قرآنِ مجید کی جن آیات میں ’’پردہ‘‘ کے احکام بیان ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
(ترجمہ) ’’اے نبیؐ! مومن مَردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اُس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے۔ اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں۔ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، خُسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں، اپنے غلام، وہ مَرد خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے، وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردے کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ (نیز اُن کو حکم دو کہ) وہ چلتے وقت اپنے پائوں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے (آواز کے ذریعے) اس کا اظہار ہو۔‘‘ (النور24: 31-30)
(ترجمہ) ’’اے نبیؐ کی بیویو! تم کچھ عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں۔ اگر تمہیں پرہیزگاری منظور ہے تو دَبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں کوئی خرابی ہے وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کربیٹھے۔ بات سیدھی سادی طرح کرو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو، اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بنائو سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ (الاحزاب33: 33-32)
(ترجمہ) ’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اُوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور اِن کو ستایا نہ جائے گا۔‘‘ (الاحزاب59:33)
اِن آیات پر غور کیجیے۔ مَردوں کو تو صرف اتنی تاکید کی گئی ہے کہ اپنی نگاہیں پست رکھیں اور فواحش سے اپنے اخلاق کی حفاظت کریں۔ مگر عورتوں کو مَردوں کی طرح اِن دونوں چیزوں کا حکم بھی دیا گیا ہے اور پھر معاشرت اور برتائو کے بارے میں چند مزید ہدایتیں بھی دی گئی ہیں۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے اخلاق کی حفاظت کے لیے صرف غض بصر اور حفظِ فروج کی کوشش ہی کافی نہیں ہے، بلکہ کچھ اور ضوابط کی بھی ضرورت ہے۔ اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ان مجمل ہدایات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے اسلامی معاشرت میں کس طرح نافذ کیا ہے اور ان کے اقوال اور اعمال سے ان ہدایات کی معنوی اور عملی تفصیلات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔
اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز:
(ترجمہ) ’’نبیؐ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دَبی زبان سے بات نہ کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔ (الاحزاب 32)
یہاں آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے، مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہراتؓ کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرزِِ زندگی کی ابتدا ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان احکام کا اطلاق: بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ سے ہے، یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجیے کہ کون سی بات ایسی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہوسکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہراتؓ ہی گندگی سے پاک ہوں اور وہی اللہ و رسول کی اطاعت کریں اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں؟ اگر یہ منشا نہیں ہوسکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھنے اور تبّرجِ جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مَردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہوسکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہوسکتی ہیں؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے؟
رہا یہ فقرہ کہ ’’تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہیے اور غیر مردوں سے خوب لگاوَٹ کی باتیں کرنی چاہئیں، البتہ تم ایسا طرزِعمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہے جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ ’’تم بازاری بچوں کی طرح نہیں ہو، تمہیں گالی نہیں بکنی چاہیے‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بکنے کو بُرا سمجھتا ہے، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن، چہارم، ص89-88، الاحزاب حاشیہ 46)
(ترجمہ) ’’نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔‘‘ (الاحزاب 53:33)
یہی آیت ہے جس کو آیتِ حجاب کہا جاتا ہے۔ بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرچکے تھے کہ یا رسول اللہ! آپؐ کے ہاں بھلے اور بُرے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کاش آپ اپنی ازواجِ مطہراتؓ کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے ازواجِ رسولؐ سے کہا کہ ’’اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں‘‘۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قانون سازی میں خودمختار نہ تھے، اس لیے آپؐ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے۔ آخرکار یہ حکم آگیا کہ محرم مردوں کے سوا (جیسا کہ آگے آیت 55 میں آرہا ہے) کوئی مرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نہ آئے، اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے۔ اس حکم کے بعد ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔
(تفہیم القرآن، چہارم، ص121، الاحزاب حاشیہ 98)