ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی میں بحیثیت پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ علومِ دینیہ کے علاوہ تقابلِ ادیان، نظریۂ پاکستان اور حالاتِ حاضرہ آپ کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ ان کی تحقیقی کتاب ہے جو 2013ء میں کراچی سے شائع ہوئی۔ دوسرا ایڈیشن لاہور سے شائع ہوا اور اب تیسرا ایڈیشن کراچی سے شائع ہوا ہے۔ ہر ایڈیشن میں 5 ہزار کتب شامل ہیں۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کتاب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا : ’’نوجوان نسل کے لیے پاکستان کا مطلب کیا؟ مسلسل سوالیہ نشان بنا ہوا تھا، مگر جواں فکر اُستاد، مؤرخ اور محقق ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب نے دیانت داری، جانفشانی، حوصلے، ہمت، ثابت قدمی، اسلام اور پاکستان دوستی کے جذبے سے زیرنظر مقالہ تحریر فرماکر باور کرادیا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے لکھا ’’آپ نے بے حد سلیس اور سہل پیرائے اور بہت دلنشین اسلوب میں پاکستان کے قیام اور مقاصد پر روشنی ڈالی ہے‘‘۔
معروف مصنف، محقق، صحافی طارق اسمٰعیل ساگر کہتے ہیں: ’’اس میں ایسے بہت سے سوالوں کا جواب موجود ہے جو ہمارے نوجوانوں کے ناپختہ اذہان کو گمراہ کرنے کے لیے کھڑے کیے ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں: ’’مصنف نے خدمت کا حق ادا کردیا ہے اور مستند حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ قائداعظم ہرگز سیکولر نظریات کے حامی نہیں تھے، اور وہ پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان کے پیغام کو ملک بھر میں پھیلانے کا اہتمام کیا جائے‘‘۔
معروف صحافی، دانش ور جبار مرزا کہتے ہیں: ’’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نوجوان نسل کو تحریکِ پاکستان اور حصولِ پاکستان میں اسلاف کی قربانیوں سے آگاہی کے لیے ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ کی اشاعت بہت بروقت قدم ہے۔‘‘
رانا عبدالباقی کہتے ہیں: ’’انہوں نے نظریۂ پاکستان کی شدبد رکھنے والے قومی دانش وروں اور نوجوان نسل کے لیے حقائق پر مبنی کتاب ’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ لکھی ہے جو نظریۂ پاکستان اور برصغیر جنوبی ایشیا میں اسلامی تہذیب و تمدن کے ارتقا کے حوالے سے نہ صرف مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے بلکہ پاکستان میں سیکولرازم اور نام نہاد روشن خیالی کے سیاسی و سماجی ریگ زاروں میں چلتی ہوئی گرم ہوا کے درمیان تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے، جس سے قومی دانش ور اور ہر خاص و عام، بالخصوص قیام پاکستان کے حوالے سے تعلیم و تحقیق کی متلاشی نوجوان نسل بخوبی استفادہ کرسکتی ہے‘‘۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی بزرگ دانش ور، تحریکِ پاکستان کے کارکن پروفیسر آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ کتاب 100 کتابوں کا نچوڑ ہے۔ یہ تحریکِ پاکستان کا ایک منی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ مصنف نظریۂ پاکستان کے مبلغ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور یہ شب وروز پاکستان کے استحکام کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آج جب نوجوان نسل کو گمراہ کیا جارہا ہے، قائداعظم اور نظریۂ پاکستان کی غلط تاویلیں پیش کی جارہی ہیں، ایسے میں نظریۂ پاکستان کے فروغ کے لیے تحقیقی کتابیں بہت ضروری ہیں۔ یہ کتاب ملک کے کونے کونے تک پہنچائی جائے۔ انہوں نے اپنی جانب سے تمام ارکانِ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ کتاب بھجوانے کا اعلان کیا۔پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری نے کہا کہ اس کتاب نے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ ملتِ اسلامیہ کو علامہ اقبال اور قائداعظم کا وژن اگر سمجھ میں آجاتا تو آج ہمارا شیرازہ نہ بکھرتا۔ اس کتاب کو نصاب کا حصہ بننا چاہیے اور ہم اس کے لیے پوری کوشش کریں گے۔ ہمیں نظریۂ پاکستان کو عام کرنا ہے اور یہ کتاب اس سلسلے کی ایک اچھی کاوش ہے۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ ہمارے پاس اچھے دماغ اور اچھے ادارے ہیں جن کی رہنمائی کے لیے یہ کتاب بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے نظریے پر مستحکم طور پر قائم رہنا ہوگا کیونکہ آنے والے دنوں میں ہمیں امتِ مسلمہ کی رہنمائی کرنی ہے جس کی تیاری ابھی سے کرنا ہوگی۔
صاحب زادہ سید سلطان علی نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ کتاب منفرد اور جدید ہے، انہوں نے قائداعظم کے فرمودات کو حقیقی طور پر درست انداز میں پیش کیا ہے، پاکستان جن اجزائے ترکیبی سے وجود میں آیا اُن کا صحیح ادراک بانیانِ پاکستان کے الفاظ ہی سے کیا جاسکتا ہے جو کتاب میں بحسن و خوبی، احسن ترتیب و تنظیم سے شامل کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ یہ تحقیق اقبال اور قائداعظم کے فرمان و پیمان کی عصری معنویت کو صحیح معنوں میں اُجاگر کرتی ہے۔ ڈاکٹر عارف خان ساقیؔ نے کہا کہ آج ہمارے درمیان تحریکِ پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ آزاد بن حیدر کی صورت میں موجود ہے جو ہمارے لیے بڑا اعزاز ہے۔ میڈیا جھوٹ کی غلط تشریح کرتا ہے اور سچ کو چھپاتا ہے۔ اس کتاب میں حقائق کو اجاگر کرکے جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد احمد قادری اور عمیر محمود صدیقی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب سے اینکر پرسن عمر اُفق، مسعود اشرفی و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مہمانِ خصوصی و دیگر مقررین کو خصوصی شیلڈز پیش کی گئیں، جب کہ خصوصی مہمانوں کو کتاب ہدیتاً دی گئی۔ دعائیہ کلمات پر تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ تقریب میں جامعہ کے اساتذہ کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔