فاروق اعظمؓ، بے مثل خبرگیری اور خدمتِ خلق

پہلا خطبۂ خلافت

خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اہلِ مدینہ امید و بیم کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد مسجد نبوی میں جمع ہیں، خلیفۂ دوم فاروق اعظم منبر پر تشریف لاتے ہیں اور خطبۂ خلافت ارشاد فرماتے ہیں:
’’لوگو! جان لو میری سختی دگنی ہوگئی ہے لیکن یہ شدت مسلمانوں پر ظلم و جور کرنے والوں پر ہوگی۔ رہے سلامت روی، میانہ روی اختیار کرنے والے اور دین دار لوگ، تو میں ان کے لیے ایک دوسرے سے بھی زیادہ نرم ہوں گا۔ کسی انسان کو دوسرے انسان پر ظلم و زیادتی نہ کرنے دوں گا، یہاں تک کہ اس کا ایک رخسار زمین پر رکھوں گا اوردوسرے رخسار پر اپنا پائوں رکھوں گا تاآنکہ وہ حق کا اقرار نہ کرلے۔ میں اس سختی کے باوجود پاکیزہ اخلاق اور ستودہ صفات لوگوں کے لیے اپنی گردن سرنگوں رکھوں گا اور لطف و نرمی کا برتائو کروں گا‘‘۔

بے نظیر اندازِ حکمرانی

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ان الفاظ میں اپنی طرزِ حکومت کا پورا نقشہ پیش کردیا تھا جس پر اپنے دورِ خلافت میں عمل پیرا رہے اور حکمرانی کی ایسی بے نظیر مثال قائم کی جو ہمیشہ دنیائے انسانیت کے لیے نمونہ اور بطور مثال پیش کی جاتی رہے گی۔ فتوحات کا جو سلسلہ صدیق اکبرؓ نے شروع کیا تھا اس کا دائرہ وسیع کرکے مصر، شام، عراق اور ملکِ فارس کو خلافتِ اسلامیہ کا جزو بنادیا۔ اس کا نظام مستحکم، عادلانہ اور رعایا کے تحفظ اور امن و سلامتی کی پائیدار بنیادوں پر قائم کیا۔ ذرائع آمدنی میں اضافے ہوئے اور خوشحالی شروع ہوگئی، مگر خود فقر و درویشی اور ایثار کی اتنی زبردست مثال قائم کی کہ رہتی دنیا تک اس کی یاد تازہ رہے گی۔ اپنے روزمرہ کے کھانے میں تیل اور سیاہ روٹی کے سوا کچھ اور نہ کھاتے تھے۔ فرمایا کہ میں نے یہ عہد کیا ہے کہ میں اُس وقت تک گھی اور گوشت نہ کھائوں گا جب تک اس سے تمام مسلمانوں کو سیری حاصل نہ ہوجائے۔ ایک بار ان کے کھانے میں شہد یا گھی شامل تھا، فرمایا کہ کیا سب مسلمانوں کو شہد مل رہا ہے؟ جواب ملا کہ نہیں، تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا کہ لے جائو، تب میں بھی نہیں کھا سکتا۔

انسانی تاریخ میں رعایا کے پہلے خبرگیر حکمراں

انسانی تاریخ میں حضرت عمرؓ پہلے سربراہِ مملکت ہیں جنہوں نے دن کے علاوہ راتوں کو جاگ کر اپنی رعایا کی خبرگیری کا کام اپنے ذمے لیا اور اس کی ایسی مثال قائم کی جو تاقیامت نمونہ بنی رہے گی۔ تو آیئے دیکھیں مدینہ طیبہ عالم انسانیت کا دھڑکتا ہوا دل اور امیدوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ روم و ایران، شام و مصر اور اس دور کی آباد دنیا کے قافلے اور حاجت مند اس کا رخ کرتے ہیں، پردیس سے نکلے ہوئے لوگ کبھی شہر سے باہر پڑائو ڈال دیتے ہیں اور صبح کا انتظار کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے خادم اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات عمرؓ کے ساتھ نکلا، چلتے چلتے مدینہ منورہ سے خاصی دور نکل گئے، ہمارا مقصد باہر اور دور کی آبادیوں کی دیکھ بھال اور ان کی خبرگیری کرنا تھا، اچانک ہماری نظر ایک جلتی ہوئی آگ پر پڑی، حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’لگتا ہے کہ کچھ قافلے ہیں، رات اور ٹھنڈک کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، چلو وہاں چلیں، دیکھیں، شاید انہیں کوئی ضرورت ہو‘‘۔ ہم تیز تیز چل کر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت ہے، اس کے ساتھ چند بچے ہیں، آگ پر ایک ہانڈی رکھی ہوئی ہے اور بچے چیخ چیخ کر رو رہے ہیں۔ عمرؓ نے سلام کیا اور کہا کہ کہو کیا حال ہے؟ عورت نے جواب دیا: ٹھنڈک اور رات کی وجہ سے ہم یہیں ٹھیر گئے۔ فرمایا: یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ جواب دیا: شدتِ بھوک سے۔ پوچھا: اس ہانڈی میں کیا ہے؟ جواب ملا: صرف پانی ہے، بہلانے اور چپ کرانے کے لیے رکھ دیا تاکہ سوجائیں، خدا عمرؓ کو سمجھے۔ اور وہ حضرت عمرؓ کو کوسنے اور بددعا دینے لگی۔ حضرت عمرؓ نے کہا: خدا تیرا بھلا کرے، بھلا عمر کو کیا معلوم کہ تم کس حال میں ہو؟ عورت نے بڑی رعب دار آواز اور غصہ سے کہا کہ ہمارے خلیفہ ہیں اور ہمارے حال سے غافل و لاپروا ہیں۔ اسلم کہتے ہیں کہ امیرالمومنینؓ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: چلو چلیں۔ ہم انتہائی تیز رفتاری سے واپس ہوئے اور آٹے کے گودام میں سے آٹے کی ایک بوری نکالی، گھی کا ایک پیپا لیا اور مجھ سے کہا: میری پیٹھ پر لاد دو۔ میں نے کہا کہ امیرالمومنینؓ یہ کام میرا ہے، میں لے چلتا ہوں۔ فرمایا: خدا تمہارا بھلا کرے کیا تم قیامت کے روز میرا بوجھ اٹھائو گے؟ یہ خلیفہ دومؓ ہیں جن کے نام سے روم و فارس کی سلطنتیں لرز اٹھتی ہیں، دیکھیے وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری اور گھی کا پیپا لادے ہوئے اس پردیسی عورت اور بچوں کے خیمہ میں پہنچے۔ بوری رکھ کر تھوڑا سا آٹا نکالا، عورت سے کہا کہ میں ابھی کھانا تیار کیے دیتا ہوں۔ اور اسی ہانڈی کے نیچے آگ پھونک پھونک کر جلانا شروع کی۔
اسلم کہتے ہیں کہ امیرالمومنین کی داڑھی بڑی اور گھنی تھی، میں دیکھ رہا تھا کہ دھواں داڑھی کے اندر سے نکل کر فضا میں گم ہوجاتا ہے۔ کھانا خود ہی تیار کیا اور ہانڈی اتاری، عورت سے برتن مانگا۔ وہ ایک بڑا برتن لے آئی۔ آپ نے ہانڈی سے برتن میں نکال دیا۔ پھر فرمانے لگے: بچوں کو کھلائو، میں کھانا ٹھنڈا کرتا رہوں گا۔ کھانا ٹھنڈا کرکے دیتے رہے، یہاں تک کہ بچے شکم سیر ہوگئے، جو کھانا بچا وہ اس عورت کو دیا اور واپسی کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اسلم کہتے ہیں کہ جب امیرالمومنین رخصت ہونے لگے تو عورت کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تم کو نیک بدلہ دے، خلافت کے لائق تو تم تھے نہ کہ امیر المومنینؓ! آپ نے فرمایا: دعائے خیر کرو، صبح امیرالمومنین کے پاس آنا، وہاں تم مجھ کو پائو گی اور ان شاء اللہ تمہارے گزارے کے لیے بھی بہتر فیصلہ کیا جائے گا۔ وہاں سے امیرالمومنینؓ تھوڑے فاصلے پر جاکر چھپ کر بیٹھ گئے، کہ وہ خیمہ کے اندر کا حال دیکھ رہے تھے اور انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا اور کچھ کام ہے؟ خاموش رہے۔ میں نے دیکھا کہ بچے کھیلنے کودنے اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے اور تھوڑی دیر کے بعد پُرسکون نیند میں ڈوب گئے۔ امیرالمومنینؓ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا: اسلم! بھوک نے ان بچوں کو بے خوابی میں مبتلا کردیا تھا اور اسی کی وجہ سے بلبلا کر رو رہے تھے، میں نے اس آخری منظر کو دیکھے بغیر جانا پسند نہ کیا۔

خدمتِ خلق اور خبرگیری کی ایک اور جھلک

ایک دن بازار سے گزر رہے تھے، ایک عمر رسیدہ بوڑھے پر نظر پڑی کہ وہ صدقہ خیرات کے لیے ہاتھ پھیلائے گھوم رہا ہے۔ آگے بڑھ کر پوچھتے ہیں: تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں ایک بوڑھا آدمی ہوں، جزیہ کی ادائیگی اور گزارے کے لیے کچھ مانگ رہا ہوں۔ وہ شخص مدینہ منورہ کا ایک یہودی باشندہ تھا۔ حضرت عمرؓ کا دل بھرآیا اور رقت آمیز لہجے میں فرمایا: بڑے میاں ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہ کیا، ہم نے تم سے جوانی میں جزیہ وصول کیا اور بڑھاپے میں بے سہارا چھوڑ دیا۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے اور جو کچھ گھر میں تھا، لاکر دے دیا۔ پھر بیت المال کے انچارج کو کہلایا کہ ان بڑے میاں اور ان جیسے بوڑھوں اور ضعیفوں کے لیے بیت المال سے اتنا روزینہ مقرر کردیا جائے کہ جو ان کے اور ان کے گھر والوں کے لیے کافی ہوجائے‘‘۔
ان کے اپنے گھر کا ایک بے مثال واقعہ ملاحظہ ہو۔ مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزر رہے ہیں، صاحبزادہ عبداللہ بن عمرؓ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، اچانک ایک لاغر سی چھوٹی سی بچی لڑکھڑاتی ہوئی گرتی پڑتی نظر آئی، فرمایا: ہائے کس قدر لاچار، بے کس اور پریشان حال ہے، اس بچی کو کون جانتا ہے؟ صاحبزادہ عبداللہؓ نے کہا: امیرالمومنینؓ کیا آپ اسے نہیں پہچانتے؟ فرمایا: نہیں۔ صاحبزادے نے کہا: یہ آپ کی بچی ہے۔ فرمایا: میری کون سے بچی ہے؟ جواب دیا کہ یہ فلانہ عبداللہ بن عمرؓ کی لڑکی ہے، یعنی حضرت عمرؓ کی پوتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا: کیسے اس کا یہ حال ہوگیا ہے؟ صاحبزادے نے کہا کہ آپ نے ان پر تنگی کررکھی ہے۔ امیرالمومنینؓ نے فرمایا: خدا کی قسم میرے پاس سے تمہیں وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے خواہ پورا پڑے یا تنگی سے زندگی بسر کرنی پڑے۔ یہ میرے اور تمہارے لیے خدا تعالیٰ کا حکم ہے، میری مجال نہیں کہ میں اس حکم کی خلاف ورزی کروں۔
کیا تاریخ انسانی اس کی کوئی نظیر پیش کرسکتی ہے؟

دودھ پیتے بچے کی چیخ و پکار اور عدلِ فاروقی

خلیفۂ دوم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ معمول کے مطابق باہر سے آنے والے قبیلوں، مسافروں اور پردیسیوں کی خبرگیری کے لیے رات کے گشت پر نکلے ہوئے ہیں، مدینہ منورہ کی وادی عتیق میں داخل ہوتے ہیں، ان کے ہمراہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی ہیں، اچانک دونوں کی نظر ایک تاجر قافلے پر پڑتی ہے جس میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ حضرت عمرؓ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: آئو آج رات ان کی پہرے داری کریں۔ اسی اثنا میں ایک بچے کے رونے کی آواز آتی ہے، حضرت عمرؓ آواز سن کر اس بچے کی جانب جاتے ہیں اور بچے کی ماں سے کہتے ہیں: خدارا اس بچے کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ماں کو توجہ دلا کر اپنی جگہ واپس آگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد رونے کی آواز پھر سنی، دوبارہ گئے اور ماں سے کہا کہ خیال رکھو اور اس بچے کو سلادو۔ ماں کو نصیحت کرکے اپنی جگہ پر واپس آگئے۔ رات کے آخری پہر پھر بچے کے رونے سے پریشان ہوگئے، بچے کی ماں کے پاس آکر کہا کہ تم اچھی ماں نہیں لگتی ہو، آج رات اس بچے کو آرام نہیں ملا اور یہ روتا ہی رہا۔ ماں کو معلوم نہ تھا کہ یہ صاحب امیرالمومنینؓ ہیں، اس نے غضبناک ہوکر جواب دیا کہ خدا کے بندے تم نے تو آج ہمیں تنگ کرڈالا، تم کو اس سے کیا سروکار! میں اس بچے کا دودھ چھڑا رہی ہوں اور وہ چھوڑ نہیں رہا ہے۔ آپؓ نے نرمی سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں کررہی ہو اور آخر یہ زبردستی کیوں ہے؟ ماں نے جواب دیا: ایسا میں اس لیے کررہی ہوں کہ عمرؓ دودھ پیتے بچے کو وظیفہ نہیں دیتے، صرف اسی وقت بچے کا روزینہ مقرر کرتے ہیں جب وہ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے۔ فرمایا: اس کی عمر کتنی ہے؟ جواب دیا: اتنے ماہ کا ہے۔ فرمایا: خدا تمہارا بھلا کرے جلدی نہ کرو۔
حضرت فاروق اعظمؓ کو اس واقعے نے بے حد متاثر و دل گرفتہ کیا۔ فجر کی نماز کے دوران آنسو جاری رہے، گریہ و زاری کی وجہ سے لوگ پورے طور پر قرأت نہ سمجھ سکے۔ سلام پھیرتے ہی فرمایا: بدنصیب عمر کتنے مسلمان بچوں کے قتل کا سبب بنا۔ ایک شخص کو مخاطب کرکے فرمایا: جائو پکار پکار کر اعلان کردو کہ اے لوگو اپنے بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کرو، ہم ہر مسلمان بچے کے لیے پیدا ہوتے ہی وظیفہ مقرر کردیں گے۔ اور ملک کے سارے علاقوں اور صوبوں میں اس بات کی منادی کرادی گئی۔

خلیفۃ المسلمین کی اہلیہ کی خدمات

حضرت عمرؓ آج شب میں پھر حسبِ معمول خبرگیری کے لیے نکلے ہوئے ہیں، مدینہ منورہ کے ایک کشادہ میدان سے گزر رہے ہیں۔ ناگاہ، بالوں کا بنا ہوا ایک خیمہ ہے، اس کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی ہے، خیمے کے دروازے پر ایک آدمی فکر و تشویش میں ڈوبا ہوا بیٹھا ہے۔ حضرت عمرؓ آگے بڑھ کر اس شخص کو سلام کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ جواب ملتا ہے: بدوی ہیں، امیرالمومنینؓ سے تعاون اور امداد کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ پوچھا: خیمے کے اندر سے یہ آواز و کراہ کیسی ہے؟ وہ بدوی نہیں جانتا تھا کہ یہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ ہیں، کہا کہ میاں اپنا کام کرو، ایسی بات مت پوچھو جس سے تمہارا واسطہ نہ ہو، جائو خدا تمہارا بھلا کرے۔ حضرت عمرؓ نے بڑی محبت اور نرمی سے اصرار کرکے پوچھا، نہیں بتائو گے کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ عورت کے یہاں ولادت کا وقت قریب ہے اور دردِزہ میں مبتلا ہے، اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ یہ سنتے ہی بڑی تیزرفتاری سے گھر واپس گئے اور اپنی اہلیہ حضرت ام کلثومؓ بنتِ علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ خدا نے تمہیں ثواب کا ایک موقع دیا ہے، کیا ثواب حاصل کرنا چاہتی ہو؟ پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ ان سے اس بدوی کا حال بیان کیا اور پھر فرمایا: اپنے ساتھ نومولود بچے کے لیے کچھ کپڑے اور عورت کے لیے تیل وغیرہ لے لو، اور ایک پتیلی گھی اور کچھ کھانے کا سامان بھی لے لو۔ اہلیہ سب سامان لے کر نکلیں تو آپ نے پتیلی اور سامان وغیرہ خود اٹھایا اور وہ آپؓ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوگئیں۔
بدوی کے خیمے پر پہنچے، بیوی اندر داخل ہوگئیں اور خود بدوی کے پاس بیٹھ کر آگ جلانے اور کھانا پکانے لگے۔ بدوی بیٹھا ہوا دیکھتا رہا، اسے یہ علم نہ تھا کہ یہ کون ہیں؟ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمرؓ کی اہلیہ نے آواز دی کہ امیرالمومنینؓ! اپنے دوست کو لڑکے کی مبارکباد دے دیجیے۔ بدوی یہ سنتے ہی سناٹے میں آگیا اور لرزکر دور جاکھڑا ہوا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر بیٹھو اور گھبرائو نہیں۔ پتیلی اٹھاکر اپنی بیوی کو دی اور کہا کہ عورت کو کھلا پلا دو۔ جب وہ کھا چکی تو امیرالمومنینؓ نے بدوی کے سپرد کی اور فرمایا کہ لو کھالو اور آرام کرلو، تم رات بھر جاگتے رہے اور بے آرام رہے۔
امیرالمومنینؓ کی اہلیہ خیمے سے نکلیں تو آپؓ واپس ہونے لگے۔ اس بدوی کو سلام کیا اور فرمایا: کل ہمارے پاس آنا، ہم تمہارے ساتھ تعاون کریں گے۔ جب وہ شخص امیرالمومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اس کے بچے اور اس کے لیے وظیفہ مقرر فرمادیا۔

دیانت داری کا صلہ

حسبِ معمول رات کے گشت کے دوران مدینہ منورہ کی آبادی کے ایک کنارے پر ہیں، دفعتاً ایک آواز سنائی دیتی ہے ’’بیٹی جلدی اٹھو، دودھ نکال کر اس میں تھوڑا پانی ملادو، صبح ہونے جارہی ہے‘‘۔ بیٹی کی آواز ابھرتی ہے ’’اماں جان! امیرالمومنینؓ نے دودھ میں پانی ملانے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ ماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’ارے تُو پانی ملادے، امیرالمومنینؓ یہاں کہاں دیکھ رہے ہیں؟‘‘ بچی نے اپنی پوری قوتِ ایمانی سے جواب دیا ’’اماں جان! اگر امیرالمومنینؓ نہیں تو امیرالمومنینؓ کا آقا اور ہمارا مالک و مولیٰ تو دیکھ رہا ہے!‘‘ امیرالمومنینؓ اس ایمان افروز جملے کو سنتے ہی آگے بڑھتے ہیں اور اس گھر پر نشان لگادیتے ہیں اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہیں، اور بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ خدائے عزو جل کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایمان و امانت داری امتِ مسلمہ کی رگوں میں رواں دواں ہے۔ اتنے میں موذن فجر کی اذان دیتا ہے۔ حضرت فاروق اعظمؓ سجدے سے سر اٹھاتے ہیں اور سنت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ نماز کے بعد اپنے صاحبزادے حضرت عاصمؓ کو بلاکر کچھ مشورہ کرتے ہیں، رات جس گھر پر نشان لگا آئے تھے اس کے متعلق کچھ معلومات کرتے ہیں اور آخر میں اس نیک بخت لڑکی سے اپنے صاحبزادے حضرت عاصمؓ کی شادی کردیتے ہیں۔ اس جیسی خدا ترس، دیانت دار، دین دار بچی کا اس سے بہتر اور کیا صلہ ہوسکتا ہے! اسی بچی کے بطن سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ پیدا ہوئے جنہوں نے عصراموی میں خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور بہت ہی مختصر مدت میں عہدِ فاروقی کی یاد تازہ کردی۔ ملوکیت کو خلافت میں، عیش و تنعم کی زندگی کو فقر و درویشی میں تبدیل کردیا۔ خدا ان سے راضی ہو اور امتِ مسلمہ کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے اور احکام شریعت کو زندگی کے ہر گوشے میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)