’ہندی،ہند و،ہندوستان‘…پرایک نظر

عبدالخالق بٹ
’معارف فیچر‘،اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے زیراہتمام شائع ہونے والا پندرہ روزہ میگزین ہے،جس میں حالاتِ حاضرہ و آئندہ کے ساتھ ساتھ حالاتِ گزشتہ پر اسلامی تناظر میں تجزیے وتبصرے شامل ہوتے ہیں۔ ’معارف فیچر‘کے آن لائن سابقہ شمارے دیکھتے ہوئے معروف محقق مکرمی احمدامام شفق ہاشمی کا مقالہ بعنوان ’ہند،ہندو،ہندوستان،ایک تہذیبی اور لسانیاتی جائزہ‘ پڑھنے کا موقع ملا، جسے پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔سچ پوچھیں تویہ موضوعِ مذکورہ کے موجزن دریا کو مقالے کے کوزے میں بند کرنے کی قابلِ تحسین مساعی ہے۔خوبصورت نثر اور موضوع پر ماہرانہ گرفت نے مقالہ نگاری کاحق ادا کردیا ہے۔علم جغرافیہ سے گہری واقفیت اورہندوعلم الا صنام میں مہارت کے ساتھ ساتھ زبان دانی کا قابلِ رشک جوہراس پر مستزاد ہے۔ معلومات کی فراوانی غماز ہے کہ مضمون عمیق مطالعے کا حاصل ہے،جسے قلم برداشتہ ضبطِ تحریرمیں لایا گیاہے۔مذکورہ موضوع کی اہمیت کے حوالے سے شفق ہاشمی صاحب لکھتے ہیں:
’زیر نظر مضمون کا جو تحقیقی اور فکری پس منظر ہے اس بنا پر اس کا زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچنا غالباً نہایت مناسب ہو گا‘
مضمون کی اسی غیر معمولی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اکیڈمی نے اسے کتابچے کی شکل میں بھی شائع کیا ہے۔
عیب سے پاک صرف رب کی ذات ہے، انسانی کوششوں میں کامل احتیاط کے باوجود کوئی نہ کوئی کمی و کجی رہ جاتی ہے،یہی کچھ اس وقیع مضمون کے ساتھ ہوا ہے جس میں چند تاریخی اور تجزیاتی تسامحات در آئے ہیں،جن کی نشاندہی درج ذیل تنقیدی (نہ کہ تنقیصی) جائزے میں اس خواہش کے تحت کی جارہی ہے کہ کسی آئندہ اشاعت میں انہیںرفع کردیا جائے گا :
1۔وادی سندھ کے جغرافیہ کے ضمن میں درج ہے :
’اگر اس کا ایک دریچہ وادی گنگا کی طرف کھلتا ہے تو کئی دروازے سجستان(موجودہ افغانستان)، خراسان، فارس، کاشغر اور ثمر قند و بخارا کی جانب کھلتے ہیں۔‘
واوین میں درج عبارت میں دومقامات قابل توجہ ہیں اول ’سجستان‘ (موجودہ افغانستان)‘اوردوم ’ثمر قند‘۔
(i)۔سجستان(موجودہ افغانستان):
سجستان(ابتدائی سین اورجیم مکسورہیں) کو قوسین میں’موجودہ افغانستان‘ بتایا گیا ہے،جب کہ سجستان کی حدودموجودہ افغانستان کے غالب اور موجودہ ایران و پاکستان کے جزوی علاقوں پرمحیط تھی۔چونکہ سجستان کو بطور خاص واوین میں موجودہ افغانستان بیان کیا گیا ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری سمجھی گئی ہے۔
(ii)۔ثمر قند یاسمرقند:
یاد ش بخیر ماضی قریب میں ’روح افزاء‘کی قبیل سے ’ثمر قند‘نامی ایک لال مشروب دستیاب تھا، ممکن ہے اب بھی ہو مگر نت نئے اور رنگا رنگ دیسی و بدیسی مشروبات نے لال شربت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔مذکورہ مقالہ میں کم و بیش چار جگہ ’ثمرقند‘مرقوم ہے۔ شاید ’قند‘کی رعایت سے ’سمر‘ کو ’ثمر‘ کردیا گیاہے۔ سمر قندتاریخی اہمیت کا حامل شہر جوجغرافیائے جدید کے مطابق وسط ایشیا ئی ریاست ازبکستان میں واقع ہے۔
2۔ شاہراہِ ریشم کے ذکر میں درج ہے :
’بالائی وادی سندھ سے ابھرنے والی شاہراہِ ریشم…‘
یہاں’ابھرنے والی‘ سے گمان ہوتا ہے کہ شاید شاہراہِ ریشم ’بالائی سندھ‘سے شروع ہوتی ہے۔پھر خاص’بالائی وادی سندھ‘سے کیا مراد ہے،اگر یہاں عربوں کے زیر تسلط ’سندھ‘مراد ہے جس کی سرحدیں ملتان سے آگے تک دراز تھیں، تو بھی اس مقام سے شاہراہِ ریشم کا ’ابھرنا‘محل نظر ہے۔اور اگر ’بالائی وادی سندھ‘سے تبت میں واقع دریائے سندھ کا منبع مراد ہے تو اسے ’بالائی وادی سندھ‘ کہنا ہی درست نہیں۔ رہی بات پاکستان اور چین کے درمیان بننے والی شاہراہِ قراقرم کی، تو یہ شاہراہ اور اس کا شاہراہِ ریشم پکاراجانا دونوں سامنے کی بات ہیں۔
درحقیقت زمانہ قدیم سے ان تجارتی راستوں کو بحیثیتِ مجموعی شاہراہ ریشم ( Route/Road Silk ) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ہزار ہا کلومیٹر پر محیط ان تجارتی راستوں میں سے کوئی بھی راستہ ’بالائی وادی سندھ‘سے نہیں گزرتا اور اگر گزرتا بھی ہو توبھی شاہراہِ ریشم کا یہاںسے ابھرنا حقیقت سے بعید ہے۔
3۔موہنجوداڑویا موئن جودڑو:
مضمون مذکو رمیں ایک سے زیادہ مرتبہ ’موہنجوداڑو‘مرقوم ہے اور اسی ضمن میں مولانا ابوالجلال ندوی ؒ کاحوالہ بطور’ماہرسندھیات‘دیا گیا ہے۔ایسے میں مولانا ابوالجلال ندوی ؒ کے حوالے سے ہی عرض ہے کہ وہ بالالتزام’موئن جودڑو‘لکھتے رہے نہ کہ ’موہنجوداڑو‘۔وجہ اس کی غالباً یہ تھی کہ ’موہن‘لکھنے پر اس کے ڈانڈے ہند آریائی تہذیب سے جڑتے ہیں جب کہ ’موئن‘لکھنے پر اس کا رشتہ عرب النسل ’قوم معین‘جا ملتا ہے۔
4۔ پروہت ( Priest Chief ):
موئن جو دڑو کی ہی ذیل میں درج ہے :
’موہنجو داڑو سے برآمدہ پروہت ( Priest Chief ) کے مجسمے (Bust) کے نقوش اور ملبوس…‘
سطور بالا میں جسے Priest Chief لکھا گیا ہے، اس مجسمے کو اصطلاح میں King priest یا Priest King کہتے ہیں۔مجسمے کو یہ نام اس کے ماتھے پر موجود تعویذ نما تاج، احرامی اندازمیں زیب تن چادراور دائیں کھلے بازو پر موجود بازوبند کی مناسبت سے دیا گیا ہے۔پاکستان کی آزادی کے وقت موئن جو دڑوسے برآمد ہونے والی اشیا سے متعلق ہونے والی تقسیم کے دوران پروہت بادشاہ (King priest) اور رقاصہ (Dancing Girl)،جوبالترتیب مٹی اور کانسی سے بنے ہیں،کے لیے باقاعدہ’ٹاس‘ہواتھا۔پاکستان نے ٹاس جیت کر ’پروہت بادشاہ‘کو چنا اور یوں ’رقاصہ‘انڈیا کے حصے میںآئی،باد ی النظر میںیہ ایک فطری تقسیم بھی تھی۔
5۔اسی سلسلۂ کلام میں درج ہے :
’یہ جو ارض پاک پر بسنے والوں کے خدّ و خال اور بود و باش کے طور طریقے جنوب ایشیا والوں سے کم کم اور وسط ایشیا اور شرق اوسط سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں یہ کوئی اتفاقی حادثہ تو نہیں‘
بے شک یہ اتفاقی حادثہ نہیں تاہم کو ئی غیر معمولی بات بھی نہیں، کیونکہ زیر بحث خطہ ایران،افغانستان اور وسط ایشیاء سے جڑا ہوا ہے۔ان علاقوں سے نامعلوم وقتوں سے اس جانب مہاجرت کا سلسلہ قائم تھا، ایسے میں ’خدوخال اور بودوباش‘سے مماثلت کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔دنیا میںاکثر مقامات پر جہاں دومختلف خطوں کا مقام اتصال ہو،وہاں عام طور پر کم یا زیادہ دونوں خطوں کے افراد و اقوام کی خصوصیات کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں،جو نسلی ہی نہیں دوطرفہ لسانی اور ثقافتی مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ اس کی ایک خوبصورت مثال زیریں پنجاب کا علاقہ ہے جو سندھ و پنجاب سے جزوی مشابہت کے ساتھ منفرد ثقافت اور جداگانہ زبان رکھتا ہے۔
6۔ضمناًآریاؤں کے وطن مولود سے متعلق لکھا ہے کہ:
’اگر ایشیائے کوچک سے آریاؤں کا ٹڈی دل فارس و خراسان کو تاخت و تاراج کرتا وادی سندھ میں نہ در آتا…‘
آریا’ایشیائے کوچک‘سے یہاں تک پہنچے، ثبوت طلب ہے۔اس لیے کہ آریاؤں کے بارے میں عام اندازہ یہی ہے کہ یہ گروہ وسط ایشیا سے اٹھ کرمختلف ادوار میں یہاںتک پہنچا،جبکہ ایشیائے کوچک، مغربی ایشیا کا ایک جزیرہ نما ہے جو اناطولیہ بھی کہلاتا ہے۔ ترکی کا بیشتر حصہ اسی جزیرہ نما پر مشتمل ہے۔
7۔موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی کوکھ:
ہند اسلامی تہذیب کو موئن جودڑواور ہڑپہ کی تہذیب کا تسلسل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی کوکھ سے ایک نئی نسل، نئی زبان، نئی روایات اور بالآخر ایک نئی ہند اسلامی تہذیب جنم لیتی ہے‘
ہند اسلامی تہذیب کا موہنجو داڑو(موئن جودڑو) اور ہڑپہ کی کوکھ سے جنم لینے کا دعویٰ حیرت انگیز ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ عمومی اندازے کے مطابق موہن جودڑو (موئن جودڑو) اورہڑپہ دراوڑی تہذیب کے نمائندہ تھے جو ظہور اسلام سے ہزاروں سال پہلے مٹ چکی تھی۔ خود شفق صاحب کے الفاظ میںہے:
’اگر ایشیائے کوچک سے آریاؤں کا ٹڈ ی دل فارس و خراسان کو تاخت و تاراج کرتا وادی سندھ میں نہ در آتا تو اس کی یہ تہذیب شاید فنا کے گھا ٹ نہ اترتی۔‘
ایسے میں وہ تہذیب جو فنا کے گھاٹ اتر چکی تھی،اس کی کوکھ سے ’ہند اسلامی‘ تہذیب کاجنم لینا چہ معنی دارد؟کیونکہ فتح سندھ کے نتیجے میں اور بعد ازاں شمال مغرب سے آنے والے افغان اور ترک مسلمانوںکو جس ہندو تہذیب کا سامنا کرنا پڑا وہ اصلا ًو عملًا آریائی ذہنیت کی نمائندہ تھی اور اسی ہندآریائی تہذیب سے ارتباط نے ’ہند اسلامی تہذیب‘کو جنم دیا، نہ کہ یہ’موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی کوکھ‘سے برآمد ہوئی۔
8۔قیام پاکستان کو اس خطے میں پہلی ’سیاسی اور ثقافتی وحدت‘ قراردیا گیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں :
’اس طرح وادی سندھ کا یہ وسیع و عریض خطہ ریاست ِ مدینہ کا وارث بن کر مملکت ِخداداد پاکستان کی شکل میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ سیاسی اور ثقافتی وحدت جس سے یہ جغرافیائی حقیقت ہمیشہ محروم ر ہی تھی بالآخر قسّامِ ازل سے اسے وہ بھی عطا ہو جاتی ہے۔‘
یہاں مذکورہ خطے کی ’سیاسی اور ثقافتی وحدت سے ہمیشہ محرومی‘ کی بات مسلمہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے،خاص طور پر سندھ پہلے عربوں کے زیر تسلط رہ کر ایک سیاسی وثقافتی وحدت کا حصہ بنا اور بعد ازاں سندھ سمیت موجودہ پاکستان کا بڑا علاقہ دولت ِغزنویہ کے ماتحت سیاسی وحدت میں شامل رہا۔ یہی کچھ مغلوں کے دور میں بھی رہا۔تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ سرحدیں اور صورتحال تبدیل ہوتی رہی یہاں تک کہ پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔
9۔آگے چل کر لکھتے ہیں :
’غزنوی،غوری، تغلق، خلجی، خاندانِ غلاماں اور مغلیہ دور تک آتے آتے پورا بر صغیر ایک متحدہ ریاست میں ڈھل گیا۔‘
مضمون نگار کی مذکورہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں، تاہم ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ برعظیم کی معلوم تاریخ میں جس قدر عروج مہاراجا اشوک کو حاصل ہوا اور جتنے رقبے پر اس نے حکومت کی اس سے پہلے کسی اورکو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوسکا تھا،تاہم انتہائی جنوبی ہند کا علاقہ اس کی عمل داری میں نہیں آسکا۔بعد ازاں اورنگ زیب ؒ کے عہد میں مغلوں کا قدم کچھ اور آگے پڑا مگر انتہائی جنوب کا علاقہ ان کی بھی دست رس سے باہر رہا۔سچ کہیں توصحیح معنوں میں برعظیم مکمل طور پر(براہِ راست اور ماتحت دیسی ریاستوں کے ذریعے ) انگریزی عہد ہی میں پہلی بار یونین جیک کے زیر سایہ متحد ہوا۔یہ بات عجیب ضرور ہے مگر حقیقت یہی ہے۔
10۔ اراکان، اکیاب اور تکناف:
ہند مسلم تہذیب کے ضمن میں درج ہے :
’اگر ہند اسلامی تہذیب کا سورج بارہ سو سال قبل پور ی آب و تاب سے طلوع نہ ہوا ہوتا تو… کسی ایسی ریاست کا وجود نہ ہوتا جس کی سرحدیں مشرق میں اراکان، اکیاب اور تکناف سے مغرب میں غزنی و قندھار تک اور شمال میں وادی کشمیر سے جنوب میں راس کماری تک وسیع ہوں۔‘
اگر اسے خردہ گیری نہ سمجھا جائے تو عرض ہے کہ یہاں مشرقی سرحد کی نشاندہی کے لیے فقط ’اراکان‘ہی کا فی تھا خواہ مخواہ عام قاری کو ’اکیاب وتکناف‘کے ذکر سے مرعوب کرنے کی سعی نامشکور کی گئی ہے۔وجہ اس کی یہ کہ ’اکیاب‘ اراکان ہی کا دارالحکومت ہے،جس کاموجودہ نام’سائتوے‘ہے، جبکہ ’تکناف‘ اراکان کی سرحد سے متصل بنگلہ دیش کے ضلع کاکسس بازارکا انتہائی جنوبی علاقہ ہے۔
11۔تاریخی مغالعے :
چندر جی کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ
’وہ پاٹلی پتر کے راجہ دسرتھ کے بڑے صاحبزادے تھے‘
غالباً صاحب ِمضمون روانی میں ’راجہ دسرتھ‘کو ’پاٹلی پتر‘کا راجہ لکھ گئے ہیں ورنہ یہ بات معلوم و معروف ہے کہ راجا دسرتھ/دشرتھ ’ایودھیا‘کا راجا تھا اور یہیں رام چندر جی کا جنم ہوا۔ایودھیا / اجودھیامیں واقع تاریخی بابری مسجد کا تنازع رام کی جنم بھومی ہونے کے دعوے کے گرد گھومتا ہے۔
(ii)۔رام چندراور کرشن جی کے درمیان زمانی تفاوت کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
’سری کرشن جی سے تقریباً دو صدی قبل رام چندر جی کا ظہور ہو چکا تھا‘
یوں تو مذکورہ دونوں شخصیات ہی تاریخی وجود نہیں رکھتیں تاہم ان کا جیسا کچھ وجود بھی ثابت ہے اور ان سے متعلق جو معلومات عہد ِجدید تک پہنچی ہیں ان کے مطابق ان دونوں کے درمیان ’دوصدی‘کا نہیں بلکہ دوہزارسال کا فاصلہ بیان کیا جاتا ہے۔ یوں تورام چندرجی کے زمانے کا تعین نہیں ہوسکا تاہم جن لوگوں نے قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں وہ اسے پانچ ہزار قبل مسیح تک لے گئے ہیں جبکہ کرشن جی(پ:3227 ق م) کے عہد کاتعین تین ہزارسال قبل مسیح کیا گیا ہے۔
(iii)۔مہاویر اورمہاتما بدھ کی اصلاحی کوششوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’عیّار برہمن نے پہلے مہاویر جین اور پھر مہاتما بدھ کو اوتار کا روپ دے کر برہمنیت کے دامنِ عافیت میں لینا چاہا، جیسا اس نے چند صدی بعد رام اور کرشن کے ساتھ کیا۔‘
سطور بالا میں ’چند صدی بعدرام اور کرشن کے ساتھ کیا‘کے فقرے سے صاف ظاہر ہے کہ مضمون نگار ’رام اور کرشن‘کو مہاویر اور مہاتما بدھ کے بعد کی شخصیت قراردے رہے ہیں،جب کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے،رام چندر جی وشنو کے ساتویں اور کرشن جی آٹھویں اوتار مانے جاتے ہیں اور یہ دونوں مہاویر اورمہاتما بدھ سے صدہا سال پہلے کی شخصیات ہیں۔تاہم اگر یہاں مضمون نگار کا مقصد یہ بتانا ہے کہ رام و کرشن ہیں تو ان سے پہلے کی شخصیات، مگر انہیں اوتار کا درجہ مہاویر اور مہاتمابدھ کے چند صدی بعد دیاگیا تو یہ بات بھی محلِ نظر ہے۔
12۔چندر گپت موریہ کے پوتے مہاراجااشوک کے بدھ مت قبول کرنے کے بعد کے اقدام سے متعلق لکھتے ہیں:
’وہ اس نئے مذہب کا ایسا مخلص علمبردار بنا کہ اپنی وسیع و عریض مملکت کے طول و عرض میں اس اصلاحی تحریک کا پیغام فولادی یا سنگی ستونوں (Stupas) پر کندہ کر وا کر جا بجا نصب کروا دیا۔‘
بجا طور پر اشوک نے ایسا ہی کیا اور ان ستونوںکا مختصرذکرشفق صاحب نے خود بھی کیا ہے تاہم یہاں مسئلہ فولادی یا سنگی ستونوں سے نہیں بلکہ ان سے متصل قوسین سے ہے جن میں ’Stupas‘درج ہے۔ظاہر ہے کہ اس موضوع سے بالکل بے بہر ہ شخص بھی اگر ستون کے انگریزی معنی جانتا ہے تووہ ستون کے آگے Stupas پڑھ کر فوراً کھٹک جائے گا کیونکہ یہاں Stupas نہیں Pillars ہوناچاہیے تھا۔چونکہ اشوک بدھ مت اختیار کرچکا تھا شاید اس رعایت سے شفق صاحب کے ذہن میں اسٹوپاکہیں نہ کہیں موجود تھا، چونکہ مضمون قلم برداشتہ لکھا گیا اس لیے ستونوں کے ساتھ Stupasدرج ہوگیا۔
13۔سری کرشن جنہیں ہندو کرشن کنہیا،گووند، گوپال، ہری اور جگن ناتھ کے ناموں اورالقاب سے پکارتے ہیں انہیںکرشن مراری بھی کہا جاتا ہے۔شفق ہاشمی صاحب کرشن کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’کرشن مراری کی بنسری کی تان پر رادھا اور اس کی گوپیاں (سہیلیاں جو گئوپال گھرانوں سے تھیں) اس طرح بے خود ہو جاتیں کہ پھر کنھیا جی ہوتے اور وہ‘
قرآن کریم میں ایک سے زیادہ مرتبہ ہر امت کی جانب پیغمبر بھیجے جانے کا ذکر ہے، ایسے میں کیونکر ممکن ہے کہ برعظیم جیسا خطہ اس سعادت سے محروم رہا ہو۔ چنانچہ قرآنی دلیل کی روشنی میں بعض علماوصوفیا نے رام چندرجی، سری کرشن اور مہاتما بدھ وغیرہ کو محتاط طورپر پیغمبر قراردیا ہے، جن کی تعلیمات اور شخصیت کو بعدمیں آنے والوں نے افسوس ناک حد تک مسخ کردیا ہے۔پھریہ معاملہ صرف ہندوؤں تک محدودنہیں، اہلِ یہود نے بھی اس باب میں کچھ کم گل نہیں کھلائے، تورات بعض جلیل القدر انبیاکی جو تصویر پیش کرتی ہے اس کے ذمہ دار خودیہود ہیں نہ کہ اللہ کے پیغمبر۔
ہندومت میں بیان کردہ سری کرشن کے کردار اورپیش کردہ تعلیمات میں کوئی مناسبت نظرنہیں آتی،اسی لیے کسی ایک بات کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں دوسری بات کی از خود نفی ہوجاتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پست کردار کا حامل کوئی بھی شخص کبھی اعلیٰ مقاصد نہیں رکھتا، جبکہ کرشن جی کی تعلیمات اپنے اندر قوتِ عمل کا پیغام لیے ہوئے ہیں، اسی لیے علامہ اقبال نے اسرارِخود ی کے دیباچے میں کرشن جی کی تعلیمات کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا ہے :
’بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترکِ عمل سے مراد ترکِ کلی نہیں ہے کیوں کہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے، بلکہ ترکِ عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دل بستگی نہ ہو۔‘
ایسے میں ہندوتہذیب کے شرمناک پہلوؤں کو کرشن مراری کے حوالے سے بیان کردہ طرزِ عمل سے جوڑنا مناسب نہیں،اس کے لیے حاشیہ میں نہ سہی قواسین میں وضاحت ضروری ہے۔مذکورہ بیان کے علاوہ سیتا کی رہائی کے لیے کسی انسان کاتعاون نہ ملنے پر ہنومان(بندر) کی مددلینے کاطنز اور دیوداسیوں کے ضمن میں شہوت رانی کو ہندو تہذیب میں مقدس قرار دینا جیسے بیان اس لیے وضاحت طلب ہیں کہ عیسائیت میں راہبائیں اور لکھنؤ کے امام باڑوں میں ’امام باندھیاں‘ایک درجے میں یہی کرداراداکرتی رہی ہیں۔چونکہ اس طرح کے بیان کی وضاحت اور تقابل ہندومت کی طرفداری میں شمار کیا جاسکتا ہے لہٰذااس قضیے کو یہیں تمام کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
14۔ لفظ ہند،ہندواورہندوستان کے غیرمقامی ہونے سے متعلق شفق ہاشمی صاحب کا دعویٰ ہے :
’برصغیر کی یہ اکثریتی قوم جو خود کو ہندو اور اپنے دھرم کو ہندومت کہتی ہے، اب تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آخر یہ نام اور نسبت انہیں کہاں سے ملی … قدیم آریائی زبانوں میں ’’ہند‘‘، ’’ہندو‘‘ یا ’’ہندوستان‘‘ نام کے کسی لفظ کا کھوج کوئی بڑے سے بڑا ہندو وِدوان نہ لگا سکا ہے اور نہ کبھی لگا سکے گا کہ یہ سرے سے مقامی زبانوں کے الفاظ ہیں ہی نہیں‘
مزید یہ کہ :
’اگر خیرالقرون سے نسبت نے اسے ھند کے نام سے موسوم نہ کیا ہوتا تو وہ نہ خود کو ہندو کہہ سکتی تھی اور نہ اپنے دیس کو فخر سے ہندوستان‘
یہ دعویٰ جتنے زور و شور سے کیا گیا ہے اُتنا ہی کمزور بھی ہے،کسی قوم یا علاقے کے نام کی اصل کا مقامی زبان سے نہ ہونا حقیقت نہیں بدل سکتا۔اگر اس پورے خطے کا نام آریا کی رعایت سے’آریا ستان‘ اور مذہب ’آریامت‘ ہوتا تب بھی زمینی حقیقت میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔’ہندو‘آریائی زبان کا لفظ ہے یا نہیں یہ بحث تھوڑی دیر کے لیے موقوف کرتے ہیں، سردست اس بات کی تنقیح ہوجائے کہ نام کسی بدیہی حقیقت کے وجودو عدم وجود کے اثبات کے لیے ناگزیر ہے یا نہیں۔
اصلاحِ نفس اور قربِ الٰہی کے حوالے سے صوفی سلسلوں کے وجود سے انکار نہیں کیاجاسکتا،خود برصغیر میں فروغِ اسلام میں صوفیا کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اسلامی لٹریچر کا ایک قابل ذکر حصہ اسی صوفیت کے احوال وآثار پر مشتمل ہے۔ اس سب کے باجود کوئی بڑا سے بڑا عربی دان بھی لفظ ’تصوف‘اور ’صوفی‘ کے عربی الاصل ہونے کی کوئی بھی معقول دلیل پیش نہیں کرسکا۔قرآن و حدیث سمیت قدیم عرب لغات بھی اس کے ذکر سے خالی ہیں۔تو کیا اس صورت میں تصوف کا انکار کردیا جائے،یا یہ کہا جائے کہ اگر لفظ ’تصوف یاصوفی‘نہ ہوتا تو اصلاحِ نفس کا یہ سلسلہ ہی قائم نہیں ہوتا۔یقینا کوئی عقل مند اس بات کی تائید نہیں کرے گا۔اگر کوئی ’ہندو‘اتنی ہی شدومد کے ساتھ لفظ ’تصوف اور صوفی‘ کی حقیقت سے متعلق استفسار کرے تو کیا جواب ہوگا ؟
اب بات ہوجائے لفظ ’ہند،ہندواور ہندوستان‘کی کھوج کی ( اس موضوع پر ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کی 17اگست2018ئکی اشاعت میں مختصر بحث ملاحظہ کی جاسکتی ہے )،آریا ؤں کی اس خطے میں آمد شمال مغرب کی جانب سے ہوئی، جہاں راستے میں انہیں کئی دریاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔اس سفر میں انہیں جس سب سے بڑے دریا سے گزرنا پڑا اسے انہوں نے ’سندھو‘کا نام دیا۔ سنسکرت میں ’سندھو‘کا مطلب ’بڑا دریا‘ہے۔اور وید میں لفظ ’سندھو‘ موجودہے۔ یہ’ہندو‘دراصل ’سندھو‘ہی کی متبدل صورت ہے۔
15۔درج ہے کہ :
’آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے لیے لفظ ’’بھارت‘‘ سرکاری سطح پرشمالی ہند میں تو مستعمل ہے مگر ملک کے طول وعرض میں آج بھی اسے ’’انڈیا‘‘ یا ’’ہندوستان‘‘ ہی کہا جاتا ہیــ‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ لفظ ’بھارت‘کوشمالی ہند کی بہ نسبت جنوب میں پذیرائی نہیں ملی،تاہم طول و عرض میں ’آج بھی‘ہندوستان کہے جانے سے یہ تاثرمل رہا ہے کہ شاید ماضی میں بھی اسے’طول و عرض‘ میں ہندوستان ہی کہاجاتا تھا،حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔
جیساکہ سابق میں بیان کیا گیا ہے کہ پورا ہندوستان کاملاً اور کلیتاً پہلی بار انگریزی دورحکومت میں ایک سیاسی وحدت میں ڈھلا جسے انگریزوں نے ’برٹش انڈیا‘ کا نام دیا،یوں برطانوی تسلط کے بعد ہی لفظ ’انڈیا‘کو پورے برعظیم میں کم سے کم محکمہ جاتی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔جہاں تک لفظ’ہندوستان‘ کاتعلق ہے تو ماضی میں اس کا جغرافیائی اطلاق ہمالیہ کے دامن سے وسطی ہند کے مشہور پہاڑی سلسلے ’ست پڑا‘(Satpura)کے درمیانی علاقے پر ہوتا تھا۔ایک موقع پر مراٹھا سردار نے جنوب میں اورنگ زیب عالمگیرؒ کی کارروائی کے جواب میں ’ہندوستان‘پر حملے کی دھمکی تھی۔ہماری اس بات کی تائید‘ علامہ اقبال ؒ کے خط سے بھی ہوتی ہے جو16مارچ1905ء کو ’شاطرمدراسی کولکھا گیا۔،علامہ اقبال ؒ رقمطراز ہیں:
’آپ کی صفائی زبان آپ کے ہم وطنوں کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ میرا خود خیال تھا کہ آپ اصل میں ہندوستان کے رہنے والے ہوں گے۔مگر یہ معلوم کرکے کہ آپ کی پرورش مدراس میں ہوئی، مجھے تعجب ہوا۔‘
اقتباسِ بالا سے صاف ظاہر ہے کہ کم سے کم جنوبی ہند’ہندوستان‘میں داخل نہیں تھا۔پھر فانی بدایونی کو بھی اس حیرت سے دوچار ہونا پڑا،جب انہوں نے دکن میں شمالی ہند کو’ہندوستان‘ اوروہاں سے آنے والوں کو ’ہندوستانی‘ کہتے سنا تو وہ پکار اٹھے :
فانی دکن میں آکے یہ عقدہ کھلا کہ ہم
ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستان سے دور
راقم کو گزشتہ دنوں راولاکوٹ (آزادکشمیر)میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرناپڑاجب ایک کرم فرما نے دورانِ گفتگو مشورہ دیا کہ آپ آزاد پتن کے راستے جائیں تو جلدی ’پاکستان‘پہنچ جائیں گے۔
یہ بات کہ لفظ بھارت کو شمالی ہند کے سوا پورے ملک میں عوامی مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہو سکی، تو اس کا سادہ سا جواب یہ بھی ہے کہ آریہ ورت کے باہر وہ تمام علاقے جو مسلم ہندوستان کی باقیات تھے وہ نہ کبھی بھارت کا حصہ رہے اور نہ تہذیبی اور سیاسی لحاظ سے انہوں نے کبھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں بھی بھارت کا حصہ سمجھا جائے۔
16۔لفظ ’ہند‘اور اس کے مشتقات پر سیر حاصل بحث کے بات شفق ہاشمی صاحب فرماتے ہیں:
’یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی اور ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ ہند اپنے تمام مشتقّات (Derivatives) کے ساتھ عربی الاصل ہے۔
’ہند‘کے عربی الاصل ہونے کی تحقیق کے ساتھ اگر ’سند‘پر بھی غور کرلیا جاتا تو قاموس میں یہ بھی دستیاب ہوجاتاہے۔بقول ابوالجلال ندوی ؒ: ’سند،اسناداور مسندمیں وہی ربط ہے جو عرب،اعراب اور معرب میں ہے‘۔ علاوہ ازیں خالص عربی النسل بچوں کے نام ’السندی‘رکھا جانا بھی کتب میں وارد ہوا ہے۔
اب اگر کوئی عربی میں ’ہند‘کی طرح ’سند‘کی موجودگی پر اسے عربی الاصل قرار دیتے ہوئے بطوراسم علم ’سند‘کو بھی عربوں کی دین کہے توکیا چارہ رہ جاتاہے، جب کہ شفق ہاشمی صاحب،بلاذری کی’فتوح البلدان‘کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ اس خطے کو(عربوں نے)’’بلاد الھند و السند‘‘ کا نام دیا۔
پھر مسلم مورخین کے یہاں تو یہ روایت بھی موجود ہے کہ’ہند و سند‘سام بن نوح کی نسل سے دوبھائی تھے جنہوں نے اس خطے کو آباد کیا اور یہ خطہ ان کی نسبت سے موسوم ہوا۔ اگر ان سب باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے تو سنسکرت کے لفظ ’سندھو‘اور اس کے معنی ’بڑادریا‘ اور اس کا دریائے سندھ پر اطلاق اور اس دریا اوراس خطے کو عربوں کی آمد سے بھی بہت پہلے ایرانیوں کا’ہند‘(دال پر پیش) اور’ہندستان‘کہنا اور یونانیوں کا’انڈوس‘اور ’انڈیکا‘ قراردینا سب بے معنی تسلیم کرلیا جائے،جب کہ ان سب کے حق میں قوی دلائل موجود ہیں۔
بے شک عربی زبان اپنی وسعت اور زورِ بیان میں دنیا کی کسی بھی زبان سے بڑھی ہوئی ہے،تاہم اس میں ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جو نہ صرف سامی زبانوں (عربی،عبری،سریانی،حبشی وغیرہ)کی مشترکہ میراث ہیں بلکہ وہ ا س لسانی گروہ سے باہر دوسری زبانوں میں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال لفظ ’فردوس‘ہے،جوعربی شاعری و قاموس کا تو ذکرہی کیاخود قرآن و حدیث میں بھی بیان ہوا ہے۔عربی کے ساتھ ’فردوس‘دنیا کی اور کن زبانوں میں پایاجاتا ہے اسے درج ذیل اقتباس میں دیکھا جاسکتا ہے:
’’’فردوس‘‘جنت کے لیے معروف ترین لفظ،تمام انسانی زبانوں میں مشترکہ طور پر پایاجاتاہے۔سنسکرت میں ’’پردِشا‘‘، قدیم کلدانی زبان میں ’’پردیسا‘‘، قدیم ایرانی ژند میں’’پیری دائزا‘‘،عبرانی میں ’’پردیس‘‘،ارمنی میں ’’پردیز‘‘،سریانی میں ’’فردیسو‘‘، یونانی میں ’’بارادائسوس‘‘، لاطینی میں ’’بارادائیسس‘‘ عربی میں ’’فردوس‘‘۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایسے باغ کے طور پربولا جاتا ہے جس کے گرد حصار موجود ہو،وسیع ہو،قیام گاہ سے متصل ہو،ہرقسم کے پھل خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں اور بعض زبانوں میں تومنتخب پالتو پرندوں، جانوروں کا بھی پایاجانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔قرآن سے پہلے عرب کے کلامِ جاہلیت میں بھی فردوس مستعمل تھا۔ اس کے بعد ماں باپ کے الفاظ پر غور کیجیے، یہ بھی تمام زبانوں میں کم وبیش مشترک ہیں۔یہی حال پانی کا ہے اور لفظ آخرت یاقیامت میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔‘
اس کے علاوہ بھی لفظ ’فردوس‘ بہت سی’ہندآریائی‘ زبانوں میں تلفظ کے اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔
17۔ لفظ ’ہندو‘کے حوالے سے درج ہے:
’علامہ سید سلیمان ندوی نے انتہائی رواروی میں جو ھند کو فارسی زبان کا لفظ کہہ دیا تھا تو اغلباً ان کے سامنے حافظ شیرازی کی وہ ’’غلط بخشی‘‘ ہوگی جس میں انہوں نے محبوب کے کالے تل کے عوض ثمرقند و بخارا وار دینے کا ذکر کیا ہے (بخال ہندوش بخشم ثمر قند و بخارا را)۔ اس مصرع میں لفظ ’’ھند‘‘ کالی رنگت کے مفہوم میں مجازاً استعمال ہوا ہے کہ اہلِ فارس کو گنگاباسی بجا طور پر کالے ہی نظر آنے چاہئیں‘
علامہ سید سلیمان ندوی ؒنے ’انتہائی رواروی‘ میں ہند کو اگر فارسی زبان کا لفظ کہا ہے توکچھ ایسا غلط بھی نہیں کہا، کیوں کہ اول اول’سندھو‘کا بصورت’ہندُ‘ تبادل فارسی ہی میں ہوا تھا۔پھر گنگا باسیوں کی کالی رنگت کی رعایت ہی سے سہی ’ہندو‘کالے کے معنی میں خاص فارسی کا لفظ بن چکا ہے۔حافظ نے صرف ’غلط بخشی‘ کے موقع ہی پر ہند و کو کالے کے معنی میں نہیں برتا بلکہ ان کے اور بہت سے اشعار ’ہند و‘کے اسی معنی پر شاہد ہیں۔مزید یہ کہ اس باب میں حافظ شیرازی تنہا نہیں ہیں فرودسی،سعدی اور بیدل سمیت متعدد فارسی شعرا اُن کے ہمنوا ہیں۔،انہیں ذیل کے اشعار میں دیکھاجاسکتا ہے:
حافظ:
مفروش عطر عقل بہ ہندوی زلف ما
کان جا ھزار نافہ مشکین بہ نیم جو
رومی:
جان ھای باطن روشنان شب را بہ دل روشن کنان
ہندوی شب نعرہ زنان کان ترک در خرگاہ شد
بیدل:
خال از نسبت رخسار تو رنگین تر شد
قرب خورشید بہ شب کرد مدد ہندو را
سعدی:
با این ہمہ چشم زنگی شب
چشم سیہ تو راست ہندو
18۔آخر میں رقم طراز ہیں:
’یہ وہی ہندوستان تھا جس کے متعلق علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایا کہ ’’میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘‘ اور جس کے زوال کے بعد پاکستان اس کا حقیقی وارث بن کر ابھرا‘
’میر ِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘…اصلاًنبی اکرمؐسے منسوب اس روایت کی طرف اشارہ ہے جس میں ’ہند‘سے ٹھنڈی ہواآنے کا ذکر ہے۔ مگر اس حدیث کی اسنادی حیثیت کمزور ہے۔ایسے میں صاحب ِمقالہ کو ’علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایا‘کہ اس کمزوری کوواضح کرنا چاہیے تھا۔
واللہ اعلم بالصواب
اس امید کے ساتھ تحریرتمام کی جاتی ہے کہ تسامحات کی نشاندہی ایک طالب علمانہ کوشش ہے اس کو کوئی منفی مفہوم اخذ نہیں کیا جائے گا۔