وہ منظر آج بھی میرے ذہن میں اچھی طرح محفوظ ہے۔ دسمبر 2000ء کی ابتدائی تاریخ اور بعد دوپہر کا وقت تھا۔ چادر میں لپٹی، لپٹائی ڈھلتی عمر کی ایک خاتون لاہور کے پرانے ہوائی مستقرکے وی وی آئی پی لاؤنج سے برآمد ہوئیں۔ خاندانی وجاہت، متانت اور شرافت ان کے چہرے سے ٹپکی پڑتی تھی۔ جونہی انہوں نے باہر قدم رکھا، انتظار میں وہاں کھڑے اخبار نویس فوراً آگے بڑھے، جن کی تعداد نصف درجن سے زیادہ نہیں تھی اور ٹی وی کیمرہ ایک بھی نہیں تھا۔۔۔ کہ اُس وقت تک اخبارات کی تعداد خاصی محدود تھی اور نجی شعبے کے برقی ذرائع ابلاغ ابھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ سرکاری ٹیلی ویژن۔۔۔ اس صورتِ حال میں، جس سے اُن دنوں یہ خاتون دوچار تھیں۔۔۔ ان کی کوریج کرنے کا روادار نہیں تھا۔ سیکورٹی کے مسائل تھے اور نہ پروٹوکول کی ہٹو بچو کی صدائیں۔۔۔ چنانچہ وہیں کھلی فضا میں کھڑے کھڑے صحافیوں نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور یہ خاتون نپے تلے الفاظ میں پُرسکون لہجے میں جواب دیتی رہیں۔ ان کی گفتگو کا محور و مرکز زیادہ تر ان کے خاندان کو درپیش مسائل و مشکلات اور وہ ناروا سلوک تھا جو اُس وقت کے حکمرانوں کی طرف سے روا رکھا جارہا تھا۔ سوال جواب کا سلسلہ مکمل ہوا تو خاتون اپنی گاڑی میں بیٹھیں اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئیں، تاہم جاتے جاتے انہوں نے یہ جملہ کہا ’’اچھا! اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکالے گا‘‘۔ اُس وقت تو تمام صحافیوں نے اس جملے کو کوئی اہمیت نہیں دی اور ایک پریشان حال خاتون کا روایتی جملہ سمجھ کر نظرانداز کردیا۔۔۔ تاہم اس جملے کا مطلب اُس وقت منکشف ہوا جب چند ہی روز بعد 10 دسمبر2000ء کو یہ خاتون، جن کا نام بیگم کلثوم نواز تھا، طیارہ سازش کیس میں سزا یافتہ اپنے خاوند سابق وزیراعظم نوازشریف اور دیور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے نکلواکر خاندان کے دیگر افراد سمیت سعودی عرب کے شہر جدہ کی جانب محوِ پرواز ہوگئیں۔
بیگم کلثوم نواز بنیادی طور پر ایک روایتی خاتون تھیں۔ تین بار خاتونِ اوّل رہنے کے باوجود محدود عرصے اور مخصوص حالات کے سوا انہوں نے کبھی سیاست میں متحرک کردار ادا نہیں کیا، البتہ جب حالات نے تقاضا کیا اور وقت کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے کسی کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کیے بغیر ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا اور اقتدار میں شریک ان کے قریبی ساتھی اور نواز لیگ کے رہنماؤں کی اکثریت ان کا ساتھ چھوڑ کر کونوں کھدروں میں چھپ گئی، یا فوجی آمریت کے سائے میں پناہ حاصل کرتی پائی گئی تو اس مشکل وقت میں بیگم کلثوم نواز نے گھر کی چاردیواری سے نکل کر سیاست کے میدانِ خارزار میں قدم رکھا۔ چند ماہ کا یہ وہ عرصہ تھا جب قوم نے انہیں ایک سلیقہ شعار، باوقار، جرأت مند، دلیر اور سمجھ دار خاتون سیاست دان کے روپ میں دیکھا۔ اپنی زندگی کے اس سیاسی باب کو بیگم کلثوم نواز نے ’’جبر اور جمہوریت‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے۔
میاں نوازشریف اور اہلِ خاندان کو جیل سے چھڑا کر جدہ کے سرور پیلس میں پہنچانے کے بعد بیگم کلثوم نواز دوبارہ پس منظر میں چلی گئیں اور لوگ سیاست میں اُن کا کردار فراموش کربیٹھے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم اور کلثوم نواز تیسری مرتبہ ملک کی خاتونِ اوّل قرار پائیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہیں اور سیاست میں ان کا کوئی کردار دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کی بڑی بیٹی مریم نواز البتہ اس دور میں خاصی متحرک و فعال رہیں اور میاں نوازشریف کی جانشین کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں، تاہم جولائی 2017ء کے آخر میں جب میاں نوازشریف کو پاناما پیپرز کیس میں عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ایوانِ اقتدار سے نکلنا پڑا اور لاہور میں ان کا حلقۂ انتخاب این اے 120 خالی قرار پایا تو بیگم کلثوم نواز کو اس حلقے سے میدان میں اتارا گیا، جس سے اندازہ ہوا کہ انہیں سیاست میں ایک بار پھر سے بھرپور کردار سونپا جارہا ہے، تاہم ابھی ان کے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہوئے تھے اور ان کی جانچ پڑتال کا مرحلہ ابھی باقی تھا کہ طبیعت کی ناسازی کے باعث طبی معائنے کے لیے انہیں اچانک لندن جانا پڑا۔ ان کی بیماری کے دوران بیٹی مریم نواز نے ان کی انتخابی مہم چلائی، اور اس مشکل وقت میں بھی بیگم کلثوم نواز اپنے خاندان کے لیے خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوئیں اور ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی خاتون رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باعث وہ وطن واپس آ کر رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے حلف نہ اٹھا سکیں۔ ان کی اسی بیماری کے دوران میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو قید کی سزا سنائی گئی اور میاں نوازشریف اور مریم نواز کو لندن میں کلثوم نواز کو بیمار چھوڑ کر سزا پر عمل درآمد کے لیے پاکستان آنا پڑا۔ بعض سیاسی مخالفین نے کلثوم نواز کی بیماری کو سیاسی ڈراما بھی قرار دیا، مگر 11 ستمبر 2018ء کو جب لندن سے ان کے انتقال کی خبر آئی تو ان مخالفین کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
بیگم کلثوم نواز نے29 مارچ 1950ء کو لاہور کے علاقے مصری شاہ میں ڈاکٹر عبدالحفیظ بٹ کے گھر آنکھیں کھولیں۔ ان کے خاندان کا شمار شہر کے ممتاز اور معزز گھرانوں میں ہوتا تھا کہ ان کے نانا عالم گیر شہرت کی حامل شخصیت رستم زماں گاما پہلوان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کلثوم نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسۃ البنات سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان لیڈی گریفن اسکول سے پاس کرنے کے بعد ایف ایس سی اور بی ایس سی کی ڈگریاں اسلامیہ کالج کوپر روڈ سے حاصل کیں، جس کے بعد جامعہ پنجاب میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا، جہاں اپنے استاد ڈاکٹر عبادت بریلوی کی ہدایت پر ڈاکٹر آغا سہیل کی رہنمائی میں رجب علی بیگ کے ’’فسانۂ عجائب‘‘ پر اپنا مقالہ ’’رجب علی بیگ کا تہذیبی شعور‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا، جو 1985ء میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ کلثوم کے بھائی عبداللطیف کی شادی شریف خاندان میں ہوئی تھی، اس تعلق داری کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے میاں محمد شریف نے اپنے بیٹے کے لیے کلثوم کا رشتہ مانگا اور 2 اپریل 1971ء کو نواز اور کلثوم رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کی اولاد میں دو بیٹے حسن اور حسین، اور دو بیٹیاں مریم اور اسماء شامل ہیں۔ لندن میں 22 اگست 2017ء کو طبی معائنے کے دوران بیگم کلثوم نواز کو گلے کا سرطان تشخیص ہوا۔ تب سے اب تک وہ مسلسل لندن کے اس نجی اسپتال ’’ہارلے کلینک‘‘ میں زیر علاج رہیں۔ اس دوران کچھ دیر کے لیے ان کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی، تاہم اتوار 8 ستمبر کو ان کی طبیعت اچانک پھر بگڑ گئی تو دوبارہ انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا، مگر اِس دفعہ وہ سنبھل نہ سکیں اور 11 ستمبر کو 68 برس کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
حق مغفرت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والی میں۔
نوازشریف اور ان کی سیاست سے اتفاق اور اختلاف سے بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیگم کلثوم نواز نے ہر طرح کے سرد وگرم حالات میں ایک وفا شعار مشرقی بیوی کی حیثیت سے اپنے خاوند کا ساتھ نبھایا۔ تین بار خاتونِ اوّل کا اعزاز حاصل کرنے کے باوجود ان کے کردار میں کسی قسم کا جھول دیکھنے میں نہیں آیا۔ اپنی دینی و خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے چادر کو کبھی اپنے سر اور سینے سے سرکنے نہیں دیا۔ خاندان کے مشکل وقت میں سیاست میں بھرپور اور جرأت مندانہ کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے فوجی آمریت کا استقامت اور پامردی سے مقابلہ کیا، مگر جدوجہد کے اس دور میں بھی انہوں نے اپنے شخصی وقار پر کبھی حرف نہیں آنے دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔