فرید الدین احمد
ذیابیطس کی سب سے بڑی وجہ ہماری آرام دہ شہری زندگی ہے۔ قدرت نے خوراک اور جسمانی مشقت میں ایک نازک توازن لازمی قرار دیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ روزانہ اتنی جسمانی محنت ضرور کی جائے جس سے غذا میں شامل بیشتر حرارے توانائی میں تبدیل ہوکر ختم ہوجائیں اور تھوڑے سے ہنگامی حالات کے لیے جسم میں محفوظ رہیں۔
سواری کی سہولت اور شہری زندگی میں کاموں کی نوعیت نے جسمانی مشقت تقریباً ختم کردی۔ دوسری طرف لذیذ اور مرغن کھانوں کی بہتات، چینی اور گلوکوز کے بے محابہ استعمال نے ہماری روزانہ غذا میں حراروں کی تعداد اتنی بڑھا دی ہے کہ جسم کرسی پر بیٹھے بیٹھے ان کی نصف تعداد بھی استعمال نہیں کرسکتا۔ غیر استعمال شدہ غذائی حرارے گلوکوز کی شکل میں خون میں گردش کرتے رہتے ہیں، انھیں جسم میں ذخیرہ کرنے کے لیے انسولین کی معمول سے زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح لبلبے پر دبائو پڑتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کی انسولین بنانے کی استعداد کم ہوجاتی ہے اور ذیابیطس کا مرض شروع ہوجاتا ہے۔
ذیابیطس کا دوسرا بڑا سبب زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کا خبط ہے۔ مقابلہ ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن اس میں حرص و ہوس شامل ہوجائے تو یہ بجائے خود ایک بیماری ہے۔ اس سے پیدا ہونے والا ذہنی دبائو جسمانی افعال کو متاثر کرتا ہے اور ایسے لوگ بالآخر شوگر کے مرض میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔
ایک خاص حد سے زیادہ موٹے لوگوں میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ شدید صدمہ یا طویل عرصے کی افسردگی اور قابلِ لحاظ حد تک بڑھا ہوا بلڈ پریشر بھی اس بیماری کے اسباب میں شامل ہیں۔ کچھ مثالیں ان کے برعکس بھی موجود ہیں۔ صبح باغ جناح میں سیر کرنے والوں کی آنکھیں اس پینسٹھ سالہ شخص سے ضرور آشنا ہوں گی جو نہایت تیز قدموں سے باغ کے تین چکر روزانہ لگاتا ہے۔ دمکتا ہوا چہرہ، سرخ سفید رنگ، آنکھوں سے شوخی اور توانائی کی کرنیں پھوٹتی ہوئی۔ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ شخص گزشتہ اٹھارہ سال سے شوگر کا مریض ہے۔ اس شخص کی کامیابی یہ ہے کہ ذیابیطس کی تشخیص ہوتے ہی علاج شروع کردیا اور اپنی زندگی کو اس بیماری کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا۔
ذیابیطس کا سراغ یوں تو ماضی کے ہر زمانے میں ملتا ہے، تاہم مشینی دور کے آغاز اور جسمانی مشقت کی کمی کے بعد اس میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دیہات کے مقابلے میں شہری مرد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہ بیماری عورتوں میں نسبتاً کم ہوتی ہے۔ 48 فیصد حالات میں یہ چالیس سے ساٹھ سال کی عمر میں حملہ آور ہوتی ہے۔ سات فیصد لوگ 20 سے 40 سال اور چار فیصد بیس سال سے کم عمر میں اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نوجوانوں میں ذیابیطس کی عام وجہ موروثی اثرات ہوتے ہیں، دیگر وجوہ کا ابھی واضح علم نہیں ہوسکا۔
ذیابیطس کیا ہے؟ اس کا عام فہم جواب یہ ہے کہ ذیابیطس ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسانی جسم چینی اور نشاستے کو گلائیکوجن میں تبدیل کرکے اپنے اندر جمع رکھنے اور پھر بوقتِ ضرورت اسے توانائی میں تبدیل کرکے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
لبلبہ نظام ہضم کا ایک اہم رکن ہے۔ معدے کے نیچے واقع یہ عضو دو قسم کی رطوبات بناتا ہے۔ پہلی رطوبت اُن غدودوں سے پیدا ہوتی ہے جو اس کی ساخت کے بیشتر حصے میں شامل ہوتے ہیں۔ اسے پنکریاٹک جوس یا رطوبتِ لبلبہ کہتے ہیں۔ غذا معدے میں ہاضمے کے ابتدائی عمل سے گزر کر چھوٹی آنت کے پہلے حصے ڈیوڈنیم میں پہنچتی ہے تو لبلبے کی یہ رطوبت ایک نالی کے راستے میں آکر اس میں شامل ہوجاتی ہے۔ یہ ہر قسم کی غذا جیسے لحمیات، نشاستے، چینی اور چکنائی وغیرہ کو ہضم کرنے میں حصہ لیتی ہے۔ لبلبے کی دوسری رطوبت 1920ء میں پہچانی گئی، اسے انسولین کا نام دیا گیا۔ یہ رطوبت آنتوں میں نہیں پہنچتی، بلکہ لبلبے سے شریانوں میں براہِ راست جذب ہوکر خون میں شامل ہوجاتی ہے۔
غذا میں شامل شکر اور نشاستہ ہاضمے کے طویل عمل سے گزرکر گلوکوز کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بالآخر یہ گلوکوز بھی شریانوں میں جذب ہوکر خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ گلوکوز کا کچھ حصہ جسمانی ضروریات کے لیے آکسیجن کے ساتھ جلتا اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ انسولین کا کام یہ ہوتا ہے کہ خون میں شامل غیر استعمال شدہ گلوکوز کو گلائیکوجن میں تبدیل کردے تاکہ جسم اسے آئندہ کے لیے ذخیرہ کرلے۔
خرابی کی وجہ سے اگر لبلبہ مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہ کرسکے تو جسم میں خون میں موجود گلوکوز کو جگر میں محفوظ نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار مقررہ حد سے تجاوز کرجاتی ہے اور خون اپنا تناسب برقرار رکھنے کے لیے مجبوراً اس زائد شکر کو پیشاب کے راستے جسم سے خارج کردیتا ہے۔
ذیا بیطس کی ابتدائی علامات یہ ہیں:
٭خون، شکر کی زیادہ مقدار سے نجات حاصل کرنے کے لیے گردوں پر دبائو ڈالتا ہے۔ اس لیے بار بار اور زیادہ مقدار میں پیشاب آتا ہے۔ مریض کو رات کے وقت بھی کئی کئی مرتبہ اُٹھ کر پیشاب کرنا پڑتا ہے۔ پیشاب شکر کی وجہ سے گدلا اور زردی مائل ہوجاتا ہے۔
٭جسم سے پیشاب کے راستے زیادہ پانی نکل جانے سے پیاس میں شدت آجاتی ہے۔ حلق ہر وقت خشک محسوس ہوتا ہے۔
٭غذا کا بیشتر حصہ ہضم ہونے کے بعد چونکہ جسم میں محفوظ نہیں رہ سکتا اور پیشاب کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے، اس لیے معمول سے زیادہ کھانے کے باوجود مریض کو ہر وقت بھوک کا احساس رہتا ہے۔
٭زیادہ کھانے کے باوجود چونکہ بیشتر گلوکوز پیشاب کے راستے خارج ہوجاتا ہے، اس لیے مریض عملاً فاقے سے ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ کیفیت جسمانی کمزوری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
٭علاج بروقت شروع نہ کیا جائے تو شکر کی زیادہ مقدار بغیر استعمال ہوئے خارج ہوجاتی ہے، پھر توانائی کے حصول کے لیے جسم میں جمع چکنائی کے ذخائر بھی ختم ہوجاتے ہیں تو جسم کی بافتیں توانائی میں تبدیل ہونے لگتی ہیں اور وزن تیزی سے کم ہونے لگتا ہے۔
٭شکر سے آلودہ پیشاب عورتوں میں پیشاب کی نالی کے آس پاس شدید خارش پیدا کردیتا ہے۔ یہی خارش دراصل خواتین کو پہلی مرتبہ ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور کرتی ہے اور ذیابیطس کی تشخیص کا سبب بن جاتی ہے۔
٭خون میں شکر کی مقدار بڑھ جائے تو اس میں انفیکشن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا پھوڑا نمودار ہوتا ہے۔ پورے جسم پر پھنسیاں نکل آتی ہیں یا انگلیوں کے ناخن متورم ہوجاتے ہیں۔ معمولی سا زخم بھی مدتوں ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتا۔
ذیابیطس سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن میں بڑی بڑی مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ کاربنکل: خون میں انفیکشن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجانے سے گہری جڑوں والے پھوڑے یا کاربنکل اگر جان لیوا ثابت نہ ہوں تو بھی بڑی عمر کے لوگوں میں شدید تکلیف اور پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ ذیابیطس کے درست علاج ہی سے ان پھوڑوں سے بچا جا سکتا ہے۔
2۔ گینگرین: ذیابیطس کے معمر مریضوں میں جسمانی انحطاط شروع ہوجاتا ہے۔ خون کی شریانیں بھی تباہ ہونے لگتی ہیں۔ اسی وجہ سے بعض جسمانی اعضاء، خصوصاً ٹانگوں اور بازوئوں کو خون کی وافر مقدار فراہم نہیں ہوتی اور وہ گلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ زیادہ پیچیدگی ٹوٹی ہوئی شریانوں سے پیدا ہونے والی رکاوٹ سے ہوتی ہے۔ اعضاء کو خون کی فراہمی رُک جاتی ہے اور ٹانگ یا بازو کو کاٹ کر بھی مریض کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
3۔ موتیا اور آنکھ کی دیگر بیماریاں: صحیح علاج کی غیر موجودگی میں آنکھ دھندلا جاتی ہے، اندرونی ساخت ناہموار ہونے سے مریض درست طور پر دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔
4۔ ذیابیطس بے ہوشی: انسولین کی دریافت سے پہلے بے ہوشی کے ایسے دورے مہلت ثابت ہوتے تھے۔ اب بھی علاج میں غفلت خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والی اس بے ہوشی کا سبب وہ زہریلا مادہ ہوتا ہے جو جسم میں ادھ جلی یا ناقص طریقے سے جلنے والی چکنائی سے جمع ہوجاتا ہے۔ چکنائی کے پوری طرح جلنے کے لیے اسے بھرپور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آکسیجن صرف اُس وقت مہیا ہوتی ہے جب نشاستہ بھی جسم میں درست طور پر جل رہا ہو۔ ڈاکٹر میکلوڈ کے الفاظ ’’نشاستے کی آگ پوری طرح نہ بھڑک رہی ہو تو چکنائی پوری طرح نہیں جلتی اور دھواں پیدا کرتی ہے۔ یہ دھواں نظام ہضم میں زہریلے مادے پیدا کرتا ہے‘‘۔ انسولین کی عدم موجودگی میں جسم نشاستے اور شکر کو محفوظ کرسکتا ہے نہ جلا سکتا ہے۔ اس حالت میں چکنائی بھی جو غذا کا لازمی حصہ ہے، نامکمل طور پر جلتی ہے۔ ادھ جلی چکنائی کی کثافت جسم میں جمع ہوکر وہ زہریلے اثرات پیدا کرتی ہے جس سے ذیابیطس کی بے ہوشی طاری ہوتی ہے اور مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
ذیابیطس دراصل ایک ناقابلِ علاج مرض ہے، جو ایک بار اس میں مبتلا ہوگیا، اسے پھر ساری زندگی اس کے ساتھ ہی گزارنی پڑتی ہے۔ تاہم اب اس بیماری کے مضر اور مہلک اثرات سے بچائو ممکن ہے، لیکن اس کے لیے بروقت، درست اور مسلسل علاج ضروری ہے۔ کچھ سال پہلے ذیابیطس کے شدید مریضوں کے لیے مستقبل تاریک تھا۔ کسی بچے میں ذیابیطس کے مرض کی تشخیص کا مطلب موت کا پروانہ تصور ہوتا تھا اور عام طور پر دو سال کے اندر اس کی موت یقینی خیال کی جاتی تھی، لیکن اب یہ صورتِ حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔
صحت مند جانوروں کے لبلبے سے انسولین حاصل کرنے کی تکنیک دریافت ہونے کے بعد ذیابیطس کے مریضوں کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ ذیابیطس کا شکار ایک بچہ اب ذہنی اور جسمانی طور پر پوری نشوونما پانے کے ساتھ ایک صحت مند اور بھرپور زندگی گزارنے کی توقع کرسکتا ہے، بشرطیکہ اس کا علاج صحیح طور پر کیا جائے۔ وہ زندگی میں اپنا مقام حاصل کرسکتا ہے اور اپنے فرائض انجام دے سکتا ہے۔ بڑی عمر میں اس بیماری کا شکار ہونے والے بھی صحیح علاج کے ساتھ بغیر کسی ناگوار رکاوٹ یا محرومی کے معمول کے مطابق ایک طویل زندگی ہنسی خوشی گزار سکتے ہیں۔
ذیابیطس کے منفی اثرات پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل کیفیات کا حصول ضروری ہے:
1۔ خون میں شکر کی مقدار لازماً معمول کی حدود میں ہو۔
2۔ پیشاب میں شکر موجود نہ ہو۔
3۔ پیشاب زہریلی چیزوں، کیٹونز اور ایسٹیون سے پاک ہو۔
4۔ جسم غذائیت سے پُر اور مضبوط ہو۔
5۔ زندگی کے معمولات بلاروک ٹوک جاری رہیں۔
پہلی تین کیفیات کی تصدیق لیبارٹری ٹیسٹوں یعنی خون اور پیشاب کے امتحان کے ذریعے ہونی چاہیے۔
ہر مریض کو معالج کی براہِ راست نگرانی میں ہونا چاہیے۔ علاج کے آغاز میں مرض کی شدت اور مریض کی عام کیفیت کا بغور مطالعہ کیا جائے اور خون اور پیشاب کے ضروری ٹیسٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے بعد ہی معالج انفرادی طور پر موزوں علاج تجویز کرسکے گا۔ علاج کا انتخاب مریض کی عمر، کیفیت اور شدتِ مرض کے تابع ہوگا۔
ذیابیطس کا آغاز اگر بچپن یا جوانی میں ہو تو علاج پر انتہائی سنجیدگی سے پوری توجہ دینی چاہیے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دن میں ایک، دو یا تین مرتبہ انسولین ضرور دی جائے۔ غذا متوازن، بچے کی روزمرہ مصروفیات کے مطابق اور اس کی نشوونما کا خیال رکھتے ہوئے کافی ہونی چاہیے۔ مریض کے لیے موزوں خوراک نوعیت کے لحاظ سے ناپ یا تول کر دی جائے۔ عورتوں میں سن یاس کے بعد شروع ہونے والا ذیابیطس عام طور پر کم شدید ہوتا ہے لیکن پوری توجہ نہ رکھی جائے تو کسی وقت بھی شدید یا خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ ادھیڑ عمر میں ہونے والے ذیابیطس پر شکر چھوڑ کر اور غذا میں نشاستے کی مقدار کم کرکے قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کی نگرانی اور وقتاً فوقتاً خون اور پیشاب کے امتحانات ہوتے رہنا ازحد ضروری ہے تاکہ مرض پر قابو رہے۔
کیا انسولین لازمی ہے؟ اکثر مریض ڈاکٹر سے یہ سوال ضرور کرتے ہیں۔ اس کا صحیح جواب تو معالج ہر مریض کی انفرادی کیفیت کے مطابق ہی دے سکتا ہے، تاہم اصول یہ ہے کہ اگر کوئی مریض روزمرہ کی تجویز کردہ خوراک سے اپنا وزن برقرار اور معمولاتِ زندگی بحال رکھنے کے باوجود اپنے پیشاب کو شکر سے پاک نہیں رکھ سکتا تو اسے انسولین ضرور لینی چاہیے۔ ایسے مریض جو انسولین کے بغیر محتاط غذا ہی سے پیشاب میں شکر کی شکایت سے نجات حاصل کرلیتے ہیں، ان کو بھی کسی بیماری، مثلاً گلے کے غدودوں کے انفیکشن، انفلوئنزا، یا نمونیے کی صورت میں انسولین کی وقتی ضرورت پڑ سکتی ہے تاکہ جسم بیماری سے مقابلے کے لیے زیادہ توانائی محفوظ رکھ سکے۔ ذیابیطس کے مریض کو آپریشن، خاص طور پر مکمل بے ہوشی کے ذریعے کیے جانے والے آپریشن کے بعد بھی انسولین دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ذیابیطس کی شدت اگر انسولین کی متقاضی ہو تو اس کے استعمال سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
1۔ روزمرہ کی غذا کے استعمال کے باوجود پیشاب شکر، ایسٹیون اور دیگر زہریلے اثرات سے پاک رہتا ہے۔
2۔ مریض میں صحت مند ہونے کا احساس اُجاگر ہوتا ہے۔ مزاج میں شگفتگی آتی ہے اور زندگی کے لیے مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔
3۔ لبلبے کے خلیات کو تھوڑی سی فرصت مل جاتی ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق جو خلیات بیماری کی وجہ سے ضائع ہوجائیں وہ دوبارہ نہیں بنتے، لیکن باقی بچے ہوئے خلیات کو تباہ ہونے سے ضرور بچایا جا سکتا ہے۔ انسولین کے محتاط استعمال سے کام کا بوجھ کم ہوتا ہے اور ان کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
4۔ مریض ذیابیطس کی سنگین پیچیدگیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
اس وقت دو طرح کی انسولین زیر استعمال ہیں:
1۔ فوری طور پر اثر کرنے والی انسولین: یہ انجیکشن کے ذریعے خون میں پہنچتے ہی کام شروع کردیتی ہے اور اتنی ہی تیزی سے اس کا اثر ختم بھی ہوجاتا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے یہی انسولین استعمال کی جا رہی ہے۔
2۔ بتدریج اثر کرنے والی انسولین: یہ انسولین کی نسبتاً نئی قسم ہے، جسم میں پہنچنے کے بعد اپنا کام شروع کرنے میں اگرچہ یہ کچھ دیر لگاتی ہے، لیکن اس کا اثر آہستہ رفتار سے زیادہ دیر تک جاری رہتا ہے۔
کس مریض کے لیے کون سی انسولین موزوں ہے، اس کا فیصلہ معالج ہی کرسکتا ہے۔ ممکن ہے وہ دونوں اقسام کی انسولین اکٹھی استعمال کرکے دونوں کے فوائد سے کام لینے کو ترجیح دے۔ انسولین کسی قسم کی بھی ہو، انسولین کی کمی سے شکر گلائیکوجن کی شکل میں تبدیل ہوکر جسم میں جمع نہیں ہوسکتی، نتیجتاً خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر ضرورت سے زیادہ انسولین لے لی جائے تو خون میں شکر کی مقدار مطلوبہ حد سے کم بھی ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں ایک دم کمزوری کا احساس ہوتا ہے، انگلیاں لرزنے لگتی ہیں، ٹھنڈا پسینہ آتا ہے، دل کی دھڑکن زوردار اور رفتار تیز ہوجاتی ہے، بھوک غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے۔
یہ علامات دو تین چٹکی چینی، ٹافی، ایک دو میٹھی گولیوں، ایک چمچہ شہد، جام یا کسی میٹھے پھل کا رس پینے سے فوری طور پر دور ہوجاتی ہیں، اس لیے ذیابیطس کے مریضوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ چند ٹافیاں یا کوئی اور میٹھی چیز ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں۔ جیسے ہی شکر کی کمی کی علامات ظاہر ہوں، فوراً دوا کی گولی منہ میں رکھ لیں جو اس صورت میں ظاہر ہے ٹافی یا میٹھی گولی کی شکل میں ہوگی اور ذرا بھی ناگوار نہیں ہوگی۔
انسولین کا مریض کچھ عرصے بعد اپنے علاج کے سلسلے میں اتنا تجربہ کار ہوجاتا ہے کہ غلطی سے شکر کی کمی کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے، لہٰذا کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی۔
ذیابیطس کے علاج میں غذا کی حیثیت بنیادی ہے۔ مریض کو اگر صرف دوائیں اور انسولین ہی دی جائے تو بھوک بڑھتی ہے، زیادہ کھانے سے وزن اور وزن سے بیماری میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح مریض مرض اور وجۂ مرض کے ایک لامتناہی چکر میں پھنس جاتا ہے۔
اس بیماری میں غذا کی جتنی اہمیت ہے، اتنی ہی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً تجویز کیا جاتا ہے کہ مریض ایسی غذا کھائے جس میں نشاستہ کم اور لحمیات زیادہ ہوں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مناسب علاج کے ساتھ نشاستے کا استعمال اچھے اثرات پیدا کرتا ہے اور زیادہ پروٹین سے جسم میں کئی طرح کے فاسد مادے پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری غذا نشاستے، لحمیات، چکنائی، حیاتین، معدنیات، نمکیات اور ریشے دار اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔ نشاستہ اور چینی ہضم ہوکر گلوکوز کی شکل میں ہمیں توانائی فراہم کرتے ہیں۔ لحمیات جسم کی نشوونما میں کام آتے ہیں۔ چکنائی گلوکوز کے عمل احتراق کی موجودگی میں خود بھی جل کر توانائی فراہم کرتی ہے۔ وٹامن جسم کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ریشہ آنتوں کا نظام درست رکھنے کے ساتھ جسم میں زائد چکنائی اور یورک ایسڈ کو جذب کرکے جسم سے خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ذیابیطس کے مرض میں چینی اور گلوکوز کا استعمال مناسب نہیں۔ نشاستے کے حصول کے لیے اناج، آلو اور دیگر سبزیاں بہتر ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ توانائی ایک دم خارج نہیں کرتیں۔ عملِ انہضام کے دوران گلوکوز ایک تدریج سے تیار ہوتا اور آہستہ آہستہ خون میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ اس سے خون میں انسولین کی اچانک بڑی مقدار کی ضرورت پیش نہیں آتی اور لبلبے پر دبائو نہیں پڑتا۔
چکنائی توانائی کا منبع ہے۔ ہاضمے کے عمل سے گزر کر یہ خون میں شامل ہوتی ہے اور پھر زیرِ جلد جمع ہوجاتی ہے۔ ضرورت کے وقت یہ توانائی میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کا ایک کام چکنائی میں حل پذیر حیاتین کو جمع رکھنا بھی ہے۔
ذیابیطس کے مریض کے لیے حیوانی چکنائی مضر ہے۔ یہ خون میں ایسی سیر شدہ چکنائیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو شریانوں، دل اور گردوں کے امراض کا باعث بنتی ہیں۔ خوردنی تیل نسبتاً بہتر ہیں، لیکن ان کا استعمال بھی اعتدال سے ہونا چاہیے۔
گوشت چاہے کتنا ہی رُوکھا ہو، اس میں ہر غذائی حرارے کے ساتھ چکنائی کا کم ازکم ایک حرارہ موجود ہوتا ہے۔ لحمیات کے حصول کے لیے ضروری نہیں کہ گوشت ہی کھایا جائے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ دالوں، پھلیوں اور سبزیوں سے ملنے والے لحمیات پر تکیہ کریں۔ دالیں اور سبزیاں ملاکر پکائی جائیں تو معیاری پروٹین حاصل ہوجاتی ہے۔
کچھ مریض وٹامن یعنی حیاتین، معدنیات اور نمکیات زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے خبط میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ رویہ درست نہیں، خصوصاً مصنوعی شکل میں حیاتین کا استعمال اشد ضرورت کے تحت ہی وقتی طور پر کرنا چاہیے۔ روزمرہ کی غذا میں چکنائی، دودھ، دہی، انڈا، کلیجی، مچھلی کا تیل، سبز پتوں والی سبزیاں، گاجر، آم، پپیتا، ٹماٹر، حلوہ کدو، اناج، دالیں اور پھلیاں موسم کے لحاظ سے شامل رہیں تو ہمیں تمام غذائی اجزاء مناسب مقدار میں حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اصل اہمیت متوازن غذا کی ہے۔
مریض کو کبھی مایوسی اور خود رحمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیشہ حاصل نعمتوں کا شکر کرنا چاہیے۔ خوش ہونا چاہیے کہ حکم ’’عمر قید‘‘ کا صادر ہوا ہے، ’’سزائے موت‘‘ کا نہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اب سے چند سال پہلے ذیابیطس کا کوئی مؤثر علاج موجود نہیں تھا۔ مریض کو اپنی باقی زندگی موت کے سائے میں شدید مایوسی کے عالم میں گزارنی پڑتی تھی۔ خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ اب مناسب علاج اور توجہ سے مریض ایک طویل اور پیچیدگیوں سے پاک زندگی گزار سکتا ہے۔