ڈاکٹر حسن صہیب، سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت

۔ ۔ ۔ ۔ امیر العظیم ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر حسن صہیب مراد جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، جماعت اسلامی کے نائب امیر انجینئر خرم جاہ مراد کی دلی مراد تھے۔ ان کے دادا کا تعلق سرگودھا سے تھا جنہوں نے رسول پور(گجرات) سے سول انجینئرنگ کرنے کے بعد گوہر گنج بھوپال میں ملازمت اختیار کی۔ خرم مراد بھوپال میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے پر کراچی میں آباد ہوگئے۔ این ای ڈی انجئیرنگ سے سول انجینئرنگ کی۔ میرٹ پر وظیفہ لے کر  امریکہ سے ایم ایس کیا۔ کراچی آکر ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنٹ انجینئرز میں ملازمت شروع کی اور کمپنی کی طرف سے ڈھاکا ٹرانسفر ہوئے۔

حسن صہیب کی ابتدائی تعلیم ڈھاکا میں ہی ہوئی۔ لیکن گریجویشن کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی سے 1982ء میں کی۔ این ای ڈی یونیورسٹی ہی سے ایم بی اے کیا۔ ان کا اعزاز رہا کہ چار سال کے ڈگری پروگرام میں مسلسل ڈین میرٹ ایوارڈ حاصل کیا۔2001ء میں یونیورسٹی آف ویلز برطانیہ کا رخ کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

حسن صہیب سے میرا ذاتی تعلق 1980ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔ وہ کراچی میں اور میں لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کرتے تھے۔ جمعیت کی شوریٰ، تربیت گاہ اور سالانہ اجتماع میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن 1987ء کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت لاہور آگئے۔1990ء میں انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ (IML) قائم کیا۔ پھر اس انسٹی ٹیوٹ کو عالی شان یونیورسٹی کی شکل دینے کے لیے رات دن وقف کردیے۔ یہ اللہ رب العزت کا اُن پر خاص کرم تھا کہ مختصر عرصے میں بین الاقوامی سطح کی ایک یونیورسٹی کو تن تنہا کھڑا کردیا۔

ڈاکٹر حسن صہیب کو نشیب و فراز میں اپنے رب سے غافل نہیں دیکھا۔ ایک دل آویز مسکراہٹ ہر وقت ان کے چہرے پر چھائی ہوتی۔ بے شمار لوگوں کا کیریئر بنانے میں ان کی ذاتی دلچسپی اور رہنمائی کا دخل رہا۔ یونیورسٹی کے ریکٹر اور چیئرمین بننے کے باوجود انہوں نے اپنی شخصیت کی جاذبیت کو برقرار رکھا۔

 ہر طرح کے تکلفات اور رسم و روایت کو چھوڑ کر ہر شخص سے بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملتے جیسے اسے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے الفاظ ان کی لطیف حسِ مزاح کا پتا دیتے۔ ایک بار ان سے ملنے والا بار بار ملتا، البتہ ان کے سامنے بیٹھے فرد کو یہ احساس ضرور رہتا تھا کہ وہ ایسی علمی شخصیت کے روبرو ہے جو کسی بھی شعبۂ علم میں اس کے علم کو غیر محسوس انداز میں نئی جہت دے رہی ہے۔

ان سے بات کرنے والا نئے تصورات کا جہان لے کر رخصت ہوتا۔ یہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ وہ اس خیال سے دور رہتے کہ انہیں کسی نوعیت کی علمی دھاک بٹھانا ہے۔

ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ممکن ہے کہ آسان ہو، لیکن میری جستجو یہی ہے کہ مجھے نام کے بجائے میرے کام سے پہچانا جائے، میری کوشش ہوتی ہے کہ نئے نئے راستے نکالے جائیں، نئے علوم کو روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پیچھے رہ کر کام کرنے والے دنیا پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں، اور خود کو پیش کرنے والے خود تنہا ہوجاتے ہیں۔

حسن صہیب مراد ایک عظیم باپ، امتِ مسلمہ کے دانش مند راہ نما خرم مراد کے فرزند تھے۔ جس طرح خرم مراد علم و حلم کی ٹھنڈی چھائوں تھے اسی طرح ان کا یہ بیٹا عاجزی اور انکسار کا شجرِ سایہ دار بنارہا۔ یونیورسٹی میں موجود اور سابق طلبہ و طالبات کی تعلیمی ذمے داری میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے، انہوں نے علم کو قیادت سے جوڑا، اور قیادت کو عمل کی معراج بنایا۔

ڈاکٹر حسن صہیب مراد اہم قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں میں بالکل جدید موضوعات پر پُرمغز مقالے پڑھتے رہے۔ دنیا بھر کے جرائدِ علمی میں ان کے اَن گنت تحقیقی و علمی مضامین شائع ہوئے۔ ان کی تصنیفات کی تدوین کی جائے تو درجنوں کتب تیار ہوسکتی ہیں۔
پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی محدود دنیا کو انہوں نے اپنے کام سے لامحدود کردیا۔

جن شعبہ جات میں کبھی سوچا بھی نہ گیا تھا کہ ان میں بھی ڈگری پروگرام ہوسکتے ہیں ان کو شروع کیا۔ ان پروگراموں کو بین الاقوامی سطح کی جامعات میں تسلیم کرایا۔ ان پروگراموں کے ابتدائی کورسز اور سمسٹرز پورے کرنے والوں کو برطانیہ و امریکہ کی جامعات میں داخلے ملے۔ تعلیمی بے مائیگی دور کرنے میں حسن صہیب مراد کا یہ کارنامہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کی پیروی دوسرے ادارے بھی اب کررہے ہیں۔

حسن صہیب مراد نے اپنے عظیم والد کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں بتایا تھا کہ خرم مراد حج سے واپس آئے تو مجھ سے کہا کہ میں خانہ کعبہ میں تمہارے لیے دعا کرکے آرہا ہوں کہ اللہ تمہیں سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت دے۔ آج وہی حسن صہیب مراد سعادت کی زندگی گزار کے شہادت کی موت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔

میں کچھ عرصے سے اُن سے ہر ملاقات میں عرض کرتا تھا کہ اب ذرا دم لے کر کام کریں، بہت زیادہ بوجھ مت اٹھائیں، ہر وقت یونیورسٹی کو وسیع تر کرنے کی فکر سے کچھ آزاد ہوں۔ لیکن ’’نرم دم گفتگو، اور گرم دم جستجو‘‘ ڈاکٹر صہیب میری بات سے اتفاق کے باوجود اپنا کام جاری رکھے رہے۔

یہ تو اب ان کی حادثاتی موت سے اندازہ ہوا کہ قدرت نے ان سے جتنا کام لینا تھا وہ اس کے لیے رات دن ایک کرگئے۔ ان کی زندگی سعادت کی زندگی تھی لیکن ان کی موت بھی شہادت بن گئی۔

۔9 ستمبر کو ڈاکٹر حسن صہیب اپنے بیٹے ابراہیم کے ساتھ پاک فوج کے ادارے FCNAکی سالانہ تقاریب اور ان کے بعض تعلیمی اداروں کے وزٹ کے لیے گلگت پہنچے۔ 10ستمبر کو چائنا بارڈر کے قریب سست کے ایک پروگرام سے فارغ ہوکر واپس آرہے تھے۔ گاڑی ان کا بیٹا ابراہیم چلا رہا تھا، اور ساتھ فرنٹ سیٹ پر FCNA کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاویدالحسن تھے، جبکہ ڈاکٹر حسن صہیب اور ان کے ساتھ فوج کے ایک کپتان پچھلی سیٹ پر تھے۔ سہ پہر 4:40 پر جب وہ خنجراب کے قریب تھے تو گاڑی سڑک کے ساتھ چٹان سے ٹکراکر ملحقہ پتھروں والی زمین پر الٹتی چلی گئی۔ ڈاکٹر حسن صہیب نے تو حادثے کے کچھ ہی دیر بعد اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی، لیکن اپنے پیچھے خیر اور صدقۂ جاریہ کا بڑا کام چھوڑ گئے۔ بے شک اللہ رب العزت ان سے راضی ہوگا۔