحدیث۔ شعب الایمان للبیہقی۔ بحوالہ اسوۂ رسول اکرمؐ۔ مؤلف حضرت عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی۔ صفحہ 565)
اس حوالے کی روشنی میں آپ سمجھتے ہیں ناں کہ ہمارے معاشرے اور خود ہمارے بارے میں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ یہی ناں کہ ہم میں سے اکثر لوگ زانیوں سے بھی بدتر ہیں۔ آپ بھی؟ جی ہاں میں بھی آپ ہی کا بھائی ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسے معاشرے سے خیرِ خداوندی کا اٹھ جانا اور اس کا بدترین انتشار کی زد میں آجانا بعیداز قیاس نہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے ایک سوال ہر جگہ اور بار بار پوچھا جاتا ہے: آخر پاکستان، پاکستان کیوں نہ بن سکا؟ یا کیوں نہیں بن پا رہا ہے؟ اس سوال کے بہت سے جواب دیے جاتے ہیں۔ کسی کے نزدیک اس کی وجہ سیاسی اداروں کا عدم استحکام ہے، کچھ کے نزدیک اس کا سبب بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں ہیں، اور کسی کے خیال میں اس کی وجہ معاشرے میں مساوات اور انصاف کے اصولوں پر عمل نہ ہونا ہے۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں، بلکہ منہ کم اور باتیں زیادہ۔ یہ تجزیے بھی کچھ نہ کچھ صداقت اپنے اندر رکھتے ہیں، تاہم میرے نزدیک اس کی ایک ذرا مختلف وجہ ہے، یہ ایک وجہ ہے، جس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا، یا کم از کم میری نظر سے کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں مسئلے پر اس زاویۂ نگاہ سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو۔ قارئین کرام! یہ وجہ ہے ہمارا انفرادی اور اجتماعی Guilt of Incompetency (جرمِ نااہلیت کا احساس) یعنی یہ احساس کہ ہم پاکستان جیسی عظیم نعمتِ خداوندی کے ہرگز ہرگز سزاوار نہیں تھے۔ واضح رہے کہ ہم اس نعمت کے ضرورت مند تھے، حق دار نہیں۔ ضرورت مندی اور حق داری میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً ایم اے کی ڈگری کا ضرورت مند معاشرے کا ہر شخص ہوگا، مگر اس کا حق دار صرف وہی ہوگا جو اس ڈگری کی تمام متعلقہ شرائط کو پورا کرنے کی نہ صرف یہ کہ اہلیت رکھتا ہو بلکہ اس اہلیت کو بوقتِ ضرورت ثابت بھی کرسکتا ہو۔ جرمِ نااہلیت کا یہ احساس روحانی تناظر میں بھی ہے اور مادّی تناظر میں بھی۔ سوال یہ ہے کہ اس جرمِ نااہلیت کے احساس کا پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کے منظرنامے سے کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب دراصل اس احساسِ نااہلیت کے جرم کے شکار شخص کے نفسیاتی تجزیے کے ذریعے دیا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی ایسے عہدے پر متمکن ہوجائے جس کا وہ اہل نہ ہو، تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ شخص اس عہدے سے ایسا فطری تعلق محسوس نہیں کرتا جیسا کہ اس عہدے کا اہل شخص محسوس کرتا ہے، لیکن چونکہ کام چلانے کے لیے اس عہدے سے اور اس عہدے کے حوالے سے کسی مخصوص ادارے سے اپنا تعلق بنائے بغیر کام نہیں چلتا اس لیے ایسا شخص اپنے اور اس عہدے اور ادارے کے تعلق کو Rationalize کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ Rationalization کچھ اس قسم کا ہوتا ہے: ’’آخر میں ایم اے ہوں۔ پھر یہ کہ میرے ماں باپ، بیوی بچے اور بہن بھائی ہیں، ان کی کفالت کے لیے مجھے جتنے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسی عہدے کے ذریعے میسر آسکتے ہیں، اور پھر میں واحد نااہل تو ہوں نہیں، دوسرے ہزاروں لوگ بھی تو ہیں، اور پھر یہ تو ’’قسمت‘‘ کی بات ہے کہ مجھے اتنا اچھا عہدہ میسر آیا، وغیرہ وغیرہ۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ وہ ایک ایسے تعلق کو پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے جو کبھی بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اہل آدمی کو اگر اپنے اور اپنے عہدے یا ادارے کے درمیان فطری تعلق کا واضح اور برجستہ احساس نہ ہو تو وہ اسے دریافت کرتا ہے، تخلیق نہیں۔ جب کہ نااہل آدمی اس تعلق کو تخلیق کرتا ہے، دریافت نہیں کرتا۔ اگرچہ وہ شخص شعوری طور پر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتا ہے، مگر اس کا لاشعور اور کبھی کبھی معاشرے کا کوئی فرد یا واقعہ اسے اس کی نااہلیت کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
نااہلیت کا یہ احساس اسے کبھی بھی اپنے عہدے اور ادارے کے ساتھ فطری تعلق کے رشتے میں بندھنے نہیں دیتا، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کی وابستگی اپنے ادارے سے نہایت سطحی جذبات پر مبنی ہوتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک عادت بن جاتی ہے… ایک بے معنی سی عادت… بالکل ایسی، جیسے کچھ لوگوں کو بار بار تھوکنے کی یا ناک کھجانے کی عادت ہوتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اپنے عہدے یا ادارے سے اس کا تعلق چند سرسری (اس کے نزدیک بنیادی) مادّی فوائد سے ہوتا ہے، چنانچہ کوئی اور ادارہ اسے اس کے پہلے ادارے سے زیادہ مادّی فوائد فراہم کرنے کا وعدہ کرلے تو وہ پلک جھپکتے میں اس ادارے کو چھوڑ بھاگے گا اور اسے اس ادارے کو چھوڑنے کا رتی برابر بھی افسوس نہیں ہوگا۔ کچھ لوگ اس رویّے کو ’’پروفیشنل اپروچ‘‘ کا نام دیتے ہیں، ہم سے بیشتر افراد بھی پاکستان کے ایسے ہی ’’پروفیشنل شہری‘‘ بن چکے ہیں، چنانچہ ہم میں سے بہت سوں کے لیے پاکستان ایک ملک یا وطن کے بجائے ایک ’’جگہ‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے، ایسی جگہ میں، جسے وہ کسی بھی وقت چھوڑ کر کہیں اور جاسکتے ہیں۔
بحیثیت قوم ہمارے اور پاکستان کے درمیان بھی وہی کچھ ہوا، جو ایک نااہل شخص اور اس کے عہدے یا ادارے کے درمیان ہوتا ہے۔ ہندوئوں کی تنگ نظری اور برصغیر کے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص نے بلاشبہ پہلے مسلمان کے برصغیر میں قدم رکھتے ہی پاکستان کی ضرورت کو تخلیق کردیا تھا، مگر مسلم قوم اس ضرورت کی اہل یعنی حق دار نہ تھی۔ قائداعظم اور بعض دیگر زعماء بلاشبہ روحانی اور ذہنی competency کی مثال تھے اور شاید انھی لوگوں کی اس داخلی قوت نے عوام الناس میں وہ شعلہ بھڑکا دیا تھا جس کے بغیر پاکستان جیسی عظیم تخلیق وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ افسوس یہ کہ قائداعظم اپنی اس روحانی اور ذہنی توانائی کی میراث کو قوم کے مزاج کا حصہ بنانے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، اور قوم رہنمائوں کے بجائے ’’طالع آزمائوں‘‘ کے چنگل میں پھنس گئی، اور یوں رفتہ رفتہ اپنی مستعار داخلی توانائی بھی کھو بیٹھی۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ’’حسد‘‘ کا جذبہ اتنا عام کیوں ہوگیا ہے؟ آخر یہ ایک دن میں تو پیدا نہیں ہوگیا، اس کا کوئی تو تاریخی پس منظر ہوگا۔ میرے خیال میں اس ’’حسد‘‘ کے ڈانڈے بھی ہمارے اس ابتدائی ’’نااہلیت کے احساسِ جرم‘‘ سے جا ملتے ہیں، جو قیامِ پاکستان کے وقت ہمارے اجتماعی لاشعور میں موجود تھا، پھر رفتہ رفتہ یہ احساسِ جرم ٹھوس صورت اختیار کر گیا اور اس کے روحانی مظاہر کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور سیاسی مظاہر بھی سامنے آنے لگے۔ اس وقت پاکستان میں اہم مناصب پر جتنے بھی لوگ فائز ہیں، ان میں حکمران، تمام سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما، دانش ور، صحافی غرضیکہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے حیات کے افراد شامل ہیں، ان کے بارے میں ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کی اکثریت ان مناصب کی اہل نہیں۔ ہمارے ہر دور کے بے شمار وزرا اور ہر جماعت کے بیشتر رہنما، جو اپنے آپ کو قومی سطح کا لیڈر ظاہر کرتے رہے ہیں، دراصل اپنی اہلیت کے اعتبار سے اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انہیں ’’بھائی پھیرو‘‘ کے بلدیاتی حلقے کے رکن کے لیے بھی نامزد کیا جاسکے، یہی صورتِ حال دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی بھی ہے۔
چونکہ ہمارے ہاں ہر سطح پر Incompetency عام ہے اس لیے ہمارے ہاں ہر سطح پر ’’حسد‘‘ بھی عام ہے، جو اکثر جگہوں پر بڑھ کر نفرت اور حقارت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کہیں اس کا اظہار ہوجاتا ہے اور کہیں نہیں، لیکن اس کو محسوس ہر جگہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک Competent یعنی اہل اور ایک Incompetent یعنی نااہل فرد کی نفسیات میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے، نااہل آدمی پر ’’حسد‘‘ کا جذبہ غالب ہوتا ہے اور اہل آدمی پر ’’رشک‘‘ کا۔ حاسد آدمی کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے برتر کی ٹانگ کو اس طرح گھسیٹے کہ وہ اس کے اپنے برابر ہوجائے۔ اس کے برعکس رشک کرنے والا آدمی اپنے سے برتر آدمی کی طرح ہونے کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور خود کو اس کے برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں علامہ اقبال، قائداعظم اور دیگر بڑے افراد کے خلاف جذبات کا اظہار کرنے والے افراد حاسدوں کے اسی ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان بڑی شخصیات پر بے بنیاد الزامات لگاکر انہیں اپنی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک دوسرے کی Legpullings کو اسی نفسیات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
حسد انسان کے دل و دماغ کی انقباضی کیفیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر انسان بہت دنوں تک اس کیفیت کے زیراثر رہے تو پھر اس کے اندر دیگر ذہنی بیماریاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اوّل تو یہی کہ وہ دوسروں سے خوف کھانے لگتا ہے اور اسے اکثر دوسرے لوگ اپنے وجود کے دَرپے نظر آنے لگتے ہیں، اور یوں وہ ایک عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے، اپنے عدم تحفظ کے احساس کو دور کرنے کے لیے وہ ہر طرح سے اور ہر طرح کی طاقت جمع کرتا ہے۔ جب کسی ایسے شخص کے پاس یہ طاقت اس کی ضرورت سے زیادہ ہوجاتی ہے، تو پھر وہ اسے اپنے دفاع کے لیے اپنے پاس محفوظ رکھنے کے بجائے دوسروں کے خلاف استعمال کرنے لگتا ہے۔
انسان کے نااہل ہونے کے احساسِ جرم کا تعلق صرف ہمارے معاشرے سے ہی نہیں بلکہ میرے خیال میں یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے، بلکہ عالمگیر بھی نہیں، آفاقی مسئلہ۔ میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کو ظالم اور جاہل کہیں صرف اسی لیے تو نہیں کہا کہ اس نے خدا کا نائب بننے کے ایک ایسے بارِِ امانت کو اٹھانے کا وعدہ کرلیا جس کا وہ اہل نہیں تھا، اور کہیں حضرت آدم علیہ السلام کے شجرِ ممنوعہ کھانے کا واقعہ اسی Guilt of Incompetency کے احساس کا نتیجہ تو نہیں۔ (واللہ اعلم)
تاریخ شاہد ہے کہ تمام انبیاؑ کو اللہ تعالیٰ نے منصبِ نبوت پر سرفراز کرنے سے قبل ان میں بارِ نبوتؐ اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے انہیں عبادت، ذکر و فکر اور آزمائش کے مختلف مراحل سے گزارا ہے۔
نااہلیت کے احساسِ جرم کا شکار ذہنیت کی ایک اور پہچان ہے، اور وہ یہ کہ وہ Indivisualism کے خلاف ہوتی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں Indivisualism کی کوئی فکری تحریک کبھی بھی موجود نہیں رہی۔ ہمارے ہاں وہ افراد بھی، جن میں اپنی فردیت کو Assert کرنے کا کچھ رجحان پایا جاتا ہے، ایک ایسا گہرا سماجی دائرۂ احساس رکھتے ہیں جس کی نوعیت بیشتر مفاداتی ہوتی ہے، یعنی ذرا غور سے دیکھیں تو ان کے اندر بھی معاشرے کی تمام مسلمہ کمینگیاں نظر آجائیں گی، یہ الگ بات کہ یہ کمینگیاں ذرا Refined ہوں گی اور ان پر بڑے بڑے سماجی اور قومی مقاصد کا لیبل لگا ہوگا۔ ان افراد کے جعلی پن کا ایک نمایاں مظہر یہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات معاشرے میں موجود مجموعی منفی طرزِ احساس کے بجائے اس کے کسی ایک رخ کو چیلنج کرتے ہیں اور اس کے کسی دوسرے رخ سے توانائی حاصل کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں معاشرے کے سامنے تنہا کھڑے ہونے کا احساس میسر نہیں آتا، چنانچہ یہ تمام عمر خود آگہی کی نعمت سے محروم رہتے ہیں اور میرے نزدیک “Good evil” کی ایک عجیب و غریب شخصیت میں ڈھلے رہتے ہیں۔
دنیا کے وہ معاشرے جہاں Indivisualism نے ایک تحریک کی صورت میں سفرِ حیات طے کیا ہے، اس امر کے شاہد ہیں کہ ’’فرد‘‘ وہ شخص ہوتا ہے جو سماجی اور سیاسی سچ کا نہیں بلکہ آفاقی سچ کا متلاشی اور پیروکار ہوتا ہے، یہ الگ بات کہ وہ سچ کا کوئی ذاتی معیار رکھتا ہو، مثلاً ہم جب فرانس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ژاں پال سارتر نظر آتا ہے جس نے ایک آفاقی سچ کی خاطر الجزائر پر اپنے ملک فرانس کے قبضے کو جارحیت قرار دے کر پورے معاشرے اور جنرل ڈیگال جیسے مضبوط حکمران کی مخالفت مول لی۔ اگر ہم اپنے محدود نکتۂ نگاہ سے دیکھیں تو اس نے گویا اپنی قوم کے ’’مفادات‘‘ کو نقصان پہنچایا۔ برصغیر کی مسلم تاریخ میں ہمیں اس آفاقی سچ کے پیروکار کے طور پر مولانا مودودیؒ نظر آتے ہیں، جنہوں نے کئی مواقع پر معاشرتی، سیاسی اور قومی مفادات سے بلند تر ہوکر سوچا۔ جہادِ کشمیر کے بارے میں مولانا مودودیؒ کا مؤقف اسی ذیل میں آتا ہے۔
بدقسمتی سے اب ہمارے معاشرے کی صورتِ حال یہ ہے کہ صداقت عمران خان اور نوازشریف کا نام ہوکر رہ گئی ہے۔ کسی زمانے میں یہ صداقت پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی تھی۔ یہ ہماری قومی زندگی کے قطبین یا Poles تھے۔ ایک قطب شمالی تھا تو دوسرا قطب جنوبی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان دونوں سے باہر کسی سچائی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان دونوں کے مفادات ہمارے مفادات تھے، ان دونوں کی دشمنیاں ہماری دشمنیاں تھیں، ان دونوں کی محبتیں ہماری محبتیں تھیں۔ یہ کیا تماشا ہے؟ لگتا ہے کہ ہمارے پورے معاشرے کی قوتِ فکر شل ہوکر رہ گئی ہے، اور آفاقی سچ تو درکنار چھوٹی چھوٹی انسانی سچائیاں بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی ہیں، ہمارا سچ اب اس طرح کا سچ ہوگیا ہے جو (اپنی یا کسی دوسرے کی) بہت سی فریب کاریوں کو چھپانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ سچ بولتے ہوئے ہمارے لہجوں کی گھن گرج اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارا سچ خود بولنے کی صلاحیت سے محروم ہے، اس لیے لوگوں کو اس سچ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہمیں ذرا زور سے بولنا پڑ رہا ہے۔
نارمل فرد یعنی Indivisual کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کا ہر عمل اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے اور اسے اپنے ہر عمل کی تحریک اپنے اندر سے ملتی ہے۔ خارجی ماحول اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک خام مواد یا ایک معمولی سے تحرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ (یعنی فرد) کسی معاشرتی صورتِ حال سے متعلق نہیں ہوتا، یا وہ معاشرے کی بہتری سے بالکل بے گانہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ معاشرتی صورتِ حال سے متعلق بھی ہوتا ہے اور اس کی بہتری بھی چاہتا ہے، مگر یہ تمام صورتیں اس کے ذاتی بنیاد پر وقوع پذیر ہونے والے عمل کی ذیلی پیداواریں یعنی By Product ہوتی ہیں، بجائے خود مطمح نظر نہیں۔ اس کے لیے کچھ اہم ہوتا ہے تو اپنی ذات کے تحرک کی بنیاد پر رونما ہونے والا عمل… ایسا عمل جو فی نفسہٖ اس کے لیے اہم ہوتا ہے، مزیدار ہوتا ہے، بامعنی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کے لیے بھی کوئی عمل فی نفسہٖ اہم، مزیدار اور بامعنی نہیں رہا، ہمیں اپنے ہر عمل کے لیے کوئی نہ کوئی معاشرتی، سیاسی یا معاشی جواز ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اس سماجی، معاشی یا سیاسی جواز سے اس بے بنیاد احسان کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو ہمارے اکثر سیاسی لیڈر اور دانش ور حضرات اپنی قوم پر وقتاً فوقتاً توڑتے رہتے ہیں۔ گویا ان لوگوں کو اپنی Partial اور بیشتر صورتوں میں جھوٹی صداقتوں پر بھی ناز ہوجاتا ہے۔ مگر صداقت کا ایک اہم معیار یہ بھی ہے کہ اس پر ناز نہیں ہوتا، یا ہوتا ہے تو ذرا کم کم۔ وہ جو سلیم احمد نے دعا کی ہے:

اے حرفِ اعتبار میں سچ بولتا رہوں
بچوں کی طرح نازِ صداقت کیے بغیر

تو وہ اسی ذیل میں آتی ہے۔ بچوں کو اپنی صداقت پر اس لیے ناز نہیں ہوتا کیونکہ ان کے لیے سچ بولنا تیر مارنا نہیں بلکہ صرف و محض اپنے فطری احساس کا اظہار ہوتا ہے۔
نااہلیت کے Guilt میں مبتلا معاشرے کے اندر تشدد اور سفاکی کا رجحان ایک فطری امر ہے، کیونکہ نااہل افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دلیل کی بنیاد پر کوئی بات نہیں منوا سکتے، اس لیے وہ ہر صورت میں طاقت پر انحصار کرتے ہیں اور خارجی طاقت کی جتنی صورتیں ہوتی ہیں، سب جمع کرلیتے ہیں اور پھر وقت بے وقت انہیں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
تاہم ایسی صورت میں ایک مخصوص حلقے میں ’’دلیل‘‘ خواہ مخواہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے اور حد سے زیادہ صداقت کی بنیاد سمجھی جانے لگتی ہے۔ حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں دلیل بھی صداقت کے اظہار کی علامت نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک استحصالی قوت بن جاتی ہے جو کانے، اندھوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے والٹیئر نے کہا تھا:
’’دلیل ایک طوائف کی طرح ہوتی ہے، جس کے پاس عقل کی دلالت زیادہ ہوتی ہے، یہ اسی کے پاس چلی جاتی ہے۔‘‘
والٹیئر کی بات کی صداقت ہماری زندگی کے تمام تجزیوں سے بھی ثابت ہوتی ہے، مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری عدالتوں میں روزانہ ذہین وکیل اپنی ذہانت کی بنیاد پر سیکڑوں ’’جھوٹے‘‘ مقدمے جیت جاتے ہیں، اور سیکڑوں کم ذہین وکیل ’’سچے‘‘ مقدمے ہار جاتے ہیں۔ پھر یوں بھی صداقت ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو آسانی کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے، بیشتر صورتوں میں اسے ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کبھی غور کیجیے کہ وہ لوگ، جو آپ سے بات بات پر دلیل طلب کرتے ہیں، کہیں صداقت کے احساس سے محروم ہوجانے والے یا دلیل کی قوت کے ذریعے دوسروں پر اپنی انانیت یا احساسِ برتری کو ٹھونسنے والے لوگ تو نہیں ہیں؟ آپ غور کریں گے تو بیشتر صورتوں میں آپ کو ایسا ہی نظر آئے گا جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
نااہلیت کے جرم کے احساس میں مبتلا معاشرے میں Superlatives کا استعمال عام ہوتا ہے، جیسا کہ ہمارے یہاں ہے، مثلاً ہر ستّر فیصد نمبر حاصل کرنے والا جینیئس بن جاتا ہے، ہر دس بیس اخباری مضامین لکھنے والا دانش ور کہلانے لگتا ہے، ہر دو چار شعری مجموعے چھپوا لینے والا عظیم شاعر بن جاتا ہے، ہر دو چار مذہبی کتابیں لکھنے والا مفکرِ اسلام قرار پاتا ہے۔
قارئین کرام! یہ تھیں ہمارے معاشرے کی جوہری صورتِ حال کی چند جھلکیاں… مجھے ہر مرتبہ کی طرح اِس بار بھی اس امر پر اصرار نہیں کہ میں نے جو کچھ کہا، وہ درست ہے۔ ویسے بھی اس وقت ہمارے معاشرے میں درست یا نادرست سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ’’بیماریوں‘‘ کی ’’حقیقی‘‘ شکلیں سامنے لائیں اور ایسا کرتے ہوئے ان تمام سیاسی و سماجی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیں جو ہمارے اور حقیقت کے درمیان حجاب بن گئے ہیں۔ آپ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد بے شک اسے رد کردیں، مگر ہاں، رد کرنے کے بعد ایک مرتبہ اور سوچ لیں، میرا مطلب ہے غیر جانب داری یعنی سفاکی کے ساتھ، اور اس غیر جانب داری اور سفاکی کے ساتھ جو توانا معاشروں میں بچوں کا کھیل ہوتی ہے، مگر ہمارے بیمار معاشرے میں پیغمبرانہ صفت بن گئی ہے۔