قیام پاکستان کے دو ماہ بعد ہی پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات قائم ہوگئے تھے اور اس وقت سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کئی بار خراب اور ٹھیک ہوتے رہے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہو یا پھرا یبٹ آباد آپریشن میں کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ ہو، اسی طرح یہ بھی تاریخ ہے کہ 1972ء میں رچرڈ نکسن کے چین کے دور ے کے موقع پر پاکستان نے اہم کردار ادا کیا،1979 ء میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر امریکا نے تحفظات کا اظہار کیا،1990 ء میں امریکی صدر نے کانگریس میں کہا کہ پاکستان کے پاس نیو کلیئر ہتھیار نہیں ہیں اور ان کا یہ بیان مثبت رہا لیکن جب پاکستان نے 28 مئی 1998 ء کو نیوکلیئر تجربات کیے تو امریکا ایک بار پھر ناراض ہوگیا، 2011 ء میں سی آئی اے کنٹریکٹرریمنڈ ڈیوس کی لاہور میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ،2 مئی 2011 ء کو اسامہ کے خلافف ایبٹ آباد آپریشن کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی ہوگئی،اسی طرح سال 2011 ء میں ہی 26 نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔یہ بھی تاریخ اور آج تک دونوں ملکوں کے درمیان اہم تنازعہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے 2016 ء کے عالمی بجٹ میں سے تقریباً900 ملین ڈالرز پاکستان کے لیے دینے کا کہا جس میں سے 500 ملین ڈالرز انسداد دہشت گردی کے لیے تھے۔ اس کے بعد مئی 2016 ء میں امریکی کانگریس نے ایف -16ڈیل کے لیے ایک ہفتہ قبل امداد روک کر پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کیلئے دباو ڈالا اور اب امریکی وزیر خارجہ کی آمد سے قبل ڈومور کا مطالبہ رہا ہے اور اب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک روزہ دورے پر پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سمیت اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کرنے کے بعد بھارت روانہ ہو ، بہرحال کوئی مشترکہ پریس کانفرنس تو نہیں ہوئی لیکن دونوں ملکوں کے اعلامیے میں واضح فرق ہے۔ ان کی روانگی کے بعدپاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو ملاقات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ’ٹف ٹاکنگ‘ ہوئی،انھوں نے کہا کہ ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے دوران پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔ میں نے پاکستان کا حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے اور وہ جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے لیے جائیں گے تو اسی دوران ان سے بھی ملاقات کریں گے۔افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بات عمران خان برسوں سے کہہ رہے کہ اس تنازعے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ ہمیں مذاکرات سے یہ تنازع حل کرنا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے بھی کہا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کام کرے گا اور دیگر ادارے بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اس سے یہ عندیہ ملا کہ طالبان کے ساتھ براہِ راست بات کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے۔‘پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا قیامِ امن کے لیے تعلقات میں سچائی ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے انھیں واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر اس تعلق میں آگے بڑھنا ہے تو اس کی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے۔جبکہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سیکریٹری مائیک پومپیو کی وزیراعظم عمران خان سمیت اعلیٰ حکام سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے جاری بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے پاکستان کو خطے کے امن واستحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مائیک پومپیو نے چیئرمین جوائنٹ چیفس اسٹاف جنرل جوزف ڈونفرڈ کے ہمرا ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کو حکومت بنانے پر مبارک باد دی ۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات کے دوران پومپیو نے مضبوط جمہوری اداروں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ملک میں نئے سویلین حکومت کی تبدیلی کا خیر مقدم کیا۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ‘پومپیو نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان اورخطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف مستقل اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومیو سے پاکستانی حکام کی کی پہلی ملاقات دفتر خارجہ میں ہوئی اور پھر وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ میں ملاقات ہوئی۔ دوسری ملاقات میں وزیرِ اعظم، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور امریکی جنرل سمیت سب نے ایک ساتھ بیٹھ کر تبادلہِ خیال کیا۔‘شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم ملے سنا سمجھا اور مستقبل کے فیصلے کے لیے واشنگٹن میں ملاقات کا فیصلہ کیا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا چونکہ پاکستان کو ہمیشہ امداد طلب نہیں کرنی اس لیے اس حوالے سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’300 ملین ڈالر کی امداد روکنے کی خبر نئی نہیں تھی۔ہم اپنی گندم اگا سکتے ہیں، ہم اپنے لوگوں کو اپنے وسائل سے عزت سے روٹی کھلا سکتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد پومیپیو نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’پاکستان میں میں نے جنرل جو ڈنفورڈ سمیت دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستانی وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور سفارتی اور فوجی تعلقات پر تبادلہِ خیال کیا۔اس سے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان روانگی کے موقع پر امید ظاہر کی تھی کہ ان کے اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ ’سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے طور پر ہم نے پاکستانیوں کے ساتھ قریب سے کام کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یقیناً بہت سے چیلنجز ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ نئی قیادت کے ساتھ ہم مشترکہ مسائل پر مل بیٹھ کر کام کرنے کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کر لیں گے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ امریکی وزیر خارجہ اور پاکستانی قیادت کتنی مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات پر اس دورے کے کتنے مثبت اثرات پڑیں گے۔