سید جلال الدین عمری
مغربی علوم مسلمانوں میں جب آئے تو حالات بدل چکے تھے۔
مغربی علوم کی حیثیت ایک حاکم قوم کے علوم کی تھی۔ مسلمان مغرب کے سیاسی اقتدار کی وجہ سے ان سے ذہنی طور پر مرعوب تھے۔ انہوں نے اسی مرعوبیت کے ساتھ مغربی علوم سے استفادہ کیا۔ وہ مغرب کے کسی خیال اور فلسفے کے بارے میں یہ سوچنے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ غلط ہوسکتا ہے۔ اس لیے مغرب نے اسلام پر جس پہلو سے بھی اعتراض کیا وہ اسے صحیح سمجھنے لگے۔
یونانی علوم نے بعض خالص عقلی مسائل چھیڑے تھے لیکن مغرب نے پوری زندگی سے بحث کی اور اسے ایک خاص رُخ دینا چاہا۔ اس نے مسلمانوں کے عقائد ہی کو نہیں ان کی تہذیب، معاشرت، سیاست، قانون غرض ان کے پورے دین اور پوری تاریخ کو نشانہ بنایا۔ اسلام نے زندگی کے جس پہلو سے متعلق جو ہدایات بھی دیں ان کا مذاق اڑایا، اور آج کے دور کے لیے اسے ناقابلِ قبول قرار دیا۔
مغربی فکر خالص عقلی فلسفہ کا نام نہ تھا، بلکہ اس کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک دنیا وجود میں آئی، جس نے پرانی دنیا کو اور اس کے مسائل کو بڑی حد تک بدل دیا۔ ان حالات میں اسلام کی طرف رجوع کرنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کا حوصلہ بھی شاید کم ہی لوگ اپنے اندر پاتے تھے۔
مسلمانوں میں یونانی علوم کے ماہرین تو بہت پیدا ہوئے لیکن ایسے افراد شاذ و نادر ہی تھے جنہوں نے مغربی فکر و فلسفہ کا تفصیلی مطالعہ کیا ہو، اور جو اس کے مستند شارح اور ترجمان سمجھے جاتے ہوں۔ ایسے لوگ تو اور بھی کم تھے جن کی مغربی علوم پر ناقدانہ نظر ہو اور جو ان کی خوبیوں اور خامیوں کا خود مغرب کے معیار کے مطابق تجزیہ و تحلیل کرسکیں۔
یہاں ایک خلا اور بھی پیدا ہوگیا تھا۔ وہ یہ کہ دورِ اوّل میں اسلامی علوم کے ماہرین و مجددین یونانی علوم پر بھی پورا عبور رکھتے تھے۔ وہ بجا طور پر اس پوزیشن میں تھے کہ یونانی علوم کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا اسلام کی طرف سے جواب دیں۔ جس طرح دینی علوم میں ان کی دقت نظر کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا، اسی طرح یونانی علوم میں ان کی گہری بصیرت سے بھی انکار ممکن نہ تھا۔ لیکن مغربی علوم کے آنے کے بعد مسلمان اہلِ علوم دو طبقوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو مغربی علوم پڑھتا پڑھاتا تھا اور اس سے مرعوب و متاثر تھا، دوسرا وہ جو دینی علوم کی درس و تدریس میں لگا ہوا تھا۔ مختلف اسباب کی بنا پر دونوں کے مطالعے و تحقیق کے میدان ایک دوسرے سے الگ تھے۔ جو لوگ مغربی علوم پڑھ رہے تھے وہ دینی علوم سے ناواقف تھے۔ اور دینی علوم کے ترجمان مغربی افکار و مسائل سے بے خبر تھے۔ نہ تو پہلا طبقہ اسلام کی صحیح ترجمانی کرسکتا تھا اور نہ دوسرا طبقہ مغربی افکار کے جائزے اور تنقید کی پوزیشن میں تھا۔ جو لوگ صحیح معنی میں اسلام کی طرف سے جواب دے سکتے تھے وہ مغربی فکر، اس کے اٹھائے ہوئے سوالات اور سائنسی دور کی پیچیدگیوں کو پوری طرح نہیں سمجھتے تھے، اور جو مغربی فکر سے واقف تھے اسلام کے بارے میں اُن کی معلومات محدود، ناقص بلکہ غلط تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کی طرف سے اسلام پر تابڑ توڑ حملے ہوتے رہے اور اسلام کی صحیح معنوں میں ترجمانی نہیں ہوسکی۔
اس میں شک نہیں کہ بعض لوگوں نے مغرب کے اعتراضات کا جواب دینے کی بھی کوشش کی، لیکن یہ لوگ سخت مرعوبیت کا شکار تھے۔ ان کے نزدیک غلط اور صحیح کا پیمانہ مغرب تھا۔ حق وہ تھا جسے مغرب حق کہے، اور جس بات کو مغرب کی سند حاصل نہ ہو وہ باطل تھی۔ وہ ان تعلیمات کے ذکر سے بھی شرمندگی محسوس کرتے تھے جن پر مغرب کو اعتراض تھا، اور ان کی ایسی رکیک تاویلات کرنے سے بھی گریز نہ کرتے جن سے ان تعلیمات کا حسن ہی ختم ہوجائے۔ وہ اسلام کو مغرب کے تابع دیکھنا چاہتے تھے چاہے اس کے لیے انہیں اسلام کی صورت ہی مسخ کیوں نہ کرنی پڑے۔
ان حالات میں زمانے کی رفتار کے ساتھ بعض خاص تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مغربی تہذیب کے عروج کے ساتھ اس کی خامیاں اور اس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے۔ یہ نتائج بعض پہلوئوں سے اتنے گھنائونے تھے کہ خود مغرب چیخ اٹھا۔ اس کی وجہ سے مغربی تہذیب کا طلسم ٹوٹنے لگا۔ اس کے ارفع و اعلیٰ اور مکمل ہونے کا تصور باقی نہیں رہا، اور وہ مرعوبیت جو ذہنوں پر قائم تھی، کم ہونے لگی۔
مغربی فکر کے غلبے کی ایک وجہ مسلمان ملکوں پر اس کا سیاسی غلبہ بھی تھا۔ یہ غلبہ بیسویں صدی میں عملاً ختم ہوا تو مغرب کے افکار کی حیثیت حاکم قوم کے افکار کی نہیں رہی، اب اس کے بارے میں زیادہ صحیح طریقے سے سوچا جانے لگا اور مرعوبیت کی جگہ بے لاگ تجزیے نے لے لی۔
مسلمانوں میں ایسے افراد پیدا ہونے شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھنے لگی جو اسلام کے صحیح علم کے ساتھ مغرب کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جس اعتماد کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کرسکتے تھے اسی اعتماد کے ساتھ مغرب کے بارے میں بھی بول سکتے تھے۔ انہوں نے باخبر افراد کی طرح مغرب پر تنقید کی اور اسلام کو پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ پیش کیا۔
اس کے ساتھ ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ مسلمانوں میں اسلام کے احیاء کا جذبہ مختلف شکلوں میں ابھرا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام ہی ان کی مشکلات اور مسائل کا حل ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مغربی فکر کے اثرات کو دل ودماغ سے نکالا جائے اور اس کی جگہ اسلام کی برتری کا نقش بٹھایا جائے۔ چنانچہ آج یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں اسلام سے وابستگی بڑھ رہی ہے اور وہ مغرب کو محض ایک سراب سمجھ رہے ہیں۔
اس طرح اسلام کی ترجمانی اب دفاعی دور سے نکل کر اقدامی دور میں داخل ہوچکی ہے۔
(آئین 25 مارچ 1987ء، صفحہ 30)
ہوائے قرطبہ
ہوائے قرطبہ! شاید یہ ہے اثر تیرا
میری نوا میں ہے سوز و سرورِ عہدِ شباب
یہاں حضرتِ علامہ اسلامی دورِ عروج کے امین قرطبہ کی ہوائوں اور فضائوں کو مخاطب بنا کر اپنی کیفیات کا ذکر کرتے ہیں کہ گلستانِ اندلس کی ان بہاروں کی مہک سے تر ہوائوں نے میرے دل کے ساز کو یوں چھیڑ دیا ہے کہ میری روح اسلامی عروج کے اس دور کی یادوں کے سرور میں سرشار ہے۔ وہ برصغیر کی غلامی کی پستیوں میں غرق امت کو فکر و حمیت کے جھٹکے لگاکر جگاتے ہیں اور نوجوانوں کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بیدار ہوکر تاریخ میں نقوش قائم کرنے کا درس دیتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں بیسویں صدی کے آغاز پر لکھا گیا یہ کلام آج بھی روِزاوّل کی طرح مؤثر اور کارگر ہے، کیونکہ ملت پاکستانیہ کی کیفیات و مسائل آج بھی وہی ہیں۔ اللہ ہمارے جھنڈے کو سربلند اور وطن کو سلامت رکھے مگر ہماری کارکردگی، ہماری قیادتوں کے فکر و عمل کی کہانیاں، بدعنوان اور بدقماش حاکموں کا تسلط، زبان و تہذیب میں مکمل غلامی کا نقشہ بہت کچھ غلامانہ ہی نہیں، خوئے غلامی میں سرشاری کی کیفیات کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ ایسے میں کلامِ اقبال کا ورد شاید ہمیں جگا سکے، نشہ غلامی سے بچا سکے۔ یاد رکھیے ہیروئن کے نشے میں ہیرونچی سے کروڑوں گنا بدتر ہیرونچی وہ ہے جو نشہ غلامی میں مبتلا ہو۔
’’علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات‘‘
پروفیسررشید احمد انگوی